مجھے نہیں معلوم میں خورشید رضوی کی شاعری کی طرف کب متوجہ ہوا تھا۔ بس اتنا یاد ہے کہ کوئی چار ساڑھے چار دہائیاں پہلے میں فیصل آباد میں تھا اور کسی دوست سے یہ شعر سنا تھا:
یہ دور وہ ہے کہ بیٹھے رہو چراغ تلے
سبھی کو بزم میں دیکھو مگر دِکھائی نہ دو
یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونین کے الیکشن ہو رہے تھے اور میں بھی الیکشن لڑنے والوں میں شامل تھا۔ ہر روز جلسے ہوتے اور ہمیں تقریریں کرنا ہوتیں لہٰذا کوشش کرتے کہ اس میں کچھ نیا ہو۔ تقریر کی تیاری کی کوئی ایسی ہی نشست میں، میں نے یہ شعر سنا تھا۔ پوچھا کس کا شعر ہے؟ بتایا گیا ؛ سرگودھا میں ایک شاعر ہیں خورشید رضوی۔ ہم نے اس مہم میں کئی شاعروں کا کلام پڑھا یا سنا ہو گا مگر خورشید اور سرگودھا یہ دو نام میرے ذہن سے چپک کر رہ گئے، یوں کہ خورشید ہی میرے بڑے بھائی کا نام ہے جو ان دنوں سرگودھا کے ایک کالج میں پڑھ رہے تھے۔ یونیورسٹی یونین کا الیکشن میں ہار گیا۔ الیکشن کیا ہارا میں طلبہ سیاست سے ہی کنارہ کش ہو گیا۔ مجھے یوں لگنے لگا تھا جیسے میں اپنے آپ کو تباہ کر رہا تھا۔ یہاں جون ایلیا کا شعر یاد آتا ہے:
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
خیر، مجھے ملال ہو رہا تھا اور ہمت کر کے اس دلدل سے نکل آیا تھا۔ ادھر سے فرصت ملی تو پڑھنے لکھنے کی طرف یکسوئی سے راغب ہو گیا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب میں نے اپنی پہلی کتاب لکھی تھی اور وہاں محفل ہوٹل میں جاکر ادیبوں اور شاعروں کی مجلس میں بیٹھنے لگا تھا۔ انہی دنوں مجھے خورشید رضوی کی کتاب 'شاخِ تنہا 'نظر آئی تھی۔ تب کا خریدا ہوا نسخہ ابھی تک میرے پاس کتابوں کے ذخیرے میں موجود ہے۔ وہ غزل جس کا ایک شعر میری یادداشت کا حصہ ہو گیا تھا، اسی مجموعے میں شامل تھی۔ غزل کا مطلع تھا:
یہی ہے عشق کہ سر دو، مگر دہائی نہ دو
وفورِ جذب سے ٹُوٹو مگر سنائی نہ دو
خورشید رضوی مجھے ایسے شاعروں سے مختلف لگے تھے جو نیا نظر آنے کی دھن میں زبان کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔ زبان ان کے ہاں صاف ستھری تھی، وہ کسی متروک لفظ کو استعمال کر کے متوجہ کر رہے تھے نہ تراکیب میں عجب رکھ کر، تاہم ان کے ہاں عربی فارسی کی لفظیات بہت سلیقے سے شعر کا حصہ ہو رہی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ غزل کا خالص مزاج اور اس کا اپنا لسانی آہنگ انہیں محبوب تھا۔ اسی کتاب کی ایک اور غزل کا شعر ہے:
مصالحت بھی نہیں ہے سرشت میں اپنی
مگر کسی سے تصادم کا حوصلہ بھی نہیں
"شاخِ تنہا" کی شاعری پڑھنے کے بعد خورشید رضوی کی جو شخصیت میں نے اپنے ذہن میں بنائی وہ ایک ایسے شاعر کی تھی جو غزل کی روایت میں کوئی سنگین اکھاڑ پچھاڑ نہیں چاہتا تھا مگر کلاسیکیت کا اندھا مقلد بھی نہیں تھا۔ ایسے شخص کی شاعری کے بہت جلد مقبول ہو جانے کا امکان کم کم ہوتا ہے۔ یہی سبب رہا ہو گا کہ خورشید رضوی کے ہم عمر معاصر شعرا نے کوئی نہ کوئی ایسا حیلہ ضرور ایجادیااختیار کیا کہ وہ مختلف نظر آئیں۔ اپنی جگہ اچھے شاعر ہونے کے باوجود اپنی الگ شناخت بنانے کے لیے یہ کوئی معیوب عمل نہ سہی مگر خورشید رضوی نے ایسا گوارا نہ کیا۔ یہی سبب ہے کہ جب تک قاری اس شاعر کو الگ تھلگ بیٹھ کر توجہ سے نہیں پڑھے گا ان کیفیات کو نہ پا سکے گا جو یہاں شعر کا مزاج بناتی ہیں۔
ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ مجھ تک خورشید رضوی کا جو پہلا تعارف پہنچا وہ سرگودھا کے ایک شاعر کا تھا۔ سرگودھا ہی میں میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ نہیں، شاید یہ درست نہیں ہے کہ محض ایک بیٹھک میں کسی سے علیک سلیک ہو جانے کو ملاقات کیسے کہا جا سکتا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ انہیں یہ یاد تک نہ ہو گا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا بھی تھا یا نہیں۔ تب میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور سرگودھا میں ریلوے روڈ پر واقع وزیر آغا کی رہائش گاہ پہنچا تھا۔ وزیر آغا اپنے گھر میں مجلس جمائے بیٹھے تھے۔ اگر میں کچھ بھول نہیں رہا تو وہاں جن شخصیات کو میں نے دیکھا ان میں خورشید رضوی کے علاوہ غلام جیلانی اصغر اور شاید سجاد نقوی اور غلام الثقلین نقوی بھی تھے۔ خورشید رضوی اس وقت تک میری توجہ حاصل کر چکے تھے اس لیے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہاں انہیں دیکھا تھا مگر سجاد نقوی اور غلام الثقلین نقوی کے ذکر کے ساتھ شاید اس لیے لگا دیا ہے کہ اب ان کا چہرہ تک یاد سے محو ہو گیا ہے۔ سجاد نقوی کا نام وزیر آغا کے نام کے ساتھ اوراق میں شائع ہوتا رہا اور غلام الثقلین نقوی کا ناول 'گائوں' کچھ برس بعد پڑھا، ہر دو صورتوں میں ان کا نام پڑھ کر ان کے چہرے میری یاد داشت میں چمکتے نہ تھے۔ ہاں غلام جیلانی اصغر نے اس مجلس میں ایسے چٹکلے چھوڑے تھے کہ وہ مجھے بعد میں بھی یاد رہ گئے تھے اور ابھی تک یاد ہیں۔
غلام جیلانی اصغر کا ذکر آیا تو یہیں اس کتاب کا ذکر بھی ہونا چاہیے جس میں اس شخص پر خورشید رضوی کا طویل مضمون پڑھا تھا۔ کتاب کا نام'' تالیف ''ہے۔ خورشید رضوی کا پہلا شعری مجموعہ پڑھنے سے لے کر اس کتاب کو حاصل کرنے تک، بیچ میں سات ساڑھے سات برس بیت چکے تھے۔ یہ کتاب میرے لیے اس مضمون کی وجہ سے نہیں، ایک اور مضمون (بلکہ کئی اور مضامین)کی وجہ سے اہم تھی مگر شاید خورشید رضوی کے لیے غلام جیلانی اصغر پر لکھا گیا مضمون زیادہ اہم رہا ہو گا کہ انہوں نے ''تالیف'' کے ابتدائی مضامین میں اسے رکھا تھا۔ کتاب کا پہلا مضمون انور مسعود پر ہے اور دوسرا غلام جیلانی اصغر پر۔ مجھے اسی مضمون سے معلوم ہوا تھا کہ جب خورشید رضوی گورنمنٹ کالج سرگودھا میں پڑھاتے تھے تو غلام جیلانی اصغر وہاں پرنسپل تھے۔
تب وہ گورنمنٹ کالج سرگودھا کے شعبہ عربی کے استاد تھے۔ وہ ایک لحاظ سے سرگودھا کے نہ تھے کہ 19 مئی 1942 کو امروہہ میں پیدا ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد ہجرت ان کا تجربہ ہوئی اور پاکستان آ گئے۔ ساہیوال میں پڑھتے رہے، کالج کی تعلیم لاہور سے پائی۔ پی ایچ ڈی بھی پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کی مگر ملازمت کا ایک زمانہ سرگودھا میں گزرا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہجرت، بے گھری، نقل مکانی یا پچھتاوا اور ناسٹیلجیا جیسے محرکات ان کی شاعری کا سامنے کا حوالہ نہیں بنے تھے جو اس طرح کے بہت اہم تجربوں سے گزرنے والوں کے ہاں سطح پر تیرتے محسوس ہوتے ہیں۔ مجھے ان کی شخصیت میں ایک تہذیب سے جڑت نظر آتی ہے جس نے خود ان کی اپنی تخلیقی شخصیت کی بھی تہذیب کی ہے۔ ان کے ہاں حد درجے کا ٹھہرائو ہے ؛ دھیرے دھیرے بہنے والی ندی کے اس پانی جیسا ٹھہرائو جس کے اندر جھانکیں تو تہہ تک جھلک دے جاتی ہے۔ خورشید رضوی کی شاعری کے مرکز میں ٹکڑوں اور گروہوں میں بٹا ہوا انسان نہیں، مکمل انسان ہے۔ جی، وہ انسان جو اس کائنات میں پھینک نہیں دیا گیا بلکہ مرکز میں لا کھڑا کیا گیا ہے۔ اس احساس کے ساتھ کہ یہ کائنات اس کی ہے مگر جب یہی انسان اپنی نارسائیوں کو دیکھتا ہے تو اس کے اندر سے شدید المیے کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ خورشید رضوی کا مسئلہ یہی کیفیت ہے۔ اس کیفیت کو اپنے شعر کا حصہ بنانے کے لیے وہ کسی وقوعے کا سہارا نہیں لیتے کہ انسانی جبلت ہی وہ منبع و مرکز ہے جہاں سے المیے کی کیفیت پیدا ہوتی رہتی ہے۔
لیا ہے خاک میں خود کو ملا، ملا نہیں کچھ
یہ کار زیست عبث ہے یہاں رکھا نہیں کچھ
یہ شعر میں نے خورشید رضوی کے شعری مجموعے پس نوشت کی ایک غزل سے لیا ہے اور اس میں وہ انسان پوری طرح نشان زد ہو رہا ہے جس نے خدا کا نائب ہو کر کائنات کے مرکز میں کھڑا ہونا چاہا اور اس حیثیت میں تفویض کردہ فرائض کو ادا کرنے کے لیے خود کو مٹی میں ملا لیا مگر اس کے ہاتھ نارسائی کے سوا کچھ نہ آیا۔ اسی مجموعے کی ایک اور غزل سے یہ شعر دیکھیے:
جانے اس جلوہ گہ ہست میں آئے کیوں ہیں
ہم کہ خود اپنے لیے ہیں نہ زمانے کے لیے
یہ نارسائی جس کا میں ذکر کر رہا ہوں خورشید رضوی کے ہاں المیے کا محرک سہی مگر انہیں ایسے فرد کے طور پر سامنے نہیں لاتی جو مایوس اور شکست خوردہ ہو۔ اس کیفیت کے بطن سے وہ کچھ سوالات کی گنجائش نکالتے ہیں۔ یہی سوالات المیے سے دوچار فرد میں زندگی، امید اور تحرک پیدا کرتے ہیں۔ خورشید رضوی کے ایک اور شعری مجموعے 'رائگاں' کی ایک غزل کا مطلع ہے:
یہ طرح طرح کے جو خوف ہیں انہیں دور کر
تہِ دِل میں کھولتی دلدلوں سے ظہور کر
اسی غزل کا ایک شعر ہے:
یہ زمانہ کیا ہے، ترے سمند کی گرد ہے
نہیں انکسار سے مانگتا تو غرور کر
فرد اور زمانے کے درمیان یہ وہ رشتہ ہے جسے اس شاعر کے ہاں پیرایہ بدل بدل کر یہاں وہاں دیکھا جاسکتا ہے۔ انسانی وجود، اس کی توفیقات اور بقا سے جڑے ہوئے سوالات کے علاوہ تنہائی اور حیرانی ایسے احساسات ہیں جو خورشید رضوی کی شاعری کا مزاج بناتے ہیں۔ یہ تنہائی اور حیرانی بھی محض ایک فرد کی نہیں اس کائنات کے مرکز میں موجود انسان کی ہے جسے نئے عہد میں حاشیے کی سمیت دھکیلا جا چکا ہے۔ رائگاں سے تین شعر:
کس لیے وسعت صحرا دے کر
تنگ گلیوں میں پھرایا ہے مجھے
ہستی تار نفس ہے مثل تار عنکبوت
کیجیے کیا اس جہاں میں اور کیا مت کیجیے
تونے مرے خمیر میں کتنے تضاد رکھ دیے
موت مری حیات میں، نقص مرے کمال میں
پہلے شعر میں وسعت صحرا کائنات کی وسعت ہو گئی ہے اور تنگ گلیاں نئی سولائیزیشن یا وہ گلوبل ویلج جس میں پہنچ کر انسان اکیلا اور تنہا ہو گیا ہے۔ فرانسس بیکن نے کہا تھا بڑا شہر بڑی تنہائی ہے یہ گلوبل ویلج تو مہا بڑی تنہائی ہے۔ دوسرے شعر میں ہستی تار نفس کو تار عنکبوت کے مقابل رکھ کر ایک حیرت پیدا کی گئی ہے اس حیرت میں ایک رمز بھی ہے۔ جب کہ تیسرے شعر میں انسانی وجود کے ساتھ جڑے ہوئے وہ تضادات ہیں جنہیں سمجھے بغیر انسان کو ڈھنگ سے سمجھا جاسکتا ہے نہ اس کائنات اور اس کے بنانے والے کو۔ یہیں میرا دھیان جمال پانی پتی کے ایک مضمون کی ابتدا میں دی جانے والی مثال کی طرف چلا گیا ہے جو انہوں نے آئنسکو کے لایعنی تھیٹر خالی کرسی کے تعارف میں لکھا تھا۔ اس مثال کے مطابق ایک اسکیمو کے لیے سب سے بڑا مسئلہ برف ہے ؛ جی برف کا منجمد وجود۔ اسے اسی میں مکان بنا کر رہنا ہوتا ہے۔ اس کی ساری زندگی برف میں گزرتی ہے۔ یہ برف اس کے لیے چیلنج ہے جسے وہ قبول کرتا ہے۔ اسی میں جیتا اور اسی میں مرتا ہے۔ یہ سب جانتے ہوئے اور بے معنویت کے مقابل ہوتے ہوئے بھی اپنے مقاصد کے لیے جد جہد کرتا ہے۔ جمال پانی پتی نے اسکیمو کے مر جانے مگر برف کے باقی رہ جانے سے کچھ اور معنی کشید کیے ہیں مگر میں نے خورشید رضوی کے تخلیقی قضیے کو سمجھنیکی کوشش کی تو نارسائی اور موت جیسے جبر کے ہوتے ہوئے انسان کا اپنے خمیر میں موجود تضادات کے ساتھ جینا اور زندگی کرنے کا ہنر سیکھ لینا اس اسکیمو جیسا ہے جو یخ بستہ برف کے اندر رہتا اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے جد و جہد کرتا ہے حالاں کہ اس نے نہیں، برف اور اس کی یخ بستگی نے باقی رہنا ہوتا ہے۔
یہیں مجھے خورشید رضوی کا ترجمہ کیا ہوا ایک مضمون یاد آ گیا ہے۔ یہ مضمون ان کی کتاب "تالیف" کا حصہ ہے جس کا ذکر اوپر غلام جیلانی اصغر کے حوالے سے ہو چکا۔ اگرچہ اس کتاب میں کئی اور تراجم بھی شامل ہیں اور تراجم ہی پر مشتمل کتاب تاریخ علوم میں تہذیب اسلامی کا مقام بھی خورشید رضوی کی علمی شخصیت کا ایک نمایاں ترین حوالہ ہے۔ بہت اہم کتاب جسے ایک ترک مسلم اور گوئٹے یونیورسٹی فرینکفرٹ میں ادارہ تاریخ علوم عربیہ و اسلامیہ کے سربراہ ڈاکٹر فواد سیزگین نے تصنیف کیا تھا۔ ڈاکٹر فواد سیزگین ایک مدت سے جرمنی میں مقیم تھے اور معروف جرمن مستشرق ہیلموٹ رٹر کے شاگرد رہے تھے۔ یہ ترجمہ یوں اہم ہے کہ اس میں مختلف علوم کی تاریخ میں مسلمانوں اور عربوں کے کام اور مقام کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب 13 ابواب پر مشتمل ہے جس کے آخری دو ابواب میں عربی شاعری اور اسلامی ثقافت پر جمود کے اسباب پر بصیرت افروز بحث کی گئی ہے۔ خیر، "تالیف" میں شامل مضمون کی بات ہو رہی تھی۔ اس مضمون کا عنوان ہے "حیات انسانی کا مقام :روح اور نیچر کے تناظر میں" اور اس کے مصنف ہیں ڈبلیو ہیٹلر، پروفیسر ایمریطس نظری طبیعیات، یونیورسٹی آف زیورچ، سوئٹزر لینڈ۔ خورشید رضوی نے اسے بہت رواں اردو میں منتقل کیا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے یہ مضمون اردو ہی میں لکھا گیا تھا۔ پروفیسر ڈبلیو ہیٹلر نے عین آغاز ہی میں سائنسی حاصلات اور نظریات پر سوالیہ نشان لگایا ہے حتیٰ کہ آخر تک پہنچتے پہنچتے وہ صاف صاف کہہ دیتے ہیں:
"صدیوں سے الہیات اور علوم فطرت کو ایک دوسرے کا حریف بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ یہ عمل ماضی میں بھی سراسر بے مقصد تھا اور آج بھی اسی طرح بے مقصد ہے۔ یہ محض انسانی تنگ نظری کی ایک صورت ہے جس سے انسانیت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ آج یقینا اس وضاحت کی شدید ضرورت ہے کہ علوم فطرت، دہریہ پن کے لیے کوئی جواز مہیا نہیں کرتے۔ بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جس قدر سائنس آگے بڑھے گی، اتنا ہی وہ ایک ایسے راستے کی طرف راہنمائی کرے گی، جو ہمیں ایک ایسی کیفیت کی طرف لے جاتا ہے جو ارضیت سے، حسیت سے بالاتر ہے جو الوہی ہے۔ اور واضح رہے کہ میں یہ بات پوری احتیاط سے کہہ رہا ہوں۔"
ان مضامین کا مطالعہ جہاں ہمارے علم میں بے پناہ اضافہ کرتا اور ہماری سوچ کو ایک رخ دیتا ہے وہیں ہم خورشید رضوی کی ترجیحات کو آنکنے کے قابل بھی ہو جاتے ہیں۔ جو بات پروفیسر ڈبلیو ہیٹلر نے کہی ہے وہ ہمارے ہاں کے اس نئے انسان کی سدھائی ہوئی سوچ سے بالکل مختلف ہے۔ جی، اس جدید فرد کی سوچ سے جسے سائنسی علوم پر کامل ایمان ہے ؛ مذہبی ایمان جیسا کامل ایمان۔ خورشید رضوی کی تخلیقی شخصیت کو ان کی شاعری کے وسیلے سے جس قدر میں سمجھ پایا ہوں وہ پروفیسر ڈبلیو ہیٹلر کے لفظوں میں "تنگ نظر انسان" کی شخصیت نہیں ہے۔ وہ کنویں میں بھی جھانکتے ہیں تو نظر تلچھٹ میں دھنسنے کی بجائے اس کے شفاف پانیوں سے سات آسمان دیکھ لیتی ہے۔
کنویں کی تہہ میں جھانکو عکس در عکس
یہاں سات آسماں بیٹھے ہوئے ہیں
میں اوپر کہیں یہ کہہ آیا ہوں کہ خورشید رضوی کے ہاں ایک تہذیبی رچائو اور مزاج میں دھیما پن ہے تاہم یہیں وضاحت کرنا چاہوں گا کہ ایک زندہ وجود کے ہاں جو فطری تندی اور تحرک ہوتا ہے وہ انہیں بھی ودیعت ہوا ہے۔ یہ ان کے ہاں مرتبہ وجود کی ایک اور لہر ہے جو ان کے شعر کا حصہ ہوئی ہے۔ "شاخ تنہا" اور"رائگاں" سے مقتبس کر رہا ہوں:
آنکھ میچو گے تو کانوں سے گزر آئے گا حسن
سیل کو دیوار و در سے واسطہ کوئی نہیں
اس شدت احساس کا کیا کیجیے خورشید
لہریں سی بناتی ہے صبا میرے لہو پر
اور یہ "شدت پسندی" ایسی ہے کہ شاعر نے اس کی بہت شدت سے تمنا کی ہے:
شعر کی دھن مرے سینے میں بسائی ہے تو پھر
خون کو شعر کی رگ میں اتر آنا بھی سکھا
جہاں جہاں یہ شدت خورشید رضوی کے شعر کا حصہ ہوئی ہے وہاں شعر کی تاثیر بڑھی ہے اور وہیں زندگی ایک اور رنگ میں ظاہر ہوئی ہے۔ آخر میں "رائگاں" سے میری ایک پسندیدہ غزل سے چند اشعار:
یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے
یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے
میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں
یہ جو لوگ محو کلام تھے مجھے کھا گئے
وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے
میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضرر نہ تھا
پہ جو وسوسے تہہ دام تھے مجھے کھا گئے
مضمون نگار معروف ادیب اور مصنف ہیں۔
urdufictiongmail.com
تبصرے