سال 2018 کے دوران جب سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات اور روڈ میپ کے تناظر میں پاکستان کے قبائلی علاقوں یا ایجنسیوں کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کردیا گیا تو قبائلی عوام کی اکثریت نے اس کا خیر مقدم کیا اور اکثر سیاسی جماعتوں نے بھی اس کی کھل کر حمایت کی ۔ دو صدیوں تک " بفر زون" کا کردار ادا کرنے والے ان قبائلی علاقوں کو ایک کمٹمنٹ کے تحت پاکستان کی آزادی کے وقت عوام کی خواہش پر عام مروجہ پاکستانی قوانین سے مبرا رکھا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ علاقے بعد میں عالمی اور علاقائی پراکسیز کے مراکز میں تبدیل ہوگئے اور ''علاقہ غیر ''کہلاتے رہے ۔ یہاں کے عوام کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کے حق سے سال 1997 تک محروم رکھا گیا جبکہ یہاں سیاسی جماعتوں کو سرگرمیوں کی اجازت بھی نہیں تھی ۔ یہ سلسلہ نائن الیون تک جاری رہا ۔ نائن الیون کے بعد جب نیٹو اور امریکی افواج افغانستان میں داخل ہوگئیں اور اس کے ردعمل میں القاعدہ اور دیگر فاٹا کی انتظامی کمزوریوں کے باعث قبائلی علاقوں میں داخل ہوگئے تو پاکستان کی سکیورٹی کو بھی شدید خطرات لاحق ہوگئے اور پہلی بار فاٹا میں پاکستان کی فوج باضابطہ طور پر داخل ہوئی کیونکہ یہ علاقے دہشت گرد گروپوں کے ٹھکانوں میں تبدیل ہوگئے تھے ۔ وزیرستان کی دونوں ایجنسیوں کے علاوہ مہمند ، باجوڑ اور کرم کی قبائلی علاقوں میں دہشت گرد گروپ کھلے عام گھومتے رہے اور اسی تسلسل میں جب سال 2007 کو وزیرستان میں فتنہ الخوارج کی بنیاد رکھی گئی تو یہ علاقے نو گو ایریا میں تبدیل ہوگئے ۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ان علاقوں میں تقریباً 22 آپریشن کیے گئے مگر سیاسی اور انتظامی اصلاحات کے فقدان کے باعث معاملات درست نہیں ہوئے ۔
سال 2015 کے دوران ان قبائلی علاقوں میں پاک فوج کی تعیناتی کی گئی تھی ۔ فوج نے جہاں سیکورٹی صورتحال پر قابو پانے کی کوششوں کا آغاز کیا اور اس کے سیکڑوں جوانوں اور افسروں نے شہادتیں دیں، وہاں فوجی قیادت نے تعمیر نو کی ضروریات پوری کرنے پر بھی توجہ مرکوز کی کیونکہ عملاً ان حساس علاقوں میں سول اداروں کی موجودگی یا رٹ نہ ہونے کے برابر تھی ۔ پاکستان کی مسلح افواج نے حکومتی فنڈز ، اپنے وسائل اور عالمی اداروں کی مدد سے ان قبائلی علاقوں میں سال 2004 کے بعد تعمیر وترقی کے ایک محدود سلسلے کا آغاز کیا۔ تاہم 2008 کے الیکشن کے بعد جب کولیشن سپورٹ فنڈ کا عالمی سلسلہ شروع ہوا تو اس وقت کی حکومت نے پاکستانی فوج کو وسیع پیمانے پر فنڈز فراہم کیے جس کے نتیجے میں قبائلی علاقوں میں تعمیر نو کے وسیع سلسلے کا آغاز کیا گیا ۔ کولیشن سپورٹ فنڈ کی بندش کے باوجود ریاست نے ان علاقوں میں نہ صرف تعمیر وترقی کے عمل کو آگے بڑھایا بلکہ فاٹا انضمام کے بعد اس سلسلے میں مزید تیزی لائی گئی ۔
چونکہ قبائلی علاقوں میں سول اداروں کی فعالیت نہ ہونے کی برابر تھی اس لیے انتظامی طور پر پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو ان شورش زدہ علاقوں میں سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے علاوہ تعمیر وترقی کے پراجیکٹس پر بھی توجہ دینا پڑی اور یہ سلسلہ انضمام کے تاریخی اقدام کے باوجود تاحال جاری ہے ۔
پاک فوج نے جن شعبوں میں سرمایہ کاری کی اور درجنوں منصوبے شروع کیے ان میں مواصلات ، ٹیلی کمیونیکیشن ، ٹریڈ کا فروغ ، تعلیمی اداروں کا قیام اور تعمیر نو ، طبی مراکز کی تشکیل نو اور نوجوانوں کے لیے اسکالر شپ سمیت روزگار کے مواقع سرفہرست رہے ۔ فوج کی نگرانی میں قدرتی وسائل کی دریافت اور ان کے استعمال کے تقریباً نصف درجن بڑے پراجیکٹس بھی شروع کیے گئے جن میں وزیرستان کا حیدر خیل پراجیکٹ بھی شامل ہے جس کو ''گیم چینجر''پراجیکٹ قرار دیا گیا ۔
فاٹا انضمام اور اس کے بعد تعلیم کی ترقی کے لیے تقریباً تمام قبائلی اضلاع میں پاکستان کی فوج نے جدید طرز پر کیڈٹ کالج قائم کیے اور اس وقت حالت یہ ہے کہ آبادی اور رقبے کے تناسب کے برعکس تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ کیڈٹ کالج خیبرپختونخوا خصوصاً ضم اضلاع میں پائے جاتے ہیں ۔ نچلی سطح کی تعلیم کے فروغ کے لیے جہاں فوج نے سول سرکاری اسکولوں کی اپ گریڈیشن میں بنیادی کردار ادا کیا وہاں قبائلی علاقوں کے اسٹوڈنٹس کے لیے ملک کے دیگر علاقوں کے متعلقہ تعلیمی اداروں میں خصوصی کوٹہ بھی مختص کیا گیا۔
ایک پالیسی کے تحت ان علاقوں کے نوجوانوں کو بعض رعایتیں دیکر پاکستان فوج ، فرنٹیئر کور ، فرنٹیئر کانسٹبلری اور پولیس میں بڑی تعداد میں ملازمتیں دی گئیں ۔
افغانستان ، جنوبی پنجاب ، خیبرپختونخوا کے دیگر علاقوں اور بلوچستان کے ساتھ تجارت اور کاروبار کے فروغ کے لیے نہ صرف درجنوں چیک پوائنٹس قائم کی گئیں بلکہ چار سے چھ ہائی ویز کی تعمیر کو بھی ممکن بنایا گیا ۔ اسی طرح توانائی کے متبادل منصوبے بھی شروع کیے گئے اور ٹیکنالوجی کے فروغ پر بھی توجہ دی گئی ۔ ایک جنگ زدہ اور انتہائی پسماندہ پٹی کی ترقی کے لیے سال 2023 ء کے بعد مزید اقدامات کیے گئے ۔ ان اقدامات میں نوجوان نسل کو شدت پسند رویوں سے دور رکھنے اور ان کو تعلیم و ترقی کے مواقع دینے کی کوششوں پر غیر معمولی توجہ دی گئی ۔ ان کی پاک فوج ہی کی نگرانی میں مین سٹریمنگ کی گئی۔ ان کو تعلیم ، سپورٹس اور ثقافتی سرگرمیوں میں نہ صرف ان علاقوں بلکہ پشاور اور دیگر شہروں میں بہترین مواقع فراہم کیے گئے ۔
یہاں یہ ذکر لازمی ہے کہ سرتاج عزیز کمیٹی کے فیصلے کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ہر سال قبائلی اضلاع کے لیے کم از کم 100 ارب روپے کے فنڈز فراہم کرنے تھے تاہم سیاسی اور انتظامی نااہلی کے باعث عملًا ایسا نہیں ہوسکا اور سول اداروں کی تعمیر وترقی اور فعالیت پر درکار توجہ نہیں دی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ جنوری 2025 ء میں بعض رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے سال 2018 کے فاٹا انضمام کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ تقریباً 500 ارب روپے میں سے بہت ہی کم رقم قبائلی علاقوں کی تعمیر وترقی پر خرچ کی اور یہ کہ زیادہ تر فنڈز رولز آف بزنس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پوائنٹ اسکورنگ کے لیے بندوبستی اضلاع میں خرچ کیے گئے ۔ اس کا منفی اثر نہ صرف یہ کہ قبائلی علاقوں کی سکیورٹی صورتحال پر پڑنے لگا بلکہ سول اداروں کی فعالیت اور تعمیر نو کا سلسلہ بھی بری طرح متاثر ہوا ۔اس تمام صورتحال کے تناظر میں پاک فوج ہی نے معاملات کو محدود وسائل کے باوجود درست کرنے کی ذمہ داریاں پوری کیں اور امن کی بحالی کے علاوہ تعمیر وترقی کو پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور اعلیٰ قیادت نے اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھا ۔
مضمون نگار معروف صحافی ہیں۔ علاقائی و بین الاقوامی امور پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے