استحکامِ پاکستان کے لیے اُسی جذبے کی ضرورت ہے جو 1940ء سے 1947ء تک نظر آیا
آزادی بہت بڑی نعمت ہے۔ قوموں کی زندگی میں ایک آزاد اور خود مختار مملکت کا تصور ہی خوشیوں کی کہکشاں بن جاتا ہے۔ پنجرے میں مقید ایک پرندہ اپنے مالک سے فریاد کرتا رہتا ہے ''آزاد مجھ کو کر دے او قید کرنے والے'' برِصغیر پاک و ہند میں مسلمان ایک طویل مدت تک حاکمیت کے مزے لوٹتے رہے۔ اپنی نااہلی اور غفلت کی وجہ سے وہ اپنے ہی ملک میں غلام بن گئے۔ مسلم اقتدار کا چراغ گل ہو گیا۔ بہت سے مسلم اکابرین نے پژمردہ قوم کو بیدار کیا اور انہیں باردیگر آزادی کے لیے ابھارا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انقلاب ہمیشہ دانشوروں کے اذہان میں پیدا ہوتے ہیں۔ قومی رہنما خیالات کو عملی شکل میں ڈھالنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی نشاةثانیہ کا آغاز سر سید احمد خان نے دو قومی نظریے سے کیا۔ان کے ساتھ بہت سے ہم خیال لوگ مل گئے جنہوں نے انگریز حکمرانوں کو باور کروا دیا کہ ہندوستان میں مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں۔ کانگریس نے ہندوئوں کی نمائندگی کی تو مسلمانوں کو درپردہ کچلنے کا منصوبہ بنائے رکھا۔ 1906ء میں مسلم لیگ معرض وجود میں آئی۔ اس سے پہلے ہی 1905 ء میں انگریزوں نے تقسیم بنگال سے ہندوئوںکو خوش کرنا چاہا لیکن 1911ء میں تنسیخ بنگال کر کے مسلمانوں کی اشک شوئی کرنے کی رسم ادا کی۔ 1914ء سے 1918ء تک پہلی جنگ عظیم ، 1916ء میں شملہ معاہدہ اور پھر تحریک خلافت کے دوران ہندوئوں، سکھوں اور انگریزوں کے اصل چہرے سامنے آ گئے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال قانون ساز اسمبلی کے ممبر بنے۔ جواہر لعل نہرو نے 1928ء میں برِصغیرپاک و ہند کے سیاسی مسئلے کا حل پیش کیا۔ 1929ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کے چودہ نکات نے سیاسی ہلچل مچا دی۔اقلیم سخن، دانائے راز، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے 1930ء کے خطبہ الہ آباد میں مسلمانوں کے لیے ایک آزاد اور خود مختار مملکت کا خاکہ پیش کیا۔ چودھری رحمت علی نے اسے ''پاکستان'' کا نام دیا۔ 1935ء کے انڈین نیشنل ایکٹ کے تحت 1936ء میں الیکشن ہوئے۔ مسلم لیگ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1937ء کی کانگریسی وزارتوں نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ خالق کائنات نے مسلمانوں کے لیے ایک بڑا راستہ ہموار کر دیا۔ 3 ستمبر 1939ء کو دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی اور انگریزوں نے کانگریسی وزارتیں معطل کر دیں۔ دسمبر 1939ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کی اپیل پر یوم نجات بھی منایا گیا۔ لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کا ثمر قراردادِ لاہور کی صورت میں سامنے آیا۔
22مارچ1940ء جمعتہ المبارک کی سہ پہر بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے مقاصد کو واضح طور پر پیش کر دیا۔اس تاریخی جلسے نے حکمرانوں کی نیندیں اُچاٹ کر دیں۔ مسلمان دور دراز علاقوں سے منٹو پارک پہنچ گئے۔ سرفروشانِ آزادی نے تمام رکاوٹیں دور کر دیں۔ خطاب کے اگلے روزیعنی 23مارچ1940ء کوقراردادِ لاہور پیش کی گئی۔ یہ قرارداد صرف چار سو لفظوں پر مشتمل ہے۔شیر بنگال چودھری فضل الحق نے قائد اعظم کی تقریر کی روشنی میں ایک قرارداد پیش کی اور پھر وقت نے ثابت کر دیا کہ ڈاکٹرعلامہ محمد اقبالکے خواب کو تعبیر کی صورت مل گئی' مایوسی سے بند ہوتی آنکھوں کو تنویر مل گئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مسلمان متحد ہوئے وہ ہر جگہ اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑنے لگے ۔قراردادِ لاہور جسے بعد میں قراردادِ پاکستان کہا جانے لگا،میں جو نکات شامل تھے وہ یہ ہیں:
1۔ جغرافیائی لحاظ سے باہم متصل یونٹوں کے خطوں کی صورت میں حد بندی کی جائے اور یہ خطے ضرورت کے مطابق علاقائی رد و بدل کر کے اس طرح قائم کیے جائیں کہ ان علاقوں کو جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسا کہ برصغیر کے شمال مغربی اور مشرقی حصوں میں ہے، آزاد مملکتوں کی صورت میں اکٹھا کر دیا جائے جن کے اندر شامل ہونے والی اکائیاں خود مختار اور حاکمیت کی حامل ہوں۔
2۔ ان اکائیوں اور علاقوں کے دستور میں اقلیتوں کے مذہبی اور ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی حقوق و مفادات کی حفاظت کے لیے ان کے مشورے سے موثر تحفظات رکھے جائیں۔ اسی طرح کے تحفظات کے ذریعے ہندوستان کے ان حصوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، ان کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے۔ یہ اجلاس ورکنگ کمیٹی کو اختیار دیتا ہے۔ مذکورہ بالا بنیادی اصول کے بموجب ایسی دستوری سکیم مرتب کرے کہ جس میں ان ریاستوں کو سارے مسائل مثلاً دفاع، خارجی معاملات، رسل و رسائل، کسٹم اور دیگر ضروری امور کا اختیار دیا گیا ہو۔
24مارچ 1940ء کو اس قرارداد پر دستخط ہوئے ۔ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے مسلمان آج سوئے منزل چلے ۔ نتائج سے بے خوف ' زندگی آزادی کے سپرد کرنے والے ' اذانِ حق کے پرستار' قائد اعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ ''بن کے رہے گا پاکستان' لے کے رہیں گے پاکستان' پاکستان کا مطلب کیا' ' ایسے نعرے لبوں سے نہیں' دل سے بلند ہو رہے تھے۔ چشم فلک نے دیکھا کہ قوت ہار گئی اور جذبے جیت گئے۔ منٹو پارک لاہور میں قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں مسلمان ایک جھنڈے تلے اکٹھے ہوئے۔ بیگم مولانا محمد علی جوہر بھی قائدین میں شامل تھیں۔ انہوں نے تو اُسی وقت کہہ دیا تھا کہ قراردادِ لاہور ''قراردادِ پاکستان ''ہے ۔ ہندوستانی میڈیا نے بھی قراردادِ لاہور کو قراردادِ پاکستان لکھ کر افواہوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اعتراضات کی بارش شروع ہو گئی جس میں کچھ اپنے بھی شامل تھے۔ قرارداد کی منظوری کے بعد قائداعظم محمد علی جناح اور اُن کے رفقا حصولِ آزادی کے لیے سرگرم ہو گئے۔ عورتوں نے بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا۔ 25مارچ کولاہور میں مسلم لیگ ویمن ورکرز کا اجلاس منعقد ہوا جس میں قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ مسلمانانِ ہند کے سیاسی حل کے لیے مَیںبرِصغیر پاک وہند میں دونوں قوموں کے باعزت تصفیے کا خواہاں ہوں۔ خواتین کی شمولیت کے بغیر یہ تحریک اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتی۔ 31مارچ 1940ء تقسیم ہند کی سکیم کا اعلان ہوا جس کا مقصد ہندوستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کو اپنے موقف سے آگاہ کرنا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے قرارداد کی تفہیم کے لیے مختلف علاقہ جات میں جلسے منعقد کیے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ31مارچ 1940ء کو ہندوستان کے ایک مشہور اخبار سٹیٹسمین نے قرارداد پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ''مسلمان اپنے جُداگانہ تشخص اور کلچر کے احساس سے بخوبی آگاہ ہوچکے ہیں۔''10اپریل 1940ء کو برطانوی حکومت کی طرف سے ہندوستان کے سیاسی حالات اور معاملات پر ایک قرطاس ابیض (وائیٹ پیپر)شائع کیا گیا۔ یہ بات قابل تحسین ہے کہ 16اپریل 1940ء کوہندو رہنما اور کانگرس کے روح رواں مہاتما گاندھی نے محمد علی جناح کے ساتھ پہلی بار لفظ ''قائداعظم'' استعمال کیا۔ قراردادِ لاہور کی تائید میں برِصغیرپاک و ہند کے چھوٹے بڑے مقامات پر اجلاس منعقد ہوئے ۔
دوسری جنگ عظیم مسلمانوں کے لیے ایک تحفہ ثابت ہوئی۔ برطانیہ کی فوجی حالت کمزور ہو رہی تھی۔ اُنہیں ہندوستانیوں کے تعاون کی ضرورت تھی۔ اس لیے جون 1941ء میں ایگزیکٹو کونسل اور مشاورتی کونسل تشکیل دینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ وائس رائے نے گورنر بمبئی کی وساطت سے قائداعظم محمد علی جناح سے رابطہ قائم کر کے سر اکبر حیدری اور سر فیروز خان نون کو ایگزیکٹو کونسل میں شامل کر لیا۔ جولائی 1941ء کو لائل پور (موجودہ فیصل آباد)میں مسلم لیگ نے ایک کانفرنس منعقد کی جس میں مطالبۂ پاکستان کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔ حصولِ منزل کے لیے قائداعظم محمد علی جناح نے وائس رائے ہند لارڈ ویول سے کئی مذاکرات بھی کیے اور اُنہیں دو قومی نظریے کے بارے میں آگاہ کیا۔ بنگال مسلم سٹوڈنٹس کانفرنس میں قائداعظم کا پیغام ''اتحاد ، یقین اور تنظیم'' واشگاف الفاظ میں لوگوں تک پہنچایا گیا۔ 26اکتوبر 1941ء کو قائداعظم محمد علی جناح نے ہفتہ وار ' 'ڈان '' کا افتتاح کیا۔ 14 نومبر کو یہ اخبار روز نامہ کی حیثیت حاصل کر گیا۔ یاد رہے ! 30دسمبر 1945ء کو قائداعظم نے الطاف حسین کو اس اخبار کا مدیر مقرر کر دیا۔ قراردادِ لاہور نے اب قیامِ پاکستان کی تحریک کا روپ دھار لیا۔ 23مارچ 1942ء کو لاہور میں یومِ پاکستان منایا گیا۔ مسلمانوں کی غیر معمولی شرکت سے اندازہ ہو چکا تھا کہ اب مسلمان اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ 23مارچ 1942ء کو ہی سر سٹیفورڈ کرپس اپنی تجاویز لے کر ہندوستان آیا لیکن کرپس مشن اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکا۔ کانگرس کے کئی جلسوں میں اُن کے قائدین نے کہا کہ اب تو ہمیں مسلمانوں کے جلسوں میں پاکستان کی بو آنے لگی ہے ۔ ممتاز علمائے کرام نے قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ بھرپور معاونت کا بھی اعلان کیا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی ، مولانا اشرف علی تھانوی اور بہت سے علمائے کرام کی تائید سے تحریکِ پاکستان کو بہت تقویت حاصل ہوئی۔ کانگرس کی ہٹ دھرمیوں سے مسلم لیگ نے اپنی سرگرمیوں کو تیز تر کیا ۔ 8اگست 1942ء کو راج گوپال اچاریہ فارمولا سامنے آیا۔ اُس نے کانگرس کی حکمتِ عملی سے اتفاق نہ کیا اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ مسلمانوں کے خلاف قید و بند کا سلسلہ تیز تر ہو گیا،لیکن حکومت کا کوئی حربہ کامیاب نہ ہو سکا۔ 26جون 1943ء کو قائداعظم محمد علی جناح کراچی سے کوئٹہ پہنچے تو عوام الناس نے '' ہم معمارِ پاکستان کو خوش آمدید کہتے ہیں ''کے نعرے بلند کیے۔ مسلم لیگ کی مقبولیت بڑھتی گئی ۔ اپنوں، بیگانوں کی ریشہ دوانیاں سامنے آتیں رہیں۔ لیاقت علی خان کو مسلم لیگ کا جنرل سیکرٹری چنا گیا ۔ اُنہوں نے بھی قائداعظم کا شانہ بشانہ ساتھ دیا۔ 1944ء مسلمانوں کی بیداری کا سال ثابت ہوا۔ گاندھی اور اُن کے ہم نوائوں نے سازشوں کا جال بُنا لیکن اُن کی سازشیں کامیاب نہ ہوئیں۔ مارچ 1945ء میں قائداعظم محمد علی جناح نے واضح کر دیا کہ دونوں قومیں اکٹھی نہیں رہ سکتیں ۔ معیشت ، معاشرت، ثقافت، سیاست، سب حوالوں سے ہم ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ 25جون 1945ء کو شملہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں اس بات کو اُجاگر کیا گیا کہ مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے ۔ 14جولائی 1945ء کو ویول پلان سامنے آیا ۔ مسلمانوں نے اسے ترک کر کے اپنے جداگانہ تشخص کا اظہار کیا۔ نومبر1945ء میں مسلم لیگ کانفرنس پشاور میں منعقد ہوئی جس میں اُنہوں نے کہا '' مسلمان ایک خدا ، ایک کتاب اور ایک رسول ۖ پر یقین رکھتے ہیں۔مسلم لیگ کی کوشش یہ ہے کہ ان کو ایک پلیٹ فارم پر ایک پرچم تلے جمع کیا جائے اور یہ پرچم پاکستان کا پرچم ہے ۔ ''1945-46ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے انتخابات فتح کر لیے ۔ قائداعظم نے واضح کر دیا کہ ہندوستان کی تقسیم کے علاوہ یہاں کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔قرارداد دہلی 9 اپریل 1946ء بھی ملاحظہ ہو:
1۔وہ علاقے یعنی شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان، جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں یعنی پاکستان کے علاقے، انہیں ایک آزاد اور خود مختار مملکت کا درجہ دیا جائے۔ اس سلسلہ میں یقین دہانی کرائی جائے اور پاکستان کی تشکیل کے سلسلے میں اس پر بلاتاخیر فوری طور پر عملدرآمد کیا جائے۔
2۔ہندوستان اور پاکستان کے عوام کے لیے دو آئین ساز مجالس تشکیل دی جائیں تاکہ وہ دونوں اپنے اپنے آئین تیار کریں۔
3۔پاکستان اور ہندوستان کی اقلیتوں کو کل ہند مسلم لیگ کی قرارداد 23 مارچ 1940ء کی روشنی میں تحفظات فراہم کیے جائیں۔
4۔مرکز میں عارضی حکومت کے قیام کے سلسلے میں مسلم لیگ کے تعاون کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ مسلم لیگ کے مطالبے یعنی پاکستان کی تشکیل کے سلسلے میں بلاتاخیر عملدرآمد کیا جائے۔
7تا10اپریل 1946ء مسلم لیگ کی جانب سے مرکزی اور صوبائی مجالس قانون ساز میں منتخب ممبران کا ایک عظیم الشان کنونشن نئی دہلی میں منعقد ہوا جس میں پانچ سو سے زیادہ منتخب ارکان نے شرکت کی۔ کنونشن میں خود مختار پاکستان کی قرارداد منظور کی گئی۔ مسلم لیگ کی فتوحات کے سامنے کانگرس اپنی اہمیت کھو چکی تھی۔ کابینہ مشن نے بھی اپنا زور لگا لیا۔5تا12مئی 1946ء کو شملہ کانفرنس منعقد ہوئی ۔ مجموعی طور پر یہ کانفرنس بھی مسلمانوں کے موقف کے سامنے کامیاب نہ ہوسکی۔ تاجِ برطانیہ کو اپنے وفود کی ناکامی کی وجہ سے 3جون 1947ء کو تقسیم ہند کا اعلان کرنا پڑا۔ یہ اعلان سنتے ہی برصغیرپاک و ہند میں ہنگامی صورت حال پیدا ہوگئی۔ کئی علاقہ جات میں سول نافرمائی نے سر اُٹھایا ۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے اپنا منصوبہ پیش کر دیا ۔ سندھ اسمبلی میں منعقدہ اجلاس ''پاکستان زندہ باد'' کے نعروں سے گونج اُٹھا۔ قائداعظم نے پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے ، پاکستان فنڈ کا اعلان کیا ۔ 6جون 1947ء کے اس اعلان کے بعد مسلمانوں نے دل کھول کر عطیات دیے۔ 11جون 1947ء کو وائس رائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن نے تقسیم ملک کا منصوبہ مان لیا۔ 4جولائی 1947ء برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ اٹیلی نے دارلعوام میں قانون آزادیٔ ہند کا مسودہ پیش کیا۔ اس قانون کی تحت دونوں ملکوں (یعنی پاکستان اور ہندوستان ) کو اپنی اپنی خود مختار حکومتیں بنانے کی اجازت دے دی گئی۔ مختلف علاقوں کے ریفرنڈم بھی پاکستان کے حق میں ہوئے۔ 6-7جولائی 1947ء کو سرحد اور بلوچستان نے بھی پاکستان میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ 8جولائی 1947ء کو ریڈ کلف نے حد بندی کی جب کہ 10جولائی 1947ء برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ اٹیلی نے قائداعظم محمد علی جناح کو پاکستان کا پہلا گورنر جنرل تسلیم لیا۔ 14جولائی 1947ء کو قائداعظم نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ''ہم پوری دنیا میں امن کے تمنائی ہیں۔ عالمی امن قائم کرنے کے لیے ہم اپنی استطاعت اور توفیق کے مطابق اپنے حصے کا کردار خوش اسلوبی سے انجام دیں گے۔ '' 20جولائی 1947ء کوبنگال اسمبلی نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا۔ جب کہ 26جولائی 1947ء کو سندھ کی قانون ساز اسمبلی نے پاکستان کو خوش آمدید کہا۔ 7اگست 1947ء کو محمد علی جناح انتقالِ اقتدار کے امور کے لیے کراچی تشریف لائے۔ اُنہیں 11اگست1947ء کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے لیے بطور چیئرمین چن لیا گیا۔ 11اگست 1947ء وفاقی قانون ساز اسمبلی میں قائداعظم نے فرمایا''اس برصغیر میں دو آزاد اور خود مختار مملکتوں کے قیام کے منصوبے سے جو عدیم المثال طوفانی انقلاب آیا ہے اس پر ہم خود ہی حیران نہیں بل کہ ساری دنیا ششدررہ گئی ہے ۔ اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوش حال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پوری توجہ لوگوں اور بالخصوص غریب طبقے کی فلاح و بہبود پر مرکوز کرنا پڑے گی۔ ''1857ء کو آزادی کا بجھا ہوا چراغ 90 سال بعد پھر روشن ہو گیا۔ 14اگست 1947ء کو ہم آزادی کی دہلیز پر پہنچ گئے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عبدالرشید نے قائداعظم محمد علی جناح سے گورنر جنرل پاکستان کا حلف لیا۔ غموں کی شام ڈھل گئی اور آزادی کا سورج طلو ع ہوا۔
23مارچ1940ء کو پیش کی جانے والی قرارداد تاریخِ عالم میں وہ پہلی قرارداد ہے جس نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی اور ظلمت کے اندھیروں میں بھٹکتی ہوئی قوم کو آزادی کی روشنی عطا کی۔ اندھیرے سے اُجالے تک کے اس سفر میں مسلمانوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا' ان کا تصور ہی دل دہلا دینے کو کافی ہے۔ مسلمانوں کو آگ و خون کا دریا عبور کرنا پڑا' بہنوں کی عصمتیں لوٹی گئیں' بھائیوں کے سر تن سے جدا کر دیے گئے' کتنے معصوم بچے یتیم ہوئے' کتنی عورتیں بیوہ ہوئیں۔ مسلمانِ قوم نے ایک آزاد مملکت کو پانے کے لیے جذبۂ ایمان سے سرشار ہو کر اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیا۔خواب سے حقیقت تک کے سفر میں ہم نے ایثار ، قربانی، صبر و تحمل، جذبۂ اخوت کا جو مظاہرہ کیا۔آج تعمیر ِ پاکستان کے لیے اُسی جذبے کی ضرورت ہے ۔ قوموں کی زندگی میں تغیر و تبدل آتے رہتے ہیں۔ حکمران بدلتے رہتے ہیں لیکن ریاست قائم رہتی ہے ۔ 23مارچ 1940ء کو ہم سوئے منزل چلے ۔ ہمیں استحکامِ وطن کے لیے اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ دفاعی ادارے پاکستان کی سلامتی و بقاء کے لیے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ مُحبانِ وطن کو شر پسند عناصر کے خلاف متحد ہوکر کام کرنا چاہیے۔ ہماری بقا کا راز پاکستان کے استحکام میں مضمر ہے ۔ پاکستان ہماری پہچان ہے ۔ ہمارے لیے ایک سائبان ہے ۔ ہماری تمام تر ترقی کا راز ایک مستحکم پاکستان میں پنہاں ہے ۔ اہلِ قلم کا فرض ہے کہ وہ قوم کو مایوسی کی دلدل سے نکال کر ایک مستحکم ترین پاکستان کی نوید سے فیض یاب کریں۔
تعارف:مضمون نگار ممتاز ماہرِ تعلیم ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے