اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 20:34
اداریہ۔ جنوری 2024ء نئے سال کا پیغام! اُمیدِ صُبح    ہر فرد ہے  ملت کے مقدر کا ستارا ہے اپنا یہ عزم ! روشن ستارے علم کی جیت بچّےکی دعا ’بریل ‘کی روشنی اہل عِلم کی فضیلت پانی... زندگی ہے اچھی صحت کے ضامن صاف ستھرے دانت قہقہے اداریہ ۔ فروری 2024ء ہم آزادی کے متوالے میراکشمیر پُرعزم ہیں ہم ! سوچ کے گلاب کشمیری بچے کی پکار امتحانات کی فکر پیپر کیسے حل کریں ہم ہیں بھائی بھائی سیر بھی ، سبق بھی بوند بوند  زندگی کِکی ڈوبتے کو ’’گھڑی ‘‘ کا سہارا کراچی ایکسپو سنٹر  قہقہے السلام علیکم نیا سال، نیا عزم نیا سال مبارک اُمیدِ بہار اے جذبہء دل معراج النبیﷺ   علم کی شمع روشنی قومی ترانے کے خالق ابوالاثرحفیظ جالندھری نئی زندگی سالِ نو،نئی اُمید ، نئے خواب ! کیا تمہیں یقین ہے صاف توانائی ، صاف ماحول پانی زندگی ہے! تندرستی ہزار نعمت ہے! قہقہے اداریہ  ہم ایک ہیں  میرے وطن داستان ِجرأت پائلٹ آفیسرراشد منہاس شہید کامیابی کی کہانی  امتحانات کی تیاری ہم ہیں بھائی بھائی ! حکایتِ رومی : جاہل کی صحبت  حسین وادی کے غیر ذمہ دار سیاح مثبت تبدیلی  چچا جان کا ریڈیو خبرداررہیے! ستارے پانی بچائیں زندگی بچائیں! قہقہے
Advertisements

ہلال کڈز اردو

صاف توانائی ، صاف ماحول

جنوری 2025

ارسل نے اپنے گھر کے باغیچے کے لیے بازار سے نئے پودے خریدے تھے۔ وہ یونہی مٹی کھود کر ہمیشہ پودے لگایا کرتا تھا۔ 
’’ارسل بیٹا! دروازہ کھولو‘‘، اس کی والدہ نے باورچی خانے سے آواز دی۔ 



’’اچھا امی جان‘‘، ارسل یہ کہتے ہی دروازہ کھولنے چلا گیا۔ 
جب اس نے دروازہ کھولا تو سامنے تایا جان کھڑے تھے۔ وہ ان سے لپٹ گیا۔ تایا جان کا یوں اچانک آنا اس کے لیے حیرت کا باعث تھا۔ 
 کھانا کھا کر سب آرام کرنے کے لیے چلے گئے۔
’’ارسل بیٹا، اٹھو! عصر کا وقت نکلا جا رہا ہے‘‘،امی جان نے اسے آواز دی۔
’’جی امی ،اٹھتا ہوں‘‘، ارسل نے کمرے کا بلب روشن کرتے ہوئے کہا۔ 
وہ جلدی سے اٹھا اور تایا جان کے ساتھ نماز پڑھنے مسجد چلا گیا۔ 
مسجد سے واپس آکر وہ باغیچے میں پہنچے،’’یہ مٹی کیوں کھودی ہوئی ہے؟‘‘        تایا جان نے بکھری ہوئی مٹی دیکھ کر پوچھا۔
’’تایا جان،میںبازار سے کچھ نئے پودے لایا تھا لہٰذا انھیں لگانے کے لیے مٹی کھود رہا تھا‘‘، ارسل نے جواب دیا۔ 
 تایا جان نے اسے کہا کہ مٹی سے کچرا الگ کر دو اور صاف مٹی میں پودے لگائو۔
’’وہ کیوں تایا جان؟‘‘ ارسل نے حیرانی سے سوال کیا۔ 
’’ارسل بیٹا! اس لیے کہ مٹی سے انسان بنا ہے۔ انسان کو زندہ رہنے کے لیے پانی اور خوراک کی ضرورت ہے۔ ہم مٹی سے خوراک حاصل کرتے ہیں۔ مٹی بہت سے جانداروں کا مسکن ہے۔ تاہم انسانی سرگرمیوں کی بدولت مٹی کا معیار دن بہ دن خراب ہوتا جا رہا ہے۔ پلاسٹک اور پولی تھین اسے خراب کر رہے ہیں۔اب لوگوں کو بڑی دیر بعد سمجھ آئی ہے کہ مٹی کا تحفظ کریں۔ اس سلسلے میں زیرو ویسٹ لائف اسٹائل اپنانے پر زوردیا جارہا ہے جس سے مٹی محفوظ رہ سکتی ہے او ر یوں ہمارا ماحول بھی صاف ستھرا رہے گا۔‘‘ 
’’واقعی تایا جان،آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں! میں نے کبھی اس طرف توجہ نہیں دی۔‘‘ ارسل نے شرمندگی سے کہا۔
’’ارسل بیٹا!آج صاف توانائی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔کیا آپ اس بارے میں کچھ جانتے ہو؟‘‘ تایا جان نے کچھ دیر سوچنے کے بعد پوچھا۔ 
’’کاربن سے پاک مختلف ذرائع جیسے کہ شمسی، ہوائی اور آبی ذرائع سے حاصل کردہ توانائی،صاف توانائی یا قابل تجدید توانائی کہلاتی ہے۔بجلی کے اس متبادل ذریعے کو گرین انرجی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے بجلی حاصل کرنے کے لیے تیل یا گیس نہیں جلانی پڑتی۔ تیل اور گیس جلانے سے کاربن گیسیں پیدا ہوتی ہیں جو فضا میں شامل ہو کر اسے ڈھانپ لیتی ہیں جس سے زمین کا درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے۔ ماہرین اس تبدیلی کو گلوبل وارمنگ کا نام دیتے ہیں۔ ‘‘ ارسل نے جواب دیا۔ 
’’بہت خوب! لگتا ہے کہ آپ اس بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔‘‘ تایا جان نے ارسل کو شاباش دی اور موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے بولے، ’’ زمین گرم ہونے سے ہر سال گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہاہے۔سمندری طوفانوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ خطرناک ہوتے جا رہے ہیں۔ درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیئرزتیزی سے پگھل رہے ہیں جس سےزیادہ سیلاب آ رہے ہیں۔ کہیں زیادہ بارشیں ہو رہی ہیں تو کہیں خشک سالی اور قحط نے ڈیرے جما لیے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر زمین کو گرم ہونے سے نہ روکا گیا تو زندگی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ ‘‘ 
’’تو پھر کون کون سے اقدامات اٹھا ئے جانے چاہئیںکہ اس مسئلے پر قابو پایا جاسکے؟‘‘ ارسل نے فکرمندی سے پوچھا۔ 
’’ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کے لیے معدنی ایندھن کا استعمال کم اور صاف توانائی کا استعمال بڑھانا بہت ضروری ہے۔ صاف توانائی کے بڑے ذرائع شمسی اور ونڈ پاور کے آلات ہیں لیکن ان کے ساتھ بھی مسائل جڑے ہیں۔ان کی زندگی 20 سے 30 سال ہوتی ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی خراب ہوسکتے ہیں۔ خراب اور ناکارہ ہونے پر ان کی حیثیت کچرے کی سی رہ جاتی ہے۔اس کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے خاص احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ ان آلات کو بنانے میں خاص قسم کے کیمیکلز ، مرکبات اور معدنیات استعمال کی جاتی ہیں۔ انہیں عام کچرے کی طرح زمین میں دبا کر ٹھکانے نہیں لگایا جاسکتا۔ آنے والے برسوں میں گرین انرجی کے آلات مثال کے طور پر شمسی پینلز،        ونڈ ٹربائن ، بجلی اسٹور کرنے والی بیٹریاں اور ان سے منسلک دیگر آلات کا کچرا سالانہ لاکھوں ٹن تک پہنچنے کا امکان ہے جنہیں ٹھکانے لگانے اور دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے طریقے ڈھونڈنے اور ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ گرین انرجی کے کچرے کو ری سائیکل کرنے سے دوہرے فوائد حاصل ہوسکتے ہیںجس سے نہ صرف کچرے میں کمی آئے گی بلکہ ان کے دوبارہ قابل استعمال ہونے سے،ان آلات کی تیاری میںدرکار اہم معدنیات کو بیرون ملک سے منگوانے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ جن ممالک میں یہ معدنیات پیدا نہیں ہوتیں، انہیں ان کی درآمد پر کثیر زرمبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے‘‘،تایا جان نے  وضاحت کی۔ 
’’کیا اس سلسلے میںپاکستان میں کوئی کام ہوا ہے؟‘‘ ارسل نے کچھ دیر توقف کے بعد پوچھا۔ 
  ’’ارسل بیٹا! شمسی اور ونڈ پاور کا حصول پاکستان کے لیے یوں بھی موزوں اور کارگر ہے کہ ہمارے میدانی علاقے سارا سال سورج کی روشنی سے منور رہتے ہیں جبکہ ہمارے ساحلی علاقے ہر وقت ہوا کی لہروں سے رواں دواں رہتے ہیں۔تاہم ، ہم اس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اُٹھا رہے۔اس سلسلے میں ہمیں سوچنے ، عمل کرنے اور لوگوں کے اندر شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے،تایا جان نے اسے سمجھایا۔
’’تایا جان! میں سمجھ گیا۔اس سلسلے میں، میں اور میرے دوست لوگوں میں شعور و آگہی پھیلائیں گے ‘‘، ارسل نے عزم کیا ۔ 
’’زبردست ارسل بیٹا! مجھے تم پر فخر ہے ‘‘، تایا جان نے یہ کہہ کر ڈائننگ ٹیبل کی راہ لی جہاں گرما گرم کھانا ان کا منتظر تھا۔