علامہ اقبال کی معروف اور معرکة لآراء شعری تصنیف بانگ درا ایک ایسی دھنک ہے کہ جس کے سات نہیں بلکہ سیکڑوں رنگ ہیں اور سب کے سب چمکتے دمکتے اور روشنی بکھیرتے رنگ۔انہی رنگوں میں ایک رنگ طنز و مزاح کا بھی ہے۔اس رنگ کو علامہ نے "ظریفانہ" کا عنوان دیا ہے اور اس کے لیے بانگ درا کے تیسرے اور آخری حصے کے چند آخری صفحات مختص کیے ہیں۔اس عنوان کے تحت علامہ اقبال نے اپنی چند مختصر طنزیہ و مزاحیہ نظمیں درج کی ہیں۔ نظموں پر عنوانات درج کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ یہ نظمیں انتہائی سادہ، رواں دواں اور ہلکے پھلکے انداز میں لکھی گئی ہیں ۔ ہر نظم پڑھتے ہی اس کا مضمون،مطلب اور مدعا عیاں ہو جاتا ہے۔
علامہ اقبال امت مسلمہ بالخصوص برصغیر کی مسلم قوم کے ایک سنجیدہ مفکر اور رہبر اور رہنما تھے۔انہوں نے اپنی بے مثال اور شاندار شاعری کے ذریعے حیات و کائنات کے اسرار و رموز فاش کیے ۔وہ کوئی باقاعدہ مزاح گو شاعر نہیں تھے۔ان کی اس ظریفانہ شاعری کا ایک خاص پس منظر ہے جو قارئین کے لیے یقینا دلچسپی کا باعث ہوگا۔
علامہ اقبال نے یہ نظمیں، معروف طنزیہ و مزاحیہ شاعر اور ہمارے قومی رہبر و رہنما، اکبر الہ آبادی کے تتبع میں لکھی تھیں۔اکبر الہ آبادی نے غلامی کے سخت ترین دور میں اپنی شاعری کے ذریعے جس طرح الحاد، لادینیت اور مغربی تہذیب و تمدن کے سیلاب کے سامنے بند باندھا اور برصغیر کی امت مسلمہ کو، ان برائیوں سے دامن بچاتے ہوئے، اپنے دین اور تہذیب و تمدن پر قائم رہنے کا مؤثر ترین سبق دیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔علامہ اقبال اکبر الہ آبادی کی ان خدمات سے بہت متاثر تھے اور ان کے معترف تھے۔ علامہ نے بھی اپنی شاعری سے قوم کی اصلاح اوراس کی بیداری کا کام لیا۔ اسی لیے اکبر الہ آبادی کو "پیش روِ اقبال" بھی کہا جاتا ہے۔ علامہ اقبال اکبر الہ آبادی کی اتنی قدر اور عزت کرتے تھے کہ انہیں اپنا "پیر و مرشد" کہا کرتے تھے۔ لہٰذا علامہ اقبال نے اکبر الہ آبادی کو خراج تحسین و عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کی پیروی میں ظریفانہ رنگ کی چند نظمیں لکھیں۔ اقبال نے جب اکبر الہ آبادی کے تتبع میں ظریفانہ کلام لکھا تو بعض نقادوں نے اس پر تعریض و تنقید کی جسے اکبر اور اقبال دونوں نے بہت محسوس کیا۔ اکبر نے "نقاد" کے مدیر کو، ان نقادوں کے حوالے سے، ایک مذمتی خط لکھنے کے ساتھ ساتھ اقبال کو بھی اس امر سے آگاہ کیا۔اس کے جواب میں علامہ اقبال نے اکبر الہ آبادی کے نام جو خط لکھا اس سے علامہ اقبال کی ان ظریفانہ نظموں کا پس منظر پوری طرح واضح ہو جاتا ہے ۔لکھتے ہیں :
مخدوم و مکرم حضرت قبلہ مولانا:
السلام علیکم !
