مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے کشمیریوں کی جدوجہدجاری ہے۔بھارتی قبضے کے خلاف کشمیری، آزادی کی تحریک کواپنے لہوسے سینچ رہے ہیں۔آزادی کے لیے اپناخون دینے والوں میں کشمیری جوانوں کے ساتھ ساتھ خواتین اوربزرگ بھی شامل ہیں۔کشمیریوں کاایک ہی نعرہ ہے ''بھارتی غلامی سے آزادی اورپاکستان سے الحاق''۔5جنوری 1949ء کو اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے پاکستان اور بھارت نے قرارداد منظور کی تھی۔اس قرارداد میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ کشمیر کے الحاق کا فیصلہ،کشمیر کے عوام کریں گے۔لیکن بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث مقبوضہ کشمیر کے عوام آج بھی اپنے اس بنیادی حق سے محروم ہیں۔ مودی حکومت کے دورمیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم میں مزید اضافہ ہواہے،مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے مسلم اکثریت کواقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ مودی حکومت کاایجنڈا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں اورتحریک آزادی کوطاقت کے ذریعے کچل دیاجائے۔
پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کی ہے،پاکستان کااقوام متحدہ اورعالمی برادری سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کواقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فیصلہ کرنے کاحق دیاجائے اوربھارت مقبوضہ کشمیر سے اپناقبضہ ختم کرے۔عالمی برادری بھی پاکستان کے اس موقف کو تسلیم کرتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کواقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی حل کیاجاسکتاہے۔بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر کوجیل خانہ اورکشمیری عوام کو اپناقیدی بنایاہواہے، مقبوضہ کشمیر کودنیا کاسب سے بڑا قید خانہ کہاجاتاہے ۔بھارتی سرکار نے کشمیریوں کوکنٹرول کرنے اورآزادی کی تحریک کوکچلنے کے لیے بہت سے کالے قوانین نافذ کیے ہیں۔پبلک سیفٹی ایکٹ اورغیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون یواے پی اے کے تحت کسی بھی کشمیری کوگرفتارکرکے پاپندسلاسل کردیاجاتاہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں کشمیریوں کی حالت زار اوران ظالمانہ قوانین کی مذمت کرچکی ہیں۔ بھارتی فوج کشمیری عوام پرمظالم ڈھانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑ رہی،جب چاہتی ہے کسی بھی علاقے کامحاصرہ کرکے لوٹ مارشروع کردیتی ہے۔خواتین کی بے حرمتی،گھروں کوآگ لگانابھارتی فوج کے لیے معمولی بات ہے۔ سرزمین کشمیر خود اہل کشمیر کے لیے تنگ کردی گئی ہے۔ ہزاروں کشمیری نوجوان لاپتہ ہیں، کچھ معلوم نہیں وہ زندہ بھی ہیں یاانھیں شہید کردیاگیاہے۔غیرجانبدارانہ رپورٹس کے مطابق اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کوشہید کیاجاچکاہے۔کشمیریوں کی وادیاں ویران،فصلیں اورکاروبار تباہ ہوگئے ہیں۔ کشمیریوں کوان کی اپنی سرزمین پر غلام بنالیاگیاہے۔ اس جبراورنسل کشی کے باوجود کشمیری عوام اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اورانٹرنیشنل میڈیا کئی بار بھارت سے مطالبہ کرچکاہے کہ انھیں مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ خود صورتحال کامشاہدہ کرسکیں،لیکن بھارت صحافیوں اور کسی بھی انسانی حقوق کی تنظیم کومقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت نہیں دے رہا۔ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے جب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی ہے،خاص کر 5 اگست 2019ء سے، کشمیر میں عوام پر پابندیوں اور سختیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں خوف و ہراس عروج پر ہے اور غیریقینی صورتحال نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
مسئلہ کشمیر پرپاکستان کامئوقف بہت واضح ہے۔پاکستان نے کشمیریوں کوحق خودارادیت دلانے کے لیے اقوام متحدہ سمیت ہرعالمی فورم پرکشمیریوں کی آواز کواٹھایاہے۔بھارتی زیرتسلط کشمیر کے عوام کاحق ہے کہ انھیں اپنے مستقبل کافیصلہ کرنے کااختیاردیاجائے۔ کشمیر پرپاکستان پہلے دن سے اپنے اصولی موقف پرقائم ہے۔یہ ہماری تاریخی اور قومی ذمہ داری ہے کہ دنیا کو کشمیری عوام سے کیے گئے وعدے یا د دلاتے رہیں۔ مئی 2023ء میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جی 20 ممالک کاسربراہی اجلاس رکھنے کی سازش کی تھی تاکہ عالمی برادری کویہ تاثر دیاجاسکے کہ مقبوضہ کشمیر اس کاحصہ ہے۔لیکن پاکستان کی کوششوں کے باعث چین، سعودی عرب، ترکی، انڈونیشیا اور مصر نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔جس کے باعث یہ اجلاس مکمل طورپرناکام ہوگیا۔
عالمی برادری پاکستان کے اس موقف کی مکمل حمایت کرتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کاحل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہوناباقی ہے۔جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا خطے میں مستقل قیام امن محض ایک خواب رہے گا۔ جنوبی ایشیا میں غیریقینی صورتحال کاذمہ دار بھارت ہے جومسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی بجائے اسے مزید الجھاتاجارہاہے۔بھارت مسلسل سازشوں میں مصروف ہے۔اس کی کوشش ہے کہ عالمی برادری کواس حوالے سے گمراہ کرے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کئی مرتبہ پاکستان کے اس موقف کااعادہ کرچکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہوناطے ہے۔ مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر دنیا سے تنازعات کوختم نہیں کیاجاسکتا۔اقوام متحدہ اس بات کوبھی تسلیم کرتا ہے کہ بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث مسئلہ کشمیر حل کرنے میں تاخیر ہورہی ہے اورمسئلہ کشمیر پر قراردادیں کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی زندہ ہیں ۔ بھارت کوایک نہ ایک دن مقبوضہ کشمیر کے عوام کوحق خودارادیت دیناہی پڑے گا۔انسانی حقوق کی کونسل اقوام متحدہ کوکئی بار انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اوربھارتی مظالم کی رپورٹ پیش کرچکی ہے۔یہ بات بھی اقوام متحدہ اورجنرل کونسل کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کوہرفورم پراٹھایااوراقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کامطالبہ کیا۔ پاکستان اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتاہے لیکن امن کی خواہش کوپاکستان کی کمزوری ہرگز نہیں سمجھناچاہیے۔
کشمیر پاکستان کے لیے کتنی اہمیت کاحامل ہے اس بارے میں آپ کوایک تاریخی واقعہ یاد دلاتاہوں۔ 23 مارچ 1940 کوحضرت قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کاتاریخی اجلاس ہوا۔اسی اجلاس میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی۔ اجلاس میں ریاست کشمیر کا ایک نمائندہ وفد بھی شریک ہوا جس میں مولانا غلام حیدر، سید حسین شاہ گردیزی اور دوسرے کشمیری رہنماء شامل تھے ۔ ہندوستان کی تمام ریاستوں کے وفود کو تقریر کیلئے پانچ پانچ منٹ دیے گئے۔ اسی طرح ریاست کشمیر کے وفد کو بھی پانچ منٹ دیئے گئے ،وفد کے سربراہ مولانا غلام حیدر جب اپنے پانچ منٹ پورے کر چکے توقائداعظم محمد علی جناح نے اسٹیج سیکرٹری کو کہا کہ مولانا کو میری تقریر میں سے مزید وقت دیدیں، یہ ریاست جموں و کشمیر کے 88فیصد مسلمانوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ان کی بات کو توجہ سے سنا جانا ضروری ہے۔یہ واقعہ یاد دلاتاہے کہ قائداعظم کوقیام پاکستان سے قبل ہی کشمیر کی اہمیت کا اندازہ تھا۔
پاکستان نے اقوام متحدہ سمیت ہرفورم پرمسئلہ کشمیر کواٹھایاہے اوراقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کوتسلیم کیاہے۔ 1947ئ،میں جب کشمیریوں کی جدوجہد کے باعث کشمیر کی آزادی بالکل قریب تھی،بھارت کشمیر ہاتھ سے جاتا دیکھ کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں چلاگیا۔اقوام متحدہ نے جنگ بندی کے لیے قرارداد کی منظوری دی۔پاکستان نے اس قرارداد کودل سے تسلیم کیا،لیکن بھارت کے ارادے کچھ اورتھے۔1948کے بعد سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جموں وکشمیر کے تنازع پر ایک درجن سے زائد قراردادیں منظور کرچکی ہے،لیکن بھارت نے ان قراردادوںپر عمل نہیں کیااورروڑے اٹکاتارہا،بھارت کی اسٹرٹیجی یہ تھی کہ معاملے کولٹکا دیاجائے تاکہ دنیا اسے بھول جائے ۔سلامتی کونسل نے 20 جنوری1948 کو قرارداد نمبر39 منظور کی جس کے تحت شکایات کی تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیشن قائم کیا جانا تھا۔تاہم یہ کمیشن مئی1948تک عمل میں نہیں لایا جاسکا۔سلامتی کونسل نے21اپریل 1948کو ایک نئی قرارداد منظور کی جس کے تحت پانچ ارکان پر مشتمل ایک نیا کمیشن بنایا گیا جس کا مقصد خطے میں امن و امان بحال کرنا اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے رائے شماری کی تیاری کرنا تھا لیکن یہ بھی نہ ہوسکا۔مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کمیشن نے5جنوری 1949کو مسئلہ کشمیر پر اپنی جامع قرارداد منظور کی ۔اس قرار داد کی رو سے دونوں ممالک کو پابند کیا گیا کہ وہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے مجوزہ کمشنر رائے شماری سے تعاون کریں تاکہ ریاست میں جلد از جلد کمیشن آزادانہ رائے شماری کا انعقاد کرسکے۔ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر47 جو 21اپریل 1948کومنظورکی گئی تھی اس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جموں و کشمیر کی آزادی یا پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ آزادانہ و غیر جانبدارانہ رائے شماری یعنی جمہوری طریقے سے ہو گا۔ قرارداد نمبر80 جموں و کشمیر کے تنازع کا حل اور حتمی تصفیے کا جمہوری طریقے اور عوام کی امنگوں کے مطابق ہونے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ قرارداد نمبر91 جو 1951میں منظورہوئی ،یہ بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے زیرانتظام قائم کی گئی جعلی اسمبلی کی طرف سے ریاست جموں و کشمیر کے مسئلے کا حل پیش کیا گیا کوئی بھی حل حتمی فیصلہ تصور نہیں ہو گا۔ قرارداد نمبر 98 کے ذریعے اعلان کیا گیا کہ ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ہونے والی آزادانہ و غیر جانبدارانہ رائے شماری سے ہی کیا جائے گا۔قرارداد نمبر 122 میں ایک مرتبہ پھر یہ عہد دہرایا گیا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے قائم کی گئی جعلی آئین ساز اسمبلی کا منظور کردہ کوئی بھی قانون یا آئین خطے کے مستقبل یا اس کی کسی ایک ملک کے ساتھ وابستگی کا تعین نہیں کرے گا۔لیکن دوسری طرف دنیا نے دیکھاکہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کوہی ختم کردیا۔مقبوضہ کشمیر میں بھارت بھرسے غیرمسلموں کولاکرآباد کیاجارہاہے۔ انھیں مراعات دی جارہی ہیں تاکہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کواقلیت میں تبدیل کیاجاسکے۔یہاں تک کہ اب خود مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی کٹھ پتلی حکومت مودی کے اقدامات کی مذمت کررہی ہے اورمقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کامطالبہ کررہی ہے۔
بھارت جب تک پانچ اگست 2019اوراس کے بعد اٹھائے جانیوالے یکطرفہ اورغیرقانونی اقدامات کوواپس نہیں لیتا، بھارت سے بامعنی مذاکرات ممکن نہیں ہوسکتے۔بھارتی اقدامات کے باوجود اقوام متحدہ کے ترجمان بھی یہ واضح کرچکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے قراردادیں موجود ہیں اوراقوام متحدہ کاموقف تبدیل نہیں ہوا۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پا کستان نے کئی بار بھارت کومذاکرات کی پیشکش کی لیکن بھارت مسلسل انکارکرتاآرہاہے۔وہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے لیے تیارہی نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بھارت نے کبھی پاکستان کودل سے تسلیم نہیں کیا،قیام پاکستان سے پہلے ہی کانگریسی رہنماؤں نے پاکستان کے خلاف سازشیں شروع کردی تھیں۔پاکستان کے حصے کے واجبات، اثاثہ جات اورضروری سامان روک لیاگیاتاکہ پاکستان کومشکلات کاشکار کیاجاسکے۔ان مشکل حالات کے باوجود بھارت نے کشمیر پرقبضہ کرنے کے لیے اپنی فوجیں بھیجیں توپاکستان نے ڈٹ کرکشمیریوں کی حمایت اورمدد کی۔اقوام متحدہ کی مداخلت سے دونوں ملکوں میں جنگ بندی ہوئی۔یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر کوبھارتی وزیراعظم جواہرلعل نہرو 1948ء میں اقوام متحدہ لے کرگئے تھے۔اس وقت بھارت کواندازہ ہوگیاتھاکہ کشمیری عوام نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیدیاہے ،اورمہاراجہ ہر ی سنگھ کے اعلان کی کوئی اہمیت نہیں۔
پاکستان کشمیر یوں کوحق خودارادیت دلانے کے لیے کوششیں کررہاہے ،دوسری طرف دنیا بھرمیں موجود پاکستانی خاص کرکشمیری بھی مسئلہ کشمیر کواجاگرکرنے اورعالمی برادری کی توجہ دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔سیمینارز اورپرامن احتجاج کے ذریعے عالمی رہنماؤں کوقائل کیاجاسکتاہے کہ وہ بھارت پردباؤ ڈالیں کہ کشمیرکواپنااٹوٹ انگ قراردینے کی بجائے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے پرتوجہ دے۔شملہ معاہدے کولے کربھارت یہ پروپیگنڈا کررہاہے کہ مسئلہ کشمیر دو طرفہ مسئلہ ہے۔عالمی برادری اس سے دور رہے۔اقوام متحدہ کی قراردادیں غیر متعلق ہو گئی ہیں۔بھارت کی اس شرمناک ہٹ دھرمی کے آگے عالمی برداری نے خاموشی اختیارکی ہوئی ہے۔بہرحال اقوام متحدہ پاکستان کے موقف کے ساتھ کھڑی ہے۔
پوری دنیاہرسال دیکھتی ہے،عالمی میڈیا بھی گواہ ہے کہ 14 اگست کونہ صرف آزادکشمیر بلکہ مقبوضہ کشمیر میں بھی کشمیری عوام یوم آزادی پاکستان کو جشن کے طور پر مناتے ہیں،ایک نہیں درجنوں مرتبہ ایسا ہوچکاہے کہ بھارتی فوج کی موجودگی کے باوجود کشمیری نوجوانوں نے وادی میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا اورپاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔مقبوضہ کشمیرمیں بھارت کے یوم آزادی15 اگست کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ 26 جنوری بھارت کا یوم جمہوریہ ہے، اس دن بھی مقبوضہ جموں وکشمیر میں مکمل ہڑتال کی جاتی ہے ۔ ہر کشمیری کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہوتا ہے ''کشمیر بنے گاپاکستان ''۔کشمیری مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی ترنگا لگانے کی کوششیں بھی ناکام بنادیتے ہیں۔ بھارتی ترنگے کی جگہ ، پاکستان کاپرچم لہرادیاجاتاہے۔اسی طرح 23 مارچ کو بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ پاکستان کی حمایت اوربھارت کے خلاف ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ہرسال 5فروری کوپاکستانی قوم اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہاریکجہتی کے لیے یوم یکجہتی کشمیر مناتی ہے۔پاکستانی قوم کادل بھی اپنے کشمیری بھائیوں کے لیے دھڑکتاہے۔
پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت ہرفورم پر جاری رکھے ہوئے ہے ۔ کشمیری عوام بھی پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔سختیوں اورپابندیوں کے باوجود ان کی زبانوں پرایک ہی نعرہ ہوتاہے ''پاکستان زندہ باد اور کشمیر بنے گا پاکستان''۔۔۔ ان نعروں کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ آزادی کے متوالوں کو یقین ہے کہ کشمیر کی آزادی کا سورج ایک نہ ایک دن ضرور طلوع ہو گا۔ ظلم کی رات کتنی ہی طویل ہو،صبح ضرور ہوگی ۔
بقول فیض احمد فیض
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
تبصرے