کلائمیٹ چینج کو اردو میں موسمیاتی تغیر وتبدّل سے موسوم کیا جاتا ہے۔ دراصل کسی ایک جگہ پر مخصوص وقت پر ہونے والی تبدیلیاں موسم (Weather)کہلاتی ہیں۔ دن ہفتوں ،مہینوں یا سال میں ہونیوالی تبدیلیاں بھی موسم کے مختلف رنگ و روپ ہی کہلاتے ہیں جبکہ ایک لمبے عرصے (تیس سال سے زائد)پر مشتمل زمین کے موسمیاتی نظام میں تبدیلی بالخصوص اوسط درجہ حرارت کے بڑھنے کے عمل کو ماہرین کلائمیٹ چینج کہتے ہیں۔ تمام دنیا کے اوسط موسمیاتی تغیرات کو گلوبل کلائمیٹ چینج کہا جاتا ہے۔ مضمون کے ابتدا میں ہی ایک اورمغالطے کا سدباب کیا جانا بھی ضروری ہے۔ کلا ئمیٹ چینج کا مطلب کبھی بھی صرف گرمی یا سردی کا بڑھ جانا نہیں ہے بلکہ یہ ایک وسیع اور مربوط عمل ہے جس کی زد میں دنیا کے تمام براعظم ، سمندر ، گلیشیئر ، صحرا، فضا، جنگلات، حیوانات اور انسان ہیں۔کلائمیٹ چینج کے حوالہ سے سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے کہا تھا
We are the first generation to feel the impact of climate change and the last generation that can do something about it
اس موضوع پراقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک سربراہی کانفرنس ہر سال منعقد کی جاتی ہے جس کا مقصد رکن ممالک کی حکومتوں کے مابین ان اقدامات پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہے جس سے گرین ہائوس گیسز کے اخراج(Emission) میں کمی لاتے ہوئے عالمی درجہ حرارت پر قابو پایا جاسکتا ہو۔
اس کانفرنس کو سی او پی(COP) یا کانفرنس آف دی پارٹیز یا کوپ کہا جاتا ہے۔ پارٹیز سے مراد وہ ممالک ہیں جو کانفرنس میں شریک ہوتے ہیں اور جنھوں نے آب و ہوا میں تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے 1992 کے پہلے معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔ گزشتہ سال نومبر میںCOP-29 کانفرنس آذر بائیجان کے دارالحکومت باکو میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کا مرکزی ایجنڈا 'کلائمیٹ فنانس تھا۔
عالمی حدت (زمین کا درجۂ حرارت)میں اضافے کی بنیادی وجہ گرین ہائوس گیسز (GHG)کا اخراج ہے جو انسانی سرگرمیوں سے پیداہوتا ہے اور اس میں سب سے بڑا حصہ فوسل فیول یعنی تیل، گیس اور کوئلے جیسا ایندھن جلانے سے پیدا ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کے سائنسدانوں اور ماہرین ماحولیات ، جنھیں انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی)یا آب و ہوا میں تبدیلی کا بین الحکومتی پینل کہا جاتا ہے، کے مطابق عالمی سطح پر درجۂ حرارت میں ایک اعشاریہ ایک ڈگری سینٹی گریڈ(1.1C)کا اضافہ ہو چکا ہے اور ہم ایک اعشاریہ پانچ سینٹی گریڈ(1.5C) کی حد کو چھونے والے ہیں۔ماہرین کے اندازے کے مطابق اگر عالمی درجۂ حرارت1850ء کے درجۂ حرارت سے ایک اعشاریہ سات سے ایک اعشاریہ آٹھ ڈگری زیادہ ہو جاتا ہے تو دنیا بھر کے لوگوں کو جان لیوا گرمی اور حبس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
عالمی درجۂ حرارت کو کم کرنے کے لیے سب سے معتبر عالمی معاہدہ پیرس ایگریمنٹ 2015 ہے جس کی شق 6.4کے مطابق گلوبل کاربن مارکیٹ کا قیام عمل میں لایا جانا ضروری تھا،اسی معاہدہ کے تحت عالمی درجۂ حرارت کو1.5ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز نہیں کرنے دیا جائے گا تاہم مختلف ماحولیاتی ریسرچز سمیت اقوام متحدہ کے ماحول کے لیے مختص ادارے انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج کی رپورٹ کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی اور ترقی یافتہ بڑی معیشتوں والے ممالک اس معاہدے کی مخالف سمت میں ہی جا رہے ہیں۔
ماحولیاتی کارکن ان عالمی معاہدوں کو خالی وعدوں سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی کانفرنس میں بنیادی باتوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور وہ ممالک جو زیادہ کاربن خارج کرتے ہیں وہی ان کی پاسداری نہیں کرتے۔2023 ء میں کوپ 28 دبئی میں منعقد ہوئی تھی،جس کو ماحولیاتی ایکٹیوسٹس نے تنقید کا نشا نہ بنایا تھا۔جن ممالک کی اکانومی کی بنیاد ہی فوسل فیول پر رہی ہے وہ کس طرح ان معاہدوں کی پاسداری کریںگے۔ مڈل ایسٹ جو خود فوسل فیول کی بڑی انڈسٹری ہے، کیسے عالمی درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات اٹھا سکتا ہے؟۔
COP-27جوکہ دو سال قبل مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں منعقد ہوئی تھی، میں پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کے دیرینہ مطالبے کے تحت کلائمیٹ چینج سے ہونیوالی تباہی و نقصان کے ازالہ کے لیےLoss & Damagesکے فنڈز کا قیام عمل میں لایا گیا تھاتاہم فنڈز کی بنیاد CoP 28میں رکھی گئی اور اس فنڈز کے لیے 700ملین ڈالر کے وعدے(Pledges)ہوئے تھے جبکہ صرف 10ملین ڈالر ہی جو کہ جاپان نے دئیے فنڈز کا حصہ بن سکے جب کہ اس فنڈز کے استعمال کا طریقہ کار بھی ابھی وضع نہیں ہے اور ترقی پذیر ممالک کو فنڈنگ حاصل کرنے میں بے پناہ مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ گلوبل سائوتھ کے ممالک اس وقت گلوبل نارتھ کے ممالک سے ماحول کو پہنچائے گئے نقصان کے ازالے کے لیے فنڈز مانگ رہے ہیں۔ اس کے علاہ Adaptation اورMitigation، ایمرجنسی صورتحال، قدرتی آفات اور اس کے نقصانات سے نمٹنے کے لیے بھی الگ سے فنڈنگ کی ضرورت ہے۔
ماحولیات سے متعلق متحرک افراد (Activist)کوپ کے اندر فوسل فیول(Fossil Fuel)کے کاروبار سے منسلک Lobbiesکی شمولیت پر بھی مسلسل احتجاج کررہے ہیں اور COP29میں بھی 1700سے زائد فوسل فیول کے کاروبار سے وابستہ افراد موجود ہیں۔
ماحول کے اندر پائے جانے والے قدرتی توازن کو انسانی اقدامات نے ہی بگاڑا ہے۔ اس عدم توازن کے باعث بِالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر دوسرے بے گناہ جاندار بھی نہ صرف بری طرح متاثر ہورہے ہیں بلکہ صفحہ ہستی سے رفتہ رفتہ معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ ہم مجموعی طور پر ماحول میں کچھ ایسی مستقل تبدیلیاں لا رہے ہیں جس کا مستقبل میں نہ کوئی ازالہ اور نہ کوئی متبادل ہوگا۔
دراصل یہی غلطیاں، موسمیاتی تبدیلیوں اور آفات کے لیے ایندھن کا کام کرتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں جو مستقبل میں مختلف آفات کا سبب بن سکتی ہیں ان پر انسان وقتی طور پر خوش ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں اسے ترقی اور معیشت کی بہتری کا نام دے رہا ہے،عملاً یہ تبدیلیاں آنے والی نسلوں کے لیے ٹائم بم بنانے کے مترادف ہیں ، ذیل میں ان چند کلیدی سرگرمیوں اور ان کے اثرات کاتذکرہ ہے جو کلائمیٹ چینج کا باعث بن رہی ہیں۔
تیل اور ایندھن کا بکثرت استعمال (ماہرین کے مطابق اس کا کردار سب سے بڑھ کر ہے)،گاڑیوں،فیکٹریز اور کارخانوں سے نکلنے والا دھواں، نیوکلیئر پلانٹس سے نکلنے والے تابکارمادے انڈسٹریزسے نکلنے والی گیسز،جنگلات کی وسیع پیمانے پر کٹائی، پہاڑوں اور زمین کی قدرتی ساخت کا بے رحمانہ کٹائو، گرین بیلٹ کی کمی، زراعت و لائیو سٹاک کے متعلقہ اجناس کے بقایا جات کو وسیع پیمانے پر جلانا، کھادوں اور کیڑے مار ادویات کا استعمال ،سالڈ ویسٹ کی غیر سائنسی بنیادوں پر تلفی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ، جس کے نتیجہ میں سطح سمندر کا بلند ہونا،بلاترتیب بارشیں اور برف باری،شدید خشک سالی، وبائوں میں اضافہ ،فصلوں کی پیداوار میں کمی،سیلابی ریلے اور طوفان،گرمی اور سردی کی شدت، پانی کی قلت ،جانوروں اور انسانوں کی صحت پرمضر اثرات سمیت کئی ایسے اثرات ہیں جو ابھی تک ریکارڈ نہیں کیے جاسکے ،نے واضح طور پر دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
موسمیات کے بین الاقوامی ادارے ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ گذشتہ 20سالوں کے دوران کاربن ڈائی آکسائیڈکی مقدار میں11.4فیصداضافہ ہوا ہے جوکہ اپنی لمبی زندگی کی بدولت مستقبل میں درجہ حرارت میں اضافہ کا باعث بنے گی۔ اسی ادارے کی رپورٹ میں سال 2023 کو دنیا کا گرم ترین سال قرار دیا تھا تو اس وقت سائنس دانوں اور ماحولیاتی ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں ہے، اور ایسا ہی ہوا۔ جولائی 2024 میں دو مرتبہ درجہ حرارت نے پچھلے تمام ریکارڈز توڑے۔ یورپی یونین کے کوپرنیکس ارتھ آبزرویشن سروسز ادارے کی طرف سے جاری ڈیٹا کے مطابق ایک سال قبل 6 جولائی 2023 کو 8۔17 سینٹی گریڈ سب سے زیادہ درجہ حرارت تھا جو رواں سال 21 جولائی کو 9۔17 اور پھر 22 جولائی کو مزید بڑھ گیا۔ یہ درجہ حرارت اب تک کے تمام ریکارڈز توڑ گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے درجہ حرارت کے بحران پر قابو پانے کے لیے دنیا کے رہنمائوں سے اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ درجہ حرارت کا بڑھنا سماج، اقتصادیات اور ماحول کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ زمین ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ گرم اور زیادہ خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ اس بحران کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اقدامات میں انتہائی درجہ حرارت کے الرٹ سسٹم، متاثرین کی حفاظت اور متبادل توانائی کے ذرائع میں سرمایہ کاری شامل ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کی حقیقت کا مطلب ہے کہ جب تک دنیا بڑی مقدار میں فوسل ایندھن جلاتی رہے گی زمین مزید گرم ہوتی رہے گی۔ سیکرٹری جنرل نے بتایا کہ تیزی سے بڑھتا درجہ حرارت ہر سال تقریباً نصف ملین لوگوں کی جان لے رہا ہے۔ عالمی درجہ حرارت کو بڑھانے کا ذمہ دار فوسل ایندھن کا استعمال ہے۔ گرین ہائوس گیسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، نائٹرس آکسائیڈ، کلوروفلوروکاربنز ،اوزون اور پانی کے بخارات شامل ہیں جوکہ گلوبل وارمنگ میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔
گرین ہائوس گیسز کا اخراج ایک قدرتی عمل بھی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق گرین ہائوس گیسز نہ ہوتیں تو زمین 30 ڈگری تک زیادہ ٹھنڈی ہوتی اور یہاں زندگی کے آثار پیدا نہ ہوتے۔ تاہم صنعتی انقلاب سے لے کر اب تک انسانی سرگرمیوں نے گرین ہائوس گیسز کے اخراج میں اتنا اضافہ کر دیا جتنا پچھلے 8 لاکھ سالوں میں نہیں ہوا تھا۔ 21ویں صدی کے آغاز سے لے کر 2024تک عالمی گرین ہائوس گیسوں میں اضافہ بنیادی طور پر چین، امریکا،روس، انڈیا اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشت والے ممالک نے کیا ہے۔
یورپ کے ایک آزاد ادارے ایمشن ڈیٹابیس فار گلوبل ایٹماسفیرک ریسرچ کے مطابق کووڈ 19 وبا کی وجہ سے 2020 ء میں عالمی اخراج میں 2019 ء کے مقابلے میں 7۔3 فیصد کمی آئی تھی جو 2021 ء کے بعد پھر بڑھ گئی۔ ادارے کے مطابق چین، امریکا، انڈیا، برازیل، یورپی یونین اور روس دنیا کے 6 سب سے بڑے گرین ہائوس گیسز کے اخراج کنندگان ہیں۔ یہ 6 ممالک مل کر دنیا کی آبادی کا 1.50 فیصد، عالمی مجموعی پیداوار کا 63.4فیصد اور عالمی گرین ہائو س گیسوں کے اخراج کا 61.6فیصد حصہ بناتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جانب سے درجہ حرارت اور ماحول پر نظر رکھنے والے ادارے انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی)کی جانب سے بار بار دنیا کے رہنمائوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ گرم ہوتی آب و ہوا، زمین پر شدید گرمی اور خراب ہوا کے معیار سے بیماریوں اور اموات کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ ادارے نے ارباب اختیار کو خبردار کیا ہے کہ کلائمیٹ چینج کی وجہ سے شدید موسمی واقعات جیسے سیلاب، خشک سالی، طوفانی بارشوں، ہیٹ ویوز اور وبائوں میں اضافہ ہو گا۔
COP-29کے دوران ہی چند روز قبل ایشیائی ترقیاتی بنک کے صدر نے ایشیا پیسیفک کلائمیٹ رپورٹ 2024ء میں انکشاف کیا ہے کہ ایشیا اور پیسیفک ریجن کو سالانہ 102بلین ڈالرسے431بلین ڈالر تک کے سالانہ فنڈزصرف Adaptation کے لیے درکارہوںگے۔اسی طرح COP-29کے دوران ہی متعدد اہم سٹڈیز (Studies)اور ریسرچ رپورٹ شائع کی گئی ہیں جن میں سے دو کاتذکرہ اشد ضروری ہے۔ ہندوکش اور ہمالیہ ریجن جوکہ ذیادہ تر گلیشیئرز اور برف سے ڈھکا رہتا ہے، کے بارے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اگر گرین ہائوس گیسز کا اخراج اسی رفتار سے جاری رہا تو اس خطہ کے80فیصد تک گلیشیرز اور برف کی چادر ختم ہوجائے گی۔اسکے علاوہ 2000سے2010کے عرصہ کے مقابلہ میں 2010سے 2020کے عشرہ میں 65 فیصد گلیشیرز پگھلنے کا عمل تیز ہوا ہے، جس کے نتیجے میں کلائوڈ برسٹ ، سیلاب،زراعت کے شعبہ کی تباہی اور پانی کی کمی سمیت متعدد سیکٹرز میں منفی اثرات (Negative Impacts)واضح طور پر دیکھے گئے ہیں۔
اسی طرح The State of Cryosphere 2024کی رپورٹ میں گرین ہائوس گیسز کے اخراج کو کنٹرول کرنے کے لیے ایمرجنسی لگاتے ہوئے 2030تک 40فیصد تک کمی لائے جانے کی صائب تجویز ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر ترقی یافتہ ممالک کچھ نہیں کرتے اور اخراج (Emission)اسی رفتار سے جاری رہتا ہے تو موجودہ ٹرینڈکے مطابق 2100تک درجہ حرارت میں 2.3C کااضافہ دیکھا جارہا ہے جوکہ اس Planetکے لیے ناقابل تلافی اور Irreversibleنقصان پہنچانے کے علاوہ رہنے کے قابل بھی نہیں رہے گا۔
اقوام متحدہ کی ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ رپورٹ برائے New Collective Quantified Goal (NCQG)میں کہا گیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اگر معاہدہ پیرس پر عملدرآمد چاہتے ہیں تو انہیں ترقی پذیر ممالک کو 2025سے 1.1ٹریلین ڈالراور2030تک 1.8ٹریلین ڈالر کلائمیٹ فنانس کی مد میں دینا ہوگا۔
اسی طرح یونائٹیڈ نیشن پروگرام برائے انوائرمنٹ کیEmission Gap Report 2024نے بھی خطرے کی گھنٹی بجادی ہے جس کے مطابق گرین ہائوس گیسز (GHG)کا سال در سال 1.3فیصدکی شرح سے مسلسل اخراج اس وقت فضا میں57.1گیگا ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ موجود ہے اور اس کی تخفیف (Mitigation) کے لیے تجویز کردہ اقدامات برائے 2030-35ناکافی ہونے کے ساتھ ساتھ درست(on track)نہ ہیں کیونکہ درجہ حرارت کو1.5Cتک کم رکھنے کے لیے 26گیگا ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کم کیا جانا ضروری ہے۔ یوں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ اور کم ہوتے ہوئے وسائل کے حوالے سے شدید پریشانی ہے۔ ماحول میں گیسز کا اخراج جس تیز رفتاری سے ہورہا ہے اس کے مقابلے میں فنڈز کی مختصگی اور گرین ٹیکنالوجی کی منتقلی بہت کم ہے۔
پاکستان دنیا کے کلائمیٹ چینج سے متاثرہ 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے پاکستان میں نہ صرف انسانی جانوں کو مزید خطرہ لاحق ہے بلکہ معیشت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ کلائمیٹ چینج کی وجہ سے شدید موسمی واقعات جیسے سیلاب، طوفانی بارشوں اور ہیٹ ویوز میں اضافے نے پاکستان کے لیے فوڈ سکیورٹی ، ایگریکلچر اور واٹر سیکٹر سمیت دیگر سیکٹرز کے لیے خطرہ مزید بڑھا دیا ہے ۔صوبہ سندھ میں جون کے مہینے میں درجہ حرارت 52 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔کراچی میں ہیٹ ویوز کے سبب کئی لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔
گزشتہ دنوں ریلیز ہونیوالی ایشیائی ترقیاتی بنک کی رپورٹ Pakistan Low Carbon Energy Outlook and Technology Road Mapکے مطابق پاکستان کو بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرنے کے لیے2050تک 390بلین ڈالر کی اضافی انوسٹمنٹ درکار ہوگی جس کی بدولت کاربن کے اخراج کو کم کیا جاسکے گا۔ بنک نے ان اقدامات میں کوئلے کے پلانٹس ، ٹرانسپورٹ ، انڈسٹریل پلانٹس، بجلی کے کارخانوں سمیت دیگر بڑے کاربن اخراج کرنے والے سیکٹر کی متبادل صاف توانائی کے ذرائع پر منتقلی کی نشاندہی بھی کی ہے۔حکومت پاکستان نے 2016 سے 2030 تک 20فیصد اور بعد ازاں نظر ثانی Nationally Determined Contribution (NDC)میں2021میں کاربن کمی کے اہداف کو 50فیصد فکس کیا ہے، جس میں سے 15فیصد غیر مشروط اور بقیہ 35فیصد کو بین الاقوامی کلائمیٹ فنڈنگ سے مشروط کیا گیا ہے۔
پاکستان کے کئی شہر جن میں لاہور، کراچی، فیصل آباد اور پشاور شامل ہیں، ان میں ہر سال سردیوں میں ا سموگ کی وجہ سے بیماریاں بڑھ جاتی ہیں اور کئی جانیں بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔ شدید دھند کی وجہ سے لاہور اور اس کے مضافات بالخصوص اور صوبہ پنجاب بالعموم ان دنوں بھی شدید دھند کی لپیٹ میں ہے جس کے باعث سانس کے متعلقہ بیماریوں کے مریضوں کی تعداد لاکھوں میں جاچکی ہے اور ذرائع آمدورفت سمیت دیگر متعدد سیکٹرز بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ گرین لاک ڈان بھی نافذ ہے لیکن فضائی آلودگی کنٹرول نہیں ہورہی۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق کلائمیٹ چینج سے پاکستان سمیت وہ ممالک جہاں غربت ہے، زیادہ لوگ متاثر ہوں گے۔ پاکستان میں کلائمیٹ چینج کے حوالے سے پالیسیاں موجود تو ہیں لیکن وہ پالیسیاںمؤثر عملدرآمد اور درکار وسائل کی متقاضی ہیں۔
درجہ حرارت کے موجودہ رجحانات (Trends)پاکستان کے لیے کسی لحاظ سے بھی مثبت نہیں ہیں ۔ کلائمیٹ سے متعلقہ ڈیزاسٹرز کا مطلب یہ ہوگا کہ مزید نقصانات برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا جس سے کمزور معیشت مزید خطرات سے دوچار ہوگی اور بین الاقوامی قرض کا بوجھ مزید بڑھے گا۔ اس لیے چاروں صوبوں ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی منتخب حکومتوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرتے ہوئے کلائمیٹ چینج کے حوالے سے ازسر نو ترجیحات کا تعین کیا جانا اور ان چیلنجز کو نیشنل سکیورٹی پالیسی کے حصہ کے طور پر دیکھا جانا ہی اس وقت کی اہم ضرورت ہے۔
تعارف: مضمون نگار ماحولیات و سماجی امور پر لکھتے ہیں
تبصرے