اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 22:16
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد یَومِ یکجہتی ٔکشمیر بھارتی انتخابات اور مسلم ووٹر پاکستان پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان سے غیرقانونی مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ اور اس کا پس منظر پاکستان کی ترقی کا سفر اور افواجِ پاکستان جدوجہدِآزادیٔ فلسطین گنگا چوٹی  شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے مواقع اور مقامات  عالمی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ پاکستانی شہریوں کے قتل میں براہ راست ملوث بھارتی نیٹ ورک بے نقاب عز م و ہمت کی لا زوال داستا ن قائد اعظم  اور کشمیر  کائنات ۔۔۔۔ کشمیری تہذیب کا قتل ماں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور بھارتی سپریم کورٹ کی توثیق  مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ۔۔ایک وحشیانہ اقدام ثقافت ہماری پہچان (لوک ورثہ) ہوئے جو وطن پہ قرباں وطن میرا پہلا اور آخری عشق ہے آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی میں کانووکیشن کا انعقاد  اسسٹنٹ وزیر دفاع سعودی عرب کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے ملاقات  پُر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد بھارت میں اقلیتوں پر ظلم: ایک جمہوری ملک کا گرتا ہوا پردہ ریاستِ پاکستان اورجدوجہد ِکشمیر 2025 ۔پاکستان کو درپیش چیلنجز اور کائونٹر اسٹریٹجی  پیام صبح   دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار شہید ہرنائی سی پیک 2025۔امکانات وتوقعات ذہن سازی ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل کلائمیٹ چینج اور درپیش چیلنجز بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبے ففتھ جنریشن وار سوچ بدلو - مثبت سوچ کی طاقت بلوچستان میں سی پیک منصوبے پانی کی انسانی صحت اورماحولیاتی استحکام کے لیے اہمیت پاکستان میں نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ کیوں داستان شہادت مرے وطن کا اے جانثارو کوہ پیمائوں کا مسکن ۔ نانگا پربت کی آغوش ا یف سی بلوچستان (سائوتھ)کی خدمات کا سفر جاری شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ''کشور ناہید''۔۔ حقوقِ نسواں کی ایک توانا آواز نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا بسلسلہ بانگ درا کے سو سال  بانگ درا کا ظریفانہ سپہ گری میں سوا دو صدیوں کا سفر ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنے والے جشنِ افواج پاکستان- 1960 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا جمہوریہ عراق کا سرکاری دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اورماڑہ کے فارورڈ نیول آپریشنل بیس کا دورہ  چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر کی نارووال اور سیالکوٹ کے قریب فیلڈ ٹریننگ مشق میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کاوانا ، جنوبی وزیرستان کادورہ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء کا نیول ہیڈ کوارٹرز  کا دورہ نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے وفد کا دورہ نیول ہیڈ کوارٹرز جمہوریہ آذربائیجان کے نائب وزیر دفاع کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات  گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طالبات اور اساتذہ کا ہیڈکوارٹرز ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا دورہ کمانڈر کراچی کور کا صالح پٹ میں تربیتی مشقوں اور پنوں عاقل چھائونی کا دورہ کمانڈر پشاور کورکی کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی کی فیکلٹی  اور کیڈٹس کے ساتھ نشست مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کا پاک فوج کے ساتھ یادگار دن ملٹری کالج جہلم میں یوم ِ والدین کی تقریب کی روداد 52ویں نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2024 کا شاندار انعقاد    اوکاڑہ گیریژن میں البرق پنجاب ہاکی لیگ کا کامیاب انعقاد ملٹری کالج جہلم میں علامہ اقبال کے حوالے سے تقریب کا انعقاد حق خودرادیت ۔۔۔کشمیریوں کا بنیادی حق استصوابِ رائے۔۔مسئلہ کشمیر کا حتمی حل انتخابات کے بعد کشمیرکی موجودہ صورتحال سالِ رفتہ، جموں وکشمیر میں کیا بدلا یکجاں ہیں کشمیر بنے گا پاکستان آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ ایک شاندار فضائی حربی معرکہ حسینہ واجد کی اقتدار سے رُخصتی کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش میں دوطرفہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز شائننگ انڈیا یا  ہندوتوا دہشت گرد خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل امیدوں، چیلنجز اور کامیابیوں کے نئے دور کا آغاز کلام اقبال مدارس رجسٹریشن۔۔۔حقائق کے تناظر میں اُڑان پاکستان پاکستان میں اردو زبان کی ترویج وترقی امن کی اہمیت مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے میری وفا کا تقاضا کہ جاں نثارکروں ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن بڑھتی ہوئی آبادی، درپیش مسائل اور ان کا حل تھیلیسیمیا سے بچا ئوکیسے ممکن ہے ماحولیاتی آلودگی ایک بڑا چیلنج سانحہ مشرقی پاکستان مفروضے اور حقائق - ہلال پبلیکیشنز کے زیر اہتمام شائع کردہ ایک موثر سعی لا حاصل کا قانون یہ زمانہ کیا ہے ترے سمند کی گرد ہے مولانا رومی کے افکار و خیالات کشمیر جنت شہید کی آخری پاکستان کا مستقل آئین۔1973 بنگلہ دیش کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی قیادت میں اعلیٰ سطحی دفاعی وفد کا ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا کویت کا سرکاری دورہ بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات سربراہ پاک بحریہ ایڈمرل نوید اشرف سے بنگلہ دیش کے پرنسپل اسٹاف آفیسر کی ملاقات بنگلہ دیش کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی قیادت میں اعلیٰ سطحی دفاعی وفد کا ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ البرق ڈیژن اوکاڑہ کی طرف سے مسیحی برادری کے لیے فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد سیلرز پاسنگ آؤٹ پریڈ پاک بحریہ فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کمانڈر سدرن کمانڈ و ملتان کور کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے اساتذہ اور طلباء کے ساتھ خصوصی نشست نمل یونیورسٹی ملتان کیمپس اور یونیورسٹی آف لیہّ کے طلبہ و طا لبات اوراساتذہ کا مظفر گڑھ فیلڈ فائرنگ رینج کا دورہ اوکاڑہ گیریژن میں تقریبِ بزمِ اقبال کاانعقاد ملٹری کالج سوئی میں سالانہ یوم ِوالدین کی تقریب آل پاکستان ایف جی ای آئی ایکسیلنس ایوارڈ کی تقریب 2024ء اوکاڑہ گیریثر ن، النور اسپیشل چلڈرن سکول کے بچوں کے لیے
Advertisements

ہلال اردو

شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

جنوری 2025

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ جو عبادات کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ معاشرتی زندگی کے تمام خدوخال بھی متعین کرتا ہے۔ حقوق و فرائض کی وضاحت بھی کرتا ہے۔ ریاست اور فرد کے مابین ایک معاہدہ ہوتا ہے جسے عمرانی معاہدہ یا سوشل کنٹریکٹ کہا جاتا ہے۔ اس میں شہری کی ذمہ داریوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ اسلام سے پہلے عرب معاشرے میں جنگ و جدل، قبیح رسوم، عورتوں پر ظلم، بچیوں کو زندہ درگور کرنا، طاقتور کی کمزور پر اجارہ داری، غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھا جانا عام تھا۔ پھر عرب میں پہلی نظریاتی اور اسلامی ریاست وجود میں آئی۔ عرب بدوئوں کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں آئیں۔ انسانوں کے ہی نہیں جانوروں اور نباتات کے حقوق کا بھی تعین کیا گیا۔ اسلامی تعلیمات کی عملداری نے عرب معاشرے میں ایسی مثبت تبدیلیاں پیدا کیں کہ پوری دنیا اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ 



اسلامی معاشرے میں ہر شہری کے حقوق کے ساتھ اس کی ذمہ داریوں پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اگرہر شہری اپنی ذمہ داریاں بحسن و خوبی ادا کرے تو بہترین معاشرہ تشکیل پائے۔ ایک ذمہ دار شہری اپنی ذات، خاندان کے علاوہ ملکی و قومی مفادات کا بھی محافظ ہوتا ہے، قومی اثاثوں کی حفاظت کرتا ہے۔ وہ کسی بھی پیشے سے منسلک ہو، سرکاری یا نجی ادارے میں ملازم ہو، اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دیتا ہے۔ کاروبار کرتا ہے تو جائز منافع اور ایمانداری کو پیش نظر رکھتا ہے۔ طالب علم ہے تو محنت سے تعلیم حاصل کرتا ہے، کوئی بھی شخص ناجائز ذرائع سے کامیابی یا دولت کے حصول کی کوشش نہیں کرتا، سچ بولتا ہے، اپنے گھر، گلی محلے اور وطن کو صاف ستھرااور گندگی و آلودگی سے پاک رکھتا ہے۔ ریاست کے ساتھ وفادار رہتا ہے۔ قومی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتا ہے۔ بطور والدہ یا والد اپنے بچوں کی بہترین تربیت اور کردار سازی کرتا ہے اور انہیں بھی فرض شناس اور مفید شہری بنانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ دوسروں کی رائے کا احترام کرتا ہے۔ ذاتی مفاد کے بجائے قومی مفاد کے پیشِ نظر اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتا ہے۔ 
اگر ہم بطور شہری اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کریں تو معاشرہ ایک فلاحی ریاست کا منظرنامہ پیش کر سکتا ہے۔ اسلام میں دوطرح کے حقوق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق اور انسانوں کے حقوق، حقوق اللہ مثلاً عبادات کی ادائیگی لازم ہے لیکن ان میں کسی قسم کی کوتاہی اللہ تعالیٰ چاہے تو معاف کر دے۔ جبکہ حقوق العباد سے غفلت یا کسی انسان کی دوسرے انسان سے زیادتی، حق چھیننا، دھوکہ دینا، بدخلقی، اس کی جان، مال اور آبرو کو نقصان پہنچانا اللہ تعالیٰ معاف نہیں فرمائے گا، جب تک کہ متاثرہ فرد خود معاف نہ کر دے۔ تمام اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیں تو وہ دوسروں کی خیرخواہی، خوش اخلاقی، بے لوث تعاون، ایثار و قربانی، مہمان نوازی اور مثالی معاشرے کی تشکیل اخلاقیات پر مشتمل ہیں۔ 
''نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کیا کرو''۔ (القرآن) 
حضرت عمر بن حزم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ''جو مومن اپنے بھائی کو کسی مصیبت پر تسلی دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن عزت افزائی کی خلعت (عزت کا جوڑا) عطا فرمائے گا۔'' (ابن ماجہ)۔ اندازہ کریں کہ یہ اجر صرف تسلی دینے والے کے لیے ہے جو اپنے بھائی کی مصیبت میں مدد کرے گا اس کا اجر و ثواب کیا ہو گا۔ ایک افسوسناک امر یہ ہے کہ بعض لوگ اپنی ذاتی پسند، برادری ازم، لسانیت یا ذاتی مفاد کی خاطر جھوٹے ، منافق، بددیانت اور ملکی مفاد کے خلاف لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں، سچے اور کھرے لوگوں کا ساتھ نہیں دیتے۔ یہ رویہ معاشرتی بگاڑ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ فرمان ایسے لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ ''سب سے ذلیل ترین انسان وہ ہے جسے حق اور سچ کا پتہ ہو ا اور وہ پھر بھی جھوٹ کے ساتھ کھڑا ہو۔''
ایک حدیث مبارکہ ہیکہ ''بہترین مسلمان وہ ہے جس  کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔'' اس حدیث کے پیش نظر ان نام نہاد مسلمانوں کو دیکھیں جنہوں نے حلیے تو مسلمانوں جیسے بنا رکھے ہیں مگر مساجد، تعلیمی اداروں، سکیورٹی اداروں پر حملے کر کے نہتے اور معصوم مسلمانوں کو شہید کرتے ہیں۔ سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے معصوم بچے اور بسوں میں سفر کرتے ہوئے بے گناہ مسافر بھی ان کی دہشت گردی سے محفوظ نہیں۔ وہ اسلام کا یہ واضح فیصلہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جس نے کسی ایک (بے گناہ) انسان کو قتل کیا گویا اس نے پوری بنی نوع انسان کو قتل کیا۔ ایسے خوارج اور دہشت گردوں کے لیے سہولت کاری کرنے والوں کو بھی آخرت میں اپنے ہولناک انجام اور بدترین عذاب سے ڈرنا چاہیے۔ 
اسلام نے خواتین اور بچیوں کے حوالے سے بھی معاشرے اور شہریوں کو ان کے حقوق و احترام کا پابندکیا ہے۔ خاص طور پر والدین کو بچیوں کی عمدہ تربیت پر اجر کا مستحق قرار دیا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بچیوں کے پیدا ہونے کو برا سمجھا جاتا تھا اور انہیں زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ تب سورة التکویر کی یہ آیت نازل ہوئی۔
ترجمہ: ''اور جس بیٹی کو زمین میں گاڑ دیا گیا تھا اس سے پوچھا جائے گا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا۔'' سنن ابی دائود میں حدیث درج ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا۔ ''جس شخص کی بچی پیدا ہو، وہ نہ تو اسے زندہ دفن کرے اور نہ ہی اس کے ساتھ برا سلوک کرے اور نہ اس پر لڑکے کو ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کر دے گا۔'' اسی طرح دو بیٹیوں کی اچھی تربیت کرنے پر اپنی ہم نشینی کی بشارت دی ہے۔ 
دیانت داری ایسا وصف ہے جس کی اسلام نے بہت تاکید کی ہے۔ ہر شہری اگر اپنا کام دیانت داری سے انجام دے تو کسی سے کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ نہ کوئی دھوکہ دے۔ حدیث مبارکہ ہے 
''جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میںسے نہیں۔'' (جامع ترمذی) اسی طرح کم تولنے، ذخیرہ اندوزی کرنے، ناجائز منافع کمانے اور خیانت کرنے والوں کو بھی خبردار کیا گیا ہے۔ جبکہ دیانت دار کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''سچے اور امانت دار تاجر کو نبیوں، صدیقوں اور شہداء کی معیت اور رفاقت نصیب ہوگی۔'' (ترمذی) 
اسی طرح ارشاد فرمایا: ''کسی تاجر کے لیے جائز نہیں کہ وہ کوئی چیز بیچے اور اس کے اندر جو عیب ہے اسے بیان نہ کرے''۔ 
اگر کسی معاشرے میں عدل و انصاف نہ ہو تو معاشرہ بدامنی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہر حکمران اور منصف پر لازم ہے کہ وہ اپنے حلف کی پاسداری کرے۔ منصف عدل و انصاف کے مطابق فیصلے کرے اور امیر غریب، بااثر اور مجبور کے درمیان تفریق نہ کرے۔ کیونکہ منصف بھی بطور شہری معاشرے کا حصہ ہے۔ اسلام کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ جہاں اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی یا فرائض کی تکمیل میں خیانت پر خبردار کرتا ہے وہاں احسن طریقے سے اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی پر اجر و ثواب کی خوشخبری بھی دیتا ہے۔ سورة المائدہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔  ''اعد لوھو اقرب التقویٰ'' ۔
ترجمہ: ''انصاف کرو کہ یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے۔''۔ اور ساتھ فرمایا۔ ''اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ اس سے باخبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو''۔ اسی طرح وعدوں کو پورا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ 
ہمارے ہاں جو خواتین بطور شہری اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے میدان عمل میں نکلتی ہیں ان کو طنز و تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسلامی حدود و قیود کا خیال رکھتے ہوئے خواتین کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں، علوم و فنون پر مہارت حاصل کریں اور اپنی صلاحیتوں سے ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ بطور شہری ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خواتین کی حوصلہ افزائی کریں۔ طنز و تنقید اور حوصلہ شکنی سے گریز کریں۔ اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلائیں۔ اسلام کے ابتدائی دور میں خواتین نے مثالی خدمات انجام دیں۔ اسلام نے خواتین کو جو عزت و احترام بخشا وہ پہلے موجود نہ تھا۔ قرآن مجید میں کئی آیات صرف خواتین کے حوالے سے نازل ہوئیں۔ خواتین نے مثالی خدمات اور لازوال قربانیاں پیش کیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب غار ثور میں پناہ لی تو حضرت اسمائ جو اس وقت کم سن تھیں، قریش مکہ کی نظروں سے چھپ کر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا پہنچایا کرتی تھیں۔ حضرت صفیہ نہایت بہادر اور نڈر خاتون تھیں۔ آپ دوران جنگ زخمیوں کو میدان جنگ سے باہر لاتیں اور ان کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ غزوہ خندق کے دوران جب ایک یہودی نے مسلمان خواتین پر حملہ کیا تو انہوں نے اس پر ایسا کاری وار کیا کہ اس کا سر کاٹ کر دشمن فوج کی طرف پھینک دیا۔ اس کے بعد کسی دشمن کی ہمت نہ ہوئی کہ مسلم خواتین پر حملہ کرتا۔
 جنگ احد کے دوران جب کفار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ آور ہونے کی کوشش کر رہے تھے اور جاں نثار آگے بڑھ کر اپنی جانیں قربان کر رہے تھے تو حضرت اُم عمارہ بھی تلوار اٹھائے حملہ آوروں کو پیچھے ہٹا رہی تھیں۔ اس دوران انہیں کئی زخم بھی آئے۔ دیگر غزوات میں بھی انہوں نے بہادری کے جوہر دکھائے۔ اسی طرح مسلم خواتین غزوات کے دوران زخمیوں کو پانی پلا کر اور ان کی مرہم پٹی کر کے اپنی شہری و دینی ذمہ داریاں ادا کرتی تھیں۔ حضرت ام عطیہ نے سات غزوات میں صحابہ کرام کے لیے کھانا پکایا۔ جنگ قادسیہ میں حق و باطل کے معرکے کے دوران حضرت خنسا اشعار کے ذریعے اپنے چاروں بیٹوں اور مجاہدین کے جذبہ جہاد میں اضافہ کر رہی تھیں۔ جب ان کے چاروں بیٹے شہید ہو گئے تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جس نے بیٹوں کی شہادت کا شرف مجھے بخشا۔ بلاشبہ عقیدہ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالتۖ کے لیے جو مرد و زن بھی کوشش کریں گے اللہ تعالیٰ ان کا اجر ضائع نہیں کرے گا۔ ایک موقع پر حضرت عمر نے چادریں تقسیم فرمائیں۔ ایک چادر بچ گئی۔ کسی نے کہا کہ اپنی اہلیہ کو دے دیں۔ تو حضرت عمر نے فرمایا کہ اُم سلیط اس کی زیادہ مستحق ہیں کیونکہ وہ غزوہ احد میں مشک بھر کر پانی لاتی تھیں اور ہمیں پلاتی تھیں۔ 
اسلام کے ابتدائی دور میں خواتین نے بطور شہری اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نبھا کر واضح نمونہ پیش کیا۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام نے ان خواتین کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا اور عزت و احترام کے ساتھ ان کی صلاحیتوں کی تحسین کی۔ ہماری آج کی خواتین کو چاہیے کہ ان صحابیات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نہ صرف اپنی ذمہ داریاں ادا کریں بلکہ ام خنسا اور دیگر صحابیات کی طرح اپنے بچوں میں جوش جہاد اور جذبۂ شہادت پیدا کریں اور انہیں معاذ اور مسعوذ کی طرح باطل سے ٹکرانے کی ترغیب دیں۔ ان کی ایسی تربیت کریں کہ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم اور راشد منہاس بنیں اور ملک و قوم کی حفاظت کریں۔ 
آجر اور اجیر بطور شہری اپنی ذمہ داریوں کے بارے جوابدہ ہیں۔ ان دونوں کے درمیان جو معاہدہ ہوتا ہے وہ بھی ایک امانت اور ذمہ داری ہے۔ سورة النساء میں ہے۔ ''اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانت، امانت والوں کو ادا کر دو۔'' آجر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اجیر کی حق تلفی نہ کرے اور اجیر کو چاہیے کہ وہ اپنا کام بخوبی کرے۔ کوئی فریق کسی کا حق نہ مارے 'نہ ظلم کرے' نہ نقصان پہنچائے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ ''مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دی جائے۔'' بخاری شریف کی حدیث ہے۔ ''قیامت کے دن میں ایسے شخص کے خلاف استغاثہ دائر کروں گا جو مزدور سے کام تو پورا لے لیکن پوری اجرت ادا نہ کرے'' اسی طرح مزدور یا ملازم اپنے آقا کے مال اور اس کی طرف سے سپرد کی ہوئی خدمات میں امین اور نگران ہے۔ قیامت کے دن اس سے دریافت کیا جائے گا کہ کتنا حق ادا کیا اور کتنی حق تلفی کی۔ 