آپ کا نوازش نامہ ابھی ملا جس کو پڑھ کر بہت مسرت ہوئی۔حضرت! میں آپ کو اپنا پیر و مرشد تصور کرتا ہوں۔ اگر کوئی شخص میری مذمت کرے جس کا مقصد آپ کی مدح سرائی ہو، تو مجھے اس کا مطلق رنج نہیں بلکہ خوشی ہے۔ جب آپ سے ملاقات اور خط و کتابت نہ تھی، اس وقت بھی میری ارادت و عقیدت ایسی ہی تھی جیسی اب ہے اور انشا اللہ جب تک زندہ ہوں، ایسی ہی رہے گی۔اگر ساری دنیا متفق اللسان ہو کر یہ کہے کہ اقبال پوچ گو ہے تو مجھے اس کا مطلق اثر نہ ہوگا کیونکہ شاعری سے میرا مقصد بقول آپ کے حصولِ دولت و جاہ نہیں محض اظہارِ عقیدت ہے۔
عام لوگ شاعرانہ انداز سے بے خبر ہوتے ہیں۔ ان کو کیا معلوم کہ کسی شاعر کی داد دینے کا بہترین طریق یہ ہے کہ اگر داد دینے والا شاعر ہو، تو جس کو داد دینا مقصود ہو، اس کے رنگ میں شعر لکھے یا بالفاظِ دیگر اس کا تتبع کر کے اس کی فوقیت کا اعتراف کرے۔ میں نے بھی اس خیال سے چند اشعار آپ کے رنگ میں لکھے ہیں، مگر عوام کے رجحان اور بدمذاقی نے اس کا مفہوم کچھ اور سمجھ لیا اور میرے اِس فعل سے عجیب و غریب نتائج پیدا کر لیے۔ سوائے اس کے کیا کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو سمجھ عطا کرے۔ نقاد کو جو خط آپ نے لکھا ہے، میں اسے شوق سے پڑھوں گا۔ اگر وہ شائع ہو جائے تو رسالہ کی کاپی بھیج دیجیے گا، میرے پاس نقاد نہیں آتا۔
( اقبال نامہ، حصہ دوم، مرتبہ: شیخ عطااللہ)
علامہ اقبال نے اکبر الہ آبادی کے رنگ میں یہ طنزیہ و مزاحیہ نظمیں 1914 سے 1926 تک کے عرصے میں لکھیں۔
انجمن حمایتِ اسلام کے انتیسویں سالانہ جلسے (1914) کے لیے جس کی صدارت نواب ذوالفقار علی خان صاحب نے کی تھی۔ اقبال مصروفیات کی بنا پر کچھ نہ لکھ سکے تھے لیکن اراکینِ انجمن کے بے حد اصرارپراپنے کچھ خیالات کو منظوم فرمایا اور جلسہ میں پڑھنے سے پہلے فرمایا کہ "یہ چند پکوڑے ہیں جو پبلک کی ضیافتِ طبع کے لیے پیش کرتا ہوں ۔ بعض تازہ اور بعض تو ان میں چوبیس گھنٹہ کے تلے ہوئے ہیں۔ مگر بعد ان پکوڑوں کے ایک لقمۂ تر بھی ہوگا۔''
یاد رہے کہ اس جلسہ میں پڑھا ہوا کلام ،اکبری اقبال کے نام سے خواجہ حسن نظامی کے دیباچے کے ساتھ 1923 میں شائع ہوا ۔ اس میں پندرہ قطعات اور ایک نظم شامل ہے ۔ ان میں سے ایک قطعہ فارسی میں ہے۔ ان میں سے چھ قطعات بانگِ درا میں شامل ہیں اور لقمۂ تر خطاب بہ جوانانِ اسلام کے نام سے شامل ہے۔ بانگِ درا کے حص ظریفانہ میں کل انتیس قطعات ہیں۔
علامہ اقبال نے طنزیہ و مزاحیہ انداز میں بہت کم لکھا اور جو تھوڑا بہت لکھا، اس میں سے انتخاب کر کے،بانگ درا کے اس حصے میں شامل کر دیا۔اس ظریفانہ حصے کے علاوہ کلام اقبال کے باقی مجموعوں میں کوئی ایک آدھ شعر ہی ایسا ہو گا جو طنز و مزاح کے زمرے میں آتا ہو۔ان کا یہ طنزیہ مزاحیہ کلام اگر کوئی اس نیت سے پڑھے کہ وہ اسے پڑھ کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جائے گا تو ایسا ممکن نہیں کیونکہ ان کا یہ ظریفانہ کلام ظریفانہ کم اور حکیمانہ زیادہ ہے۔انہوں نے اپنی اس مزاحیہ شاعری سے تفریح طبع اور ہنسنے ہنسانے کا نہیں بلکہ معاشرے کی اصلاح کا کام لیا ہے۔دوسرے طنزیہ و مزاحیہ شاعروں کی طرح کسی پر کیچڑ اچھالنا یا کسی فرد یا گروہ کی تضحیک کرنا ان کا مقصد ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اپنے اس کلام کے ذریعے افراد قوم کی اصلاح کرنا اور انہیں جدید دور کی قباحتوں اور برائیوں سے بچانا چاہتے ہیں اور سستی، کاہلی اور غفلت سے نکال کر آزادی اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں۔ علامہ کے ظریفانہ کلام میں سطحیت، پھکڑ پن، لطیفہ گوئی، جگت بازی اور دل آزاری نہیں بلکہ ان کے مزاح میں بھی ایک وقار اور تمکنت ہے۔ان کے طنز و مزاح کے پس پردہ قوم کا گہرا درد اور اس کی فلاح و بقا کا گہرا جذبہ کار فرما ہے۔
اپنے پیش رو اکبر الہ آبادی کی طرح علامہ اقبال کے طنز و مزاح کا سب سے بڑا نشانہ مغربی تہذیب و تمدن ہے۔بر صغیر پر انگریزوں کے قبضے کے ساتھ ہی یہاں کے مسلمانوں کو مغربی تہذیب کی شدید یلغار کا سامنا بھی کرنا پڑا۔خواص و عوام اس سیلاب میں بہنے لگے تو قوم کے حقیقی رہنمائوں کو انہیں ڈوبنے سے بچانے کی فکر لاحق ہوئی۔ اس خطرناک امر کا احساس کرنے والوں میں علامہ اقبال اور ان کے پیش رو اکبر الٰہ آبادی پیش پیش تھے۔ اکبر الہ آبادی اور پھر ان کی پیروی میں جس طرح علامہ اقبال نے مغربی تہذیب کی برائیوں،اس تمدن کی خرابیوں، بے راہ روی، مادر پدر آزادی، بے باکی الحاد اور لادینیت کے سامنے اپنے افکار و خیالات کے ذریعے مضبوط بند باندھا وہ ہماری تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔بانگ درا کے اس ظریفانہ باب میں بھی وہ اس تہذیب اور اس کے اپنانے والوں پر طنز کرتے دکھائی دیتے ہیں اور یوں وہ اپنی قوم کو مغربی تہذیب،جدید الحادی تعلیم اور لادینی نظریات سے بچانے اور اپنے دین اور تہذیب و تمدن پر قائم رکھنے کی شدت سے تگ و دو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے
واں کنڑ سب بلوری ہیں یاں ایک پرانا مٹکا ہے
اس دور میں سب مٹ جائیں گے، ہاں! باقی وہ رہ جائے گا
جو قائم اپنی راہ پہ ہے اور پکا اپنی ہٹ کا ہے
اے شیخ و برہمن، سنتے ہو! کیا اہلِ بصیرت کہتے ہیں
گردوں نے کتنی بلندی سے ان قوموں کو دے پٹکا ہے
یا باہم پیار کے جلسے تھے، دستورِ محبت قائم تھا
یا بحث میں اردو ہندی ہے یا قربانی یا جھٹکا ہے
نئی طرزِ حکومت یعنی مغربی جمہوریت کے تحت،حکومت میں عوام کو حصہ دینے کے لیے کونسلیں بنائی گئیں جن میں الجھ کر لوگوں کی نگاہیں اصل مسائل سے ہٹ گئیں۔ الیکشن، ووٹ اور ممبری کے چکر نے آزادی کی سوچیں گم کر دیں۔ علامہ اسلامی روحانی جمہوریت کے تو قائل ہیں مگر وہ مغربی جمہوریت کی ریشہ دوانیوں اور دھوکوں کو پوری طرح جان گئے تھے۔ لہٰذا وہ اپنے باقی کلام میں بھی جگہ جگہ اس جمہوریت کا پول کھولتے ہیں اور اس حصے میں بھی دھوکہ دہی پر مبنی اور عوام کا لہو پینے والے اس نظام پر طنز کرتے دکھائی دیتے ہیں
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
الیکشن، ممبری، کونسل، صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے
میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ
نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے
ایک اور قطعے میں فرماتے ہیں کہ
ہندوستاں میں جزوِ حکومت ہیں کونسلیں
آغاز ہے ہمارے سیاسی کمال کا
ہم تو فقیر تھے ہی، ہمارا تو کام تھا
سِیکھیں سلیقہ اب امراء بھی سوال کا
علامہ اقبال اپنے رب سے ایک گداز اور درد مند دل لے کر پیدا ہوئے تھے۔ان کا دل غریبوں اور بے نوائوں کے ساتھ دھڑکتا تھا۔وہ غریب مزدور اور کسان کے ہمدرد اور ان پر ہونے والے ہر ظلم و ستم کے سخت خلاف تھے۔ دنیا کے کسی بھی انسان اور طبقے پر ہونے والے ظلم پر خون کے آنسو روتے تھے اور ظالموں کے سخت ناقد تھے۔ان کے اردو اور فارسی کلام کا ایک معتدبہ حصہ آمریت، مطلق العنان بادشاہت، سامراجیت، ساہو کاری، سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خلاف توانا صدائے احتجاج پر مشتمل ہے۔ ان کا یہ شعر تو زبان زد عام ہے۔
