پاکستان کی پہچان نانگا پربت اپنے حسن کے جلوئے بکھیرتا پاکستان کے صوبے گلگت بلتستان میں واقع ہے ۔ دنیا کی نویں اور پاکستان میں کے ٹو کے بعد یہ دوسری بلند ترین چوٹی ہے جو سلسلہ کوہ ہمالیہ میں واقع ہے ۔ سطح سمندر سے اسکی بلندی تقریباً 8,126میٹر یا26,660فٹ ہے ۔سال بھر برف سے ڈھکی یہ چوٹی اپنے اندر بے پناہ حسن اور کشش رکھتی ہے خاص طور پر چودھویں کی رات کو جب چاند اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے اور کہکشائیں اس سے باتیں کرتی ہیں تو اسکی خوبصورتی انسانی عقل کو حیرت میں مبتلا کردیتی ہے۔چاندنی راتوں کو چاند کی روشنی اسکی ساتھی ہوتی ہے تو دن کے اجالے میں سورج اسکا ہمسفر ہوتا ہے اور اندھیری راتوں میں سفید برف کے گالے اسے روشنی فراہم کرتے ہیں ۔
الغرض نانگا پربت ہر لمحے قدرت کی عطاء کردہ روشنی کا مینارہ محسوس ہوتاہے ۔ شاہراہ قراقرم پر سفر کرتے ہوئے یہ دور سے اسکا نظارہ کرتا ہے اور گویا اپنے مہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہے ۔ نانگا پربت محل و قوع کے اعتبار سے کوہ ہمالیہ کے مغربی حصے کے آخری سرے پر واقع ہے ۔کوہ پیمائی کی بات کی جائے تو دنیا کی اس عظیم چوٹی کو جرمنی کے کوہ پیما ہرمین بوہل نے 1953ء میں سر کیا ۔ نانگا پربت اپنے خدوخال کے لحاظ سے دنیا کی خطرناک ترین چوٹیوں میں شمار کیا جاتا ہے جیسا کہ اسکے نام سے بھی ظاہر ہے نانگا پربت نانگا کا مطلب نوکیلی اور پربت کا مطلب پہاڑ ۔
نانگا پربت کو سر کرنے کی کوشش میں اب تک تقریباً49 کوہ پیماہ جان کی بازی ہار چکے ہیں ۔ کوہ پیمائوں کی دنیا میں اسے ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی زیادہ مہم جو تصور کیا جاتا ہے۔ موسم سرما میں نانگا پربت بہت زیادہ خطرناک اور دشوار گزار ہوجاتا ہے ۔ نانگا پربت کو موسم سرما میں سب سے پہلے فروری 2016 ء کو سائمن مورو ۔ ایلکس ٹیکسکون اور پاکستانی کوہ پیماء علی سدپارہ (شہید) نے سرکیا جو پاکستان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں ۔موسم سرما میں نانگا پربت کو سر کرنے کے لیے ایک ٹیم جو ٹام میکسوچ (پولینڈ) اور خاتون کوہ پیماہ ایلزبتھ ( فرانس ) پر مشتمل تھی، نے اس کٹھن اور دشوار گزار سفر کا آغاز کیا۔ جیسے جیسے سفر آگے بڑھتا گیا موسم خراب سے خراب تر ہوتا گیا اور بالآخر خراب موسم کی وجہ سے مزید سفر کو روک دیا گیا ۔
چنانچہ 43سالہ پولینڈ کے کوہ پیماہ ٹام میکسوچ منفی 60ڈگری کی شدید سردی سے لڑتے لڑتے معذور کردینے والی برفانی بیماری سنو بلائنڈس اور فراسٹ ہائٹ کا شکار ہو گیا اسکی ساتھی کوہ پیماہ ایلزبتھ نے 7400میٹر کی بلندی سے ریسکیو کال کی اسی دوران ایلزبتھ بہادری کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے ٹام میکسوچ کو 7280میٹر بلندی تک نیچے لانے میں کامیاب ہوگئی حالانکہ ایلزبتھ خود بھی بائیں پائوں کی پانچویں انگلی میں فراسٹ ہائیٹ کا شکار تھی۔ یہاں پر ٹام میکسوچ کولانے کے بعد خاتون کوہ پیماہ نے ان کو قدرے ہموار سطح پر لٹا دیا ۔
یہ فراسٹ ہائیٹ کیا ہے؟ عام طور پر یہ بیماری زمین سے زیادہ بلندی کی وجہ سے ہوتی ہے اور زیادہ تر ہاتھوں اور پائوں پر حملہ آور ہوتی ہے جس میں انگلیاں بے جان ہوجاتی ہیں، ان پر دبائو یا سردی کا اثر محسوس نہیں ہوتا، شروع میں متاثرہ حصہ گرم ہوتا ہے اس میں سوجن آجاتی ہے اور وہ خاصا نرم ہو جاتا ہے کچھ عرصے بعد اس میں بلسٹر بن جاتے ہیں جن کے اندر سرخی مائل اور گہرے رنگ کا مائع جمع ہوجاتا ہے۔ متا ثرہ حصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور پھر آخر میں یہ حصہ بالکل بے حس ہوجاتا ہے۔ اس میں خون کا دورانیہ نہیں ہوتا اور پھر بالآخر یہ حصہ مرجاتا ہے۔ ٹام میکسوچ کو لٹانے کے بعد ایلزبتھ مدد لینے کے لیے اکیلی نیچے روانہ ہوگئی ۔
اسی دوران پولینڈ اور روسی کوہ پیمائوں کی ایک ٹیم کے ٹو کو سر کرنے کے لیے برسرِپیکار تھی جب انہیں بذریعہ سیٹلائٹ موبائل اس واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے قربانی دیتے ہوئے اپنی مہم وہیںروک دی اور نانگا پربت کا سفر اختیار کیا ۔ریسکیو کے دوران ایلزبتھ کو تو بچالیا گیا لیکن ٹام میکسوچ نے نانگا پربت کو ہی اپنا مستقل مسکن بنالیا اور ابدی نیند سو گیا ۔ٹام میکسوچ نے جستجو کی عظیم داستان رقم کردی۔ وہ اس سے پہلے بھی نانگا پربت کی اس خوبصورت چوٹی کو سر کرنے کی چھ بار ناکام کوشش کرچکا تھا اور بالآخر ساتویں کوشش میں وہ ہمیشہ کے لیے نانگا پربت کا ہی ہو گیا ۔
زندگی روانی کا نام او ر جستجو اس کی پہچان
مضمون نگار سماجی، معاشرتی اور سیاحتی موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے