ریحان کے بابا کا تبادلہ لاہور ہوگیا تھا۔ اس وجہ سے اسے ایک بار پھر اپنا اسکول چھوڑنا پڑرہا تھا۔ یہ ہر سال کا معمول بن گیا تھا۔نئے اسکول میں اس کا دل لگتا ہی تھا کہ اس کے بابا کا تبادلہ کسی نئی جگہ پر ہو جاتا۔ پہلے پہل اس کو یہ بہت مشکل لگتا تھا اور اس کے لیے اذیت کا باعث بنتا تھاکیونکہ وہ بہت جلد لوگوں میں گھل مل نہیں سکتا تھا۔ اسے دوست بنانے میں بہت دقت ہوتی تھی۔ آہستہ آہستہ ریحان نے اس بات کو تسلیم کرلیا کہ تبادلے اس کے بابا کی ملازمت کا حصہ ہیں۔اب وہ پہلے کی طرح پریشان نہیں ہوتا تھا۔ اسکول اور دوستوں کو چھوڑتے وقت اسے اداسی تو ہوتی تھی لیکن وہ اس اداسی کو سر پر سوار نہیں کرتا تھا۔
ان سب کو لاہور شہر کو اپنانے میں کچھ دن لگے، پھریہاں بھی دل لگ گیا۔ والدین کی توقع کے مطابق ریحان اور اس کے چھوٹے بھائی عاشر کو ایک اچھے اسکول میں داخلہ مل گیا۔ دونوں خوش تھے۔ انہیں اپنا اسکول بہت اچھا لگا۔ کشادہ اور ہوادار کمرے، ہرا بھرا گرائونڈ، شفیق اور تجربہ کاراساتذہ، یہی وجہ تھی کہ وہ شوق سے اسکول جاتےاور واپسی پراسکول میں گزارے لمحات کی روداد اپنی امی کو بتاتے تھے۔
”امی!کیا آپ جانتی ہیںکہ اسکول میں ہمارے چھ دوستوں کا گروپ ہے۔ ہم خوب موج مستی کرتے ہیں“،ریحان نے فخر سے بتایا۔
”کیا؟ آپ اسکول میں پڑھائی سے زیادہ موج مستی کرتے ہو؟“ امی نے مسکرا کر کہا۔
”امی جان! تعلیم کے ساتھ ساتھ تفریح بھی ہونی چاہیے تاکہ تعلیم میں دل لگا رہےاور بوریت بھی نہ ہو“، ریحان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
پہلی مرتبہ ریحان کی امی کو اس کی سوچ میں تبدیلی محسوس ہوئی کیونکہ وہ بہت سنجیدہ مزاج تھا، خاص طور پر پڑھائی کے معاملے میں تو بہت ہی ذمہ دار تھا۔
”کل سے میں لنچ نہیں لے کر جائوں گا۔“
ریحان کی بات پر امی چونکیں۔ ”کیوں ؟آج سے پہلے تو آپ ہمیشہ اپنی پسند کا لنچ لے کر جاتے تھے ۔آپ ہی تو کہتے ہیں کہ گھر کا کھانا صحت افزا ہوتا ہے۔“
”امی جان! اب میں بڑا ہوگیا ہوں۔ نہم کا طالبعلم ہوں ۔میرے گروپ کے تمام دوست کینٹین سے لنچ کرتے ہیں اور میں بھی آئندہ ایسا ہی کروں گسا۔‘‘
......
ریحان کافی دیر سے اپنے دوستوں کو ڈھونڈ رہا تھا تاکہ کینٹین جاکر ان کے ساتھ لنچ کرے لیکن وہ کہیں نہیں مل رہے تھے۔آخر کار اس نےاپنے ایک ساتھی سے پوچھا۔اس نے ایک عجیب سی نگاہ ریحان پر ڈالی اور بولا، ”کیا تم نہیں جانتے وہ بریک کے دوران کہاں پائے جاتےہیں اور کیا کرتے ہیں ؟“
”نہیں۔مجھے تو اس بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔ میں ان کو ڈھونڈ رہا ہوں تاکہ کینٹین جا کر ان کے ساتھ لنچ کروں“، ریحان نے معصومیت سے کہا۔
”ٹھیک ہے۔وہ کھجور کے درخت کے نیچے ملیں گے۔جا کر دیکھ لو۔“
ریحان ان کو ڈھونڈتا ہوا اس جگہ پہنچا تو اسے دوستوں کو دیکھ کر حیرت ہوئی۔
”تم یہ کیا کر رہے ہو؟ اگر تمہیں یہ سب کرتے ہوئے کسی نے دیکھ لیا تو جانتے ہو اس کا انجام کیا ہوگا ؟“ریحان نے اپنے دوستوں کو ڈرایا۔
”ہم کچھ غلط نہیں کررہے۔ ہم تو صرف زندگی کے مزے لے رہے ہیں۔“ ریحان اپنے ایک دوست کی بات سن کر سٹپٹا گیا۔
”آئو،تم بھی ہمارے ساتھ آ جائو۔“ ابھی وہ سب ریحان کو اکسا ہی رہے تھے کہ بریک ختم ہونے کی گھنٹی بجی اور وہ سب کمرہ جماعت میں چلے گئے۔
چھٹی کے وقت دوسری کلاسوں کےچند لڑکے ریحان کے دوستوں سے عجیب سےپیکٹ لے رہے تھے۔ ریحان کو تجسس ہورہا تھا کہ یہ کیا چیز ہے۔ چونکہ اس کا بھائی اس کے ساتھ تھا اس لیے اس نے اپنے دوستوں کے پاس جا کر ان سے پوچھنا مناسب نہ سمجھا اور سیدھا گھر آگیا۔ وہ سارا دن اپنے دوستوں کے بارے میں سوچتا رہا۔ کھانا بھی بے رغبتی سے کھایا۔ ریحان کی اس بےچینی کو سب نے محسوس کیا۔
.....
دوسرے دن ریحان صبح اسکول جاتے ہی سب سے پہلے اپنے دوستوں سے ملا اوراس پیکٹ کے بارے میں دریافت کرنے لگا۔
”وہ توطاقت کے پیکٹ ہیں۔ اسی لیے تو یہ ہم سے ہر کوئی خوشی خوشی خریدتا ہے۔ کیا تم بھی خریدو گے ؟“
” تم ہمارے دوست ہو،اس لیے پہلی بار ہماری طرف سےیہ تحفہ قبول کرو! ‘‘
”رہنے دو، ریحان تو ابھی چھوٹا ہے، یہ استعمال نہیں کرے گا‘‘، ایک دوست نے اسے جوش دلانے کی کوشش کی۔
”میں چھوٹا نہیں ہوں“، ریحان نے پُر جوش ہو کر کہا۔
”ٹھیک ہے چھوٹے نہیں ہو تو پھر یہ کھا کر دکھائو۔‘‘
”یہ کیا ہورہا ہے۔ کیا کلاس نہیں لینی اسٹوڈنٹس!“ایک ٹیچر وہاں سے گزریں اور ڈانٹ کر سب کو کلاس میں بھیجا۔
چھٹی کے وقت ریحان کے دوست نے چپکے سے اس کے بیگ میں وہی پیکٹ ڈال دیا اور اس کے کان میں کہا،”اسے اپنے کمرے میں جا کر استعمال کرنا۔“
.......
ریحان اور اس کا بھائی گھر آئے تو اس کے امی ابو ان کا انتظار کررہے تھے۔
”کیا ہوا امی جان!کیا ہم کہیں جارہے ہیں ؟“
”جی بیٹا ہم کراچی جارہے ہیں۔ آپ کے کزن احمد کی طبیعت بہت خراب ہے۔ وہ ہسپتال میں ہے“، امی نے پریشانی سے کہا۔
”اللہ خیرکرے! کیا ہوا احمد بھائی کو... کچھ ماہ پہلے تو ہماری ملاقات ہوئی تھی، تب تووہ بالکل ٹھیک تھا۔“
’’سوال کرنا بند کرو اور جا کرجلدی سے کپڑے تبدیل کر لو تاکہ ہم کراچی کے لیے روانہ ہوں“،بابا جان نے اسے تاکید کی ۔
”جی بابا جان! میں ابھی آیا۔“
ریحان کے امی اور ابوسفر کے دوران احمد کے بارے میں بات کرتے رہے کہ وہ کتنا قابل تھا، ہر جماعت میں اول آتا تھا، بیت بازی میں اس سے کوئی جیت نہیں سکتا تھا، اس کی صحت ایسی تھی کہ ہر کوئی اس پر رشک کرتا تھا۔“
ہسپتال پہنچے تو احمد پہچانا ہی نہیں جا رہا تھا۔ بستر پر پڑا وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ لگ رہا تھا۔ اس کا سرخ و سفید چہرہ اب زرد پڑ چکا تھا۔ اس کی سانسیں اُکھڑ رہی تھیں۔ ریحان کے ابو نے ڈاکٹروں سے احمد کی طبیعت کا پوچھا۔
”نشے کی عادت نےاس کی یہ حالت کر دی ہے۔ اس کے جسم کا ہر حصہ شدید متاثر ہے“، ڈاکٹر کی بات سن کر ریحان کے ابو کی آنکھیں نمناک ہوگئیں۔
دوسری طرف احمد کے والدین کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔اس کی والدہ ایک ہی بات کہے جارہی تھیں،”مجھے پتا ہوتا کہ اس چھوٹے سے پیکٹ میں کیاہے تو میں اسے کبھی اس لت کا شکار نہ ہونے دیتی۔“
پیکٹ کا سنتے ہی ریحان چونک گیا۔ اس کے دوستوں نے بھی اسے ایک پیکٹ دینے کی کوشش کی تھی۔ احمد نے عزم کیا کہ وہ کسی کے بہکاوے میں نہیں آئے گا۔ اپنے دوستوں کو بھی اس بری عادت کو ترک کرنے پر آمادہ کرے گا تاکہ کوئی اس لت کا شکار ہوکر اپنی قیمتی جان دائو پر نہ لگا دے۔
تبصرے