لمحہ بہ لمحہ بڑھتی ہوی آبادی اور تیز رفتاری سے پھیلتی روز مرہ ضروریات سے پیدا ہونے والے معاشی بحران کا سامنا اس وقت صرف پاکستان ہی کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو ہے ۔ امریکہ جیسا ملک بھی افراطِ زر پر قابو پانے میں ناکام ہے ، فرانس اور برطانیہ کے حالات اور تشویشناک خبریں ہمارے سامنے ہیں ۔ پاکستان کو بھی معاشی مسائل درپیش ہیں۔ بہر طورحکومت کی کوششوں سے 2025 میں درپیش اقتصادی چیلنجز کا تجزیہ اور اس کے پیش نظر بنائی جانے والی حکمت ِ عملی سے ہی آئندہ سال میں معاشی بہتری کے اہداف نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔
گورنراسٹیٹ بینک نے حکومتی پالیسیوں کے معاشی اشاریوں میں بہتری کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کا ہدف ہے کہ زرمبادلہ ذخائر کو جون 2025 کے آخر تک 13 ارب ڈالر تک پہنچایا جائے۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جاری کھاتے کے توازن میں بہتری کا سبب بنیادی طور پر برآمدات اور کارکنوں کی ترسیلات زر دونوں میں نمایاں اضافہ ہے، رقوم کی آمد میں بہتری نے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر کو 11 ارب ڈالر تک پہنچا دیا ہے، جو جنوری 2023 میں 3.1 ارب ڈالر رہ گئے تھے۔
خلاصہ یہ کہ 2024 کی عالمی اقتصادی صورتحال کی رپورٹ پاکستان کے لیے مستقبل کی ایک پیچیدہ تصویر پیش کرتی ہے، اگرچہ اس رپورٹ میں معمولی اقتصادی ترقی کی پیش گوئی کی گئی ہے، تاہم اس کے ساتھ ملک کو مختلف چیلنجز کا سامنا بھی ہے جیسا کہ بڑھتی ہوئی قیمتیں، کرنسی کی قدر میں کمی، اور قرضوں کی بلند سطح شامل ہیں جن سے نمٹنے کی حکمت عملی وضع کی جا رہی ہے ۔
کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کی حقیقی رفتار کا اندازہ زرعی اور صنعتی پیداوار سے لگایا جاتا ہے ۔ اگر حکومت ملک کے کسان کو جدید بنیادی سہولتیں اور صنعتی شعبے کو سستی توانائی مہیا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے اور صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے تو اس سے لامحالہ طور پر افراطِ زر میں بھی کمی لائی جا سکتی ہے اور کرنسی کو گراوٹ سے بھی روکا جاسکتا ہے ۔ ماہ دسمبر میں پاکستان اور چین کے درمیان زرعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے طے پانے والے معاہدے کو جس میں مصنوعی ذہانت (AI) پر مبنی زرعی آلات کی تیاری اور استعمال کو فروغ دیا جائے گا،مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ 2025 میں پاکستان زراعت کی ترقی کے چیلنجز کو مجموعی طور پر نہ بھی سہی لیکن جزوی طور پر ضرور پورا کرنے کی استعداد رکھتا ہے ۔ ایس آئی ایف سی کی کوششوں سے پایہ تکمیل تک پہنچنے والے اس معاہدے پر پنجاب حکومت اور چین کی معروف کمپنی "اے آئی فورس ٹیک کے درمیان مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط ہوئے ہیں۔
پاکستان کے لیے ایک اور بڑا چیلنج انٹرنیٹ کی رسائی ، صفائی اور اس کے شفاف استعمال کو ممکن بنانا ہے ۔ ملک میں ڈیجیٹل خلیج (Digital Divide) ایک سنگین اور پیچیدہ مسئلہ ہے جو نہ صرف معاشرتی عدم مساوات کو بڑھا رہا ہے بلکہ تعلیمی اور معاشی ترقی کی راہ میں بھی بڑی رکاوٹ بن رہا ہے۔ڈیجیٹل خلیج سے مراد وہ فرق ہے جو جدید ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل وسائل تک رسائی رکھنے والوں اور ان سے محروم لوگوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ یہ خلیج نہ صرف تعلیمی مواقع پر اثرانداز ہوتی ہے بلکہ مستقبل کے لیے ضروری مہارتوں کے فروغ میں بھی رکاوٹ بنتی ہے۔ اسی شعبے سے متعلق ایک اور بڑا چیلنج فیک نیوز کی بھرمار ہے ۔
سوشل میڈیا پر فیک نیوز اور پروپیگنڈا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کو کنٹرول کرنے اور اثرات کو کم کرنے کے لیے مختلف سطحوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ تعلیمی مہمات، ٹیکنالوجی کا استعمال اور مضبوط قانون سازی ان مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ صرف اجتماعی کوششوں سے ہی ہم اس چیلنج کا موثر جواب دے سکتے ہیں۔جس کے لیے درج ذیل نکات پر غور اور موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔
1 ۔معلومات کی تیز رفتار تقسیم
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر معلومات کی تیز رفتار تقسیم کی وجہ سے غلط معلومات بہت جلد پھیل جاتی ہیں۔
2 ۔عوامی رائے پر اثر
فیک نیوز عوامی رائے کو متاثر کر سکتی ہیں، خاص طور پر انتخابات کے دوران یا حساس معاملات پر۔
3 ۔ذاتی مفادات
مختلف گروہ اور افراد اپنی سیاسی یا معاشی مفادات کے حصول کے لیے جھوٹی معلومات کا استعمال کرتے ہیں۔
4۔انسانی نفسیات
لوگ اکثر ایسی معلومات پر یقین کر لیتے ہیں جو ان کی موجودہ رائے یا عقائد کے مطابق ہوں، چاہے وہ حقیقت پر مبنی نہ ہوں۔
ممکنہ حل
1 ۔تعلیمی مہمات
عوام کو فیک نیوز اور اس کے اثرات کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے تعلیمی مہمات چلانا جیسے کہ اس میں میڈیا لٹریسی کی تعلیم شامل ہوسکتی ہے تاکہ لوگ معلومات کی تصدیق کرنے کی اہمیت کو سمجھیں۔
2 ۔فیک نیوز کی شناخت کے ٹولز
فیک نیوز کی شناخت کے لیے ٹولز اور ایپس کی ترقی، جو صارفین کو معلومات کی حقیقت کو جانچنے میں مدد دے سکیں۔
3 ۔سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی ذمہ داری
سوشل میڈیا کمپنیوں کو اپنی پالیسیز میں تبدیلی کرنی چاہیے تاکہ فیک نیوز کی نشاندہی اور اس کے تدارک کے لیے سخت اقدامات کیے جا سکیں۔ یا کم ز کم وزارت ِ اطلاعات پاکستان اور سائبر کے شعبے کو اس کے تدارک کے لیے فعال ہونا چاہئے۔
4 ۔قانون سازی
حکومتوں کو فیک نیوز اور پروپیگینڈا کے خلاف قوانین وضع کرنے چاہئیں تاکہ جھوٹی معلومات پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔
5 ۔صحافتی معیارات
صحافتی تنظیموں کو فیک نیوز کی روک تھام کے لیے سخت معیارات طے کرنے چاہئیں اور ان کی پاسداری کو یقینی بنانا چاہیے۔
6 ۔عوامی تشہیر
سوشل میڈیا پر مثبت اور درست معلومات کی تشہیر کرنا، تاکہ صارفین کو صحیح معلومات تک رسائی حاصل ہو۔
جہاں حکومت ِ پاکستان کو معاشی ، سیاسی اور انتظامی چیلینجز درپیش ہیں وہاں براہ راست افواج پاکستان کو بطور ادارہ بھی ان گنت چیلینجز کا سامنا ہے ۔جن میں پاکستان میں داخلی اور خارجی سکیورٹی کے چیلنجز، جیسے دہشت گردی، فرقہ واریت اور سرحدی کشیدگی اہم مسائل ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی فورسز نے بہت قربانیاں دی ہیں اور نہایت جانفشانی ، دلیری اور اعلیٰ حکمت عملی سے ہمیشہ سرخرو ٹھہری ہیں۔ 2025ء میں بھی فورسز کو ان چیلنجز سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہے۔
جنگی میدان میں جدید ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی اہمیت، جیسے ففتھ جنریشن وار اور سائبر جنگ افواج پاکستان کے لیے چیلنج ہے۔ اس کے حل کے لیے جدید ہتھیاروں اور تکنیکوں کی ترقی اور ان کے استعمال کی تربیت کے ساتھ ساتھ نظریاتی اور حقیقی دانشوروں پر مشتمل تھنک ٹینکس ڈویلپ کرنا بھی ضروری ہے۔
٭دشمن عناصر کے زہریلے پروپیگینڈے کے باعث نئی بھرتیوں کو چیلنج بننے سے روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے ہونگے ۔ اس ضمن میں فوجی جوانوں کی بھرتی، تربیت اور فلاح و بہبود کے لیے باقاعدہ حکمت عملی وضع کر کے اس پر پوری توجہ صرف کرنا ضروری ہے تاکہ ایک مستعد اور موثر فوج تشکیل دی جا سکے۔
٭مذہبی اور فرقہ وارانہ کشیدگی، خاص طور پر شہری علاقوں میں، امن و امان کی صورتحال کو متاثر کرتی ہے۔ جس سے نمٹنے کے لیے افواج پاکستان کی طرف سے اقدامات کیے جارہے ہیں تاکہ بروقت کارروائی کی جا سکے۔
٭ ملک کے دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں اس وقت سب سے بڑا چیلنج مقامی کمیونٹی کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنا ہے تاکہ معلومات کی فراہمی کو بڑھایا جا سکے جس کے لیے ریاست پاکستان کی طرف سے مقامی با اثر افراد کے ساتھ مکالمے کے عمل کو موثر بنانے اور جاری رکھنے کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے جس کے واضح ثمرات بتدریج دکھائی دے رہے ہیں۔
٭سائبر جنگ، دشمن کے سائبر حملے اور معلومات کی جنگ کے خلاف دفاع کی ضرورت اس وقت پہلے سے کہیں زیادہ ہے جس کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا حصول ناگزیر ہے ۔ اسی طرح روایتی جنگ کے لیے بھی لمحہ بہ لمحہ بدلتی جنگی ٹیکنالوجی کا حصول بھی اتنا ہی ضروری ہوچکا ہے جتنا کہ کھانے پینے کا سامان ۔ جدید فضائی اور زمینی ہتھیاروں کی ترقی میں پیچھے رہ جانے کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مناسب فنانسز کا بندوبست کرنا بھی کوئی کم چیلینج نہیں لیکن اس کے لیے فنڈز سے بھی زیادہ اہمیت ملکی سطح پر دفاعی ٹیکنالوجی کی تحقیق اور ترقی کو فروغ دینا ہے ۔
٭جغرافیائی کشیدگی، پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات میں تنائو، خاص طور پر بھارت اور افغانستان کے ساتھ ، عالمی سطح پر بدلتے ہوئے اتحاد اور نئے عالمی اتحادوں کی تشکیل میں پاکستان کی اپنی حیثیت کو متاثر ہونے سے بچانا اورموثر عسکری قوت کے طور پر خود کو منوانا بھی کسی چیلینج سے کم نہیں ۔ لیکن رب ذوالجلال کی کرم نوازیوں سے افواج پاکستان نے ہمیشہ خود کو منوایا ہے اور آئندہ بھی اپنا یہ مقام برقرار رکھیں گی ۔
تبصرے