یہ کہانی نہیں کہ اسے بس بیان کر دیا جائے، یہ کوئی فلم یا ڈراما بھی نہیں جس کو مناظرسے دکھایا جائے۔ یہ تو داستانِ شجاعت ہے ۔ داستان شہادت ہے اس لیے اس کے لیے لہو کی روشنائی درکار ہے۔ یہ میدان کارزار کی داستان شہادت نہیں کہ گھمسان جنگ میں حاصل ہوئی ہو۔ یا سیا چن کے گلیشیئر سے لڑی گئی جنگ کی شہادت ہے، نہ ہی دشمن سے ہونے والے کسی طویل معرکے کی شہادت ہے۔ یہ تو بے تیغ سپرحاصل ہونے والی باسعادت شہادت ہے جو اپنے شہیدوں کو ڈھونڈ رہی تھی ،اے شہادت تیری قسم
میں نے تیری آرزو کی تھی
اس طرح کہ میں سینہ سپر ہو کر لڑوں
اور تجھے پائوں
میں نے اپنی جبیں کو تیرے سہرے سے سجایا جب
تو میں پھولوں میں گھرا تھا
ایسے جیسے گلِ لالہ کی پتیاں بکھری پڑی ہوں
اور جب میں نے حیات جاوید میں قدم رکھا
میری سماعتوں میں ایک ہی پکار اٹھی
میری نگاہوں میں ایک ہی چہرہ تھا
ماں
میں نے مسکرا کر تجھے گلے لگایا
اے شہادت تو نے مجھے پکارا
ندیم جس کی آنکھوں میں شہادت مسکراتی تھی، میری اس سے ایک ہی ملاقات ہوئی۔ ملٹری ہسپتال راولپنڈی میں اس نے میرا چیک اپ کرایا اور وہی میری پہلی اور آخری ملاقات تھی مگر اس کی مسکراتی آنکھیں نہ جانے مجھے کیوں یاد رہ گئیں ،میں اکثر اپنی باجی سے پوچھتی کہ ندیم کا کیا حال ہے؟ ندیم ان کے کولیگ کے بیٹے تھے۔ جب اے پی ایس اٹیک میں ندیم کی شہادت کی خبر ملی تب مسکراتی آنکھوں کی چمک کا مفروضہ حل ہوا کہ اصل میں وہ شہادت کی چمک تھی۔
ندیم الرحمن نے 17 ستمبر 1983 میں شہیدوں کی سرزمین خطۂ پوٹھوہار میں آنکھ کھولی، دھرتی ماں کی آغوش سے نکلتے ہی شہادت کی تربیت تو مل چکی تھی ۔ندیم الرحمن نے جنوری 2003 ء کو فوج میں شمولیت حاصل کی جب ابھی آنکھوں کے دیپ خوابوں سے نئے نئے منور ہوئے تھے، ابھی مدت ملازمت 11 سال 11 ماہ اور 11 دن تھی ملازمت میں 11 کا ہندسہ آنکھوں میں روشن دیپ مزاج میں ٹھہرائو اور رکھ رکھائو میں تمکنت سب ہی تو شہادت کے پیش گو تھے۔
16 دسمبر 2014 ّء کو اس دن سورج اپنے معمول سے نکلا تھا، ہر طرف زندگی کی چہل پہل بھی معمول کے مطابق تھی مگر ماں کے دل کی دھڑکن اس دن معمولی نہ تھی۔ ان کا دل کچھ خاص طریقے سے دھڑک رہا تھا ۔ کبھی وہ تیز دھڑکنے لگتا اور کبھی لگتا کہآج یہ دل بند ہو جائے گا، یہی کیفیت موضع کرمب تحصیل گوجر خان کی سخت جان خاک میں سانس لینے والی ایک ماں کی تھی۔ اسے آج اپنی روح جسم سے الگ ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ اسے آج اس کےآس پاس خاموش بیٹھنے والے وقت کی لہروں میں طوفان کی پیش گوئی کا احساس ہو رہا تھا۔ غنیم اپنی چالیں بہت خاموشی سے چل رہا تھا، وہ جال بچھا رہا تھا، اس کے قدم دھرتی کے سینے پر بھاری تو تھے ہی مگر ان کی دھمک ایک ماں کے دل کو محسوس ہورہی تھی ۔اس نے فون اٹھایا اور وانا میں خدمات دینے والے بیٹے کی خیریت کی خبر لی۔ اس دن وہ اپنے افسران بالا کے ساتھ آرمی پبلک سکول پشاورپر فرسٹ ایڈ کی ٹریننگ دے رہا تھا۔ جب فائرنگ کی آواز آئی۔دشمن بھول گیا تھا کہ اس ہال میں تو وہ لوگ ہیں جو اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جن کےآگے موت فنا نہیں بقا کے سفر کا آغاز ہے۔ سب نے ٹریننگ کے مطابق کرسیوں کے نیچے پناہ لینے کی کوشش کی۔ ندیم اس وقت بھی سٹیج پر موجود تھا کہ دشمن دروازے توڑ کر اندر داخل ہو گیا۔ معصوم بچوں پر گولیاں چلائی گئیں اور وہ ایک بازو پر گولی لگنے کے باوجود حوصلہ کر کے بچوں کو طبی امداد دینے لگا۔ شیطان درندہ صفت دہشت گرد پھر لوٹے اور مسیحائوں پر اندھا دھند برسٹ خالی کرنے لگے۔ یہ وہ وقت تھا جب ندیم کا سینہ گولیوں سے چھلنی ہو گیا، جام شہادت اس کے لبوں پر تھا۔وہ دنیا سے چلا گیا لیکن ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔
حکومت پاکستان نے ندیم کو تمغہ ٔ بسالت سے نوازا۔ بسالت شجاعت وبہادری جواں مردی اور دلیری کی علامت ہے۔ ندیم الرحمن کی لحد کو تمغہ بسالت سے سجایا گیا، خطہ پوٹھوہار میں اس دن غم و اندوہ کی لہر کے ساتھ ساتھ فخر و ناز کی روشنی بھی تھی کہ ایک اور بیٹا دھرتی کے نام پر خطے کو سرخرو کر گیا۔ اس کے والدین جنہیں ندیم کی طرف سے سکون تھا کہ وہ ہسپتال میں ہے انہیں وانا میں ڈیوٹی کرنے والے بیٹے کی فکر لاحق تھی۔ والدہ کا دل ایسے ہی چھلنی تھا جیسے ان کے جگر کے ٹکڑے کو گھائل کیا گیا تھا۔ پوٹھوہاری مائیں تو کتنے ہی شہید بیٹوں کی داستانیں اپنے سینوں پر رقم کر چکی ہیں ۔وہ شہیدوں کو مسکراتے ہوئے الودع کہنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔یہ ماں بھی آ نسوئوں سمیت مسکراتی تھی اپنے دل میں اٹھنے والی ٹیسوں کو بتاتی تھی کہ میرا بیٹا پھولوں میں شہید ہوا ہے۔ میں اکیلی ماں نہیں، اور بھی مائیں ہیں جن کے جگر گوشوں کو شہادت نے چنا ہے۔ والد کا چہرہ نوحہ کناں تھا مگر مسکراتا تھا کہ ان کے سپوت کو شہادت نے خود بلایا تھا۔ ان کا حوصلہ چٹان جیسا تھا کہ شہادت صرف شہید کا اعزاز نہیں ہوتی، شہید کے لہو کا قرض اس کے اپنے بھی ادا کرتے ہیں کہ اللہ نے کہا کہ میری راہ میں لڑنے والے کو مردہ نہ کہو۔ وہ زندہ ہے۔
اے شہادت تو نے مجھے سرخرو کیا
خدا کرے میرے لہو کی ضیا سے
میری دھرتی کے چہرے پہ تاقیامت
روشنی رہے ۔
مضمون نگار شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔ ان کے مضامین مختلف مطبوعات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
تبصرے