پانی قدرت کا انمول عطیہ اورجملہ مخلوقات کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے۔ اس کے بغیرزندگی کا تصور بھی محال ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ''کیا تم نے نہیں دیکھاکہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا ،پھر اسے زمین کے سوتوںمیں پرویا،پھر وہ اس پانی سے ایسی کھیتیاں وجود میں لاتاہے جن کے رنگ مختلف ہیں، پھر وہ کھیتیاں سوکھ جاتی ہیں تو تم انہیں دیکھتے ہوکہ پیلی پڑگئی ہیں، ان لوگوں کے لیے بڑا سبق ہے جو عقل رکھتے ہیں''۔
آیت میں اللہ تعالیٰ نے پانی سے وابستہ ان چار نظاموں کا ذکرفرمایاجن کے ہونے سے زندگی موجودہے ہے ،بارش کا پانی، زیرزمین پانی کے ذخائر کانظام،زراعت کا نظام،زراعت کے نتیجے میں انسانوں اور جانوروں کی خوراک کا نظام یہ تمام نظام زندگی کا نظام رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔
صاف پانی تک رسائی انسانی صحت، اقتصادی ترقی اور ماحولیاتی استحکام کے لیے بنیادی ضرورت ہے۔ صاف پانی تک رسائی کی کمی عوامی صحت پر گہرا اثر ڈالتی ہے، خاص طور پر ایسے ملک میں جہاں بڑی آبادی غیر علاج شدہ پانی کے ذرائع پر انحصار کرتی ہے۔
روزمرہ استعمال کے لیے صاف پانی کی اہمیت سے سب واقف ہیں۔صاف پانی پینے، کھانے پکانے، زراعت اور صنعتی عمل جیسے روزمرہ کے کاموں کے لیے ضروری ہے۔ گھریلو استعمال کے لیے صاف پانی صحت اور بہبود کے لیے ناگزیر ہے۔ آلودہ پانی متعدد بیماریوں جیسے ہیضہ، اسہال، یرقان اور ٹائیفائیڈ کا سبب بنتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، دنیا بھر میں سالانہ 3.4 ملین افراد پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہلاک ہوتے ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد ترقی پذیر ممالک، بشمول پاکستان کی ہوتی ہے۔
زراعت میں، صاف پانی غذائی تحفظ کی بنیاد ہے۔ پاکستان کا زراعت پر منحصر نظام تقریباً 93% پانی استعمال کرتا ہے۔ آلودہ پانی فصلوں کی پیداوار کو کم کرتا ہے اور کیمیائی مواد کو خوراک کی زنجیر میں داخل کرتا ہے، جو انسانی صحت پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ اسی طرح، صنعتی عمل میں صاف پانی مصنوعات کی حفاظت اور معیار کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔ میں یہ کہوں گی کہ، صاف پانی کی دستیابی سماجی اور اقتصادی استحکام کی بنیاد ہے اور اس کا تحفظ قومی اہمیت کا مسئلہ ہے اورپاکستان کے آبی وسائل کی موجودہ صورتحال کے مطابق پاکستان بنیادی طور پر دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں پر اپنے وسیع آبی وسائل پر انحصار کرتا ہے، لیکن یہ وسائل شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ پاکستان کونسل برائے تحقیقِ آبی وسائل کے مطابق، ملک میں فی کس پانی کی دستیابی 1951 میں 5260 مکعب میٹر سے کم ہو کر حالیہ برسوں میں 1000 مکعب میٹر سے کم ہو گئی ہے، جو پاکستان کو پانی کی کمی والے ممالک میں شامل کرتی ہے۔
پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش اور بنیادی ڈھانچے کومدنظررکھتے ہوئے یہ واضح ہوا ہے کہ پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش انتہائی کم ہے۔ ملک میں صرف تین بڑے ذخائرتربیلا، منگلا، اور چشمہ ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی اور ضرورت سے زیادہ استعمال کی وجہ سے صنعتی فضلہ، زراعتی مواد کے بہاؤ، اور بغیر علاج کے نکاسی آب کا اخراج پانی کی آلودگی کے بنیادی اسباب ہیں۔ دریا اور نہریں خطرناک فضلہ کے لیے ڈمپنگ گراؤنڈ کے طور پر استعمال کی جا رہی ہیں، جبکہ زراعت اور گھریلو استعمال کے لیے ضرورت سے زیادہ زیرزمین پانی نکالنے سے آبی ذخائر ختم ہو رہے ہیں۔ 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے 80% سے زیادہ پانی کے ذرائع انسانی استعمال کے لییغیر محفوظ ہیں، جو بحران کی شدت کو اجاگر کرتی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے آبی وسائل پر اثرات پاکستان کے آبی چیلنجز کو بڑھاتے ہیں۔ غیر متوقع بارش کے انداز، گلیشیئرز کے پگھلنے میں کمی، اور بار بار آنے والی خشک سالی تازہ پانی کی دستیابی کو کم کرتے ہیں۔ پاکستان کا گلیشیئرز سے منسلک دریاؤں پر انحصار اس مسئلے کو اور زیادہ اہم بناتا ہے۔
پانی کی قلت اور بڑھتی ہوئی آلودگی کے امتزاج سے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے لیے موزوں ماحول پیدا ہوتا ہے۔ سیلاب نہ صرف آلودہ پانی پھیلاتے ہیں بلکہ صفائی کے بنیادی ڈھانچے کو بھی تباہ کرتے اور عوامی صحت کے خطرات کو مزید بڑھاتے ہیں۔ پانی کی قلت اور آلودگی کے بارے میں عوامی آگاہی کی کمی بھی اس کا بہت بڑا سبب ہے۔بحران کی شدت کے باوجود، پانی کی حفاظت اور آلودگی کے بارے میں عوامی آگاہی کم ہے۔ بہت سے افراد غیر ارادی طور پر پانی کے ضیاع، فضلہ کو غلط طریقے سے ٹھکانے لگانے اور نقصان دہ زراعتی عمل کے ذریعے مسئلے میں اضافہ کرتے ہیں۔
تعلیمی ادارے اور میڈیا مہمات آگاہی بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، اسکول کے نصاب میں پانی کی حفاظت کے موضوعات کو شامل کرنا کم عمری سے ہی ذمہ دار رویے کو فروغ دے سکتا ہے۔ اسی طرح، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پانی کی بچت کے طریقوں اور آلودگی کے خطرات کے بارے میں بڑے پیمانے پر پیغامات پہنچا سکتے ہیں۔
کمیونٹی پر مبنی پروگرام، جیسے بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنا اور مقامی صفائی مہمات، حکومتی کوششوں کو مکمل کر سکتی ہیں۔ ان اقدامات کے ذریعے کمیونٹیز کو ان کے آبی وسائل کی ذمہ داری سونپنے سے پائیداری کی ثقافت کو فروغ ملتا ہے۔
پاکستان کی قومی آبی پالیسی 2018 پانی کے انتظام کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک جامع فریم ورک فراہم کرتی ہے۔ یہ ذخیرہ کرنے کی گنجائش بڑھانے، زراعت کے پانی کے موثر استعمال اور نکاسی آب کے پانی کی صفائی پر زور دیتی ہے۔ تاہم، اس پالیسی پر عمل درآمد غیر متوازن رہا ہے۔
سخت قوانین کی عدم موجودگی صنعتوں کو پانی کی نکاسی کے بغیر فضلہ خارج کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ ماحولیاتی قوانین کو مضبوط کرنا اور ان کا نفاذ یقینی بنانا پانی کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
حکومت نے صاف سبز پاکستان جیسے کئی آگاہی مہمات کا آغاز کیا ہے، لیکن ان کی رسائی اور اثر محدود رہا ہے۔پانی کے بحران کے لیے حکومت کا ردعمل تیزہونا چاہیے اور عوامی شعبے کی تمام کمزوریوں کو دورکرنا چاہیے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ پانی کے وسائل کو پائیدار طریقے سے منظم کرنے کے لیے طویل المدتی حکمت عملی تیار کریں۔پانی کے انتظام میں تکنیکی صلاحیت کو بہتر بنائیں۔پانی کی پالیسیوں اور منصوبوں کے لیے نگرانی اور تشخیص کے نظام کو مضبوط کریں۔
زندگی کا دارومدار پانی پرہے،ماہرین کاکہنایہ بھی ہے کہ دنیا میں برپاہونے والی تیسری بڑی عالمی جنگ پانی پر ہوگی، اگر ہم اس عالمی مسئلے پر قابوپاناچاہتے ہیں توہمارے دوسرے مسائل کی طرح اس کا حل بھی ہمیں حضور اکرمۖ کی مبارک تعلیمات میں تلاش کرناہوگا۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولۖ سعد بن ابی وقاص کے پاس سے گزرے اس حال میں کہ وہ وضو کررہے تھے تو آپۖ نے فرمایا یہ اسراف کیوں ہے؟توحضرت سعد نے عرض کیا اے اللہ کے رسولۖ کیا وضو بھی اسراف ہوتاہے؟حضورۖ نے ارشاد فرمایا جی ہاں! اگرچہ تم بہتی نہر پرہی(وضوکیوں نہ کررہے)ہو۔
حدیث پر غورکرنے سے پتہ چلتاہے کہ اگر اسراف سے بچیں توہم اپنے اس مسئلے پر قابو پاسکتے ہیں کیونکہ اسراف ہی ایک ایسی بیماری ہے جو بڑی سے بڑی نعمت کووقت سے پہلے ختم کردیتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں جابجا اسراف سے بچنے کی تاکید کی ہے۔پانی کونیلاسوناکہتے ہیں ، یہ محض ایک عنصر ہی نہیں بلکہ خدائے وحدہُ لاشریک کی قدرت کاملہ کا ایک مظہربھی ہے۔
مضمون نگار ایک قومی اخبار میں کالم لکھتی ہیں اور متعدد کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔
[email protected]
تبصرے