اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 19:15
اداریہ۔ جنوری 2024ء نئے سال کا پیغام! اُمیدِ صُبح    ہر فرد ہے  ملت کے مقدر کا ستارا ہے اپنا یہ عزم ! روشن ستارے علم کی جیت بچّےکی دعا ’بریل ‘کی روشنی اہل عِلم کی فضیلت پانی... زندگی ہے اچھی صحت کے ضامن صاف ستھرے دانت قہقہے اداریہ ۔ فروری 2024ء ہم آزادی کے متوالے میراکشمیر پُرعزم ہیں ہم ! سوچ کے گلاب کشمیری بچے کی پکار امتحانات کی فکر پیپر کیسے حل کریں ہم ہیں بھائی بھائی سیر بھی ، سبق بھی بوند بوند  زندگی کِکی ڈوبتے کو ’’گھڑی ‘‘ کا سہارا کراچی ایکسپو سنٹر  قہقہے اداریہ : مارچ 2024 یہ وطن امانت ہے  اور تم امیں لوگو!  وطن کے رنگ    جادوئی تاریخ مینارِپاکستان آپ کا تحفظ ہماری ذمہ داری پانی ایک نعمت  ماہِ رمضان انعامِ رمضان سفید شیراورہاتھی دانت ایک درویش اور لومڑی السلام علیکم نیا سال، نیا عزم نیا سال مبارک اُمیدِ بہار اے جذبہء دل معراج النبیﷺ   علم کی شمع روشنی قومی ترانے کے خالق ابوالاثرحفیظ جالندھری نئی زندگی سالِ نو،نئی اُمید ، نئے خواب ! کیا تمہیں یقین ہے صاف توانائی ، صاف ماحول پانی زندگی ہے! تندرستی ہزار نعمت ہے! قہقہے اداریہ  ہم ایک ہیں  میرے وطن داستان ِجرأت پائلٹ آفیسرراشد منہاس شہید کامیابی کی کہانی  امتحانات کی تیاری ہم ہیں بھائی بھائی ! حکایتِ رومی : جاہل کی صحبت  حسین وادی کے غیر ذمہ دار سیاح مثبت تبدیلی  چچا جان کا ریڈیو خبرداررہیے! ستارے پانی بچائیں زندگی بچائیں! قہقہے بسم اللہ الرحمن االرحیم پہلی بات  السلام علیکم ورحمتہ اللہ ! زندہ قوم  قرار دادِ پاکستان پاکستان سے رشتہ کیا رمضان المبارک   عید مبارک! عید آئی  پیاری امّی! بوجھو تو جانیں! موسم کے رنگ مقصد ِحیات زیرو ویسٹ چیلنج فضائیں وطن کی ہمارے پانی آباد رہیں! 22 مارچ پانی کے عالمی دن پر خصوصی تحریر انگور پاکستان کا قومی جانور مارخور 3 مارچ ... ورلڈ وائلڈ لائف ڈے پرخصوصی تحریر قہقہے
Advertisements

راضیہ سید

مضمون نگار گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور رپورٹر ، محقق اور پروڈیوسر وابستہ ہیں ، کالم اور بلاگس کے ساتھ ساتھ افسانے بھی تحریر کرتی ہیں ۔ [email protected]

