یہ سال 2000 ء کی بات ہے ،آرمی کو ضلعی سطح پر مانیٹرنگ کا کام سونپا گیا ۔ مجھے ضلع رحیم یار خان میں ضلعی مانیٹرنگ سیل کا انچارج بنایا گیا ۔ اس کا ایک حصہ شکایات سیل بھی تھا۔ اس کے طریقے کے مطابق ہفتہ وارشکایات وصول کی جاتی تھیں اور متعلقہ محکمے سے اس کے بارے جواب مانگا جاتا جسے اگلے ہفتے شکایت کنندہ کے سامنے رکھ کر اس کا ازالہ کیا جاتا۔ ایسی ہی کسی شکایت کے سلسلے میں، پولیس نے ایک شخص کو قصور وارٹھہرایا۔ شکایت کنندہ نے جواب میں کہا کہ اگر تفتیش میں ڈی ایس پی حافظ فضل میرے خلاف رپورٹ دے دیں تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔ میں کافی حیران ہوا کیونکہ پولیس کے خلاف شکایت میں کسی ایک پولیس افسر پر اتنا بھروسا کبھی نہ دیکھا تھا۔ موجود پولیس افسر سے معلوم کیا تو پتا چلا کہ ڈی ایس پی، سی آئی اے ہیں اور بہت اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ میں نے اسے پرکھنا ضروری سمجھا اور اپنے آپریٹر کو فضل الٰہی صاحب کو صبح دفتر میں بلانے کا کہا۔ اس نے تھوڑی دیر میں بتایا کہ ان کا جواب آیا ہے کہ کل صبح میں مصروف ہوں البتہ پرسوں صبح آسکتا ہوں۔ جواب سے تھوڑی حیرت ہوئی کہ مانیٹرنگ کے ماحول میں ایسا جواب پولیس سے کم ہی آتا ہے ۔بہر حا ل میں خاموش ہو گیا۔ دو روز بعد صبح سات بجے دفتر سے آپریٹر نے کال کی کہ ڈی ایس پی فضل آئے ہیں۔ دفتر کا وقت 9 بجے تھا لیکن میں جلدی سے تیار ہو کر دفتر پہنچا۔ میرے سامنے پولیس کی وردی میں ایک لمبے تڑنگے،قدرے دبلے اور پُر نور سفید داڑھی میں حافظ فضل صاحب تشریف رکھتے تھے۔پہلی نظر میں ایک اچھا تاثر قائم ہوا کیونکہ اس حلیے کا پولیس آفیسرکم از کم میں نے نہیں دیکھا تھا ۔سلام دُعا کے بعد انہوں نے پوچھا، سر میں نے کہیں تفتیش پر جانا ہے آپ نے کسی کام سے بلا یا ہے تو فرمائیے ۔ میں نے کہا آپکا نام سنا تھا ملاقات کرنا تھی۔ کہنے لگے میں ابھی کام سے جا رہا ہوں لیکن آپ سے تفصیلی ملاقات ہوگی۔اگلی ملاقات پر انہوں نے اپنی زندگی کے بارے میں بتایا۔
حافظ فضل منڈی بہائوالدین کے قصبے ڈنگا کے رہنے والے ہیں۔ 1970 ء میں گریجویشن کے بعد پنجاب پولیس میں اے ایس آئی بھرتی ہو ئے۔اگلے ہی برس پاک بھارت جنگ شروع ہوگئی۔ مشرقی پاکستان میں سول نافرمانی کی تحریک کو بے اثر کرنے کے لیے پاکستان سے سول اہلکا روں اور پولیس کا ایک گروپ مشرقی پاکستان بھیجا گیا۔ پولیس کی طرف سے اے ایس آئی فضل بھی اس گروپ کا حصہ بن گئے ۔چند ماہ کی پر آشوب خانہ جنگی کے بعد 16 دسمبر 1971ء کو سقوط ِ ڈھاکہ ہوا اور پاکستان کا مشرقی بازو کاٹ دیا گیا ۔ پاکستانی افواج کے ساتھ ساتھ پولیس کوبھی ہتھیار ڈالنا پڑے۔ فضل صاحب فوجیوں اور دیگر سول حکام کے ساتھ بھارت میں قید کر دیے گئے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں " بھارت کی قید میں ابتدائی دور بہت مایوسی کا گزرا۔سختیوں اور مایوسیوں سے ذہنی اور جسمانی طور پر بہت کمزور ہوگیا۔ کچھ عرصے کے بعد جب کچھ قید کا عادی ہوا تو میں نے اللہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔جیل حکام سے قرآن پاک حاصل کرکے اسکا مطالعہ کیا اورپھر ترجمے کے ساتھ بھی پڑھا ۔وقت بیشما ر تھا اس لیے حفظ کا فیصلہ کیا اور اللہ نے مدد فرمائی اور حفظ مکمل کرلیا ۔ یوں چار برس کی قید و بند کا عرصہ گزر گیا"۔1974 ء میں پاکستان اور بھارت میں قیدیوں کے تبادلے کے بعد فضل صاحب بھی واپس پاکستان آگئے۔اب وہ ایک بدلے ہوئے انسان تھے ۔