اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر موجود بین الاقوامی تنازعات میں مسئلہ کشمیر ایک اہم ترین تنازعہ ہے جو تاحال حل نہیں ہوسکا۔ تقسیم برصغیر کے وقت برطانوی ، ہندو اور کشمیری مہاراجہ حکمران کی باہمی مکروہ سازش کے باعث یہ مسئلہ پیدا ہوا۔1948ء کی پہلی جنگ کے بعد یہ بھارت ہی تھا جو اس مسئلے کو اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر لے گیا تھا۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ14 مارچ1948ء کو اپنی قرارداد میں عالمی فورم کی طاقت ور ترین کونسل یعنی سلامتی کونسل نے کہا کہ کشمیر سے دونوں ممالک پاکستان اور بھارت اپنی اپنی فوجیں نکال لیں گے اور اس مسئلہ کو کشمیر ی عوام کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کس ملک سے الحاق کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں ان کی اپنی مرضی کے مطابق اپنی قسمت کافیصلہ کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ لیکن جب اقوام متحدہ نے دونوں ممالک سے قرارداد پر عمل در آمد کا پلان طلب کیا تو صرف بھارت کی طرف سے دو مطالبات مزید آ گئے جو کہ قطعاً قرارداد کے متن کے خلاف تھے ۔ اس وقت کے اقوامِ متحدہ کے کمیشن کے چیئرمین مسٹر جوزف کاربل جو چیکو سلواکیا سے تعلق رکھتے تھے اور کمیشن میں وہ بھارت کی نامزدگی پر شامل ہوئے تھے، انہوں نے اپنے معروف کتاب "Danger in Kashmir" کے صفحہ نمبر 157 پر اعتراف کیا کہ بھارتی مؤقف اقوامِ متحدہ کی قرارداد سے تجاوز کر رہا تھا۔ پاکستان نے تو یہاں تک اپنی رضامندی ظاہر کر دی تھی کہ وہ اپنی فوج آزاد کشمیر سے بھی نکال لے گا لیکن بھارت نے مسلسل ہٹ دھرمی کی پالیسی اپنائے رکھی اور ہر تجویز کو رد کردیا۔ معاملے کے حل کے لیے سلامتی کونسل کے ہی صدر مک ٹائن پر مشتمل یک رکنی کمیشن تشکیل دیا گیا تاکہ کشمیری عوام کی زندگیوں میں امن و سکون کا سانس آئے۔ اس کمیشن نے تجویز کیا کہ دونوں ممالک بیک وقت اپنی اپنی فوجوں کا انخلاء کریں گے تاکہ کسی جانب کوئی خطرہ نہ رہے۔ پاکستان نے یہ تجویز بھی منظور کر لی لیکن بھارت نے اس تجویز کو بھی رد کر دیا۔ بعد میں یہ تجویز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 14 مارچ1950ء کو باقاعدہ ایک قرارداد کی صورت منظور کر لی۔ اقوام متحدہ نے اوون ڈکسن کو جو آسٹریلیا کے چیف جسٹس رہے تھے ان کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تاکہ اس قراردار پر عمل در آمد کیا جا سکے۔ انہوں نے افواج کے انخلاء کی بہت سی تجاویز پیش کیں۔ وہ سب کی سب پاکستان نے مان لیں لیکن بھارت نے رد کر دیں۔
1951ء میں بھارت نے عذر تراشا کہ اسے خطرہ ہے اس لیے وہ اپنی فوج کشمیر سے نہیں نکالے گا۔ آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم مسٹر گورڈن منزیز نے مشترکہ فوج کی تجویز دی۔ اسے بھی بھارت نے رد کر دیا۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی نگرانی میں مقامی فورس بنانے کی بات کی تو بھارت نے اس سے بھی انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ کامن ویلتھ کی فوج کی ڈیوٹی لگا دی جائے لیکن بھارتی انکار نے مسئلہ کے حل کی جانب کوئی قدم اٹھانے نہ دیا۔ جس پر معاملہ ایک بار پھر سلامتی کونسل جا پہنچا۔ 30 مارچ 1951ء کو سلامتی کونسل نے امریکی سینیٹر فرینک پی گراہم کواپنا نیا نمائندہ مقرر کر دیا اور کہا کہ قراردار کے مطابق وادیٔ کشمیر سے تین ماہ کے عرصے میں فوجیں نکال لی جائیں گی۔ اگر پاکستان اور بھارت اس پر متفق نہ ہو سکیں تو عالمی عدالت انصاف سے فیصلہ کرا لیا جائے۔ عالمی نمائندے نے چھ تجاویز دیں۔ بھارت نے تمام کی تمام مسترد کر دیں۔ بعد میں سلامتی کونسل کے صدر نے ایک بار پھر تجویز کیا کہ وہ ثالثی کروا لیتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ کون سا ملک اس معاملے پر تعاون سے انکاری ہے۔ پاکستان اس پر بھی راضی ہوگیا لیکن بھارت نے یہ تجویز بھی رد کردی۔