Advertisements

ہلال کڈز اردو

مثبت تبدیلی 

فروری 2025

شیراز اپنے محلے میں پھیلنے والی گندگی سے بہت پریشان تھا۔ وہ بہت اچھا اور صاف ستھرا بچہ تھا۔ اسے اپنے کپڑوں اور جسمانی صفائی کا بہت خیال رہتا تھا لیکن وہ جس محلے میں رہتا تھا وہاں کے لوگ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ گندگی اچھی چیز نہیں ہوتی۔ وہاں کی خواتین اپنے گھرکے باہرکوڑا کرکٹ کا ڈھیر لگا دیتی تھیں جس پرمکھیاں بھنبھناتی رہتیں۔ جب کوڑا کرکٹ نالیوں میں جاتا تو نکاسی آب کا نظام درہم برہم ہوجاتا اور نالیاں گندے پانی سے ابلتی رہتیں۔ اتنی زیادہ گندگی کی وجہ سے شیراز سمیت محلے کے بہت سے بچے بھی بیمار رہنے لگے تھے۔ 
محلے کے ڈاکٹر کی بھی چاندی ہو گئی تھی۔ رات دن اس کے کلینک پر عورتوں اور بچوں کا رش لگا رہتا۔ بچے کھانستے رہتے اور بخار سے زرد پڑ جاتے۔ شیراز بھی دن بہ دن کمزور ہوتا جا رہا تھا۔ آج اس کا دل کھانا کھانے کو بھی نہیں چاہ رہا تھا ۔ اس کی امی نے کئی بار اس سے کھانے کا پوچھا تو اس نے انکار کر دیا۔
شیراز کی اس حالت پر اس کی امی بہت پریشان ہو گئیں۔ انھوں نے شیراز کے ابو کو اس کی حالت کے بارے میں بتایا تو وہ شیراز کو قریبی ہسپتال لے گئے، جہاں اس کا علاج معالجہ ہوا۔ تندرست ہونے کے بعد شیراز نے سوچا کہ اپنے محلے کی بہتری کے لیے کچھ عملی اقدام اُٹھانے چاہئیں۔وہ پندرہ برس کا تھا۔ اس نے اپنے دوستوں اور محلے کے بچوں کے ساتھ مل کر ایک صفائی مہم کا آغاز کیا ۔گلی محلے سے کوڑا کرکٹ اکٹھا کر کے انھیں میونسپل کی گاڑیوں میں پہنچایا اوربند نالوں کو کھولنے کے لیے کئی صفائی کرنے والے سینٹری ورکرز کی خدمات حاصل کیں۔ 
علاقے کے بزرگ یہ سب دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔جب ایک خاتون  نے اپنے گھر کا کوڑا باہر پھینکنا چاہا تو صاف ستھری گلی دیکھ کر اس کی ہمت نہ ہوئی اور وہ گندگی پھیلانے کے عمل سے باز رہی۔ آہستہ آہستہ تبدیلی کا یہ سفر جاری رہا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی یہ کاوش دیکھ کرمحلے کے بڑے بھی اس میدان میں اتر آئے۔انہیں اپنے بچوں پر فخر تھا۔ انہوں نے مل کر چندہ جمع کیا اور دیواروں پر نیا پینٹ کروادیا۔نالیوں کے کنارے پختہ کر کے سیوریج کے نظام کوبہتر بنایا اور گٹروں کی صفائی بھی کروائی۔ چند دنوں میں پورے محلے کا نقشہ ہی بدل گیا۔ اب وہاں مکھیاں تھیں نہ مچھر اور نہ ہی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر دیکھنے کو ملتے تھے۔ 
خاور صاحب جو محلے کے سرکردہ شخص تھے، انہوںنے شیراز کی بہت تعریف کی اور کہا کہ انفرادی کوشش سے اجتماعی سوچ میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے اور یہ مثبت تبدیلی شیراز لے کر آیا ہے۔ ہم بڑے تو خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ کر بیٹھے ہوئے تھے لیکن شیراز اوراس جیسے پیارے پیارے بچوں نے اس محلے کو اپنا گھر سمجھ کر صاف کیا جس کے لیے وہ سب مبارکباد اور انعام کے حقدار ہیں۔خاور صاحب نے بچوں کو نقد انعام دیے اوران کی خوب حوصلہ افزائی کی جس سے وہ سب اچھے اچھے کام کرنے کے لیے اور بھی پُرعزم ہوگئے۔
 

راضیہ سید

مضمون نگار گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور رپورٹر ، محقق اور پروڈیوسر وابستہ ہیں ، کالم اور بلاگس کے ساتھ ساتھ افسانے بھی تحریر کرتی ہیں ۔ [email protected]

Advertisements