روزہ افطار کرکے نعمان اور نیہا نے نماز پڑھی ۔جب وہ عید کا چانددیکھنے چھت پر جانے لگے تو ان کا پالتو بِلا سمبا اور طوطا کیکو بھی اُن کے ہمراہ ہولیے۔
”ارے! تم دونوں ہمارے پیچھے کیوں آ رہے ہو؟“ نعمان بولا۔
”عید کا چاند...عید کا چاند...‘‘ طوطابولا۔
بِلا بھی میاؤں میاؤں کرنے لگا جیسے کہہ رہا ہو اس نے بھی چاند دیکھنا ہے۔
”ان کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤ، میں کچن سمیٹ رہی ہوں۔“ امی نے کہا۔
” ٹیں ٹیں لے جاؤ ... لے جاؤ۔“طوطا نیہا کے کندھے پر بیٹھ گیا اور بِلا اُن کے پیچھے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
چھت پر پہنچے تودیکھا کہ آ سمان پر بادل چھائے ہوئے ہیں۔نعمان اور نیہا نے اپنی اپنی دوربین آنکھوں سے لگائی اور آسمان کی لامتناہی وسعتوں میں عید کا چاند تلاش کرنے لگے۔ طوطےاوربِلے نے بھی آسمان پر نظریں گاڑ دیں۔”چاند نظر نہیں آئے گا “بینو چڑیا نے کہا۔ نعمان کے گھر میں ایک درخت پر اس کا گھونسلا تھا۔
”کیوں نظر نہیں آئے گا بھئی؟ تیس روزے پورے ہو گئے ہیں۔ آج چاند نے نکلنا ہی ہے۔نعمان اور نیہا کےپاس دور بین بھی تو ہے۔ میری نظر بھی بہت تیز ہے۔‘‘ طوطےنے شیخی بھگاری۔
”یہ ٹھیک کہہ رہا ہے اور نظرتو میری بھی بہت تیز ہے۔ میں اندھیرے میں بھی دیکھ سکتا ہوں۔‘‘بِلا جتلانے لگا۔
” واقعی تمہاری نظر بہت تیز ہے لیکن تم عقل کے اندھے ہو۔ دیکھو! مغرب کی جانب سیاہ بادل ہیں۔“چڑیا بولی۔
” بہت بادل ہیں، لگتا ہے کہ آ ج بارش بھی ہوگی۔“ پومی گلہری نے اسی درخت کی کھو سے جھانک کر کہا۔
طوطےا ور بِلے نے غور سے آسمان کو دیکھا تو انہیں احساس ہوا کہ یہ رات کی سیاہی نہیں بلکہ سرمئی بادلوں کااندھیرا ہے۔ نعمان اور نیہا کو بھی مایوسی ہوئی اور وہ منہ لٹکائے نیچے اتر آ ئے۔
” چاند نظر آیا ؟“ امی نے پوچھا۔
” نہیں امی! بادل چھائے ہوئے ہیں۔“
”چلو کوئی بات نہیں ، کل کی عید پکی ہے۔“ امی نےلا پروائی سے کہا اور شیر خرمہ بنانے کے لیے دودھ میں بھگوئے ہوئے چھو ارےکاٹنے لگیں۔
” کل عید ہوگی۔“طوطا چلایا۔بِلابھی میاؤں میاؤں کرنے لگا۔
” تم دونوں کے کپڑے استری کر دیے ہیں، انہیں اپنے کمروں میں لے جاؤ اور اپنے جوتے بھی صاف کر لو۔“ امی نے ہدایت دی۔
” امی مجھے مہندی تو لگا دیں۔“نیہا نے فرمائش کی۔
” میں کچن کا کام ختم کر لوں، تم بھی صبح کی تیاری کرو ۔نماز پڑھ لو ۔اس کے بعد میں تمہیں مہندی لگا دوں گی۔“ امی نے جواب دیا۔
رات کا آ خری پہر تھا کہ بارش شروع ہو گئی۔ تیز ہوا نے چڑیاکے گھونسلے کے تنکے ایک طرف سے گرا دیے۔وہاں سے ٹھنڈی ہوا آنے لگی۔اُس نے گھونسلے کے ایک کونے میں پناہ لی۔ پھر بھی وہ سردی اور تیز ہوا سے نہ بچ سکی اور صبح اس کی طبیعت خراب ہو گئی۔ وہ دانہ چگنے بھی نہ جا سکی کیونکہ اب بھی ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔گلہری کی آنکھ کھلی تو وہ باہر نکلی۔ہر طرف بارش نے جل تھل کر رکھا تھا۔اسے چڑیا کی چہچہاہٹ سنائی نہ دی تو اس نے چڑیا کو آواز دی۔
” میں گھر پر ہی ہوں ۔میری طبیعت خراب ہے۔“چڑیا کراہی۔
گلہری اس کے پاس جانا چاہتی تھی لیکن بارش پھر شروع ہو گئی اور بوندوں نے اسے بھگو دیا۔ وہ دوبارہ دبک گئی، ” بارش رکتی ہے تو میں تمہارے پاس آتی ہوں۔“
نیہا اور نعمان اٹھ کر نہا دھو کر تیار ہوگئے تھے۔ا می نے شیر خرمہ بنایا تھا۔انہوں نے کھجوریں کھائیں تھوڑا سا شیر خرمہ چکھا۔پھر نعمان اور اس کے ابو عید کی نماز کے لیے چلے گئے۔ واپس آ ئے تو ابو نے نعمان اور نیہا کو عیدی دی۔
نعمان اور نیہا نے طوطے اور بِلےکے گھروں میں جھانکا تو دونوں جاگ رہے تھے لیکن ابھی باہر نہیں نکلے تھے۔ نعمان اور نیہا سمجھ گئے کہ انہیں سردی لگ رہی ہے۔انہوں نےدونوں کو باہر نکالا۔ انہیں گرم کپڑے پہنائے۔ طوطے کے گلے میں فر والا سکار ف ڈالا۔امی نےاس کے لیے چوری بنائی۔ اس میں کچھ بادام بھی ڈالے۔بِلےکو اس کا خصوصی کھانا دیا۔
دونوں نے کچھ کھا یا اور کچھ چھوڑ دیا۔ان کا پیٹ بھر گیا تھا۔ پھر دونوں نعمان اور نیہا کے ساتھ باہر برآ مدے میں آ گئے۔ اب انہیں سردی نہیں لگ رہی تھی کیونکہ انہوں نے گرم کپڑے پہن لیے تھے۔ وہ دونوں بہت خوش تھے۔بِلا ایک کرسی پر اورطوطا کرسی کی بازو پر بیٹھا تھا۔ بارش بھی رک گئی تھی۔انہوں نےچڑیااورگلہری کی تلاش میں درخت کی طرف دیکھا تو انہیں کوئی نظر نہ آیا۔
” سب کو عید مبارک! “طوطا بولا۔
” عید مبارک!“گلہری نے کھو سے سر نکال کر ہلکی آواز میں کہا۔
سمبا پالتو بِلا تھا ،اس لیے وہ بلیوں کی مخصوص خوراک کھاتاتھا مگر وہ ہمیشہ گلہری اورچڑیا کو ڈراتا تھا کہ وہ انہیں کھا جائے گا۔ لیکن آج انہیں نہ دیکھ کر وہ پریشان تھا۔
”ٹیں ٹیں ... تم کہاں ہو؟۔“طوطے نے آواز دی۔
” چیں چیں....کیا ہے ؟“چڑیا نے اپنے گھونسلے سے جواب دیا۔
”آ ج تم باہر نہیں آئیں؟“
”میری طبیعت خراب ہے اور پھر باہر آ کر بھی کیا کرتی۔اتنی بارش ہوئی ہے کھانے کو کچھ نہیں ملنا تھا۔“چڑیانےجواب دیا۔
طوطے اور بِلے کو افسوس ہوا۔ انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اس کے لیے کیا کریں۔
اتنے میں نعمان کا دوست عارف اُس سے عید ملنے آ گیا۔وہ نعمان کا ہم عمر تھا اور ابھی محلے میں نیا نیا آیا تھا۔
امی نے مٹھائی اور سویوّں سے اس کی تواضع کی، پھر اسے عیدی دی۔جب وہ جانے لگا تو اسے لان میں پھول نظر آئے۔ اس نے سوچا کہ چند پھول توڑ لے۔جب وہ لان میں گیا تو اس کا پاؤں پھسل گیا۔وہ گر گیا۔اس کے سارے کپڑے خراب ہو گئے۔ نعمان نے آکر اسے اٹھایا۔
”او ہو! تمہارے تو سارے کپڑے خراب ہو گئے ۔“نعمان پریشان ہوا۔
”ہاں یار! میرا نیا سوٹ تھا۔“ عارف افسردہ تھا۔
” چلو کوئی بات نہیں، یہ دھل جائے گا۔“ نیہا نے اسے تسلی دی۔
”امی ڈانٹیں گی۔وہ کہیں گی کہ تم لان میں کیوں گئے۔“
” ہاں ویسے اس بات پر تو ڈانٹ بنتی ہے کیونکہ پھول توڑنا بری بات ہے لیکن خیر اب تم ہاتھ منہ دھو لو۔ “نیہا نے کہا۔
”بلکہ نہا لو اور میرا یہ سوٹ پہن لو۔“ نعمان اپنے عید کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا اٹھا لایا۔
” میں یہ کیسے لے سکتا ہوں ،یہ تمہارا عید کا سوٹ ہے۔“ عارف ہچکچایا۔
”کوئی بات نہیں دوست! ہم بھائی بھائی ہیں اورقد کاٹھ میں بھی ایک جیسے ہیں۔ تم پر یہ سوٹ بہت جچے گا۔ عید کا گفٹ سمجھ کر پہن لو۔“ نعمان نے اصرارکیا۔
”تمہارا بہت بہت شکریہ!“عارف کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔اس نے وہ سوٹ پہنا اور اللہ حافظ کہہ کر چلا گیا۔
”نعمان !تم نے اپنا نیا سوٹ عارف کو دے دیا۔ “نیہا نے حیران ہو کر پوچھا۔
”ہاں،... دراصل میرے پاس اس دفعہ دو سوٹ تھے،ان میں سے ایک عارف کو دے دیا تو کیا ہوا۔عید کا پیغام ہے کہ سب کا خیال رکھا جائے۔اپنی ضرورت سے زائد چیز بانٹ دی جائے۔سب کو عید کی خوشیوںمیںشامل کیا جائے۔تم نے دیکھا کہ وہ کتنا خوش تھا اور اس کو دیکھ کر میں بھی خوش ہوں۔ “ نعمان خوشی سے کہنے لگا۔
طوطا اور بِلا خاموشی سے یہ سب دیکھ رہے تھے۔پھربِلااندر گیا اورطوطاکے کھانے کی کٹوری لے کر برآمدے میں آگیا۔
”چڑیا اور گلہری ،آؤ کھانا کھا لو۔“طوطے نے آواز دی۔
گلہری نے درخت کی کھو سے جھانکا لیکن باہر نہیں آئی۔چڑیانے گھونسلے سے جھانکا اور پھر بولی ،”ہمیںبِلاکھا جائے گا !“
” نہیں وہ تمہیں نہیں کھائے گا وہ اپنا مخصوص کھانا کھاتا ہے ۔وہ صرف تمہیں ڈراتا تھا۔“طوطے نے سمجھایا لیکن وہ باہر نہ آئیں۔
بِلابہت شرمندہ ہوا اور خاموشی سے چلا گیا۔نعمان اور نیہا بھی پیچھے ہٹ گئے کہ کہیں پومی اور بینو ان سے ڈر نہ جائیں۔
” نیہا ، مجھے بادام اور اخروٹ دو “ طوطا چلایا ۔وہ گلہری کو بھی کھانا کھلانا چاہتا تھا۔
نیہا گلہری کے لیے پھل،بادام اور اخروٹ لے آئی۔تھوڑی دیر بعدوہ دونوں مزے سے بیٹھی وہ سب کھا رہی تھیں۔ نعمان اور نیہا تو خوش تھے ہی، طوطا اور بِلا بھی مسکرا رہے تھے۔ آج انہوں نے نعمان سے سیکھ لیا تھا کہ دوسروں کی مدد کیسے کی جاتی ہے۔خوشیاں بانٹ دی جائیں تو خوشیاں بڑھ جاتی ہیں۔
یہ عید ان سب کےلیے خوشیاں لے کر آئی تھی۔ کھانا کھا کر گلہری اور چڑیانے ان کا شکریہ ادا کیا۔طوطےنے جھاڑو کے چند تنکے لے کرچڑیا کا گھونسلا جوڑ دیا۔بِلے نے اپنا رومال اسے دیا کہ گھونسلے میں بچھا لے تا کہ وہ گرم رہے۔اس عید نے نعمان، عارف، نیہا ،بِلے،طوطے،چڑیا اورگلہری کو دوستی کے اٹوٹ رشتے میں باندھ دیا تھا۔
آپ سب کو بھی عید مبارک!خوش رہیے اور خوشیاں بانٹیے!
تبصرے