آج رات کے کھانے کے لیے ایک کپ چاول۔۔۔مٹھی بھر مٹر۔اور ایک درمیانے سائز کے آلو کے ساتھ میں ویجیٹیبل پلائو بنا رہی تھی اور چاولوں کو دم پر لگاتے ہوئے میری نظر دیگچی پر پڑی۔۔۔چھوٹی سی دیگچی اور اس میں دو افراد اور ایک ہیلپر کے لیے تھوڑے سے چاول دیکھ کر مجھے ایک جھٹکا سا لگا۔۔۔۔۔مجھے ایک دم سے اپنے میکے کا بھرا پُرا کچن یاد آیا۔۔۔جہاں بڑے سے دیگچے میں پلائو بنتا تھا۔اور ماشااللہ ہم چھ بہن بھائی۔۔۔امی جی اور ابو جی مل جل کر ایک دسترخوان پر بیٹھ کر دلچسپ باتوں اور قہقہوں کے خوش گوار ماحول میں کھانا کھاتے تھے۔۔۔تب زندگی کتنی مکمل اور خوبصورت ہوتی تھی۔۔۔۔۔سردی کی راتوں میں کھانے کے بعد چائے۔۔مونگ پھلی، چلغوزے(جو اس وقت اتنے دستیاب تھے کہ ہم کوٹوں کی جیبوں میں بھر کر سکول بھی لے جاتے تھے)۔۔۔ریوڑیاں اور گچک کھاتے اور پھر کب شرارتیں اتنی بڑھ جاتیں کہ امی جی کو مداخلت کرنا پڑتی اور لطف و مسرت کا یہ سیشن ذانٹ کھا کر لحافوں میں دبکنے پر منتج ہوتا۔۔۔۔۔۔۔، گرمیوں میں رات کے کھانے کے بعد ایک واک کا سیشن ضرور چلتا، کھاریاں کینٹ کی پرسکون سڑکوں پر لوگ جوق در جوق ٹہل رہے ہوتے۔۔۔اور اکثر واپسی" پاک کریانہ سٹور" سے کوک یا پولکا آئس کریم کھاتے ہوئے ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔پھر ۔۔۔۔۔وقت نے کروٹ لی۔۔۔ایک گھر سے نکل کر سب نے اپنے اپنے گھر بنا لیے۔۔۔۔شریک حیات، بچے، ان کی تعلیم و تربیت،ان کی ملازمتوں کے جھمیلے اور شادیوں کے فرائض سے سبکدوش ہونے کی طمانیت تو بخشی مگر ساتھ ہی تنہائی کا تحفہ بھی میسر ہوا۔
سب سے بڑی بہن ہونے کے ناطے میں جلد ان تجربوں سے گزری۔۔۔۔اور آج ایک کنال کے ڈپلیکس گھر میں مَیں اور میرے شریک حیات دو جزوقتی خواتین ہیلپرز، ایک کل وقتی مرد ملازم، بہت سی کتابوں۔۔۔۔ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ہمراہ بہت "پرسکون "زندگی گزار رہے ہیں...لیکن شاید ہماری طرح کے سب پرسکون جوڑے بچوں کی وڈیو کالز اور ٹی وی کے پروگراموں اور کتابوں کے مطالعے سے فارغ ہو کر اپنے اپنے بچپن کی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔۔۔۔جہاں کی اہم اکائی ماں باپ تو اپنے ابدی گھروں میں جا بسے ہیں اور ایک ہی آ نگن میں پلنے والے بہن بھائی اب ایک دوسرے کے گھروں میں مہمان بن کر جاتے ہیں۔۔۔۔۔آج کچن میں رات کا کھانا تیار کرتے ہوئے شام کے اداس جھٹپٹے نے مجھے بے حد نوسٹیلجک(پرانی یادیں رکھنے والی) کر دیا۔۔۔۔۔۔اور بے اختیار میرا دل چاہا کہ میں اپنی عمر کے سب لوگوں سے مخاطب ہو کر یہ گزارش کروں کہ ماں باپ تو اب واپس نہیں آ سکتے اور نہ ہی وہ بچپن کا آ نگن دوبارہ بس سکتا ہے لیکن اگر آ پ کے بہن بھائی سلامت ہیں تو آپ انتہائی خوش نصیب ہیں۔۔۔۔۔ان سے رابطے میں رہیے۔۔۔۔۔ان کی موجودگی کو ایک تحفہ ربی سمجھ کر ان کی قدر کریں۔۔۔دلوں سے رشتوں کے لین دین کی وجہ سے یا جائیداد کے بٹوارے کی وجہ سے جو کدورت دلوں کو آلودہ کر چکی ہے اسے دھو ڈالیے۔۔۔آپ بہن بھائی اپنے ماں باپ کے پر تو ہیں۔۔۔زندگی بہت تھوڑی سی ہے۔۔۔۔خونی رشتوں میں محبتیں بانٹیے۔۔۔۔دلوں کو بڑا کیجیے۔۔۔۔درگزر کرنا سیکھیے۔۔۔۔معاف کر دینے کے لطف کو چکھ کر تو دیکھیے۔۔۔ملکوں یا شہروں کے فاصلے رشتوں کی اہمیت کو متاثر نہیں کرتے۔۔۔انائوں کے ہاتھوں پیدا کیے گئے دلوں کے فاصلے دکھوں کی فصیلیں تعمیر کر دیتے ہیں۔۔۔بخدا آپ کی لا تعلقی دوسرے بہن بھائی کو آپ کے بغیر جینے کی عادت ہر گز نہیں ڈالتی بلکہ آپ کے بغیر جینے کی کوشش میں وہ پل پل ٹوٹتے ہیں۔۔۔۔سانسوں کی ڈور ٹوٹنے سے پہلے ٹوٹتے رشتوں کو بچا لیں۔۔۔۔اسی میں ہر رشتے کی جیت ہے۔
مضمون نگار ماہر تعلیم ادیبہ ، شاعرہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔
تبصرے