اسی طرح استاد کے ذمے نئی نسل کو تعلیم و ہنر سے آراستہ کرنا ہے۔ نئی نسل کی صحیح خطوط پر تربیت کسی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ بچوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی کردار سازی بھی کریں۔ اساتذہ کی طرف سے فرائض میں غفلت پورے معاشرے کو زوال پذیر کر سکتی ہے۔ نوجوان نسل کو بھی چاہیے کہ وہ بطور شہری اپنی ذمہ داریوں سے واقفیت حاصل کریں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے گمراہ کرنے والے سازشی عناصر سے خبردار رہیں۔ ہائبرڈ وار کے اس دور میں کسی منفی پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں۔ اور کسی ایسی منفی مہم کا حصہ نہ بنیں جو قومی و ملکی مفاد، اداروں سے ٹکرائو اور ریاست کے خلاف ہو۔ بے حیائی، برے کاموں اور بری صحبت سے بچیں اور اپنے کردار و اخلاق کو سنواریں۔ منشیات کے استعمال سے بچیں۔ نشہ آپ کو ہی نہیں آپ کے پورے خاندان کو اجاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ صحافیوں پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں اور پیشے کی نزاکت کو سمجھیں۔ اپنے قلم کو ملک و قوم کے مفاد کے لیے استعمال کریں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا قول ہے۔ ''قلم کی طاقت تلوار سے زیادہ ہے۔'' 
صحافیوں اور ادیبوں کو چاہیے کہ وہ قلم کی طاقت کا استعمال مثبت کریں۔ خبر کی تصدیق کر کے آگے بڑھائیں۔اسلام کا واضح فیصلہ ہے کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کوئی بات بغیر تصدیق کیے آگے پھیلا دے۔ اپنے قلم کے ذریعے نیکی کی ترغیب دیں اور برائی سے روکیں۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ''جو ہدایت کی طرف بلائے، اسے تمام عمل کرنے والوں کے برابر ثواب ملے گا اور ان کے اپنے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی۔ اور جو گمراہی کی طرف بلائے گا تو اس پر تمام پیروی کرنے والے گمراہوں کے برابر گناہ ہو گا۔'' (صحیح مسلم) علماء کرام کو بھی اپنا فریضہ احسن طریقے سے انجام دینا چاہیے اور اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنی چاہیے۔ فرقہ واریت اور تعصب کے فروغ سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اسلام امن اور رواداری کا مذہب ہے۔ آپس میں اتحاد اور اتفاق کی تلقین کرنی چاہیے۔ 
اسلام نے انسانوں ہی نہیں حیوانات و نباتات کے حوالے سے بھی شہری ذمہ داریوں کا احاطہ کیا ہے۔ جانوروں اور پرندوں پر ظلم کرنے یا ان کو بھوکا پیاسا رکھنے سے سختی سے منع کیا ہے۔ اور ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کی ہدایت کی ہے۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسا گدھا دیکھا جس کے منہ کو آگ سے داغا گیا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس گدھے کے ساتھ ایسا سلوک کرنے والے پر لعنت فرمائی۔ (صحیح مسلم) ایک مرتبہ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا ہمیں جانوروں سے اچھا سلوک کرنے کا بھی اجر ملے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ 'ہر ذی روح کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر اجر ہے'۔ (سنن ابو دائود) نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ 'جو کوئی مسلمان درخت لگاتا ہے، یا کھیتی باڑی کرتا ہے اور اس درخت یا کھیتی سے کوئی چڑیا، آدمی یا جانور کھاتا ہے تو اس لگانے والے یا بونے والے کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے'۔ (صحیح بخاری و مسلم) ۔ کوئی شخص کسی درخت کی چھائوں میں بھی بیٹھے تو درخت لگانے والے کو ثواب ملتا ہے۔ اگر ہم انسانی بقا کے لیے ماحولیاتی آلودگی اور بیماریوں کے خاتمے کی نیت سے پودے یا درخت لگائیں تو اس کا بھی ثواب ملے گا اور ہمارے لیے صدقہ جاریہ ہو گا۔ 
معاشرے کا ہر فرد جو کسی عہدے پر ہو، کاروبار کرتا ہو، ملازمت کرتا ہو، محنت مزدوری کرتا ہو، کھیتی باڑی کرتا ہو، غرض کسی بھی شعبے سے وابستہ ہو وہ اس معاشرے کا شہری ہے۔ اور بطور شہری اس کی جو ذمہ داریاں ہیں، نہ صرف اسے ان ذمہ داریوں کا احساس و ادراک ہونا چاہیے بلکہ پورے خلوص و نیت سے ان ذمہ داریوں کو ادا بھی کرنا چاہیے۔ تب ہی کوئی معاشرہ مثالی معاشرہ بن سکے گا کیونکہ 
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا 


تعارف:مضمون نگار ایک مجلے کے مدیر ہیں اور اخبار کے لیے کالم بھی لکھتے ہیں۔
[email protected]