البرق ڈویژن کے زیرِ اہتمام "فلسفہ رومی اور اقبال، معرج البحرین "کے عنوان سے ایک جامع علمی وادبی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں انٹرنیشنل اقبال سوسائٹی اور اقبال اکیڈمی پاکستان کے نمائندگان ،گیریزن کے آفیسرز، سولجرز، ایف جی، آرمی پبلک سکول کے اساتذہ کرام اور بچوں کے علاوہ خواتین و حضرات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ تقریب کا مقصد نوجوانوں میں رومی اوراقبال کے فہم وادراک کو اجا گر کرناتھا ۔ جس کے مہما ن خصوصی گیریزن کمانڈر میجر جنرل محمد وسیم افتخارچیمہ اور گیریزن کمانڈرمیجر جنرل نیک نام محمد بیگ تھے ۔تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلام پاک اور ترجمہ سے ہوا ۔ اس کے بعد معزز مہمان مقرر''لمز لاہور'' کی پروفیسر ڈاکٹر فاطمہ فیاض مولانا روم اور علامہ ا قبال کے افکار کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مولانا جلال الدین رومی (1207-1273) اور علامہ اقبال (1877-1938) دونوں اسلامی فلسفے کے روشن ستارے ہیں، جنہوں نے انسانی روح، خودی، عشق اور خدا کی جستجو پر گہری فکر پیش کی۔ رومی کی تعلیمات تصوف اور عشقِ حقیقی پر مرکوز ہیں، جبکہ اقبال کی فکر میں خودی، عمل اور امتِ مسلمہ کی بیداری کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اگرچہ اقبال نے رومی سے گہری روحانی رہنمائی حاصل کی، لیکن ان کی فکر میں دورِ جدید کے تقاضے بھی شامل ہیں۔
مولانا رومی کا فلسفہ
مولانا رومی تصوف کے عظیم شاعر اور فلسفی ہیں، جنہوں نے عشق کو انسان اور خدا کے تعلق کی بنیاد قرار دیا۔ ان کے نزدیک انسان کی اصل منزل خدا کا قرب حاصل کرنا ہے، اور یہ عشق کے ذریعے ممکن ہے۔ رومی کا فلسفہ "وحدت الوجود" پر مبنی ہے، جس کے مطابق خدا کی ذات کائنات کے ہر ذرے میں موجود ہے۔ ان کی مشہور تصنیف "مثنوی معنوی" کو "قرآن کی فارسی تفسیر" بھی کہا جاتا ہے، جو اخلاقیات، روحانیت، اور انسانی زندگی کے مسائل پر گہرے فلسفیانہ خیالات پیش کرتی ہے۔
اہم نکات:
1۔عشقِ حقیقی:
رومی کے نزدیک عشقِ حقیقی انسان کو خدا کی معرفت عطا کرتا ہے۔ ان کے اشعار میں عشق کو انسان کے وجود کی معراج کے طور پر پیش کیا گیا ہے:
"عشق آں شعلہ است کہ چوں برفروخت
ہر کہ جز معشوق باقی، ہم سوخت"
یعنی عشق وہ شعلہ ہے جو سب کچھ جلا دیتا ہے سوائے محبوب کے۔
2 ۔وحدت الوجود:
رومی کا ماننا ہے کہ خدا کائنات کے ہر ذرے میں موجود ہے اور تمام کائنات خدا کی عظمت کا عکس ہے۔
3 ۔انسان کی خود شناسی:
رومی انسان کو اپنا باطن پہچاننے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی اصل حقیقت سے واقف ہو سکے:
"من چراغ راہِ تو، تو جستجوئے خویشتن"
میں تیرا چراغِ راہ ہوں، اور تو اپنی تلاش میں ہے
4 ۔روحانی آزادی:
رومی نے انسان کو دنیاوی بندشوں سے آزاد ہو کر اپنی روحانی منزل پر غور کرنے کا درس دیا۔
علامہ اقبال کا فلسفہ
اقبال کو "شاعرِ مشرق" اور ''مفکرِ پاکستان''کہا جاتا ہے۔ انہوں نے امتِ مسلمہ کی بیداری اور خودی کے تصور کو اپنے فلسفے کی بنیاد بنایا۔ اقبال نے رومی سے گہری روحانی رہنمائی حاصل کی اور انہیں اپنی شاعری میں "مرشد" قرار دیا، مگر ان کے فلسفے میں عملی جدوجہد، خودی کی تعمیر اور دنیاوی ترقی پر زور زیادہ ہے۔
اہم نکات:
1 ۔فلسفہ خودی:
اقبال کے نزدیک خودی انسان کی انفرادی شناخت اور خود آگاہی ہے، جو اسے خدا کے قریب کرتی ہے اور تخلیقی قوت عطا کرتی ہے۔ ان کا مشہور شعر ہے:
"خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے"
2 ۔عشق اور عقل:
اقبال نے عشق کو روحانی بلندی کا ذریعہ اور عقل کو عملی دنیا کے مسائل کے حل کا ذریعہ قرار دیا۔ ان کے مطابق عشق وہ قوت ہے جو انسان کو بے خوف بناتی ہے اور بلند مقاصد تک پہنچاتی ہے۔
3 ۔عمل اور جدوجہد:
اقبال کے فلسفے میں عمل کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کو روحانی سکون کے ساتھ ساتھ دنیاوی ترقی میں بھی کردار ادا کرنا چاہیے۔
4 ۔مردِ مومن:
اقبال کا "مردِ مومن" ایک ایسا انسان ہے جو خودی کے ذریعے اپنی تقدیر بدل سکتا ہے اور دوسروں کے لیے رہنما بن سکتا ہے۔
رومی اور اقبال کا فکری تقابل
رومی کا اقبال پر اثر
اقبال نے رومی کی تعلیمات کو اپنا روحانی مرکز بنایا اور ان سے متاثر ہو کر اپنی فکر کو تشکیل دیا۔ رومی کا فلسفہ عشق اقبال کی شاعری میں نمایاں ہے، لیکن اقبال نے اسے مزید عملی اور جدید بنایا تاکہ مسلمانوں کو ان کے دور کے چیلنجز کے لیے تیار کیا جا سکے۔
حاصل کلام:
رومی، انسان کو عشق کے ذریعے خدا کے قریب لانے پر زور دیتاہے۔اوراقبال عشق اور خودی کو ملا کر ایک متحرک اور عملی زندگی کا پیغام دیتاہے۔مطالعہ رومی کے سنگ میل تاریخ اسلام کے نہایت پر اضطراب زمانوں سے متعلق ہے اور مثنوی رومی خود ایک پرآشوب زمانی کی یادگار ہے،جس میں اللہ پر ایمان ویقین انسان پر اعتقاد و اعتماد تاتاریوں کے سیلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہہ گیا ۔ایسے روحانی اور ذہنی انتشار کے زمانے میں مولانا روم کی مثنوی ظہور میں آئی ۔اس میں وہ جذب سرور ،وجد حال ،بے خودی اور سرمستی تھی جس کی اس زمانے کی پریشان وسرگرداں روحوں کو ضرورت تھی۔ کیونکہ تمام لوگ خدا، انسان اور کائنات تینوں کا اعتماد کھو بیٹھے تھے، ایسی حالت میں رومی نے جب نغمۂ عشق سنایا تو اس میں اعتقاد زندگی کی بجھی چنگاریوں میں پھر حرارت پیدا ہوئی اور حیات نے اپنی بکھری ہوئی کڑیوں کو پھر جوڑا تو عالم سفلی میں بھٹکتی ہوئی روحوں کو اپنے خالق حقیقی کے سامنے مخفی رابطے کا ادراک حاصل ہوا۔ جلال الدین رومی کے سامنے ایک طرف اسلام کی ایک عظیم الشان تعمیر جس کی تہہ میں ایک طرف نظریہ حیات و کائنات اور دوسری طرف یونانی ثروت افکار، ایک طرف حکمتِ ایمان و قرآن تو دوسری طرف حکمت عملی، ایک طرف حکمت استدلالی تو دوسری طرف حکمتِ نبوی تھی۔ اقبال کا عہد بھی کچھ اس طرح تھاکہ مشرق میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک پورا اسلام فرنگی سامراج کے پنجۂ استبداد میں تڑپ رہا تھا ۔صوفی ،ملا اور ملوکیت کے بندے تھے۔ اس میں اقبال نے آتش رومی کے سوز میں تمام بیماریوں کا علاج ڈھونڈ کر فرنگیوں کا فسوں توڑا۔ کلیسا نواز روش سے انحراف کر کے اسلام کی روشنی میں مفکرزمانہ کو اسلام کی حقانیت پرکھنے کی روایت ڈالی اور اس پورے عمل میں اقبال اپنے مرشد کامل رومی کے رنگ میں رنگ گیا۔ سوچ بہرِ بے کراں کے ساحل پر دریائے علم کا سنگم ہوا تو معرج البحرین کا راز منکشف ہوا۔ یوں اقبال رومی کو از سرنو دریافت کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رومی تاریخ کے زندان سے نکل کر اقبال کے عہد میں سانسیں لے رہے ہوں۔ اورصحبت پیر روم سے اقبال عصر حاضر کے پیچیدہ رازمنکشف کر رہے ہوں ۔ مو لانا روم اور علامہ اقبال میں بہت حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں اسلامی اور حکیمانہ شاعر ،دونوں خودی کے پرچارکرنے والے، دونوں قران کریم کے آدم کو نوعِ انسان کی معراج کا نصب العینی تخیل سمجھتے ہیں ۔دونوں جدوجہد کو زندگی اور خفتگی کو موت ،دونوں عشق کو کائنات روح رواں اور وجود وحدت مظہر کائنات سمجھتے ہیں دونوں کا یقین ہے کہ عشق ہی سے جنبش خاک اور حرکت افلاک ہے اور عالم رنگ و بو میں جھلک عشق حقیقی کا ہی پر تو ہے۔
آخر میں گیریزن کمانڈر میجر جنرل نیک نام محمد بیگ نے مہمان مقرراور حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا رومی اور اقبال دونوں کے فلسفے انسانیت کے لیے گہرے روحانی اور فکری پیغامات رکھتے ہیں۔ رومی کی تعلیمات خدا کی قربت کے لیے عشق کو بنیاد بناتی ہیں، جبکہ اقبال عشق کے ساتھ عمل اور خودی کو امتِ مسلمہ کی ترقی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ دونوں مفکرین نے انسان کو اس کی اصل حقیقت اور روحانی طاقت کا احساس دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی تعلیمات آج بھی انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
تعارف: مضمون نگار ایچ آر ڈی سی میں ایجوکیشن انسٹرکٹر ہیں۔
تبصرے