اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 22:11
اداریہ۔ جنوری 2024ء نئے سال کا پیغام! اُمیدِ صُبح    ہر فرد ہے  ملت کے مقدر کا ستارا ہے اپنا یہ عزم ! روشن ستارے علم کی جیت بچّےکی دعا ’بریل ‘کی روشنی اہل عِلم کی فضیلت پانی... زندگی ہے اچھی صحت کے ضامن صاف ستھرے دانت قہقہے اداریہ ۔ فروری 2024ء ہم آزادی کے متوالے میراکشمیر پُرعزم ہیں ہم ! سوچ کے گلاب کشمیری بچے کی پکار امتحانات کی فکر پیپر کیسے حل کریں ہم ہیں بھائی بھائی سیر بھی ، سبق بھی بوند بوند  زندگی کِکی ڈوبتے کو ’’گھڑی ‘‘ کا سہارا کراچی ایکسپو سنٹر  قہقہے السلام علیکم نیا سال، نیا عزم نیا سال مبارک اُمیدِ بہار اے جذبہء دل معراج النبیﷺ   علم کی شمع روشنی قومی ترانے کے خالق ابوالاثرحفیظ جالندھری نئی زندگی سالِ نو،نئی اُمید ، نئے خواب ! کیا تمہیں یقین ہے صاف توانائی ، صاف ماحول پانی زندگی ہے! تندرستی ہزار نعمت ہے! قہقہے اداریہ  ہم ایک ہیں  میرے وطن داستان ِجرأت پائلٹ آفیسرراشد منہاس شہید کامیابی کی کہانی  امتحانات کی تیاری ہم ہیں بھائی بھائی ! حکایتِ رومی : جاہل کی صحبت  حسین وادی کے غیر ذمہ دار سیاح مثبت تبدیلی  چچا جان کا ریڈیو خبرداررہیے! ستارے پانی بچائیں زندگی بچائیں! قہقہے
Advertisements

ہلال کڈز اردو

کیا تمہیں یقین ہے

جنوری 2025

سوشل میڈیا پر چلنے والی ہر خبر یا پوسٹ سچی نہیں ہوتی
 شیئر کرنے سے پہلے تحقیق ضرور کرلیں

”اسد! اب چلو بھی، دیر ہورہی ہے۔“ اسد کی امی نے جھنجلا کر اسے پکارا لیکن اسد کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔اس کی ساری توجہ اسمارٹ فون پر تھی۔
 امی غصے سے اس کے برابرآکر بیٹھ گئیں اور فون کی اسکرین کو گھورنے لگیں جس پر ایک شخص بڑے زوروشور سے کسی جنرل اسٹور کے بارے میں بات کررہا تھا کہ کیسے یہاں اناج اسمگل کرکے لایا جاتا ہے۔ اسد انہماک سے ویڈیو دیکھ رہا تھا۔ ویڈیو مکمل ہوتے ہی اس نے اسے مختلف سوشل میڈیا گروپس میں شیئر کرنا شروع کردیا۔
 امی نے تعجب سے اس کی جانب دیکھا اور کہنے لگیں، ”کیا تمہیں اس آدمی کی بات پر یقین ہے؟“
 اسد نے لاپروائی سے جواب دیا، ” بھلا کوئی کیوں جھوٹی ویڈیو بنائے گا؟ اور ذرااس ویڈیو کے ویوزتو دیکھیں ... اب تک ایک لاکھ لوگ اسے دیکھ چکے ہیں اور ہزاروں نے اسے آگےشیئر کیا ہے تو ضرور کوئی بات ہوگی نا...“ 
امی نے اسے دیکھا، ” سوشل میڈیا پر کوئی کچھ بھی کہتا ہے اور تم سب لوگ بنا کسی تحقیق کے اسے آگے پہنچا دیتے ہو؟ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ کسی حاسد تاجر نے یہ جھوٹی ویڈیو بنوائی ہو تاکہ یہ اسٹور بند کروا سکے؟“
اسد نے بیزاری سے امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ” امی جان، اتنا کون سوچتا ہےاور نہ ہی کسی کے پاس اتنا وقت ہے کہ تحقیق کرتا پھرے۔“ 
”اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمہارے نزدیک بنا تحقیق کیے، بات آگے بڑھانا معمولی سی بات ہے؟“ امی نے تشویش سے پوچھا۔
اسد نے اپنے واٹس ایپ پرانہیں ایک خبر دکھاتے ہوئے کہا، ”یہ دیکھیں! اس اسکول میں کچھ ایسے مضامین پڑھائے جارہے ہیںجو ہماری روایات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ‘‘
’’اب ہم سب مل کراس کے خلاف سوشل میڈیا پر آواز اٹھا رہے ہیں۔ اس کی رجسٹریشن کینسل کرواکر ہی دم لیں گے۔“امی سکول کا نام پڑھتے ہوئے ہڑبڑائیں، ” یہ تو وہی سکول ہے جہاں میری ایک پرانی کلاس فیلو پرنسپل ہے۔ میںابھی فون کرکے اس سے حقیقت معلوم کرتی ہوں۔“
 اسد نے حیرت سے امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ”اب آپ ان سےکیا پوچھیں گی ، رہنے دیں۔“
 امی نے اسد کی بات سنی ان سنی کردی اور اپنی سہیلی کو فون کیا۔ انہوں نے جواب میں جو کہا وہ اسد نے بھی سنا۔ انہوں نے بتایا، ”چند دن پہلےہمارےسکول کو کچھ دھمکی آمیز پیغامات موصول ہو رہے تھے جس میں کچھ لوگوں کی طرف سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ سکول کا گرائونڈ خالی کردیں۔جب ہم نے ان کی بات نہیں مانی تو انہوں نے سوشل میڈیا پر ہمارے خلاف مہم چلائی کہ ہمارے سکول کے کورس میںحساس یا قابل اعتراض موضوعات شامل ہیں۔ان لوگوں نے کئی جعلی آئی ڈیز کے ذریعے مختلف گروپوں میں غلط معلومات پھیلانا شروع کر دیں جس  کے بعد خود ہی اس کے کمنٹ سیکشن میں جا کر اس کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کردی ۔ جب لوگوں نے یہ دیکھا تو انہوں نے بنا کسی تصدیق اور تحقیق کے بات آگے بڑھا نا شروع کر دی ۔ لوگوں نے اسے سچ ماننا شروع کر دیا کیونکہ سچائی کا پتہ لگانے میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ لوگوں کوتو بس ایسی چٹ پٹی خبریں چاہئیں۔ ‘‘
امی اپنی سہیلی کی بات سن کر فکرمند ہوگئیں۔اسد کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا تو ایک رنگ جارہا تھا۔ اس سکول کے خلاف بولنے والوں میں وہ سب سے آگے تھا۔اس نے کبھی اس بات پر دھیان ہی نہیں دیا تھا کہ بات کچھ اور بھی ہوسکتی ہے۔
 اسد کی امی نے اپنی سہیلی کو تسلی دیتے ہوئے فون رکھا اور تاسف سے اسد کو کہا، ”مجھے تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ میرا بیٹا بھی اندھی تقلید میں شامل ہوگیا ہے۔ ہمارا مذہب ہمیں سکھاتا ہے کہ بغیرتصدیق کے کوئی بات آگے نہ پھیلائو۔ اگر کوئی کہے کہ آگ جل رہی ہے تو پہلے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھواور اس وقت تک یقین نہ کرو جب تک قریب جا کر اس کی حدت محسوس نہ کرلو۔ اس کے بعد تم کہہ سکتے ہو کہ ہاں آگ جل رہی ہے۔ آج کل کے بچے کسی بات کی اصلیت جانے بغیراسے آگے پہنچائے جارہے ہیں؟ یاد رکھو! تم سب ہمارا آنے والا کل ہو۔ خود کو کسی ”ٹرینڈ‘‘ کا اس وقت تک حصہ نہ بناؤ جب تک کہ اس کی تحقیق اور تصدیق نہ کر لو۔ یہ ڈیجیٹل دور ہے۔اس میں کوئی بھی بات ایک لمحے میں دنیا بھر میں پہنچ جاتی ہے۔اس لیے ہم سب پر اپنے،اپنے گھروالوں اور اپنے ملک کے وقار کی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اسے صرف ایک ’کلک ‘سے کھو نہ دینا۔“
 اسد شرمندگی سے ان تمام نفرت آمیز ویڈیوز، آڈیو ز اور مضامین کے بارے میں سوچنے لگا جو کبھی کسی بھی خاص ادارے، شخصیت یا واقعے کے بارے میں تھیں اور بنا کچھ سوچے سمجھے وہ بس آگے شیئر کرتا گیا تھا۔یہ خیال آتے ہی اس نے ایک بار پھر اپنے فون کی اسکرین کھولی تو امی نے دوبارہ غصے سے اس کی جانب دیکھا لیکن اس بار اسد کو پتہ تھا کہ اسے کیا کرنا ہے۔اس نے اپنے دوستوں کو گروپ کال کی اور امی کی بتائی ہوئی ساری باتیں انہیں سمجھائیں۔ اس کے دوستوں کو بھی سمجھ آگئی کہ ہر پوسٹ، خبریا ویڈیو تصدیق کے بغیر اپنے اکاؤنٹ سے شیئر کرنا دراصل کسی اور کے جرم میں حصہ دار بننے کے برابر ہی ہے۔ 
پیارے بچو! اسد کو تو یہ بات سمجھ آگئی لیکن کیا آپ کو بھی آئی...؟