تاریخ گواہ ہے کہ کشمیر کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں رہا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت ملنا چاہیے۔ یہ عالمی تنازعات کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے کہ ایک جارح، غاصب اور ظالم ریاست نے پوری وادیٔ کشمیر کو بھیانک جنگی جرائم کا شکار کر رکھا ہے اور کشمیروں کی تیسری نسل سلامتی کونسل کی درجن بھر قراردادوں کے باوجود انصاف نہ ملنے پر پوری دنیا کے سامنے نوحہ کناں ہے کہ ان کے لیے یہ ظلم کے اندھیرے کب ختم ہوں گے۔ یکم جنوری 1948ء کو بھارت پہلی بار یہ معاملہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 35 کے تحت سلامتی کونسل میں لے گیا۔ اس وقت سے لے کر اقوام متحدہ کی منطور کردہ قراردادوں کی مختصر تاریخ کچھ یوں ہے:
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 38 (17 جنوری1948ئ)
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر39(20 جنوری1948ئ)
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر47(21 اپریل1948ئ)
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 51 (3 جون1948ئ)
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 60(14 مارچ 1950ئ)
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 91 (13 مارچ 1951ئ)
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر96(10 نومبر1951ئ)
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر98(23 دسمبر1952ئ)
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 122(24 جنوری1957ئ)
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 123(21 فروری1957ئ)
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر126(2 دسمبر1957ئ)
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر209(4 ستمبر1965ئ)
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر210 (6ستمبر1965ئ)
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر211(20ستمبر1965ئ)
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر214 (27ستمبر1965ئ)
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر215 (5نومبر1965ئ)
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر307(21 دسمبر1971ئ)
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر1172 (6جون1998ئ)
5 جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ کے کمیشن نے مسئلہ کشمیر پر اپنی جامع قرارداد منظور کی جس کو بھارتی اور پاکستان دونوں نے اتفاق رائے سے قبول کیا۔ اس قرارداد کی رو سے دونوں ممالک پابند کیے گئے کہ وہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دینے کے لیے مجوزہ کمشنر برائے رائے شماری سے تعاون کریں تاکہ ریاست میں جلد از جلد کمیشن آزادانہ رائے شماری کا انعقاد کرا سکے۔ جنگ بند ی کے عمل کو مانیٹر کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے دونوں ممالک کی منظوری سے مبصرین تعینات کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔
اس سے پہلے بھی ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس میں فی الفور سیز فائر کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 47 1948)ئ( کی رو سے جموں و کشمیر کی آزادی یا پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ آزادانہ ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ استصوابِ رائے یعنی جمہوری طریقے سے ہوگا۔
قرارداد نمبر 51 (1948ئ) ین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے تنازع کے جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ جبکہ قرارداد نمبر 60(1948) جموں وکشمیر کے تنازع کے حل اور حتمی تصفیے کا جمہوری طریقے اور عوام کی امنگوں کے مطابق ہونے کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔
قرارداد نمبر 91(1951ئ) کے تحت قرار پایا کہ کشمیر میں بھارت کے زیر انتظام قائم کی گئی اسمبلی کی طرف سے ریاست جموں و کشمیر کے مسئلے کا پیش کیا گیا کوئی بھی حل حتمی تصور نہیں کیا جائے گا۔ اسی بات کو قراردار نمبری122(1957ئ) میں ایک بار پھر دہرایا گیا۔
قرارداد نمبر98 (1952ئ) کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ہونے والی آزادانہ و غیر جانبدارانہ رائے شماری سے ہی کیا جائے گا۔
قرارداد نمبر 172(1998ئ) میں قرار پایا کہ پاکستان اور بھارت اپنے باہمی تنازعات کو دور کرنے ، امن و امان اور سلامتی سے متعلق تمام معاملات کے دیر پا حل کے لیے آپس میں بات چیت کا دوبارہ آغاز کریں ۔لیکن بھارتی مکروہ عزائم نے آج تک کی مسئلہ کے حل کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کی۔ اسے اس بات کی کوئی پروا ہی نہیں کہ عالمی برادری کے سامنے وہ کس طرح اپنی ہٹ دھرمی پر بے شرمی سے کاربند رہا ہے۔
تنازعہ کشمیر پر اب تک پاکستان و بھارت کے مابین چار خوفناک جنگیں ہو چکی ہیں۔ پہلی جنگ1948ئ،دوسری1965ئ، تیسری1947ء جبکہ چوتھی اور آخری لڑائی 1999ء میں لڑی گئی۔ بھارت اپنی غاصبانہ قبضے کے بعد سے پوری مقبوضہ وادی کے غیور اور اپنی آزادی کے متوالے عوام پر بے پناہ ظلم و ستم روا رکھتا چلا آرہا ہے۔ وہ مسلسل انسانی حقوق پامال کر رہا ہے۔ آئے دن کشمیری بے گناہ لوگوں کو گرفتار کر لیاجاتا ہے، ان کی املاک غیر قانونی طور پر ضبط کی جاتی ہے جبکہ جبر و استبداد کے ہتھکنڈوں سے کشمیری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں، جوانوں، بوڑھوں ، بچوں کونہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ بھارتی غاصب سرکار یہ سمجھتی ہے کہ وہ ان اوچھے ، ظالم ، مکروہ ہتھ کنڈوں اور جبر و بربریت سے مظلوم کشمیری عوام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دبا لے گی لیکن مظلوم کشمیریوں نے تاریخ کی بے پناہ قربانیاں دے کر یہ ثابت کیا کہ وہ معصوم کشمیریوں کی شہادتیں تو قبول کر لیں گے لیکن اس فسطائی بھارتی سامراج کے ظالمانہ ہتھکنڈوں کے سامنے کبھی اپنا سر نگوں نہیں کریں گے، چاہے جتنی بھاری قیمت ہی کیوںنہ ادا کرنی پڑے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ضرور اٹھتا ہے کہ وہ اب تک کیوں اس پرانے ترین مسئلہ کے حل میں ناکام ہوئی ہے۔ کیا کشمیری عوام انسان نہیں کہ انہیں اس اکیسویں صدی میں بھی انصاف کی خاطراپنی بے مثال و بے حساب قربانیاں دینا پڑ رہی ہیں۔ جہاں چادر اور چار دیواری کے تقدس کی باتیں کوئی معنی نہیں رکھتیں، جہاں آئے دن کشمیری معصوم خواتین کی عصمت دری غاصب بھارتی فوج کے لیے جائز سمجھی جا رہی ہے، جہاں معصوم بچوں تک پر پیلٹ گنز سے گولیوں کی بوچھاڑ کرکے ان کے چہرے لہولہان کیے جا رہے ہیں۔ جہاں ہر سمت ظلم و ستم کا دیوِ استبداد اپنے سیاہ چہرے کے ساتھ دندناتا پھر رہا ہے۔ کیا اس پورے کرۂ ارض پر کوئی درد دل نہیں رکھتا کہ وہ ان مظلوم و معصوم کشمیروں لوگوں کے دکھ درد کا مداوا کر سکے۔
5 اگست 2019ء کو بھارت نے عالمی ادارے کی واضح ترین قراردادوں کے ساتھ ساتھ اپنے ہی آئین کی کھلم کھلا خلاف ور زی کرتے ہوئے یک طرفہ اور غیر قانونی اقدامات کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کر دیا۔ جس کی پوری دنیا نے مذمت کی۔ مقبوضہ وادی کے عوام نے ان تمام یک طرفہ اور غیر قانونی و غیر انسانی اقدامات کو واضح طور پر مسترد کردیا ہے۔ انہوں نے بے مثال ثابت قدمی اور اولوالعزمی سے واشگاف الفاظ میں ساری دنیا کو بتا دیا ہے کہ ہر وہ فیصلہ جو ان کی آزاد مرضی کے خلاف ان پر مسلط کیا گیا وہ اسے ہرگز قبول نہیں کریں گے، چاہے بھارتی ہندو سرکار جس قدر بہیمانہ ظلم و تشدد اور بربریت کا مظاہرہ کیوں نہ کرے۔ اور اپنا حق خود ارادیت بہر صورت لے کر رہیں گے۔
پاکستان شروع سے اقوام عالم کے سامنے اپنا نقطہ نظر واضح طور پر پیش کرتا چلا آرہا ہے کہ یہ محض ایک زمینی ٹکڑے کا تنازع نہیں بلکہ لاکھوں زندہ انسانوں کی زندگیوں، ان کے جائز حقوق کے ساتھ ساتھ دنیا کی دو جوہری طاقتوں کے حامل ممالک کے ڈیڑھ ارب عوام کے مستقبل کا بھی سوال ہے۔ کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے۔ آخر دنیا کو کس بات کا انتظار ہے کہ وہ بھارت سے عالمی فورم کی قراردادوں پر عمل کرا سکے کہ وہ مقبوضہ جموںو کشمیر کے مظلوم ومحروم عوام کو ان کی خواہشات کے مطابق کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے دے۔
وقت آگیا ہے کہ مظلوم وادی کے مظلوم لوگوں کو ان کا حق خود ارادیت دے دیا جائے ۔ یہی اس مسئلہ کا حتمی حل ہے۔
مضمون نگارمختلف قومی وملی موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے