دفائے وطن میں کام آئے
تشکیل و تکمیل فن میں حفیظ کا جو حصہ ہے
نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
پاکستان کے قومی ترانے کے خالق اور ممتاز شاعر حفیظ جالندھری کا یہ شعر یقینا شعروادب کے میدان میں ان کی گراں قدر خدمات کا مظہر ہے جو نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہیں۔
پاک فوج کی ایک ایسی مایہ ناز انفنٹری یونٹ جس کو معرض وجود میں آئے ہوئے بھی دو صدیوں سے زیادہ یعنی 225برس مکمل ہو گئے ہیں ،فن حرب اور میدان کارزار میں اپنا لوہا منوا چکی ہے۔ یہ یونٹ اب بھی خوارج کے خلاف معرکہ آرا ہے اور وطن کی مٹی کو اپنے خون سے سینچ رہی ہے۔ یہ یونٹ برما بٹالین کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ اس نے نہ صرف ملک کے طول و عرض میں سندھ کے صحرائی علاقوں سے لے کر کشمیر کے برف پوش پہاڑوں تک اور مغربی سرحدوں پر اپنی خدمات سر انجام دی ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی عالمی قیام امن فورس میں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک یہ یونٹ دفاع وطن میں اپنے دلاوروں کی جان کا نذرانہ پیش کر چکی ہے
وطن کی ریت مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقیں ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا
آپس میں روابط استوار رکھنے کے لیے یونٹ کے ریٹائرڈ افسران گاہے بگاہے غیر رسمی ملاقاتوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں جن میں ان کی بیگمات بھی شریک ہوتی ہیں۔ حال ہی میں لاہور میں ایک سادہ اور پر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں ریٹائرڈ افسران کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس میں بیرون شہر سے آئے ہوئے مہمان بھی شامل ہوئے۔ اس کے علاوہ آرمی میڈیکل کور کے وہ افسران بھی شامل تھے جو ماضی میں یونٹ کے ساتھ اپنی خدمات سر انجام دے چکے تھے، ان کو بھی برما بٹالین کے کنبے ہی میں شمار کیا جاتا ہے ۔
پاک فوج وطن عزیز کا ایک ایسا منظم اور مربوط ادارہ ہے جو بہت اعلیٰ روایات اور گراں قدر عسکری ورثے کا حامل ہے۔ اس کی مختلف یونٹوں میں رجمنٹیشن ان کا طرۂ امتیاز ہے جو ان کے افسران کو آپس میں اور اپنے جوانوں سے جوڑے رکھتا ہے۔ ان کا یہ باہمی تعلق ہمیشہ قائم و دائم رہتا ہے چاہے وہ اپنی سروس پوری کر کے ریٹائر ہو جائیں یہ رجمنٹیشن پیادہ فوج میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے ۔
ایسی تقریبات اور محفلیں سب کوایسے سنہری مواقع فراہم کرتی ہیں جہاں نہ صرف ماضی کے واقعات اور اورتجربات کو آپس میں بانٹا جاتا ہے بلکہ کئی دلچسپ اور سبق آموز قصوں کا اعادہ بھی کیا جاتا ہے جو ان کی زندگیوں میں گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان ساتھیوں کا بھی ذکر ہوتا ہے جو مختلف معرکوں میں اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر گئے یا اس دنیا سے اپنی طبعی موت کے باعث رخصت ہو ئے ۔
یوں گمان ہوتا ہے کہ بچھڑے ہوئے دوبارہ آن ملے ہیں اور بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کیے ہوئے کے مصداق اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر کے ہی اٹھیں گے ۔
کیا ہی دل آویز منظر ہوتا ہے کہ ایک ریٹائرڈ کمانڈنگ آفیسر کے سامنے وہ آفیسر موجود ہوتے ہیں جو اس کی کمان میں جونیئر آفیسر یعنی لیفٹیننٹ یا کیپٹن تھے اور آج الحمدُاللہ جنرل کے رینک تک پہنچ گئے۔ کس قدر خوشی اور اعزاز کا مقام ہے لیکن اب بھی حفظ مراتب کا خیال رکھا جاتا ہے اور جونیئرز اپنے سینئرزسے اسی عزت اور احترام سے پیش آتے ہیں جیسے وہ ماضی میں کرتے تھے ۔
آخر میں کرنل آف دی بٹالین میجر جنرل احسن وقاص کیانی نے تقریب کے شرکاء سے مختصر خطاب کیا ۔انہوں نے یونٹ کے شہدا ،غازیوں ،ان کے اہل خانہ اور یونٹ کی سر بلندی کے لیے اجتماعی دعا بھی کرائی۔ اس طرح یہ پر رونق محفل اختتام پذیر ہوئی اور تمام شرکا حسین یادوں کا خزینہ سمیٹتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہوئے ۔
زندگی کا ایک دور مہرباں رخصت ہوا
راز دل کہتے تھے جس سے رازداں رخصت ہوا
تبصرے