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
اب ذرا بانگ درا کے اس ظریفانہ حصے میں غریب مزدوروں اور کسانوں کی حمایت میں، ظالم سرمایہ داروں، جاگیرداروں، ساہو کاروں، بسوہ داروں اور حکمرانوں پر کاٹ دار اور جرأت مندانہ طنز کا رنگ دیکھیے۔
رات مچھر نے کہہ دیا مجھ سے
ماجرا اپنی ناتمامی کا
مجھ کو دیتے ہیں ایک بوند لہو
صِلہ شب بھر کی تشنہ کامی کا
اور یہ بِسوہ دار، بے زحمت
پی گیا سب لہو اسامی کا
علامہ اقبال کہتے ہیں کہ ہر ایک مذہب کی تعلیم کا نچوڑ یہی ہے کہ ہر حال میں سچ بولا جائے۔ اسی لیے میں بلا خوف و خطر یہ سچی بات کہتا ہوں کہ ساہوکاری بسوہ داری یعنی زمینداری اور سلطنت یہ تینوں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ یعنی زمیندار اور سرمایہ کار ہی حکمرانوں کے روپ میں عوام پر ظلم کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔
جان جائے ہاتھ سے جائے نہ ست
ہے یہی اک بات ہر مذہب کا تت
چٹے بٹے ایک ہی تھیلی کے ہیں
ساہو کاری، بِسوہ داری، سلطنت
بانگ درا کا بظاہر یہ ظریفانہ حصہ، غریب مزدوروں اور کسانوں کے حق اور سرمایہ داروں،جاگیرداروں اور حکمرانوں کے ظلم کے خلاف انتہائی سنجیدہ رنگ اختیار کر جاتا ہے۔ علامہ اقبال ظالم حکمرانوں، جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں سے غریب کسان اور مزدور کو اس کا جائز حق دلانے کے لیے بلا تکلف قرآنی استدلال اختیار کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ زمین اور زمین پر جو کچھ ہے وہ اللہ کا مال ہے۔لہٰذا زمین پر اور اس کی پیداوار پر اور کارخانے کے مزدور کی محنت کے نتیجے میں ہونے والی کمائی پر کسان اور مزدور کا بھی برابر کا حق ہے۔
کارخانے کا ہے مالک مردکِ ناکردہ کار
عیش کا پتلا ہے، محنت ہے اسے ناسازگار
حکمِ حق ہے لیس لِلاِنسانِ اِلا ماسعی
کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار
اسی طرح ایک اور مختصر نظم میں فرماتے ہیں
تکرار تھی مزارع و مالک میں ایک روز
دونوں یہ کہہ رہے تھے، مرا مال ہے زمیں
کہتا تھا وہ، کرے جو زراعت اسی کا کھیت
کہتا تھا یہ کہ عقل ٹھکانے تری نہیں
پوچھا زمیں سے میں نے کہ ہے کس کا مال تو
بولی مجھے تو ہے فقط اس بات کا یقیں
مالک ہے یا مزارعِ شوریدہ حال ہے
جو زیرِ آسماں ہے، وہ دھرتی کا مال ہے
اور آخر میں ذرا یہ مختصر نظم دیکھیے اور علامہ اقبال کی قرآنی بصیرت اور اس کے نتیجے میں انہیں عطا ہونے والی کمال حکمت، مستقبل بینی اور حق گوئی کی روشنی سے قلب و ذہن منور کرنے کا سامان کیجیے۔
محنت و سرمایہ دنیا میں صف آرا ہو گئے
دیکھیے ہوتا ہے کس کس کی تمنائوں کا خون
حکمت و تدبیر سے یہ فتنئہ آشوب خیز
ٹل نہیں سکتا، وقد کنتم بِہ تستعجِلون،
کھل گئے، یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام
چشمِ مسلم دیکھ لے تفسیرِ حرفِ ینسِلون
ان نظموں کو بار بار پڑھیے اور غور کیجیے کہ شاعر مشرق اور مفکر انسانیت علامہ محمد اقبال، غیر ملکی غاصب، ظالم اور جابر سرمایہ دار انگریز حکمرانوں کی، استبدادی اور سامراجی حکومت کے دور میں، کس جرأتِ رِندانہ سے آواز حق بلند کر رہے ہیں اور ہر قسم کے خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ظالموں کو قرآن کا پیغام سنا رہے ہیں۔
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
تبصرے