آج کے ڈیجیٹل دور میں انٹرنیٹ کا استعمال دو دھاری تلوار بن چکا ہے۔ جہاں ایک طرف انٹرنیٹ لوگوں کو آپس میں جوڑتا ہے، رشتوں کو مضبوط کرتا ہے اور بیانیہ بنانے میں مدد کرتا ہے، وہیں دوسری طرف یہ سماجی ربط اور ملکی سا لمیت کے لیے خطرناک بھی ہو جاتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انٹرنیٹ کا استعمال ترک کر دیا جائے؟ مزید یہ کہ کیا ایسا کرنا ممکن بھی ہے؟ اس کا واضح جواب تو نفی میں ہے۔ انسان کا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر انحصار اس حد کو چھو چکا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں مختلف ماہرین ڈیجیٹل حدبندی یعنی بائونڈری کی راہ متعین کر رہے ہیں۔
اس ڈیجیٹل حدبندی سے مراد وہ ذاتی حدود و قیود ہیں جن کی اس ٹیکنالوجی کے استعمال میں تجویز دی جاتی ہے۔ جیسا کہ یہ طے کرنا کہ کتنا وقت ان ڈیجیٹل آلات کے استعمال میں صرف کرنا ہے، ذاتی اور نجی نوعیت کا ڈیٹا کیسے محفوظ رکھنا ہے، کام اور فرصت میں توازن کیسے قائم رکھنا ہے، اور سب سے بڑھ کر اپنی ذہنی اور جذباتی صحت کا خیال کیسے رکھنا ہے۔ اس کا ایک اہم حصہ یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنے قریبی رشتوں کو ڈیجیٹل سماجیات کے آگے ترجیح دینی ہے اور اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ کہیں ہم غلط افکار و نظریات کا نشانہ تو نہیں بن رہے۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے ماضی کے برعکس انسان کو ورچوئل سوشل لائزیشن کی راہ دکھائی ہے جوکہ پردے کے پیچھے اور انجان ہے۔ انسان کا سماج باہمی میل جول پر مبنی ہے، جس میں ذاتی راہ و رسم اور جان پہچان نہایت اہم ہیں اور اس بنیاد پر بننے والا معاشرہ کچھ مشترکہ اصول و قواعد کو نہ صرف متعین کرتا ہے بلکہ اس کا باضابطہ معاشرتی اطلاق بھی کرتا ہے۔ جبکہ ورچوئل معاشرہ مشترکہ اقدار کی بنا پر نہیں بلکہ انفرادی پسند اور ناپسند کی بنا پر بنتا ہے۔ اس طرح سے بننے والا معاشرہ عدم برداشت اور تصدیقی تعصب کو فروغ دیتا ہے۔ نتیجتاً ورچوئل معاشرے کے زیرِ اثر حقیقی معاشرے میں بھی باہمی برداشت، پرُ مغزمباحثہ اور شخصی احترام ختم ہونے لگتا ہے۔
مگر آج کا موضوعِ بحث ورچوئل معاشرہ نہیں بلکہ آنے والے زمانوں میں کس طرح سے حقیقی معاشرے کی اساس کو بحال رکھنا ہے اور وہ بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ ڈیجیٹل زندگی ناگزیر ہے ۔ ڈیجیٹل حدبندی کے بغیر اس سوال کا جواب ملنا مشکل ہے کیونکہ ورچوئل معاشرہ نہ صرف انفرادی بلکہ سماجی جہتوں کو متاثر کر رہاہے۔ دور دراز انجان افکار و خیال پر مبنی مواد کی رسائی، زمینی حقائق سے اس کی غیرمطابقت اور بیشتر صورتوں میں اس عمل کا ایک نظام کی طرح کام کرتے ہوئے ذہن سازی کرنا ایک سنجیدہ خطرہ ہے۔
پاکستان کی مثال لیں تو انٹرنیٹ کی رسائی بڑے شہروں سے ہوتے ہوئے گائوں قصبوں تک ہو چکی ہے۔ مگر ڈیجیٹل ابلاغیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سوشل میڈیا کا غیرمحفوظ استعمال جیسا کہ ذاتی معلومات کی فراہمی سے لے کر غیراخلاقی مواد کی رسد و ترسیل اور جھوٹی خبروں کا پھیلائو ایک معمول بن چکا ہے اور ڈیجیٹل صارفین ایک ایسے جال میں پھنس چکے ہیں جس سے نکل پانا بغیر صحیح رہنمائی کے ناممکن ہے۔ اب یہ مسئلہ ذاتی سے سماجی اور یہاں تک کہ ملکی نوعیت کا ہو چکا ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی بلا روک ٹوک رسائی اور اس کا اندھا دھند استعمال قومی بقا کا مسئلہ بن گیا ہے۔ اس کے لیے نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی پیمانے پر ڈیجیٹل حدبندیاں نہایت ضروری ہیں۔
ملکی سا لمیت کے زمرے میں ڈیجیٹل حدبندی مندرجہ ذیل طریقوںسے ہو سکتی ہے:
1۔ جھوٹ کے پھیلائو کو روکنا:
جھوٹ کے پھیلائو کو روکنے کے لیے جو ذاتی ڈیجیٹل حدبندی کارآمد ثابت ہو سکتی ہے اس میں تصدیق اور تنقیدی تفکیر بے حد اہم ہیں۔ تنقیدی سوچ سے مراد ہے اپنی استدلالی اہلیت کا استعمال کرتے ہوئے یہ طے کرنا کہ کونسا مواد مستند ہے اور کونسا غیرمستند۔ اور ساتھ ہی اس مواد سے کیسے پیش آنا ہے تاکہ جھوٹ کے پھیلائو کوروکا جائے اور تصدیق کے زمرے میں انفرادی ذمہ داری کو کیسے بروئے کار لایا جائے۔
2۔ ملکی سا لمیت کی حفاظت :
ملکی سا لمیت کی حفاظت بہر صورت شہریوں کی انفرادی شخصی حفاظت سے جڑی ہوتی ہے اور اس کا براہِ راست تعلق ڈیجیٹل حدبندیوں جیسے کہ سائبرسکیورٹی اویئرنیس اور ڈیٹا پرائیویسی سے ہے۔ تمام شہریوں کو چاہیے کہ وہ حساس نوعیت کی معلومات جیسا کہ بینک کھاتہ نمبر، پاسپورٹ نمبر، شناختی دستاویز کا اندراج سوچ سمجھ کر کریں کیونکہ یہ تمام ڈیموگرافک ڈیٹا ملک کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔ مغربی ممالک اس ڈیٹا کو محفوظ کرنے کے لیے قوانین تک رائج کر چکے ہیں۔ ذاتی ڈیٹا ذاتی شخصی معلومات کے ساتھ ساتھ انفرادی پسند اور ناپسند پر بھی مشتمل ہوتا ہے۔ ہم کونسی ویب سائٹس پر کتنا وقت گزارتے ہیں سب درج کیا جا رہا ہوتا ہے اور بعد میں یہ معلومات بڑے کاروباروں کو فروخت کر دی جاتی ہیں جوکہ اس کی بنیاد پر ڈیجیٹل صارفین کی خرید و فروخت کے معاملے میں تجویزی ذہن سازی کرتے ہیں۔
3۔ سماجی ربط کا استحکام:
ڈیجیٹل حدبندی ایکو چیمبرز اور رقیق آن لائن اسپیسز سے بچائو اور انخلا میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ مثبت سوچ کے فروغ کے لیے صرف چند خیالات سے ذہنی ہم آہنگی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا کا استعمال غیرجانبدارانہ ہونا چاہیے۔آپ کے ارد گرد جمودزدہ ڈیجیٹل اسپیسز خیالات اور موضوعات میں تنوع نہیں بننے دیتے اور کھلے ذہن اور مثبت رجحانات کو پنپنے نہیں دیتے لہٰذا سوشل میڈیا کے استعمال میں تنگ نظری سے بچنا بہت ضروری ہے۔
4۔ قومی مفاد کو اولیت دینا:
سماجی، لسانی، مذہبی اور سیاسی پولرائزیشن کسی بھی معاشرے کے لیے مہلک ہو سکتی ہے۔ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے حوالے سے یہ اکثر ملک دشمن عناصر کا ہتھیار ہوتی ہے۔ ایسے تمام مواد کی سمجھ بوجھ رکھتے ہوئے نہ صرف اس کی نشاندہی کر پانا بلکہ اس کے پھیلائو کا حصہ نہ بننا ایک بہت اہم حدبندی ہے۔
بدنیتی پر مبنی مواد اور بیرونی پروپیگنڈا معصوم ذہنوں کو انتشار کا شکار بنا سکتا ہے لہٰذا ڈیجیٹل اسپیس میں جو حوالہ جات اور ذرائع نشر و اشاعت کا کام کرتے ہیں ان کی تصدیق انفرادی اور محکماتی بنیادوں پر ہونی چاہیے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ڈیجیٹل دہشت گردی سے محفوظ رکھے۔
انفرادی اور اجتماعی ڈیجیٹل حدبندیاں ایک صحت مند معاشرے کے لیے لازمی بن چکی ہیں کیونکہ ایک صحت مند معاشرہ ہی ایک ترقی یافتہ قوم کی ضمانت ہے۔ انفرادی ڈیجیٹل حدبندی اس ڈیجیٹل دور میں قومی سا لمیت کا بنیادی رکن ہے۔ ذمہ دارانہ رویہ اپناتے ہوئے شہری خود کو ہی نہیں بلکہ ریاست تک کو سائبر تھریٹ، جھوٹے پروپیگنڈے اور خارجی دراندازی سے محفوظ رکھ کر ایک مضبوط اور خودمنحصر قوم کی تشکیل کر سکتے ہیں اور جدید دور کے ان دیکھے خطرات سے نبردآزما ہو سکتے ہیں ۔
مضمون نگار ایک ریسرچر اور ماہر بین الاقوامی امور ہیں۔ ان کے مضامین ملکی اور غیرملکی جرائد میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے