یہ جون 2024 کا ذکر ہے جب بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے ملازمتوں میں1971ء میں پاکستان سے لڑنے والوں کے بچوں کے لیے مختص 30 فی صد کوٹہ برقرار رکھنے کے حق میں فیصلہ دیا تو اُس وقت کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ بنگلہ دیش کی نصف صدی سے زیادہ پر محیط تاریخ میں وہ فیصلہ کن موڑ ہے جو ملکی سیاست کا رُخ ہی تبدیل کر دے گا۔اور ہوا بھی ایسے ہی، طالب علم جو پہلے ہی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے آمرانہ ہتھکنڈوں، معیشت کی خراب ہوتی ہوئی صورتِ حال، کرپشن اور بُری طرزِ حکمرانی سے نالاں تھے، سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ ملک کے مسائل کا حل چاہتے تھے مگر اُس وقت شیخ حسینہ واجد نے اقتدار کے نشے میں ہر وہ حربہ استعمال کیا جو آمرانہ ادوار میں روارکھا جاتا ہے۔
حکمران جماعت عوامی لیگ اور اُس کے طلبا ونگ نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ظلم اور جبر کی نئی تاریخ تو رقم کی ہی ساتھ ہی پولیس سمیت مسلح ادارے بھی مظاہرین کے خلاف متحرک ہو گئے۔ ملک بھر میں انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بند کرنے کے علاوہ ہزاروں لوگوں کو لاپتا کر دیا گیا مگران تمام تر اقدامات کے باوجود شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے لیے ہر دن مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔ دو اگست2024ء تک 215 افراد ہلاک ہو چکے تھے، 20 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے تھے جب کہ 11ہزار سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا جا چکا تھا۔
غیرسرکاری ذرائع کے مطابق، مرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، جولائی میں ہونے والے مظاہروں میں کم ازکم 32 بچے جان سے گئے تھے۔ ان حالات میں بالآخر 5 اگست کو نہ صرف شیخ حسینہ واجدکو اقتدارچھوڑنا پڑا بلکہ انہوں نے فرار کا راستہ اختیار کیا اور انڈیا میں پناہ لی۔
آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے توبنگلہ دیش میں آٹھ اگست کو نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معیشت ڈاکٹر محمد یونس کی کی سربراہی میں عبوری حکومت کو برسرِاقتدار آئے چھ ماہ ہو چکے ہوں گے تو پاکستان کے تناظر میں ان گزرے چھ مہینوں کا جائزہ لینا ازبس اہم ہے کیوں کہ شیخ حسینہ واجد اور عوامی لیگ کے انڈیا نواز دورِ حکومت میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے دوطرفہ تعلقات سردمہری کا شکار ہو گئے تھے۔
شیخ حسینہ واجد کے اقتدار سے مستعفی ہونے کے بعد بہرحال بہت سی اور تبدیلیوں کے ساتھ ایک مثبت اور اہم پیش رفت یہ ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دوریاں کم ہونے لگی ہیں اور دونوں ملک ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر ایک بار پھر قریب آنے لگے ہیں جن کا تجزیہ نہ صرف بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کی ترجیحات بلکہ اُس کی خارجہ پالیسی کے بہترفہم میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی گزشتہ برس ستمبر میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور بعدازاں دسمبر میں قاہرہ میں ڈی ایٹ رُکن ممالک کے سربراہی اجلاس کے دوران بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس سے ملاقات ہوئی تھی جس میں دونوں رہنمائوں کے درمیان مشترکہ مفادات کے تمام شعبوں میں دوطرفہ تعلقات بڑھانے پر اتفاق کیا گیاتھا۔
یہ ملاقاتیں کئی حوالوں سے اہم تھیں جس کے بعد ہونے والی پیش رفتیں غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہیں جیسا کہ دونوں ملکوں کے درمیان 1971ء سے ہی سمندری رابطہ منقطع رہا ہے جواب نہ صرف بحال ہوچکا ہے بلکہ بنگلہ دیش کی نگراں حکومت نے قبل ازیں پاکستان سے آنے والے سامان کی جانچ پڑتال کے حوالے سے عائد پابندیاں بھی ختم کر دی ہیں جس سے دونوں ملکوں میں نہ صرف تجارت بڑھے گی بلکہ اُن غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہو گا جن کے باعث دونوں ملکوں میں دوریاں پیدا ہو چکی تھیں۔
حالیہ دنوں میں ہونے والی ایک اہم پیش رفت بنگلہ دیش کا پاکستان سے 25 ہزار ٹن چینی درآمد کرنا ہے۔ کئی برسوں کے انتظار کے بعد پاکستان بنگلہ دیش کو اس قدر بڑی مقدار میں چینی برآمد کر رہا ہے جو انڈیا کے لیے باعثِ تشویش اس لیے ہے کہ بنگلہ دیش طویل عرصہ سے انڈیا سے چینی درآمد کرتا رہا ہے اوراخبار' اکنامک ٹائمز 'کی ایک رپورٹ کے مطابق، بنگلہ دیش نے 2023 ء میں انڈیا سے 353.46 ملین ڈالر کی چینی درآمد کی تھی۔
سب سے اہم پیش رفت 1971ء کے بعد پاکستانی فوج کا انڈیا جانا ہے جس کا مقصد بنگلہ دیشی فوج کی تربیت کرنا ہے۔ کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق، پاکستانی فوج کے میجر جنرل رینک کے افسر بنگالی فوج کی تربیت کریں گے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان عسکری سطح پر بھی تعلقات مضبوط ہوں گے جب کہ کراچی میں دونوں ملکوں کی بحری افواج 'امن 2025 ئ' مشقوں میں بھی مشترکہ طور پر حصہ لیں گی۔
کچھ انڈین اخبارات میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش نے پاکستان سے400 ابدالی میزائل خریدنے کے لیے رابطہ کیا ہے جس پر پاکستان نے رضامندی کا اظہار بھی کر دیا ہے۔ ان خبروں پر انڈیا میں 'کہرام' برپا ہونا فطری ہے اور سازشی نظریہ سازوں کی دُکان داری خوب چمک رہی ہے کیوں کہ بنگلہ دیش اس سے قبل بھی پاکستان سے بڑی مقدار میں دفاعی سازوسامان خریدچکا ہے جن میں ایمونیشن کے 40 ہزارسے زیادہ رائونڈز، 40 ٹن آر ڈی ایکس اور دیگر سامان شامل ہے۔ خیال رہے کہ 2023ء میں بنگلہ دیش نے پاکستان سے ایمونیشن کے 12 ہزار رائونڈز برآمد کیے تھے۔
بھارت کے سازشی نظریہ ساز ان پیش رفتوں کے بعد اپنے اِن بے سروپا دعووں کے درست ہونے پر مصر ہیں کہ بنگلہ دیش کی طلبا تحریک اور شیخ حسینہ واجد کی اقتدار سے بے دخلی کے پس پردہ اسلام پسند اور پاکستان پسند طاقتیں متحرک رہی ہیں جنہیں پاکستان کی مدد حاصل تھی۔ یہ ایک مضحکہ خیز الزام کے سوا کچھ نہیں اور اُس عوامی جدوجہد کو بدنام کرنے کی کوشش ہے جس کا آغاز دراصل ملازمتوں میں مختص کیے گئے کوٹے کے نظام کو ختم کرنے کے لیے ہوا تھا۔
اس تناظر میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی مخالف تھی جب کہ بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی بھی پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ یہ غالباً وہ بنیادی وجہ تھی جس کے باعث شیخ حسینہ واجد کی حکومت میں جماعتِ اسلامی کے رہنمائوں کوسزائیں دیتے ہوئے یہ بودا جواز پیش کیا گیا کہ 1971 ء میں انہوں نے پاکستان کا ساتھ دیاتھا۔ ایسا اگر ہوا بھی تھا تو سزائیں دینے کے لیے نصف صدی کا انتظار کیوں کیا گیا جب کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے ان سزائوں پر اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔
بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی سے کچھ امیدیں بہر کیف پیدا ہوئی ہیں، جن میں سائوتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن (سارک) کی بحالی بھی شامل ہے۔ سارک کا آخری سربراہی اجلاس 2014ء میں نیپال میں ہوا تھا جس کے بعد 2016ء میں اگلا سربراہی اجلاس پاکستان میں ہونا تھا مگر انڈیا کے زیرِاثر بھوٹان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے انکار کے باعث سارک سربراہی اجلاس کا انعقاد ممکن نہیں ہو سکا۔
ڈاکٹر محمد یونس پانچ اگست کو بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے بارہا سارک کی بحالی کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔ انہوں نے پہلی بار اِس بارے میں پاکستانی وزیراعظم سے 25 ستمبر کو ہونے والی ملاقات میں بات کی جس کے بعد انہوں نے 2 دسمبر اور 12دسمبر کو بھی اس بارے میں ذکر کیا جسے فعال کرنا وہ خطے کے تاریخی تنازعات کے حل کے لیے اہم قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے قاہرہ میں وزیراعظم سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ' سارک کی بحالی اُن کی اہم ترین 'ترجیح' ہے اورمیں سارک کے تصور کا مداح ہوں۔ میں اس بارے میں بات کرتا رہا ہوں۔میں سارک سربراہی اجلاس کا انعقاد چاہتا ہوں خواہ یہ فوٹو سیشن کے لیے ہی کیوں نہ ہو کیوں کہ اس سے ایک مضبوط پیغام جائے گا۔ ' وزیراعظم شہباز شریف نے اس موقع پر یہ تجویز کیا تھا کہ دونوں ملکوں کو علاقائی پلیٹ فارم کی بحالی کے لیے مل کر آگے بڑھنا چاہیے۔
اس تناظر میں ڈپٹی وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار کا دورہ بنگلہ دیش تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور امید ہے کہ آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو اس حوالے سے بہت سی اہم پیش رفتیں ہو چکی ہوں گی۔ خیال رہے کہ اس سے قبل 2012ء میں پاکستانی وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے ڈی ایٹ اجلاس میں شرکت کے لیے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا۔ وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ ڈاکٹر محمد یونس نے دورۂ پاکستان کی دعوت قبول کر لی ہے اور وہ جلد پاکستان کا دورہ کریں گے۔
دوسری جانب بنگلہ دیش کے خارجہ تعلقات کے تناظر میں تاریخی طور پر چین کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ ماضی میں عوامی لیگ کا جھکائو انڈیا اور سوویت بلاک کی جانب رہا مگر عوامی لیگ کے حالیہ دور میں بنگلہ دیش کی دونوں علاقائی طاقتوں کے حوالے سے پالیسی بڑی حد تک متوازن تھی۔ جس کی ایک مثال شیخ حسینہ واجد کا 2019 ء کا دورۂ چین بھی ہے جس میں دونوں ملکوں کے درمیان 27 دو طرفہ معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے اور عوامی لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی دونوں ملکوں کے درمیان بظاہر ایسی کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی جو قابلِ ذکر ہو کیوں کہ چین کی خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد ہمیشہ اپنے تذویراتی اہداف کا حصول رہا ہے اور وہ سیاسی جماعتوں یا شخصیات پر زیادہ سرمایہ کاری نہیں کرتا۔
تاہم، بنگلہ دیش اور انڈیا کے تعلقات میں تنائو موجود ہے جس کی وجہ شیخ حسینہ واجد ہیں جنہوں نے انڈیا میں جلاوطنی اختیار کر رکھی ہے جن کی حوالگی کے لیے بنگلہ دیش بارہا انڈیا سے مطالبہ کر چکا ہے تاکہ اُن کے خلاف عدالتی کارروائی کی جا سکے۔ مگر انڈیا کی جانب سے شیخ حسینہ واجد کوآسانی سے بنگلہ دیش کے حوالے کرنے کا امکان زیادہ نہیں ہے۔ ان حالات میں بنگلہ دیش میں قومی نصاب میں شیخ مجیب الرحمان کے بجائے جنرل ضیاالرحمان کو ملک کا بانی قرار دینے کا عبوری حکومت کا اقدام اگرچہ علامتی نوعیت کا ہے مگر اِس سے بنگلہ دیش کے عوام کے اُس ردِعمل کا درست طور پر فہم حاصل کرنے میں مدد حاصل ہو سکتی ہے جو انہوں نے شیخ حسینہ واجد کے انڈیا فرار ہونے کے بعد ظاہر کیا تھا۔
یہ کہنا تو غالباً مناسب نہیں کہ حسینہ واجد کے بعد کا بنگلہ دیش انڈیا کے لیے ڈرائونا خواب ثابت ہونے جا رہا ہے مگر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ جنوبی ایشیا پر بالادستی کے انڈیا کے خواب کو ضرور دھچکا لگا ہے۔ ان حالات میں یہ الزامات کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت ملک کی ہندو اقلیت پر ظلم ڈھا رہی ہے، درحقیقت حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے ۔ یہ درست ہے کہ ایسے اِکا دُکا واقعات ہوئے ہیں مگر اُس کی وجہ یہ تھی کہ انڈیا کی ہندو قومیت روایتی طور پر عوامی لیگ کی حامی رہی ہے جس کے باعث اگر ہندو رہنمائوں یا کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تو اِس کی وجہ اُن کا غیرمسلم ہونا نہیں بلکہ سیاسی طور پر اُس نظریے کا حامی ہونا ہے جس کے خلاف بنگلہ دیش کے عوام نے ایک تاریخی جدوجہد کی ہے۔ انڈین سازشی نظریہ سازوں کا یہ پروپیگنڈا بھی زیادہ موثر نہیں رہا۔
اس میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش نہیں کہ ڈاکٹر یونس کی سربراہی میں موجودہ حکومت ایک عبوری بندوبست کے طور پر قائم کی گئی ہے جس کی پالیسیاں آنے والی حکومت برقرار رکھتی ہے یا نہیں، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب سرِدست دینا ممکن نہیں۔
تعارف: مضمون نگار صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور قومی و بین الاقوامی امور کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
تبصرے