اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 01:37
اداریہ۔ جنوری 2024ء نئے سال کا پیغام! اُمیدِ صُبح    ہر فرد ہے  ملت کے مقدر کا ستارا ہے اپنا یہ عزم ! روشن ستارے علم کی جیت بچّےکی دعا ’بریل ‘کی روشنی اہل عِلم کی فضیلت پانی... زندگی ہے اچھی صحت کے ضامن صاف ستھرے دانت قہقہے اداریہ ۔ فروری 2024ء ہم آزادی کے متوالے میراکشمیر پُرعزم ہیں ہم ! سوچ کے گلاب کشمیری بچے کی پکار امتحانات کی فکر پیپر کیسے حل کریں ہم ہیں بھائی بھائی سیر بھی ، سبق بھی بوند بوند  زندگی کِکی ڈوبتے کو ’’گھڑی ‘‘ کا سہارا کراچی ایکسپو سنٹر  قہقہے اداریہ : مارچ 2024 یہ وطن امانت ہے  اور تم امیں لوگو!  وطن کے رنگ    جادوئی تاریخ مینارِپاکستان آپ کا تحفظ ہماری ذمہ داری پانی ایک نعمت  ماہِ رمضان انعامِ رمضان سفید شیراورہاتھی دانت ایک درویش اور لومڑی پُراسرار  لائبریری  مطالعہ کی عادت  کیسے پروان چڑھائیں کھیلنا بھی ہے ضروری! جوانوں کو مری آہِ سحر دے السلام علیکم نیا سال، نیا عزم نیا سال مبارک اُمیدِ بہار اے جذبہء دل معراج النبیﷺ   علم کی شمع روشنی قومی ترانے کے خالق ابوالاثرحفیظ جالندھری نئی زندگی سالِ نو،نئی اُمید ، نئے خواب ! کیا تمہیں یقین ہے صاف توانائی ، صاف ماحول پانی زندگی ہے! تندرستی ہزار نعمت ہے! قہقہے اداریہ  ہم ایک ہیں  میرے وطن داستان ِجرأت پائلٹ آفیسرراشد منہاس شہید کامیابی کی کہانی  امتحانات کی تیاری ہم ہیں بھائی بھائی ! حکایتِ رومی : جاہل کی صحبت  حسین وادی کے غیر ذمہ دار سیاح مثبت تبدیلی  چچا جان کا ریڈیو خبرداررہیے! ستارے پانی بچائیں زندگی بچائیں! قہقہے بسم اللہ الرحمن االرحیم پہلی بات  السلام علیکم ورحمتہ اللہ ! زندہ قوم  قرار دادِ پاکستان پاکستان سے رشتہ کیا رمضان المبارک   عید مبارک! عید آئی  پیاری امّی! بوجھو تو جانیں! موسم کے رنگ مقصد ِحیات زیرو ویسٹ چیلنج فضائیں وطن کی ہمارے پانی آباد رہیں! 22 مارچ پانی کے عالمی دن پر خصوصی تحریر انگور پاکستان کا قومی جانور مارخور 3 مارچ ... ورلڈ وائلڈ لائف ڈے پرخصوصی تحریر قہقہے اداریہ  موسموں کے رنگ زمین کا زیورزمین کا زیور نئی کتابیں، نیا جذبہ بہار ریحان کا اسکول بیگ اپنا کام خود کیجیے! ننھے بھیڑیے کی عقل مندی جرأت کے نشان میری پہچان پاکستان آؤ کھیلیں! چاند پہ کمند پاکیزگی و طہارت کا پیکر اُم المومنین حضرت خدیجہ الکبری ؓ پاکیزگی و طہارت کا پیکر اُم المومنین حضرت خدیجہ الکبری ؓ یتیم بچے اور ہمارا معاشرہ ماریانہ ٹر ینچ کی سیر ڈھینچو گدھا اور کالابیل قدرتی ماحول کا تحفظ  قہقہے
Advertisements

ہلال کڈز اردو

پاکستان سے رشتہ کیا

مارچ 2025

یہ چند سال قبل کی بات ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کا فائنل میچ جاری تھا۔ڈھاکا کے تاریخی ا سٹیڈیم میں تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔شور اتنا تھاکہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔تماشائیوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔اُن دنوں چونکہ بنگلہ دیش حکومت کے تعلقات بھارت کے ساتھ زیادہ اچھے تھے ،اس لیے بھارتی ٹیم کو سرکاری طور پر پروٹوکول دیا گیا تھا۔
اسٹیڈیم میں موجودنجم الدین کا خاندان بھی اس میچ کو دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔عام بنگالی شائقین کی طرح اس خاندان کے افراد بھی دو حصوں میں تقسیم تھے۔ چالیس سالہ نجم الدین اور اس کی بیوی ارمینہ بھارتی ٹیم کو سپورٹ کر رہے تھے ،جبکہ نجم الدین کا بوڑھا باپ اشرف الدین اور گیارہ سالہ بیٹا زیدان پاکستانی کرکٹ ٹیم کی حمایت کررہے تھے۔
میچ شروع ہوتے ہی پاکستانی بلے بازوں نے بھارتی بائولرزکوآڑے ہاتھوں لیا۔اظہر اور فخر نے شاندار بلے بازی کرکے مخالف ٹیم کے چھکے چھڑا دیے۔ اس دوران اظہر علی نے ایک زبردست شاٹ لگائی ۔ گیند ہوا میں اچھلتی ہوئی بائونڈری لائن کے قریب بھارتی کھلاڑی کے ہاتھ سے پھسل گئی۔ اسٹیڈیم میں ایک شور بلند ہوا۔
کیچ ڈراپ ہونے پر بوڑھے اشرف الدین اور اس کے پوتے زیدان کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ اچھل اچھل کر سبز ہلالی پرچم اُٹھائے پاکستان کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔اچانک نجم الدین کا میٹر گھوم گیا،اس نے اپنے بوڑھے باپ کو غصے بھری ایک نظر سے دیکھااور پھر جھٹ سے ان کے ہاتھ سے سبز ہلالی پرچم چھین لیا۔ باپ کے لیے یہ ردعمل غیر متوقع تھا۔اس سے پہلے کہ وہ اپنے بیٹے سے اس حرکت کےبارے میںپوچھتا، نجم الدین خود ہی چلانا شروع ہوگیا۔
’’ابا جان ! یہ کیا کررہے ہیں آپ؟ابھی تک پاکستان کی محبت کو دل میں بسائے بیٹھے ہیں ؟حیرت ہے۔ کئی بار سمجھانے پربھی اگر آپ نہیں سمجھتے،تو پھراپنی خوشی کو اپنے تک محدود رکھیے، یہ سب میرے بیٹے زیدان کو مت سکھائیے ۔ آپ کی مہربانی ہوگی۔‘‘ نجم نے غصے سے سرجھٹکتے ہوئے کہا۔ 



ایک دم خاموشی چھاگئی اور آس پاس کا ماحول سنجیدہ ہوگیا۔اشرف الدین        بے بسی کی ایک نظر اپنے بیٹے اور پوتے پر ڈالتے ہوئے آرام سے اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اسے اپنے بیٹے سے اس رویے کی اُمید نہیں تھی۔وہ جانتا تھا کہ کئی دوسرے بنگلہ دیشی لوگوں کی طرح میرا بیٹا اور بہو بھی بھارتی پروپیگنڈے کا شکار ہوکر ان کی کرکٹ ٹیم کی محبت میں گرفتار ہیں ۔ شاید اسی وجہ سے وہ نام نہاد ترقی اور بھارت سے دوستی کے گن گاتے نہیں تھکتے۔آنے والی بنگلہ دیشی نسل کے لیےایسے لوگ ایک محکوم اورغلامانہ ذہنیت کی حامل قوم کا لیبل لگانے میں مدد گار بن رہے تھے ۔
اشرف الدین اپنے بڑھاپے کی وجہ سے بیٹے کے آگے خاموش ہوگیا تھا۔ بیس منٹ ایسے ہی گزر گئے۔ اب نجم الدین کے آس پاس ویسا جوش والا ماحول نہیں تھاحالانکہ پاکستانی ٹیم باقاعدہ چھکے چوکے لگارہی تھی۔ اس خاموشی کو نجم الدین نے بھی محسوس کیا،اب وہ دل ہی دل میںاپنے رویے پر شرمندہ ہورہا تھا۔
 اگلے ہی لمحے اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی باپ کی طرف سنیکس اور پانی کی بوتل بڑھا دی مگر بوڑھے اشرف الدین نے شکریہ کہہ کر لینے سے انکار کردیا۔ نجم الدین کو اندازہ ہوگیا کہ اس کے والد ناراض ہوگئے ہیں ۔ اس نے جھٹ سے اپنے باپ کےچہرے کو دیکھا، جہاں خاموشی تھی،پریشانی تھی، شکوہ تھا اور آنکھیںبھی قدرے نم تھیں ۔ ناصرف اشرف الدین چپ تھا بلکہ ان کا پوتا زیدان بھی اب گم صم بیٹھا تھا۔ اس منظر پر نجم الدین کا دل کٹ کر رہ گیا۔وہ اٹھ کر جلدی سے اپنے باپ کے پاس آیا اور ان کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بولا،’’بابا جان مجھے معاف کیجیے! میرا مطلب آپ کو ناراض کرنا نہیں تھا۔میں تو بس آپ کو سمجھانا چاہ رہا تھا کہ آپ ماضی کی محبت میں گرفتار ہونے کے بجائےملک وقوم کا مستقبل دیکھیں ۔پاکستان سے محبت کا رشتہ کب کا ختم ہوچکا۔اب توبھارت ہی ہمارا دوست اور وہی ہماری ترقی کا ساتھی ہے۔اس لیے ہمیں ایک قوم بن کرہر معاملے میں بھارت کاساتھ دینا چاہیے،بھلے وہ جنگ کا میدان ہو یا کرکٹ کا۔‘‘نجم الدین نے اباجان کو سمجھانے کی کوشش کی۔ 
’’بیٹا ! یہی چیز تو میں تمہیں سمجھانا چاہ رہا ہوں کہ ہمیں کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔بھارت سے ہماری سرحدملنے کامطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہمارا دوست بھی ہے۔ وہ تو ہمارے ساتھ ہمیشہ دشمنوں جیسا سلوک کرتا آیا ہے اور ہم ان کے لیے بچھے ہی چلے جاتے ہیں۔جبکہ پاکستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔بڑا بھائی ہے۔ہمارارہن سہن،مذہب،تعلیم،ثقافت ہر چیزاس سے ملتی ہے۔اور تواور، 1971ء میں دشمن کی سازشوں سے قبل ہماری عیدیں، شب برأتیں،ہمارا یوم آزادی(14اگست)اورہمارا23مارچ سب ایک ہی تھے۔ ہماری خوشیاں اور غم سانجھے تھے،مگر ماضی میں ہوئی غلطیوں اور دشمن کی سازشوں کی بدولت ہم ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔‘‘اشرف الدین اپنے بیٹے کو سمجھانے کی کوشش میںتھا۔ دونوں کی نگاہیں گرائونڈ پر مرکوز تھیں ۔
نجم الدین نےابا جان کو ناراضی ختم کرکے یہ کہتے سنا تو اس کی جان میں جان آئی۔وہ اپنی پہلے والی حرکت پر نادم تھا۔اس وقت وہ میچ کے دوران زیادہ بحث کے موڈ میں بھی نہیں تھا۔اس لیے اس نے اپنے ابو کی جانب مسکرا کر دیکھا اور بولا،’’باباجان !جو باتیں آپ کررہے ہیں ،وہ سب ماضی کا حصہ ہیں،کیاہمیں آج کے زمانے کے ساتھ نہیںچلنا چاہیے ؟‘‘
اشرف الدین نے نظر بھر کر بیٹے کو دیکھا اور پھر کہنے لگا،’’بیٹا جی ! جو قومیں اپنا ماضی بھول جاتی ہیں،ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔یہ مت بھولوکہ قیام ِ پاکستان میں سب سے زیادہ کرداربنگال ہی کا تھا۔ تب یہ سب سے بڑا صوبہ تھا۔ 23مارچ کو لاہور میں قرار دادِ پاکستان پیش کرنے والےرہنما مولوی فضل حق کا تعلق بنگال ہی سے تھا۔اس دور میں علامہ محمد اقبالؒ اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ ہم سب کے مشترکہ قومی رہنما تھے۔بعد میں آپس کی نفرتوں سے اپنے قائدین یا تاریخ کو مٹایا یا تبدیل تو نہیں کیاجاسکتا ناں !‘‘ اشرف الدین اپنے دل کا درد بیٹے کو سنا رہا تھا ۔
’’باباجان!مگراب وہ وقت واپس لانا مشکل ہے۔ میں تو بس اتنا جانتاہوں کہ آج زیادہ تر بنگلہ دیشی نوجوان پاکستان کے مخالف اور بھارت کے ساتھ دوستی کے خواہاں ہیں۔‘‘نجم الدین ا سٹیڈیم میں لہراتے بنگلہ دیشی،بھارتی اور پاکستانی پرچموں کو دیکھ کر بولا۔
’’ بالکل غلط ، بیٹا ! یہ آپ کی غلط فہمی ہے،ایسا کچھ نہیں ہے۔بنگلہ دیش کا بچہ بچہ آج بھی پاکستان سے محبت کرتا ہے۔بس کچھ نوجوانوں کو دنیا کی چکا چوند نے تمھاری طرح رستے سے بھٹکا دیا ہے۔وہ بھی جلد سمجھ جائیں گے۔‘‘
اشرف الدین نے فوراََجواب دیا،ساتھ ہی انہوں نے بابر اعظم کے چوکے پر اسے تالیاں بجا کر داد دی۔ان دونوں کی باتوں سے بے پروا زیدان اور اس کی امی  میچ دیکھنے میں مصروف تھے۔بیٹے زیدان کو پاکستانی ٹیم کی شاندار بیٹنگ پر داد دیتے ہوئے دیکھ کر نجم الدین ایک بار پھر ذہنی اُلجھن کا شکار ہوگیا۔
’’ابا جان!شاید آپ کی باتیں ٹھیک ہوں،مگربنگلہ دیش اور پاکستان سرکاری سطح پر معیشت،تجارت اور تعلیم وغیرہ کے کسی شعبےمیں ایک دوسرے کے ساتھ معاون یا مدد گار نہیں ہیں ، پھرآخر ہمارا ان سے رشتہ ہی کیاہے نجم الدین کی آواز میں غصہ شامل ہوگیا تھا۔ اتنے میں فخر زمان نے شاندار چھکا لگا یا اور اپنی سینچری مکمل کی توا سٹیڈیم میں ایک دم بنگلہ دیشی عوام کا شوربلند ہوا، اگلے منظر نے تو گویا آگ ہی لگا دی۔نجم الدین کو لاجواب کر کے رکھ دیاکیونکہ سینچری مکمل ہونے کی خوشی میں جیسے ہی فخر زمان نے سجدہ کیاتوا سٹیڈیم میںایسا شور بلند ہوا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ عوام اللہ اکبر،اللہ اکبر کے نعرے لگائے جارہے تھے۔
اچانک کسی نے نعرہ بلند کیا ،’’ پاکستان سے رشتہ کیا....اشرف الدین اپنے بوڑھے اور لاغر بدن کا پورا زور لگا کر بولا،لا اِلٰہ الاللہ...لا اِلٰہ الاللہ...ساتھ ہی ان کی آواز بھرا گئی،بنگلہ دیشی عوام فخر زمان کے سجدے پر خوشی سے نہال تھے۔ہر طرف سبز ہلالی پرچم کا جلوہ دکھائی دے رہا تھا۔
’’دیکھو...دیکھو بیٹا ! تم پوچھ رہے تھے ناں کہ پاکستان سے ہمارا رشتہ اور تعلق کیاہے ؟ تو یہ ہے ہمارا پاکستان سے رشتہ،جو تم نے ابھی دیکھا ہے۔‘‘ نجم الدین اس سجدے پر بنگلہ دیشی عوام کے رد عمل سے دم بخود تھا۔ ایک پل میں تمام بھارتی پرچم سرنگوں تھے۔ قدرت نے اسے اسی وقت حیران اورلاجواب کردیا تھا۔ 
میچ کے اختتام پرجب پاکستان نے بھارت کو عبرتناک شکست دے کر ٹرافی اپنے نام کی اور پاکستان کے کھلاڑی بنگلہ دیشی عوام کے پیار اور محبت کا جواب دینے کے لیے پورے گرائونڈ کا چکر لگانے لگے،تب بھی ہر سو اللہ اکبر کے نعرے گونج رہے تھے۔ اشرف الدین اس خوبصورت منظر کو دیکھ کر اپنے بیٹے اور پوتے سے مخاطب ہوا،’’بچو!میں بوڑھا ہو چکا ہوں،زندگی کا دیا نہ جانے کب بجھ جائےمگر میری ایک پیش گوئی یاد رکھنا کہ ایک نہ ایک دن بنگلہ دیشی عوام پھر سے  قائد اعظم ؒاور علامہ اقبالؒ کی شان میں قصیدے پڑھ رہے ہوں گے۔ ایک بار پھر ہم 23مارچ اور 14اگست کے دن منا رہے ہوں گےکیونکہ ہندوستان میں تحریک ِآزادی کی بنیاد 23مارچ کی وہ قرارداد ہی ہے کہ جس کے مطابق ہم جغرافیائی اور نسلی طور پر بھلے بنگالی،بلوچ،پٹھان،کشمیری،پنجابی اور سندھی ہی ہوں،مگر دینی اور نظریاتی طور پرہم سب ایک قوم ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی وہ پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے سنتے ہوئے گرائونڈ سے باہر نکل آئے۔نجم الدین سرجھکائے کچھ سوچنے میں مصروف تھا۔
پیارے بچو!آج اشرف الدین بابا جی کو وفات پائے تین سال ہوچکے ہیں مگر ان کی پیش گوئی سچ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