ان کی چار سال کی سروس کو شامل کیا گیا اورانہیں سب انسپکٹر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ ترقی کے بعد رحیم یار خان کی بدنامِ زمانہ تحصیل صادق آباد میں ایس ایچ او تعینات کیا گیا۔ صادق آباد پنجاب کی آخری تحصیل ہے اور اس کے ملحقہ کچے کے علاقے جرائم پیشہ افراد کا گڑھ ہیں ۔ اسی وجہ سے اس کے جرائم کا تناسب ضلع بلکہ صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ حافظ صاحب ایس پی رحیم یار خان کے سامنے پیش ہوئے اور صادق آباد جانے سے معذوری ظاہر کی۔ وجہ یہ بتائی کہ اس تھانے میں سیاسی اور پولیس کے اعلیٰ حکام کی طرف سے مداخلت بہت زیادہ ہے۔ ایس پی صاحب نے یقین دلایا کہ کسی قسم کی مداخلت نہ ہوگی۔ حافظ صاحب نے کہا کہ سرکال آپ نے بھی نہیں کرنی …!!! ایس پی صاحب نے ہامی بھر لی ۔ اس کے بعد حافظ صاحب نے تحصیل میں اگلے دو برس میں قانون کی ایسی رٹ قائم کی کہ تمام جرائم پیشہ افراد صادق آباد کی حدود سے باہر نکل گئے اور اس سب ڈویژن میں جرائم کی شرح صفر ہو گئی۔اس کے علاوہ ان کی پیشہ وارانہ زندگی بہت سی کامیابیوں اور اعلیٰ کارکردگی کے ریکارڈ سے مزیّن ہے۔ ڈی ایس پی کے طور پر ترقی کے بعد ان کو سی آئی اے میں تعینات کیا گیا جو سونے کی چڑیا سمجھی جاتی تھی۔ اس میں تفتیش میں تبدیلی کرنے پر بھی لاکھوں کمائے جاتے تھے ۔ لیکن حافظ صاحب کی موجودگی میں ایسی کسی بھی چیز کا شائبہ بھی ممکن نہیں تھا ۔
میں نے ان سے ایک چبھتا ہوا سوال کیا کہ پولیس کی محدود تنخواہ میں رشوت لیے بغیر کیسے گزارہ کرتے ہیں جبکہ ان کا معیار زندگی اس سے میل نہیں کھاتا۔ اس پر انہوں نے کسی ناگواری کا اظہار نہیں کیا۔انہوں نے بتایا کہ میری زوجہ اور تین بچے سب کے سب حافظ ہیں اور گھر میں ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت ہوتی رہتی ہے جس کی برکت کا کوئی شمار نہیں۔ انہوں نے اپنی اضافی آمدنی کا ذریعہ کچھ یوں بتایا۔ اپنے آبائی شہر سے کچھ زمین بیچ کر رحیم یار خان شہر میں ایک مکان اور پلاٹ خریدا۔مکان میں رہائش اور پلاٹ میں گاڑیوں کا ایک سروس سٹیشن اور جانوروں کا ایک چھوٹا سا باڑا بنا یا جس میں دو بھینسیں رکھیں۔ ان دونوں سے خاصی معقول آمدنی ہونے لگی۔ اس کی وجہ سے کسی رشوت کی ضرورت نہ پڑی اور ان کو اپنی تنخواہ میں گزر اوقات کرنے میں آسانی ہوئی۔ تفتیش پر اپنا پانی اور دن کا کھانا اور چائے گھر سے ساتھ لے کر جاتے۔ حق کے مطابق تفتیشی رپورٹ لکھتے اور سکھ کی نیند سوتے۔آج کے دور کی طرح اس دور میں بھی پولیس کا رشوت لینا معمول کی بات تھی اور رشوت نہ لینے والے کو الٹا برا سمجھا جاتا۔ میرے وہاں کے قیام کے دوران تمام پولیس افسر ان کے خلاف ہی رہے لیکن ان کے خلاف کوئی بھی شکایت لانے سے قاصر رہے۔ ان کی شخصیت پولیس کے محکمے میں ''کیچڑ میں کنول کے پھول''کی مانند اور عام لوگوں کے لیے باعث اطمینان تھی۔ حافظ صاحب نے ڈی ایس پی کے عہدے پر ہی پولیس سروس سے ریٹائرمنٹ لے لی۔آج نوے برس کے حافظ صاحب رحیم یار خان میں اپنے گھر میں اسی سکون اور اطمینان کی زندگی گزار رہے ہیں جو انہوں نے اپنی سروس میں حلال روزی اور عوام کی خدمت سے کمایا۔ یہ سکون بہت سے اعلیٰ افسران کو بھی شاید نصیب نہ ہو۔ ان کے بچوں میں سے ایک ڈاکٹر ہے اور باقی سب اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ ان کی ذات پولیس کے باقی افسروں اور تمام پاکستانیوں کے لیے مشعل راہ ہے کہ وہ بھی حلال روزی کما کر زندگی گزار سکتے ہیں۔ اللہ ان کو صحت مند لمبی زندگی دے آمین۔
تبصرے