یہ میرے لیے ایک مشکل مرحلہ تھا۔سمندر کی لہروں اور ڈولتی کشتیوں کو دیکھ کر مجھے خوف محسوس ہوتا۔دادی اماں اکثر مجھے سمجھاتیں کہ مجھے پانی سے ڈرنا نہیں چاہیےکیونکہ اس میں خدا نے ہمارے لیے فائدے رکھے ہیں۔ہم پانیوں کے بیٹے ہیں اور اس کی لہروں سے کھیلنا ہمارے بچوں کا پسندیدہ کھیل ہے۔مگر پتہ نہیں کیوں ، مجھے سمندر میں ڈوب جانے سے ڈر لگتا تھا۔
میرے ابا جان ایک ملاح ہیں اور باشعور انسان ہیں۔ انہوں نے مجھے کبھی مجبور نہیں کیا کہ میں ان کے ساتھ اس کام میں شریک ہو جائوں۔ وہ سفر سے واپسی پر مجھ سے دن بھر کی مصروفیات پوچھتے۔ تعلیم سے کبھی غافل نہ ہونے کی تاکید کرتے اور روزانہ اپنے سفر سے متعلق ایک نئی اور حسین داستان سناتے۔ ان کی انہی خوبصورت باتوں کے درمیان سفر کٹ جاتاتھا۔
گھر پہنچ کر اباجان کچھ دیر کے لیے آرام کرتے اور میں اس دوران ان کی لائی ہوئی تازہ مچھلی، دادی کے ہاتھ کے بُنے ہوئے خوبصورت سویٹر، اماں کا بنایا ہوا قہوہ،اور نایاب سیپیوں سے اپنی چھوٹی بہن گُل کے تیار کردہ عمدہ زیورات ، بازار میں جا کر فروخت کر آتا۔ پھر رات گئے اپنی پڑھائی میں مصروف رہتا ، بس یہی میرا معمول تھا۔دادی اماں اکثر مجھے کہتیں، ’’قرآن پاک ترجمے سے پڑ ھو گے تو تمھیںپانی سے ذرا ڈر نہیںلگے گا۔وہ بکری کا تازہ دودھ لا کر مجھے پلاتیں۔’’ جی دادی جان پڑھ رہا ہوں۔‘‘میں انہیں آگاہ کرتا۔’’اچھا جس دن بات سمجھ آگئی اس دن مجھے بتانا۔‘‘ جی دادی جان۔ میں سر ہلاتا کہ یونہی شب و روز کٹ رہے تھے۔
جیسے ہی شام پڑتی، میں ابا جان کی واپسی کے انتظار میں ساحلِ سمندر کی جانب نکل پڑتا۔ساحل سے سمندر کی اُگلی ہوئی خوبصورت اور نایاب سیپیاں چُنتا۔مجھے خوب معلوم تھاکہ کس سیپ میں نایاب موتی ہو سکتا ہے اور کون سی سیپ خالی ہو گی...اسی وقت دور، بہت دور، سمندر کے وسط میں کچھ کشتیاں نمو دار ہوتیں۔یہ ابا جان اور ان کے ساتھیوں کی واپسی کا وقت ہوتا۔ جونہی یہ کشتیاں نزدیک آتیں ، میں ایک بھاری رسہ ان کی جانب پھینکتا ۔کشتی سے ابا اور ان کے ساتھی کمال مہارت سے اسے تھامتے اور یوں ہم ان کشتیوں کو کنارے لگا دیتےتھے۔ یہ چھوٹی بڑی رنگ برنگی کشتیاں دیکھنے میں بے حد حسین تھیں اور ان ہی سے ہمارا روزگار وابستہ تھا۔ابا جان گہرے پانیوں سے نکل کرآتے تو ہم خدا کا شکر بجا لاتے۔ابا اور ان کے دیگر ساتھی کشتیوں سے اتر کر دعائیہ انداز میں ہاتھ اٹھاتے اور باآ واز بلند کہتے،’’ہمارے پانی آباد رہیں ....ہمارے پانیوں کی خیر ہو !‘‘اور میںبتا نہیں سکتا کہ یہ لمحہ میرے لیے کس قدر خوبصورت ہوتا۔
’’تمھیں پتا ہے اسلامی تاریخ میں کشتی کی کتنی اہمیت ہے۔ یہ حضرت نوح ؑ نے اپنے ہاتھوں سے تیار کی تھی، اس سے اندازہ کرو کشتی کس قدر بابرکت سواری ہے کہ ایک پیغمبر کے مبارک ہاتھوں سے اس کا آغاز ہوا۔ اور تمھیں'His First Flight' تو یاد ہے نا، جب ایک ننھے بگلے نے فضا کے راز کو پالیا تھا۔مجھے یقین ہے تم بھی ایک دن سمندر کے راز کو پا لو گے۔ خشکی اور تری دونوں میں خدا نے انسان کے لیے فائدے رکھے ہیں۔خدا تمھیں زمین تو کیا سمندر کا بھی رزق کھلاتا ہے۔یہ صرف تم اور تم جیسے چند گھرانوں کے بچے ہیں جو سمندر سے نکلی ہوئی مچھلی کو پکا کر کھانے کا ہنر جانتے ہیں۔اسی طرح ساحل پر ہزاروں میں سے صرف تم جانتے ہو کہ کون سی سیپ میں قیمتی موتی ہے ، کون سی سیپ میں مونگا اور کون سی سیپ خالی ہے۔ بھلا ہم خدا کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائیں گے ؟ کبھی سفر کر کے دیکھنا تمھیں مزہ آئے گا حسین! ‘‘ابا جان نے میرا کندھا تھپتھپایا اور یوں باتوں باتوں میں راستہ کٹ گیا۔
ہمارا گھرانہ مناسب پڑھے لکھے اور باشعور افراد پر مشتمل ہے۔ میں اور میری بہن گُل زیرِ تعلیم ہیں۔امی اور دادی جان باشعور خواتین ہیں اور ابا جان بھی فہم و فراست رکھتے ہیں۔ہمیں اس بات پر دکھ ہوتا ہے کہ لوگ ابھی تک پانی کی قدر اور اہمیت کو نہیں جان پائے ، کبھی ساحلِ سمندر پر میں کچرا دیکھتا ہوںتو اپنے ہاتھوں سے چُن لیتا ہوں۔ نہ جانے کب ہم اپنے پانیوں کو صاف اور اس کی حفاظت کے لیے اپنے طور پر اقدامات کریں گے۔بحروبر دونوں ہی توجہ مانگتے ہیں۔
میں قرآن ترجمے سے پڑھ رہا تھا ۔ اللہ نے میرا دھیان اپنی پیاری باتوں کی طرف موڑ دیا،’’ اور بیشک تمہارے لیے چوپایوں میں غور طلب پہلو ہیں۔ جو کچھ ان کے شکم میں ہوتا ہے، ہم تمہیں اس میں سے پلاتے ہیں اور تمہارے لیے ان میں (اور بھی) بہت سے فوائد ہیں۔ تم ان میں سے (بعض کو) کھاتے (بھی) ہواور ان پر اور کشتیوں پر تم سوار (بھی) کیے جاتے ہو۔‘‘ (سورۃ المومنون: 21۔22)
میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔جب میں بکری کا دودھ منہ بنا کر پیتا ، اور دادی جان سے مذاق کرتا کہ اب اس کا شوربہ بنا دیں تو وہ کہتیں،’’ شوربہ بھی بنا دوں گی ۔ مگر یہ فائدے کی چیز ہے۔‘‘میں مسکرا کر کہتا،’’جی دادی جان !آپ اپنی بکری ذبح نہیں کرناچاہتیں اس لیے ٹال رہی ہیں ۔‘‘
’’ نہ میرے بچے، ایسی بات نہیں، فائدے کی چیز وں سےہی فائدہ اٹھایا جاتا ہے ‘‘،دادی جان مجھے سمجھاتیں۔
آج میں اٹھارویںسیپارے کا ترجمہ پڑھ رہا تھا اور مجھے میرے سوالوں کا جواب مل رہا تھا۔پتا نہیں میں فائدے کی چیزوں کا فائدہ پہلے کیوں محسوس نہیں کر پایا۔ میں سمندروں کا بیٹاکیسے اس سفر کےذائقے سے محروم رہا... اور پھر اگلے دن جو سورج طلوع ہوا ،وہ میرے پہلے سفر کی بنیاد بن گیا۔ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے ڈولتے پانیوں میں کشتی چلا رہا تھا، یہاں تک کہ کنارے سے دور ہو گیا۔میں سمندر کی ہوائوں کو محسوس کر رہا تھا۔ سمندر کے درمیان سبک گام ہوا اور سورج کی پُر کشش کرنوں نے میرا ایسا استقبال کیا کہ ایسا موسم تو کبھی خشکی پر بھی نصیب نہیں ہوا۔ آج میں کشتی پر لدا پھر رہا تھا۔ میں نے اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنے کے لیے سمندر میں جال پھینک دیا۔مجھے کبھی اس طرح کی حلال روزی میسر آئے گی، یہ میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ آج مجھے ڈوب جانے کا ڈر نہیں تھا،یہ میری زندگی کا سب سے سنہرا برس تھا،جب سمندر کی وسعتوں نے اپنے بازو میرے لیے کھول دیے تھے۔ابا جان بہت خوش تھے۔ واپسی پر ساحل کی گیلی ریت پر پڑی خوبصورت چمکدار سیپیاں میری منتظر تھیں!
سمندر کی ان حسین وسعتوں میں میرے دل سے با آوازِ بلند دعائیں نکل رہی تھیں۔
ہمارے پانی آباد رہیں!
ہمارے پانیوں کی خیر ہو!
تبصرے