تھیلیسیما ایک جینیاتی بیماری ہے جس میں جسم کے خون کے سرخ خلیات کمزور ہو جاتے ہیں یا صحیح طریقے سے کام نہیں کرتے۔ یہ بیماری پاکستان میں صحت کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان میں تھیلیسیمیا کے مرض کے ریکارڈ کی کوئی دستاویزی رجسٹری تو نہیں لیکن مختلف ریسرچ کے مطابق سالانہ پاکستان میں تقریباً نو ہزار کے قریب بچے اس مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔اور اگر تھیلیسیمیا جین کے کیرئیر کی بات کی جائے تو پاکستان میں تقریباً ایک کروڑ افراد تھیلیسیمیا کیرئیر ہیں۔
میجر جنرل (ر)ڈاکٹر طارق ستی، کنسلٹنٹ ہیماٹولوجسٹ اور بون میرو ٹرانسپلانٹ کے مطابق صحت کے ملکی بجٹ کا ایک بڑاحصہ تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں کے علاج کے حوالے سے خرچ ہوتا ہے جس کی بنیادی وجہ ان بچوں میں باقاعدگی سے خون لگانے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق اگر اس مرض کے بارے میں آگاہی ہو تو اس کے کیسزکم ہو سکتے ہیں۔ اسکا علاج ممکن ہے لیکن روک تھام کی اشد ضرورت ہے۔
تھیلیسیمیا کیا ہے؟
تھیلیسیمیا ایک جینیاتی بیماری ہے اور بچے کی پیدائش کے چھ ماہ بعد ہی اس کا پتہ چل جاتا ہے۔متاثرہ بچے کے جسم کی پوری طرح نشوونما نہیں ہو پاتی اور ہڈیوں میں خرابی کے باعث بچہ اپنے ہم عمر بچوں سے پیچھے رہ سکتاہے۔
تھلیسیمیا کی اقسام:
تھیلیسیمیا کو خاصیت، معمولی، انٹرمیڈیا اور میجر کے طور پر درجہ بندی کیا جاتا ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ یہ حالت کتنی سنگین ہے۔ تھیلیسیمیا کی خاصیت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو خون کی کمی کی ہلکی علامات یا کوئی علامات نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے آپ کو علاج کی ضرورت نہ ہو۔ تھیلیسیمیا میجر سب سے سنگین شکل ہے اور اسے عام طور پر باقاعدہ علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
تھیلیسیمیا کی دو قسمیں ہیں :الفا تھیلیسیمیا اور بیٹا تھیلیسیمیا
پاکستان میں زیادہ تر کیسز بیٹا تھیلیسیمیا کے ہیں جسے میجر(Major) اور مائینر(Minar)کی سب کیٹیگری میں تقسیم کیا گیا ہے۔
مائینر تھیلسیمیا: ڈاکٹر طارق ستی کے مطابق والدین میں سے کوئی ایک تھیلیسیمیا کیریئر ہو تو پیدا ہونے والا بچہ تھیلیسیمیا مائنر کا شکار ہو گا۔ یہ قسم زیادہ خطرناک نہیں ہوتی۔
میجر تھیلیسیمیا: والدین آپس میں قریبی رشتہ دار اور تھیلیسیمیا کیریئر ہوں تو ان کے بچے میجر تھیلیسیمیا کا شکار ہوں گے۔ یہ خطرناک مرض ہے، جس میں بچوں کو ہر ماہ ایک سے دو مرتبہ خون کی ضرورت ہوتی ہے۔
تھیلیسیمیا کا کزن میرج سے کیا تعلق ہے؟
پاکستان میں کزن میریجز کی بلند شرح اس بیماری کے پھیلائو کی بڑی وجہ ہے۔ اگر دونوں والدین تھلیسیمیا کے جین کے کیریئر ہوں تو بچے کے تھلیسیمیا میجر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
علامات
تھلیسیمیا میجر کی علامات میں شامل ہیں:
شدید کمزوری:تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں کو شدید کمزوری اور تھکن کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ کمزوری جسم میں ہیموگلوبن کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے، کیونکہ ہیموگلوبن آکسیجن کو جسم کے مختلف حصوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہیموگلوبن کی کمی کے باعث جسم کو مناسب توانائی نہیں ملتی، جس کی وجہ سے مریض ہر وقت تھکاوٹ محسوس کرتا ہے اور معمول کے کام کرنے سے بھی قاصر ہو سکتا ہے۔
ہڈیوں کا کمزور ہونا:تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں میں ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں اور بعض اوقات ہڈیوں کی ساخت میں بگاڑ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ مسئلہ اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ جسم ہیموگلوبن بنانے کے لیے بون میرو (ہڈی کے گودے)پر زیادہ دبا ڈالتا ہے، جس کی وجہ سے ہڈیاں کمزور اور نازک ہو جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں مریض کو بار بار ہڈیوں کے درد یا فریکچر کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔
جلد کی رنگت کا زرد ہونا:جلد کی رنگت کا زرد ہونا (یرقان کی شکل)تھیلیسیمیا میجر کی ایک عام علامت ہے۔ یہ علامت خون کے سرخ خلیات کے جلد ٹوٹنے اور جسم میں بلِیروبن کی مقدار بڑھنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ زرد رنگت آنکھوں، ہاتھوں، اور جسم کے دیگر حصوں پر نمایاں ہو سکتی ہے۔ جلد کی زردی تھیلیسیمیا کی شدت کو ظاہر کرتی ہے اور اس کے علاج کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔
جگر اور تلی کا بڑھ جانا:تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں میں جگر اور تلی کے سائز میں غیر معمولی اضافہ ہو سکتا ہے۔ تلی خون کے خراب خلیات کو فلٹر کرتی ہے، اور جب یہ خلیات زیادہ مقدار میں ٹوٹتے ہیں تو تلی پر اضافی دبائو پڑتا ہے، جس سے اس کا حجم بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح جگر بھی خون کے فلٹرنگ اور میٹابولزم کے عمل میں متاثر ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کا سائز بڑا ہو سکتا ہے۔ جگر اور تلی کے بڑھنے سے پیٹ کے بائیں جانب درد یا دبائو محسوس ہو سکتا ہے اور دیگر پیچیدگیاں بھی جنم لے سکتی ہیں۔
تشخیص:تھلیسیمیا کی تشخیص کے لیے خون کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، جن میں ہیموگلوبن الیکٹروفوریسس اور جینیاتی ٹیسٹ شامل ہیں۔ حمل کے دوران بھی تشخیص ممکن ہے، جو والدین کے لیے اہم فیصلہ سازی میں مددگار ہوتی ہے۔
مکمل خون کا ٹیسٹ (Complete Blood Count - CBC)
تھیلیسیمیا کی تشخیص کے لیے سب سے پہلا اور عام ٹیسٹ مکمل خون کا تجزیہ (CBC) ہے۔ اس ٹیسٹ کے ذریعے خون کے سرخ خلیات کی مقدار، ہیموگلوبن کی سطح اور خلیات کی ساخت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ تھیلیسیمیا کے مریضوں میں خون کے سرخ خلیات چھوٹے اور غیرمعمولی ساخت کے ہو سکتے ہیں۔
ہیموگلوبن الیکٹروفوریسس (Hemoglobin Electrophoresis)
یہ ٹیسٹ خون میں ہیموگلوبن کی مختلف اقسام کا پتہ لگانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ تھیلیسیمیا کی درست تشخیص کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
جینیاتی تجزیہ (Genetic Testing)
اگر تھیلیسیمیا کی موجودگی کی تصدیق کرنا ہو یا اس کے موروثی ہونے کی نوعیت کو جانچنا ہو تو جینیاتی ٹیسٹنگ کی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے تھیلیسیمیا کی وجہ بننے والے جینز میں موجود نقائص کی تشخیص کی جاتی ہے۔ یہ ٹیسٹ خاص طور پر ان خاندانوں کے لیے مفید ہے جہاں تھیلیسیمیا کی تاریخ موجود ہو۔
پیدائش سے پہلے کا جینیاتی ٹیسٹ (Prenatal Genetic Testing)
اگر والدین تھیلیسیمیا مائنر ہوں، تو حمل کے دوران بچے میں اس بیماری کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے یہ ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے۔
فیملی ہسٹری اور کلینیکل معائنہ
ڈاکٹر مریض کی فیملی ہسٹری کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ تھیلیسیمیا کے موروثی ہونے کے امکانات کا اندازہ لگایا جا سکے۔ اس کے ساتھ کلینیکل معائنہ کرکے جلد کی رنگت، جگر اور تلی کے سائز، اور دیگر جسمانی علامات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔
تھیلیسمیا کا علاج کس طرح کیا جاتا ہے؟
علاج کے روایتی اور جدید طریقے
روایتی علاج: اس میں باقاعدگی سے خون کی منتقلی شامل ہے تاکہ جسم میں ہیموگلوبن کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ خون کی منتقلی کے ساتھ ساتھ آئرن کی زیادتی کو کم کرنے کے لیے خصوصی دوائیں بھی دی جاتی ہیں۔
جدید طریقے: اب بون میرو ٹرانسپلانٹ (ہڈی کے گودے کی پیوند کاری)اور جین تھراپی جیسے جدید علاج کے طریقے دستیاب ہیں، جو اس بیماری کے مکمل خاتمے کی امید فراہم کرتے ہیں۔ ان طریقوں کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی بیماری کے لیے بہترین علاج کا انتخاب کر سکیں۔
تھیلیسیمیا سے بچائو کیسے ممکن ہے؟
شادی سے پہلے جینیاتی ٹیسٹ کروانا
تھیلیسیمیا سے بچائو کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ شادی سے پہلے جینیاتی ٹیسٹ کروایا جائے۔ یہ ٹیسٹ یہ جانچنے کے لیے ہوتا ہے کہ آیا شادی کرنے والے دونوں افراد تھیلیسیمیا مائنر ہیں یا نہیں۔ اگر دونوں افراد تھیلیسیمیا مائنر ہوں، تو ان کے بچوں میں تھیلیسیمیا میجر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے نوجوانوں کو شادی سے پہلے یہ ٹیسٹ کروانے کی ترغیب دی جانی چاہیے تاکہ صحت مند نسل کی بنیاد رکھی جا سکے۔ کئی ممالک میں اس ٹیسٹ کو قانونی طور پر لازمی قرار دیا جا چکا ہے، اور پاکستان میں بھی اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ضروری ہے۔
آگاہی مہمات کے ذریعے عوامی شعور بیدار کرنا
تھیلیسیمیا کی روک تھام کے لیے آگاہی مہمات کا انعقاد بہت اہم ہے۔ عوام کو اس بیماری کی وجوہات، اثرات اور بچائو کے طریقوں کے بارے میں آگاہ کیا جانا چاہیے۔ تعلیمی اداروں، کمیونٹی سینٹرز اور میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے لوگوں کو تھیلیسیمیا مائنر اور میجر کے فرق کو سمجھایا جا سکتا ہے۔ سماجی تنظیمیں، ہسپتال اور سرکاری ادارے مل کر ایسے پروگرام ترتیب دے سکتے ہیں جن میں خصوصی لیکچرز، ورکشاپس اور کیمپس کے ذریعے عوامی شعور بیدار کیا جائے۔
متاثرہ والدین کے لیے مشاورت فراہم کرنا
وہ والدین جنہیں تھیلیسیمیا کا سامنا ہے یا جن کے خاندان میں اس بیماری کے کیسز ہیں، انہیں خصوصی مشاورت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ جینیاتی ماہرین اور ڈاکٹرز کی مدد سے والدین کو بیماری کے ممکنہ خطرات، جینیاتی منتقلی کے امکانات اور بچائو کے اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا جا سکتا ہے۔ مشاورت کے ذریعے انہیں یہ سکھایا جا سکتا ہے کہ فیملی پلاننگ اور جدید طبی ٹیکنالوجیز کے ذریعے کیسے صحت مند نسل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
تھیلیسیمیا صرف پاکستان میں نہیں ہے بلکہ یہ ایک پورا خطہ ہے جسے تھیلیسیمیا بیلٹ کہتے ہیں اور اس میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، ایران، مڈل ایسٹ وغیرہ شامل ہیں۔ڈاکٹر طارق ستی کے مطابق تھیلیسیمیا رومن ایمپائر کے ذریعے اس خطے میں منتقل ہوا۔تاہم قبرص، یونان، ایران، تھائی لینڈ اور ترکی جیسے ممالک نے تھیلیسیمیا کے پھیلائو کو کنٹرول کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے ہیں۔ جیسے کہ اسکریننگ کا پروگرام،جینیاتی کیریئرز کی شناخت کے لیے اسکریننگ،تھائی لینڈ نے عوامی آگاہی، جینیاتی مشاورت، اور قبل از پیدائش اسکریننگ کے ذریعے تھلیسیمیا کی شرح کو کم کیا ہے۔ترکی میں شادی سے پہلے اسکریننگ ٹیسٹ کروانے کی شرح 30فیصد سے بڑھ کر 2008 تک 81فیصد ہو گئی، جس سے نئے تھلیسیمیا کیسز میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
مضمون نگار نجی ٹی وی چینل سے منسلک رہی ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے