کیا آپ ایک ایسی خاتون کو جانتے ہیں جو80 برس سے اوپر کی ہو چکی ہیں مگر ایسی باہمت ہیں کہ ان پر رشک آتا ہے۔ وہ اپنے دکھوں پر کڑھتے رہنے اور اپنی بیماری اور اکلاپے کا رونا رونے کی بجائے ہر روز دفتر جاتی ہیں ، کا غذ قلم تھام کر نظمیں، مضامین اور کالم لکھتی ہیں، عورتوں کی مختلف تنظیموں کی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں اور یوں عورتوں اور پسے ہوئے طبقات کی توانا آواز ہو جاتی ہیں۔شعر اور ادب ان کی پہلی محبت ہے ۔ظلم کہیں ہو ، آواز کہیں اور سے اٹھے نہ اٹھے ، اس باوقار عورت کی آواز ضرور اٹھتی ہے۔ ایسی آواز جو سب سے بلند ہے اور سب سے الگ ۔ جی قومی تاریخ کا نہایت روشن باب ہونے والی خاتون کشور ناہید کے سوا اور کون ہو سکتی ہے ۔
کہتے ہیں فرانسیسی میں 'فیمنسٹ 'پہلے پہل میڈیکل کی اصطلاح تھی اور ایسے مردوں کے حوالے سے بولی جاتی تھی جن میں نسائی خصوصیات ثانوی سطح پر پائی جاتی تھیں ،وہ جو پنجابی میں کہتے ہیں' زنونے مرد' تو شاید اول اول اس اصطلاح کا یہی مفہوم تھا۔ خیر بعد میں یہ مفہوم اس اصطلاح سے منہا ہو گیا اور دنیا بھر میں نسائی حقوق کی ایسی فکری تحریک سے جڑ گیا جو مرد اور عورت کے رشتے کو ازسر نو مرتب کر رہی تھی؛ انسانی سطح پر اور برابری کی سطح پر۔ اسلام آباد لٹریچر فیسٹول میں مکالمہ کشور ناہید سے تھا اور موضوع یہی فیمینزم یا تانیثیت تھا مگر ہم نے اس تحریک کا پس منظر کھنگالنے کی بجائے بات کشور ناہید کی ذات سے شروع کی ، کہ کشور کی ہڈ بیتی بھی ہمارے اپنے سماج کے تناظر میں تانیثیت کی تاریخ کے سارے اونچ نیچ کی عملی تظہیر ہو جاتی ہے۔
وہ جو کہا جاتا ہے کہ تانیثیت عورت کے تبسم سے اس کے آنسو ئوں تک سب معاملات سے متعلق ایک عالمی تحریک ہے تو اس سے کون انکار کرے گا مگر ہمارے ہاں اس باب میں بہت سے اُلجھاوے ہیں۔ یاد آتا ہے کہ فاطمہ حسن کی کتاب کی تقریب چل رہی تھی۔ اس میں پروفیسر فتح محمد ملک نے انتظار حسین کے تتبع میں ایک ایسا جملہ کہہ دیا جو کشور ناہید کو اچھا نہ لگا تھا۔ انتظار حسین کہتے تھے کہ انہوں نے افسانہ نگاری نانی اماں سے سیکھی، فتح محمد ملک نے کہہ دیا کہ ہم نے تانیثیت اپنی نانیوں دادیوں سے سیکھی ہے۔ کشور ناہید اسٹیج سے اتریں اور واک آئوٹ کر گئیں ۔خود کشور ناہید کو اس سے بھی شدید ردِّ عمل کا سامنا کرنا پڑا تھا، تب جب انہوں نے' عورت مارچ' کے کچھ پوسٹرز اور نعروں پر اعتراض کیا تھا کہ 'میں آوارہ ہوں'، جیساسلوگن عورت کا سلوگن نہیں ہو سکتا۔یہ مرد کا نعرہ بھی نہیں ہو سکتا اور درخواست کی تھی کہ ایسے سلوگن بنانے سے پہلے اپنی تہذیب، روایات اور اپنے شعورکو مدنظر رکھا کریں۔ جی، یہ وہ کشور ناہید کہہ رہی تھیں جنہوں نے عورت کے آگے بڑھنے کے لیے تب راستے ہموار کیے جب اس باب میں کوئی بولتا نہ تھا ۔وہ بولیں اور بری عورت ہو گئی تھیں ۔ ' بُری عورت کی کتھا' سے' ہم گنہگار عورتیں' سب تحریروں کو پڑھ لیں آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ ان کی ساری جد دجہد اس مردانہ ذہنیت کے خلاف ہے جو اپنا حق مانگنے والی اپنی ہی محبوب عورت کے چہرے پربرائی کی کالک مل دیتی ہے ۔ دیکھا جائے تو کشور ناہید کی زندگی بھر کے جتن اور ان کی شاعری اور نثری تحریروں کا مرکز و محور اور موضوع ہمارے سماج کے وہ کمزور طبقات رہے ہیں جن سے زندگی کا حق چھین لیا گیا ہے۔ عورت کو بھی وہ ان پسے ہوئے طبقات میں سب سے کمزور طبقہ سمجھتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ ہمیشہ ان کی طاقت بن کر کھڑی ہوتی رہی ہیں۔ کشور ناہید کے ہاں تانیثیت محض فیشن کے طور پر نہیں آئی بلکہ اپنے حقوق کے لیے عملی جدوجہدکی صورت میں آئی ہے ۔ اس لیے وہ بار بار خبردار کرتی ہیں کہ ہمارے دشمن بہت ہیں، سنبھل کر چلنا ہوگا۔ باہر سے ہتھیائی ہوئی فیشن والی تانیثیت اور پوری زندگی کو اس آگ میں جھونک دینے والی اپنی زمین سے اگی ہوئی تانیثیت میں یہی فرق ہے کہ ایک آخر میں گلیمر ہو جاتی ہے جبکہ دوسری ان سب علاقوں کو نشان زدہ کرتی ہے جہاں جہاں سے عورت نشانہ ہو رہی ہوتی ہے اور اس باب میں آگے بڑھنے کے لیے حکمت عملی کی تشکیل پر اصرار کرتی ہے ۔
کشور ناہید کے ہاں وہ نانیاں، دادیاں اور مائیں کیسے لائق تحسین ہو سکتی ہیں جو بیٹیوں پر بیٹوں کو ترجیح دیتی آئی ہیں۔ اپنے حقوق سے دست بردار ہو کر ایک طرف پڑے رہنے والیاں اور پورے نسائی طبقے کو مردانیت کے نشے سے چور مرد کی غلامی میں دینے والیاں، یقینا فاطمہ حسن والے پروگرام میں پروفیسر فتح محمد ملک نے جن دادیوں، نانیوں اور مائوں کی بات کی تھی، ان کے قدموں تلے اولاد کے لیے جنت ہوتی ہے اور وہ اپنے گھر کو بھی جنت بنالیتی ہیں مگر ہم جس سماج کا حصہ ہیں اس میں فکری سطح پر اتنے رخنے ہیں کہ عورت کے وہ دکھ سامنے ہی نہیں آپاتے جو مردوں کا یہ معاشرہ ہر روز اس کی جھولی میں ڈالتا رہتا ہے۔کشور ناہید نے بتایا تھا کہ عورت کی اس نفسیاتی گرہ کو کھولنے کے لیے سیمون دی بوائر کی' دی سیکنڈ سیکس' کا ترجمہ و تلخیص کرنے کے بعد انہوں نے اس میں اپنے سماج کی مثالیں شامل کر دی تھیں۔ ہمارا سماج مغرب سے مختلف ہے، یہاں عورت کے مسائل کو اپنی صورت حال کے اندر رکھ کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک نفسیاتی مطالعہ میں ان نفسیاتی گرہوں کو کھولا گیا ہے جن میں آج کی عورت بندھی ہوئی ہر جگہ ایکسپلائٹ ہورہی ہے۔ جی وہی عورت جو اسی دھرتی پر دیوی ہو گئی تھی۔ درگا جیسی نیکی کی علامت دیوی، جسے بدی کو ہر حال میں پچھاڑنا ہوتا ہے۔ اور وہ عورت بھی جو لکشمی اور ساوتری ہو کر محترم اور پوجا کے لائق ہو جاتی ہے۔ یہاں ان سب عورتوں کی طرف دھیان جاتا ہے جن کو فہمیدہ ریاض نے اپنی ایک تحریر میں اسی سماج سے دریافت کیا اور جن کے لیے مرد بھی مؤدّب ہو کر جھک جایا کرتے تھے۔ تین بھائیوں کی بہن اور سلطان التمش کی بیٹی رضیہ سلطانہ جو اتنی قابل تھی کہ سلطنت دہلی کی سلطان ہو گئی۔ بابر کی دوراندیش نانی احسان بیگم جس کا ذکر تزک بابری میں ہے۔ اکبر کے زمانے کی جان بیگم جو کابل کی گورنر بنائی گئی اور حکم ناموں پر اسی کے دستخط اور مہر ہوتی تھی۔ ہمایوں نامہ لکھنے والی بابر کی بیٹی اور ہمایوں کی بہن گلبدن بیگم۔ دکن کی چاند بی بی جو بیجاپور کی سلطان تھی اور جس نے مغلوں کی یلغار کا مقابلہ کیا تھا مگر کشورناہید کا کہنا تھا کہ ایسے میں اس عورت کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے جسے باپ اپنی ملکیت سمجھنے لگتا ہے اور شوہر اپنی باندی۔ جب کشور یہ کہہ رہی تھیں تو میرا دھیان عورت کو دیوی کہنے والے ان بیمار ذہنیت والے مردوں کی طرف چلا گیا تھا جن کے ہاں باپ بیٹی کا مالک ہو کر داماد کو کنیا دان کر دیتا ہے اور خاوند اس دان کی گئی عورت کا مالک ہو کر اسے جوئے میں ہار دیتا ہے۔ جہاں بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھا جاتا ہے اور نکاح، طلاق وراثت ہر معاملے میں عورت ہی کے حصے میں ظلم اور محرومی آتی ہے۔
اُردو ادب میں کشور ناہید سے قبل اپنے حقوق کے لیے جدجہد کرنے والی عورتوں کی مثالیں ہیں۔ رشید جہاں، عصمت چغتائی، قر اةالعین حیدر مگر نئے زمانے کی جن دو عورتوں کی دھج بالکل مختلف رہی وہ فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید ہیں۔ بلند شہر کے سید گھرانے میں جنم لینے والی کشور جو بچپن ہی سے حجاب کی پابند بنا دی گئی تھیں، گھر سے نکلیں تو بہت کچھ پیچھے چھوڑ دیا۔ آج کی کشور ناہید، لب گویا، بے نام مسافت، گلیاں دھوپ دروازے، ملامتوں کے درمیان، بری عورت کی کتھا والی عورت ہے۔ ایک خرابے کو آباد اور ایک آباد خرابے میں عورت کے لیے تکریم کی زندگی کی تاہنگ رکھنے والی باہمت تخلیقی عورت۔
اس باہمت اور باوقار عورت کو سلام
جب وہ کووڈ کا شکار ہونے کے باعث قرنطینہ میں تھیں اور پورے حوصلے کے ساتھ کورونا وائرس کی آزمائش سے گزر رہی تھیں۔ ہم جوہر سال ان کے ہاں پہنچ کر سالگرہ منایا کرتے تھے اس سال ان کی 80 ویں سالگرہ منانے کے لیے ان کے پاس نہ جا سکتے تھے تاہم انہیں آن لائن لیا تو جیسے دعائیں دینے والے وہاں قطار در قطار آئے تھے۔ وہ صحت اور ہمت کے ساتھ سلامت رہیں کہ وہ عورت ذات کی توقیر ہو گئی ہیں ۔
کشور ناہید سے ہم نے مختلف اوقات میں کئی نظمیں سن رکھی ہیں اور میں نے اندازہ لگایا ہے کہ انہیں اپنی نظموں میں سے یہ نظم بہت پسند ہے:گھاس بھی مجھ جیسی ہے ۔ آخر میں اسی نظم سے ایک ٹکڑاآپ کے لیے:
گھاس بھی مجھ جیسی ہے
ذرا سر اٹھانے کے قابل ہو
تو کاٹنے والی مشین
اسے مخمل بنانے کا سودا لیے
ہموار کرتی رہتی ہے
عورت کو بھی ہموار کرنے کے لیے
تم کیسے کیسے جتن کرتے ہو
مضمون نگار معروف ادیب اور مصنف ہیں۔
urdufictiongmail.com
تبصرے