درس نظامی کیا ہے:
یہ ایک حقیقت ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ مدارس کے قیام کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ابھی تک درس نظامی کا برصغیر میں اجرا نہیں ہوا لیکن دینی تعلیم کے لیے مدارس قائم ہو چکے تھے۔تاہم فرق یہ تھا کہ اس وقت دینی و عصری تعلیم کی تفریق موجود نہ تھی۔غزنوی سلطنت ہو یا لودھی سلطنت یا اورنگزیب عالمگیر سے پہلے کی مغل سلطنت' یہاں دینی تعلیم کے لیے ادارے موجود تھے جن میں اس وقت کے رائج نصاب پڑھائے جاتے تھے۔ان مدارس میں،قران و قرآنی علوم،قرآنی تفسیر اور اسکے اصول'علمِ حدیث، تاریخِ حدیث اور اصولِ حدیث' روز مرہ کے مسائل کے لیے فقہ و اصولِ فقہ' اسی طرح علم تصوف' علم الکلام' عربی لغت و ادب' صرف و نحو اور منطق و فلسفہ کے مضامین بھی اس نصاب کا حصہ تھے۔ وقت کے ساتھ اس نصاب میں بڑی وسعت پیدا کی گئی تھی۔ اس وقت عصری ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے سماجی علوم، اقتصادیات' فلکیات' طبعی علوم' ریاضی اور طب یہاں تک کہ موسیقی تک کو نصاب کا حصہ بنا دیا گیااور اس نظام تعلیم نے ہر فن میں یدِطولیٰ رکھنے والے افراد تیار کیے۔یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ حضرت مجدّد الف ثانی اور نواب سعد اللہ خان ایک ہی استاد کے شاگرد تھے۔ ایک روحانی دنیا کے متفقہ پیشوا ہیں جبکہ دوسرے 48سال تک متحدہ ہندوستان کے وزیر اعظم رہے۔ ان کی قلم رو میں موجودہ افغانستان' پاکستان' بھارت' بنگلہ دیش' سری لنکا اور نیپال شامل تھے۔ اس سے صاف واضح ہو رہا ہے کہ اس نظام تعلیم سے دینی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں اہل اور قابل افراد نے جنم لیا۔ یہاں تک کہ دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک تاج محل کو بنانے والا انجینئر بھی اسی نظامِ تعلیم کا پڑھا ہوا تھا۔یہ ساری تمہید اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے تحریر کی گئی کہ درس نظامی کی تشکیل سے قبل بھی برصغیر میں علوم و فنون کی تعلیم کا کماحقہ بندوبست تھا اور لوگ اس سے فیض یاب ہو رہے تھے۔
موجودہ درس نظامی :
اسلامی تاریخ میں علوم دینیہ کے حوالے سے درس نظامی کو دو شخصیات کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے، ایک شخصیت کا نام نظام الملک طوسی ہے، ان کی تاریخ پیدائش 408 ہجری ہے۔تاریخ میں ان کے اصل نام کو حسن بن علی بیان کیا گیا ہے جبکہ نظام الملک ان کا لقب تھا چونکہ یہ طوس کے ایک بڑے زمیندار کے بیٹے تھے اس لیے انہیں طوسی کہا جاتا ہے۔وہ سلجوقی سلطنت میں 30 سال تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے اور اُن کے دورِ حکومت کو سلجوقیوں کا عہد درخشاں کہا جاتا ہے۔انہوں نے بغداد میں مدرسہ نظامیہ قائم کیا جس کی شاخیں ملک کے گوشے گوشے میں پھیل گئیں لیکن موجودہ درس نظامی کا اس مدرسہ نظامیہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
بر صغیر کے موجودہ درسِ نظامی کے خالق کا نام ملاّ نظام الدین سہالوی رحمت اللہ علیہ ہے۔ وہ 27 مارچ 1677ء بمطابق 1088 ہجری سہالی میں پیدا ہوئے۔سہالی موجودہ ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی میں واقع ہے۔آپ کے والد ملاّ قطب الدین ایک جید عالم تھے۔1692ء میں انہیں شہید کردیا گیا۔آپ اورنگزیب عالمگیر کے قریبی رفقاء میں سے تھے اس لیے بادشاہ وقت نے آپ کے خاندان کو سہالی سے لکھنؤ منتقل کیا۔اور انہیں ایک بڑی حویلی عطا کی جسے عرف عام میں فرنگی محل کہا جاتا تھا (اس کی مختلف وجہ تسمیہ بیان کی جاتی ہیں جن کے ذکر کی ضرورت نہیں) ملاّ نظام الدین سہالوی نے اپنے والد ماجد کے تیار کردہ نصاب کے مطابق اسی حویلی میں ایک مدرسہ قائم کیا جہاں وہی نصاب پڑھایا جاتا تھا۔ملاّ قطب الدین کے نصاب میں ہر فن کی ایک ایک کتاب شامل تھی۔انکے فرزند ملا نظام الدین نے ایک ایک کتاب کا اضافہ کر کے نصاب کو نئی شکل دی۔اس طرح درس نظامی وجود میں آیا اور جو علما یہ نصاب پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے انہیں علما فرنگی محلی یا علما فرنگ محل کہا جاتا ہے۔آج کا تمام نصاب اسی درس نظامی کا تسلسل ہے اور آج کے علما کی اکثریت علما فرنگی محل کے روحانی شاگرد کہے جاتے ہیں۔
ملاّ نظام الدین کے مرتب کردہ نصاب میں اس وقت کی عصری ضروریات کے مطابق علومِ قرآن،علومِ حدیث،عربی ادب و بلاغت،صرف و نحو،فقہ و اصول فقہ،علم کلام، منطق، ریاضی، فلسفہ، حکمت،فلکیات،انجیئیرنگ اور ٹیکنالوجی کے علوم شامل تھے۔یہ نصاب 1857 تک اسی انداز میں رائج رہا۔1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں پر سیاسی زوال کے ساتھ ساتھ علمی و فکری زوال بھی آیا اور یہ نصاب زوال پذیر ہونے لگا۔جنگ آزادی سے قبل رائج اس نصاب میں دینی و دنیاوی علوم کی تفریق نہ تھی۔ہندو،مسلم،عیسائی سب یہی نصاب تعلیم پڑھتے تھے۔کسی مسلک کی تفریق نہ تھی۔لیکن جنگ آزادی کے بعد یہ نصاب دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔دینی مدارس حکومتی سرپرستی سے محروم ہوئے تو یہاں محض دینی علوم پڑھائے جانے لگے جبکہ عصرِی علوم کے لیے حکومت نے سکول و کالج قائم کر دیے۔یوں دینی و دنیاوی علوم میں قائم کی گئی تفریق آج بھی موجود ہے۔
درس نظامی 1857 کے بعد :
1857 کی جنگِ آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمان سیاسی زوال کا شکار ہوئے لیکن ساتھ ساتھ اس وقت اکابرین میں اس سوچ نے تقویت پکڑی کہ مسلمانوں کے مذہبی عقائد کے تحفظ اور سیاسی حیثیت کی بحالی کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔اسی سوچ کے پیش نظر 1857 ء کے بعد برصغیر کے کئی علاقوں میں مسلم اکابرین نے مختلف تعلیمی ادارے قائم کیے کیونکہ وہ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ اس سیاسی زوال سے نکلنے کا واحد راستہ علم ہے۔چناچہ درسِ نظامی کے نظام منسلک بزرگوں نے علمی مراکز قائم کرنے کی طرف قدم اٹھائے۔
1۔مدرسۂ دیوبند کا قیام:
31 مئی 1866ء کو دار العلوم دیوبند بھارت کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں سنی دیوبندی مکتب فکر کا آغاز ہوا۔ یہ ادارہ اترپردیش ضلع سہارنپور کے ایک قصبہ دیوبند میں واقع ہے۔ یہ مدرسہ 1866ء میں مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا فضل الرحمن عثمانی، مولانا سید محمد عابد دیوبندی اور دیگر حضرات نے قائم کیا تھا۔ محمود دیوبندی اس ادارے کے پہلے استاد اور محمود حسن دیوبندی اس کے پہلے طالب علم تھے۔
2۔دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف :
اگست 1868 میں امیر السالکین حضرت پیر امیر شاہ رحمة اللہ علیہ نے بھیرہ ضلع سرگودھا میں ایک دارالعلوم کی بنیاد رکھی۔ابتدائی طور پر یہ ایک مسجد سے ملحق ایک کمرے پر مشتمل تھا۔جہاں پر درس نظامی کی تدریس کا عمل شروع کیا گیا اور انگریزی سرکار کی سختی کے باعث یہ عمل خانقاہ سے ملحق رکھا گیا۔1925 میں اس کے ساتھ محمدیہ غوثیہ پرائمری سکول کا آغاز کیا گیا جس میں عصری علوم کی تعلیم کا اہتمام کیا گیا۔1957 میں جب جنگ آزادی کے اختتام کو 100 سال پورے ہوئے تو دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف میں درس نظامی میں پہلی بار بڑی اور انقلابی تبدیلیاں لائی گئیں اور اصلاح شدہ نصاب کے ساتھ تعلیم کا آغاز ایک جذبے کے ساتھ ہوا۔یہ نظام اب بھی جاری و ساری ہے۔
3۔منظر السلام بریلی :
اپریل 1872 میں مولانا نقی علی خان نے مصباح االتہذیب کے نام سے ادارہ قائم کیا اور 1904 میں امام احمد رضا خان بریلوی نے اسے باقاعدہ دارالعلوم کی شکل دی۔اور سنی مسلمانوں میں بریلوی مکتبہ فکر کی بنیاد پڑی۔تاہم دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کے مدارس میں قدیم درس نظامی کی کتب ہی پڑھائی جاتی رہیں۔آج بھی دونوں مکاتب فکر کے مدارس میں یہی نظام رائج ہے۔
4۔علی گڑھ کالج :
1875 میں مسلمانوں میں جدید علوم کی تعلیم کے لیے ایک بڑا سکول قائم کیا گیا۔ 1920 ء میں اسے کالج کا درجہ دیا گیا۔اس کالج میں اگرچہ درس نظامی تو نہیں پڑھایا جاتا تھا لیکن اس تعلیمی ادارے نے برصغیر کے مسلمانوں کے زوال کو عروج کی طرف لے جانے میں اہم کردار ادا کیا۔
5۔اسلامیہ کالج لاہور :
1892 میں انجمن حمایت اسلام نے لاہور میں اسلامیہ کالج کی بنیاد رکھی۔ جن میں پنجاب میں مسلم امہ کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔
مذکورہ بالا اداروں کے علاوہ بھی تمام مکاتب فکر کے بزرگوں نے بڑے اعلیٰ اور معیاری ادارے قائم کیے لیکن ان میں سے اکثریت کا تعلق یا انہی مدارس سے تھا یا پھر نظریاتی طور پر ان میں سے کسی ایک کے ہمنوا تھے۔اہل تشیع اور اہل حدیث (سلفی)مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علما نے قابلِ قدر ادارے قائم کیے تاہم اثر پذیری کے حوالے سے انکا حلقہ اثر نسبتاً محدود تھا۔
مدارس کے متعلق قوانین میں ارتقا کیوں ضروری ہے:
مدارس رجسٹریشن ایکٹ کے خلاف مہم چلانے والے جملہ بزرگ ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ وہ مدارس کے نظم و نسق کے قدیم نظام میں تبدیلی برداشت نہیں کریں گے بلکہ لانگ مارچ،دھرنا اور احتجاج کی دھمکی دے ڈالتے ہیں لیکن وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ درس نظامی مسلسل تبدیلیوں کی وجہ سے ہی تین سو سال بعد آج بھی اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔اسکا واضح مطلب یہی ہے کہ ہر قانون ارتقا کے مراحل سے گزرتا ہے تبھی اسکی افادیت برقرار رہتی ہے۔نصاب تعلیم میں تبدیلی نہ ہو تو وہ متروک ٹھہرتا ہے اور قوانین کو نئے حالات کے مطابق نہ ڈھالا جائے تو وہ بھی کاغذ کے پرزے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔اتحاد تنظیمات المدارس کے بزرگوں سے زیادہ کون اس حقیقت سے واقف ہوگا کہ ایک زمانے میں منطق اور فلسفہ کا شہرہ تھا' قدیم منطق و فلسفہ یونان سے عرب دنیا میں آیا تھا' اُس عہد کے علماء نے اس علم کو عربی میں منتقل کیا۔ ایک زمانے میں اس علم پر بڑا زور دیا جاتا تھا' مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت کم ہو گئی اور اسے ترک کردیا گیا۔بطور تبرک اس کی کچھ نشانیاں شامل نصاب رکھی گئی ہیں جبکہ دوسری طرف تفسیر و حدیث اور ان سے متعلقہ علوم اصولِ تفسیر و اصولِ حدیث' فقہ و اصول فقہ بتدریج بنیادی اہمیت اختیار کر گئے۔ جبکہ صرف و نحو' لغت' معانی و بلاغت اور ادبیات پر مشتمل علوم کو اہمیت حاصل ہوگئی۔یہ علوم و فنون، ارتقائ،جدید حقائق سے آگاہی اور انکے متعلقہ علوم پر عبور کا نتیجہ تھا کہ کئی جدید مسائل جیسے ٹیسٹ ٹیوب بے بی' کلوننگ، معیشت اورعالمی تجارت سے متعلق نئے نئے امکانات، سونے چاندی سے کاغذی کرنسی تک، ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ،کرپٹو کرنسی اور اس طرح کے دیگر جدید مسائل کو اسلامی نقطہ نظر سے جانچنے اور انکے مسائل کے حل کے لیے مسلم مفکرین اور ماہرین معیشت نے اپنے نظریات پیش کیے۔اگر درس نظامی اور مدارس دینیہ میں بتدریج ارتقا کا عمل رک چکا ہوتا تو جدید پیش آمدہ مسائل کا حل کس طرح ممکن ہو سکتا تھا۔اس بات کو مزید آگے بڑھائیں تو حلال و حرام کے نئے تصورات سامنے آ چکے ہیں۔وائٹ منی (White Money) اور بلیک منی (Black Money) کی اصطلاحات،رقوم کا ڈیجیٹل طریقے سے لین دین،ان تمام امور کے متعلق اسلامی نقطہ نظر اسی صورت میں پیش کیا گیا ہے جب علماء نے قدیم دروس کے ساتھ ساتھ جدید اصطلاحات پر عبور حاصل کیا۔
1860 کا رجسٹریشن ایکٹ اور اسکے مضمرات :
قیام پاکستان کے بعد مدارس کی تعداد میں اضافہ ہوا، لوگوں کی بڑی تعداد دینی تعلیم کی طرف مائل ہوئی، لیکن حکومتی نظام میں ان مدارس کی رجسٹریشن یا ان کو نظم وضبط کے دائرے میں لانے کا کوئی مناسب بندوبست نہ تھا۔ابتدائی طور پر 1860ء کے ایکٹ کا سہارا لیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں مدارس کی رجسٹریشن اور ان کے نظامِ تعلیم سے متعلق واضح قوانین موجود نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مدارس خود کو رجسٹر ہی نہیں کرواتے تھے۔ قبل ازیں ملک میں مدارس کی رجسٹریشن، سوسائیٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے تحت کی جا رہی تھی۔ یہ ایکٹ برطانوی دور حکومت میں نافذ ہوا تھا اور اس کا بنیادی مقصد تعلیم، سائنس،مختلف فنون، ثقافت، فلاح و بہبود، مذہب، خیرات اور دیگر غیر نفع بخش سرگرمیوں کے لیے تنظیموں کے قیام کی اجازت اور انھیں قانونی حیثیت دینا تھا۔ یہ ایکٹ آج بھی پاکستان میں نافذ ہے اور اس کے تحت کئی فلاحی اور غیر منافع بخش ادارے اپنی رجسٹریشن کروا کر قانونی طور پر تسلیم شدہ حیثیت حاصل کرتے ہیں۔
اس ایکٹ کی ہیئت یہ ہے کہ کم از کم سات یا اس سے زیادہ افراد کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے تنظیم یا سوسائٹی تشکیل دے سکتے ہیں اور اس سوسائٹی کی منظوری اور رجسٹریشن کے لیے متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر کے ماتحت ایک پورا محکمہ موجود ہے جو مختلف سوسائٹیز،این جی اوز،مساجد اور مدارس کی رجسٹریشن کا عمل سرانجام دیتا ہے۔ہر ضلع میں ڈپٹی ڈائریکٹر سطح کا افسر اس محکمہ کا سربراہ ہوتا ہے۔اسے عام طور پر کوآپریٹو سوسائٹی کا محکمہ بھی کہا جاتا ہے۔اس محکمہ میں رجسٹرڈ ہونے کا ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے۔محکمہ مال،پولیس خفیہ اداروں سمیت متعدد اداروں اور افراد کی طرف سے تصدیق کا ایک صبر آزما مرحلہ طے کرنا ہوتا ہے اور پھر ایک سال کے لیے اسے رجسٹرڈ کیا جاتا ہے۔ہر سال اس کی تجدید کے لیے ایک مرتبہ پھر تقریباً وہی عمل دہرانا ہوتا ہے۔محکمہ کے دفاتر میں مہنیوں تک فائلیں پڑی رہتی ہیں اور اگر مہتمم مدرسہ یا مسجد اپنے سارے وسائل اور اوقات صرف کرے تب جا کر یہ مرحلہ طے ہوتا ہے۔اسی محکمہ نے اب محکمہ سی ٹی ڈی سے منظوری لینا شروع کر دی ہے۔اس کے لیے صوبائی دارالحکومتوں میں ایک سیل قائم کیا گیا ہے۔
2019 کا معاہدہ اور اسکے خدو خال:
جس طرح کہ گزشتہ صفحات میں عرض کیا کہ مدارس قبل ازیں 1860 کے ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہو رہے تھے لیکن حکومت اور مدارس کے مابین کشمکش مسلسل جاری رہی اور فریقین کسی منطقی نتیجہ تک نہ پہنچ سکے۔گزشتہ حکومتی دور میں وزارتِ تعلیم کے ماتحت مذہبی ایجوکیشن ڈائریکٹریٹ کا قیام عمل میں لایا گیاتھا اور اسی تناظر میں 2019 میں اتحاد تنظیمات مدارس اور حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا۔ڈائریکٹریٹ مذہبی تعلیم کے ڈی جی،میجر جنرل (ریٹائرڈ) غلام قمر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ مدارس کو محکمہ تعلیم سے منسلک کرنے کے لیے کابینہ نے منظوری دی تھی اور اگست 2019 میں حکومت اور تمام علماء کرام کے مابین معاہدہ طے پایا تھا۔ڈائریکٹوریٹ مذہبی تعلیم کے مطابق مدارس کی رجسٹریشن میں اب صرف دو ہفتے کا وقت لگتا ہے اور اس میں ون ونڈو آپریشن کے تحت تمام تصدیقات ایک ہی مرحلے میں طے پا جاتی ہیں۔ محکمہ مال اور محکمہ پولیس کی غیر ضروری تفتیشوں سے علماء کرام کو محفوظ رکھا جاتا ہے بلکہ تمام تفصیلات جو کہ پہلے ہی اداروں کے پاس موجود ہیں۔ لہٰذا انہی کو بروئے کار لاتے ہوئے مدارس کی رجسٹریشن کا عمل مکمل کیا جاتا ہے۔ اس ڈائریکٹریٹ کے مطابق 2019 ء کے معاہدے کے بعد 186 مدارس کی رجسٹریشن مکمل کی جا چکی ہے۔اب آپکی خدمت میں 2019ء کے اس معاہدے کا متن پیش کیا جا رہا ہے جس پر تمام تنظیمات نے دستخط کیے تھے اور جس کے نتیجے میں ہزاروں مدارس کی رجسٹریشن کا عمل شروع ہوا تھا ۔
''بسم اللہ الرحمن الرحیم
معاہدہ مابین وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت، حکومت پاکستان اور اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان
آج مورخہ 29 اگست 2019ء کو وفاقی وزیر تعلیم، جناب شفقت محمود صاحب کی زیر صدارت دینی مدارس کے حوالے سے ایک اہم اجلاس وزارت کے کمیٹی روم میں منعقد ہوا، جس میں اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے سربراہان اور دیگر ذمہ داران نے شرکت کی۔ اجلاس کی کارروائی انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ اور خوش گوار ماحول میں مکمل ہوئی۔ تفصیلی گفت وشنید کے بعد اتفاق رائے سے درج ذیل معاہدہ طے پایا۔ یہ معاہدہ حتمی ہے۔ حالات کے مطابق اس معاہدے میں اگر تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوئی تو یہ دونوں فریقوں کی باہمی رضا مندی سے ہوگی۔
دینی مدارس کی رجسٹریشن
٭ اجلاس میں متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ تمام دینی مدارس و جامعات، اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے ساتھ طے شدہ رجسٹریشن فارم کے مطابق وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹریشن کرانے کے پابند ہوں گے۔
٭اس مقصد کے لیے وفاقی وزارت تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت پورے ملک میں 12 ریجنل دفاتر رجسٹریشن کے لیے قائم کرے گی۔
٭ وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت مدارس و جامعات کے اعدادو شمار اکٹھے کرنے کی واحد مجاز اتھارٹی ہوگی۔
٭مدارس و جامعات جو وفاقی وزارت تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ جڑت نہ ہوں گے، وفاقی حکومت انہیں بند کرنے کی مجاز ہوگی۔
٭ جو مدارس و جامعات رجسٹریشن کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کریں گے، ان کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جائے گی۔
٭بینک اکاؤنٹ تمام مدارس و جامعات جو وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹرڈ ہوں گے، انہیں شیڈول بینکوں میں اکاؤنٹ کھولنے کے لیے وفاقی وزارت تعلیم معاونت کرے گی۔
بیرونی ممالک کے طلبہ کی تعلیم اور ویزا کا اجرائ
٭وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹرڈ مدارس و جامعات غیرملکی طلبہ کو علم کی سہولت مہیا کرسکیں گے۔ اس سلسلے میں وزارت تعلیم کی سفارش پر ان طلبہ کو ان کی مدت تعلیم (جو زیادہ سے زیادہ 9 سال ہوگی) اور حکومتی قواعد و ضوابط کے مطابق ان کے لیے ویزا کے اجراء میں معاونت کرے گی۔ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے لیے وزارت کے ساتھ رجسٹرڈ ادارے میٹرک یا ایف اے کے بعد فنی تعلیمی بورڈ سے رجوع کر سکیں گے۔
٭متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ مدارس اپنی اپنی نصاب کمیٹیوں کے ذریعے عصری مضامین میٹرک یا انٹر میڈیٹ کی سطح تک ایک منظم پلان کے تحت پانچ امتحان دلوائیں گے اور اپنی صوابدید کے مطابق میٹرک یا ایف اے کے امتحانات فیڈرل بورڈ یا ملک کے کسی بھی تعلیمی بورڈ سے دلوائے جائیں گے اور پوری کوشش کی جائے گی کہ یہ عمل آئندہ پانچ سال میں مکمل کر لیا جائے۔
٭وفاقی وزارت تعلیم حکومت پاکستان کی جانب سے فوری طور ایک ہدایت نامہ جاری کیا جائے گا کہ جب تک نئے نظام کے تحت مدارس کی وزارتِ تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن کا عمل مکمل نہیں ہو جاتا تب تک پرانے نظام کے تحت رجسٹریشن تسلیم کی جائے گی اور جلد از جلد وزارتِ تعلیم کے تحت رجسٹرڈ کرنے کا اہتمام کیا جائے گا۔
/جن اداروں کی رجسٹریشن نہیں ہوئی انہیں فی الحال سابقہ طریقے کے مطابق رجسٹر کیا جائے گا۔
٭وزارت تعلیم فوری طور پر سٹیٹ بینک کو ایک مراسلہ بھیجے گا کہ وہ جلد از جلد رجسٹرڈ مدارس کے اکاؤنٹ کھولے۔
اس معاہدے پر درج ذیل حضرات نے دستخط کیے ۔
محترم جناب مفتی محمد تقی عثمانی صاحب،صدروفاق المدارس العربیہ پاکستان
٭محترم جناب مولانا قاری محمد حنیف جالندھری صاحب ناظم اعلیٰ، وفاق المدارس العربیہ پاکستان
٭محترم جناب مفتی منیب الرحمن صاحب،صدر تنظیم المدارس اہل سنت، پاکستان
٭محترم جناب پروفیسر ساجد میر صاحب صدر، وفاق المدارس السلفیہ، پاکستان
٭محترم جناب مولانا محمد یسین ظفر صاحب،جنرل سیکرٹری، وفاق المدارس السلفیہ، پاکستان
٭محترم جناب مولانا عبد المالک صاحب،صدر رابطہ المدارس الاسلامیہ پاکستان
2019 کے معاہدہ کی اہمیت :
یہ معاہدہ اس لحاظ سے منفرد تھا کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ تمام مدارس اور حکومت کچھ نکات پر متفق ہوئے اور متفقہ طور پر ایک حتمی معاہدہ طے پا گیا جس میں تمام قابل احترام بزرگوں نے دستخط فرمائے۔ اسی معاہدے کے تحت مذہبی تعلیم کا ایک ڈائریکٹریٹ بھی قائم کر دیا گیا جس کے ساتھ مدارس کی رجسٹریشن کا عمل شروع ہو گیا ۔ لیکن بعض مذہبی رہنمائوں کے عدم تعاون کی بنیاد پر اس میں پیش رفت نہ ہوسکی۔
یاد رہے کہ ایک مذہبی جماعت نے گزشتہ حکومتی دور میں علماء اور حکومت کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی مخالفت کی تھی اور مدارس کو وزارتِ تعلیم کے ماتحت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ البتہ 26 ویں آئینی ترمیم کے ساتھ مدارس کی رجسٹریشن کے متعلق اس مذہبی جماعت کی شرائط کے مطابق سوسائٹی ایکٹ میں ترمیمی بل اکتوبر 2024ء میں منظور کیا گیا۔اس بل میں 1860ء کی سوسائٹی ایکٹ کی شق نمبر 21 کو تبدیل کر کے ''دینی مدارس کی رجسٹریشن'' کے نام سے ایک نئی شق شامل کی گئی ہے اس شق میں کہا گیا ہے کہ
٭ ہر دینی مدرسہ جس نام سے بھی پکارا جائے اس کی رجسٹریشن لازمی ہوگی اور رجسٹریشن کے بغیر مدرسہ بند کر دیا جائے گا ۔
٭اس شق کے مطابق سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024ء کے نفاذ سے قبل قائم ہونے والے مدارس کو رجسٹرڈ نہ ہونے کی صورت میں چھ ماہ کے اندر نئی رجسٹریشن کروانا ہوگی۔ اسی طرح اس بل کے نفاذ کے بعد قائم ہونے والے مدارس کو رجسٹریشن کے لیے ایک سال کا وقت دیا گیا ہے ۔
٭بل میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ایک سے زائد کیمپس پر مشتمل دینی مدارس کو ایک ہی بار رجسٹریشن کرانی ہوگی ۔
٭ ہر مدرسے کو اپنی سالانہ تعلیمی سرگرمیوں کی رپورٹ رجسٹرار کو جمع کرانا ہوگی اور آڈیٹر سے اپنے مالی حسابات کا آڈٹ بھی کروانا ہوگا۔
٭اس بل کے مطابق کسی دینی مدرسے کو ایسا لٹریچر پڑھانے کی اجازت نہیں ہوگی جو عسکریت پسندی، فرقہ واریت یا مذہبی منافرت کو فروغ دے۔
٭اس بل میں ہر مدرسے کو اپنے وسائل کے حساب سے مرحلہ وار اپنے نصاب میں عصری مضامین شامل کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔
٭ اس بل کے تحت رجسٹرڈ ہونے والے مدارس کو کسی دوسرے قانون یا ادارے کے تحت رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہوگی۔
ہم کب تک حقائق سے نظریں چرائیں گے؟:
دینی مدارس پاکستان کی ایک ایسی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ ان مدارس نے دینی تعلیم کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور اس وقت ملک میں اگر دینی تعلیم کا شعور اور فہم موجود ہے تو اس کی واحد وجہ ملک کے طول و عرض میں قائم تمام مکاتب فکر کے مختلف تعلیمی ادارے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ تنازع کے ضمن میں ہمیں کچھ حقائق اپنے پیش نظر رکھنے چائیں۔گزشتہ اوراق میں،میں نے مدارس کے ماضی اور حال کے حوالے سے تمام حقائق بلا کم و کاست آپ کی خدمت میں عرض کیے ہیں۔لیکن اب بطور پاکستانی شہری ہونے کے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ریاست سے ٹکراؤ کی بجائے ریاست کے ساتھ چلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
تبصرے