اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 21:15
اداریہ۔ جنوری 2024ء نئے سال کا پیغام! اُمیدِ صُبح    ہر فرد ہے  ملت کے مقدر کا ستارا ہے اپنا یہ عزم ! روشن ستارے علم کی جیت بچّےکی دعا ’بریل ‘کی روشنی اہل عِلم کی فضیلت پانی... زندگی ہے اچھی صحت کے ضامن صاف ستھرے دانت قہقہے اداریہ ۔ فروری 2024ء ہم آزادی کے متوالے میراکشمیر پُرعزم ہیں ہم ! سوچ کے گلاب کشمیری بچے کی پکار امتحانات کی فکر پیپر کیسے حل کریں ہم ہیں بھائی بھائی سیر بھی ، سبق بھی بوند بوند  زندگی کِکی ڈوبتے کو ’’گھڑی ‘‘ کا سہارا کراچی ایکسپو سنٹر  قہقہے السلام علیکم نیا سال، نیا عزم نیا سال مبارک اُمیدِ بہار اے جذبہء دل معراج النبیﷺ   علم کی شمع روشنی قومی ترانے کے خالق ابوالاثرحفیظ جالندھری نئی زندگی سالِ نو،نئی اُمید ، نئے خواب ! کیا تمہیں یقین ہے صاف توانائی ، صاف ماحول پانی زندگی ہے! تندرستی ہزار نعمت ہے! قہقہے اداریہ  ہم ایک ہیں  میرے وطن داستان ِجرأت پائلٹ آفیسرراشد منہاس شہید کامیابی کی کہانی  امتحانات کی تیاری ہم ہیں بھائی بھائی ! حکایتِ رومی : جاہل کی صحبت  حسین وادی کے غیر ذمہ دار سیاح مثبت تبدیلی  چچا جان کا ریڈیو خبرداررہیے! ستارے پانی بچائیں زندگی بچائیں! قہقہے
Advertisements
Advertisements

ہلال کڈز اردو

نئی زندگی

جنوری 2025

’’ان سے ملیے، ان کا نام عامر ہے۔ یہ آج سے آپ کے کلاس فیلو ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ سب انہیں تہہ دل سے خوش آمدید کہتے ہوئے ان کی ہر ممکن مدد کریں گے۔‘‘ سیشن شروع ہونے کے چند ماہ بعد عامر کا ان کے اسکول میں داخلہ ہوا تھا۔ سر ریحان نے تمام طلبہ سے اس کا تعارف کرواتے ہوئے اس کی مدد کرنے کی تلقین کی۔
چند ہی دنوں میں عامر ان سب میں گھل مل گیا۔ کلاس کے لڑکوں سے اس کی دوستی ہوگئی جبکہ علی کا شمار اس کے بہترین دوستوں میں ہونے لگا۔ عامر کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ ہمیشہ اپنے پاس مختلف رنگ برنگی ٹافیاں رکھتا تھا۔ اس کی معصوم مسکراہٹ، خوش مزاجی اور سب سے بڑھ کر ٹافیوں کی وجہ سے ہر کوئی اس کا گرویدہ ہوگیاتھا۔ سب اسے ’’کینڈی بوائے‘‘ کے نام سے پکارنے لگے۔بچے اس کے  ارد گرد جمع رہتے اور کینڈیز کھانے کے لیے بے چین ہوتےتھے۔ عامرکی خوبی تھی کہ وہ ہر ایک کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھتاتھا۔ اس کی کینڈیز خاص طور پر میٹھی اور خوش ذائقہ لگتی تھیں جنہیں اس کے دوست بار بار مانگتےتھے۔
 ’’نہ جانے کیوں یہ ذائقہ ہمیں کسی اور کینڈی یا ٹافی میں محسوس نہیں ہوتا‘‘، علی نےایک کینڈی کا ریپر کھول کر منہ میں رکھتے ہوئےکہا تو عامر خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔ وہاں موجود سب بچوں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’عامر کی کینڈیز میں تو واقعی جادو ہے۔ دل کرتا ہے کہ کھاتے ہی رہیں۔ عامر تم ہمیں بتادو نا کہ ایسی مزیدار ٹافیاں کہاں سے ملتی ہیں؟‘‘ زوہیب نے اس کی مٹھی میں موجود ایک کینڈی کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئےپوچھا۔ عامر نے مسکرا کر ان سب کو دیکھا اور کہنے لگا: ’’یہ خاص کینڈیز ہیں جو میرے ماموں بیرون ملک سے بھیجتے ہیں۔ یہ یہاں نہیں ملتیں۔ میرے گھر میں ہر مہینے بہت ساری آتی ہیں اسی لیے میں تم سب کے لیے لے آتا ہوں‘‘، عامر نے اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ باقی سب نے افسردگی سے سر ہلایا کیونکہ عامر انہیں ایک دن میں دو سے زیادہ کینڈیز نہیں دیتا تھا۔
 علی نے نوٹ کیا کہ عامر کچھ دن سے پریشان ہے۔ ہر وقت کھویا کھویا سا رہتا ہے۔ علی نے کئی بار اس سے اس کی پریشانی کی وجہ جاننا چاہی لیکن وہ ہمیشہ ٹال دیتا تھا۔ ایک دن علی کے اصرار کرنے پر اس نے بتایا کہ اس کی والدہ کی طبیعت بہت خراب ہے۔ یہ سن کر علی بہت پریشان ہوا۔ اس نے سوچا کہ وہ اس سلسلے میں عامر کی مدد کرے گا۔ کچھ دن سے عامر کینڈیز بھی نہیں لا رہا تھا۔ کینڈی نہ لانے کے سبب سب بچے بجھے بجھے سے لگ رہے تھے اور ان کا پڑھائی میں بھی دل نہ لگتا تھا۔
کچھ دن بعد علی نے دیکھا کہ عامر بہت خوش ہے۔ اس نے علی کو بتایا کہ اس کی والدہ کی طبیعت اب کافی بہتر ہے اور ان کا علاج چل رہا ہے۔ یہ بات سن کر علی  بے حد خوش ہوا لیکن یہ جان کر پھر سے افسردہ ہوگیا کہ آج بھی عامر کے پاس کینڈیز نہیں ہیں۔
 ’’عامر کیا تم مجھے کہیں سے وہ کینڈی لا کر دے سکتے ہو؟‘‘ علی نے عامر سے کہا تو اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
 ’’نہیں! لیکن تمہیں مزے دار چاٹ کھلا سکتا ہوں۔‘‘ علی نے عامر کی بات پر نفی میں سر ہلایا کیوں کہ اسے وہ کینڈی ہی کھانی تھی۔ علی کی بات سن کر باقی سب بچے بھی عامر سے کینڈی مانگنے لگے۔ ان سب کے چہروں سے بے چینی واضح تھی۔
’’میری بات مانو تو آج تم سب میرے کہنے پر باہر اسٹال سے چاٹ کھا کر دیکھو۔ میری کینڈی بھول جاؤگے۔‘‘ وہ زبردستی ان سب کو چھٹی کے بعد چاٹ کے ٹھیلے پر لےگیا اور چاچا سے چاٹ بنانے کو کہا۔چاچا نے مسکراتے ہوئے ان سب کے لیے مزے دار چاٹ بنائی۔ عامر نے ٹھیک کہا تھا کہ چاٹ کھا کر وہ کینڈیز کو بھول جائیں گے۔
چاٹ تھی ہی اتنی مزے دار کہ علی نے ایک اور پلیٹ کی فرمائش کردی لیکن عامر نے اسے منع کیا۔وہ سب اگلے دن سے عامر کے ساتھ اسٹال پر چاٹ کھانے کے لیے جانے لگے۔ جلد ہی کلاس ٹیچر نے دیکھا کہ ان کی کلاس کے سب بچے کلاس میں تھکے تھکے اور نیند میں دکھائی دیتے ہیں، ان کی توجہ پڑھائی سے ہٹ چکی ہے اور ان کے رویے میں بھی بے زاری اور چڑچڑا پن واضح ہے۔ ٹیچر نے ان بچوں کے والدین سے بات کرنے کاسوچا۔
دوسری طرف علی کی والدہ نے بھی محسوس کیا کہ علی اکثر بیمار رہتا ہے۔ کھانے سے دور بھاگتا ہے اور رات کو اچانک جاگ جاتا ہے۔ ایک دن علی نے عامر کے بیگ میں پھر سے وہی کینڈیز دیکھیں تو خاموشی سے کچھ چرالیں اور گھر آکر سب کھا گیا۔ اس رات علی کو شدید بے چینی کا سامنا کرنا پڑا۔ علی کی والدہ نے فوراً ڈاکٹر سے رجوع کی اور جب معائنہ ہوا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ علی نشے کاعادی ہو چکا ہے۔ وہ کئی ماہ سے مسلسل ڈرگز استعمال کر رہا ہے۔ علی کے والدین کے لیے یہ خبر کسی صدمے سے کم نہ تھی۔ خود علی کا حال اس سے بھی برا تھا۔ اس نے رو رو کر اپنے والدین کو یقین دلانا چاہا کہ وہ کوئی نشہ نہیں کر رہا بلکہ اس نے تو صرف کینڈیز کھائی تھیں۔ علی کے والد نے اس سے کینڈی کے متعلق پوچھا تو اس نےانہیں ساری بات بتادی۔ اپنی چوری والی حرکت پر وہ بے حد شرمندہ تھا لیکن اس وقت جھوٹ بول کر وہ اپنے والدین کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔
 علی کے والدین اگلے روز اسکول گئے اور عامر کے متعلق ساری بات بتاتے ہوئے علی کی رپورٹس اس کے پرنسپل کو دکھائیں۔ اسکول انتظامیہ نے والدین کے ساتھ ایک ہنگامی میٹنگ بلائی جہاں ان کی کلاس کے تمام بچوں کے رویوں کا جائزہ لیا گیا۔ جب بچوں سے سوالات کیے گئے تو معلوم ہوا کہ بہت سارے بچے یہی  کینڈیز کھاتے رہتے ہیں اور اسکول کے باہر چاچا کے اسٹال پر جاتے ہیں۔ یہ جان کر اسکول کے پرنسپل نے پولیس کو مطلع کیا۔
پولیس نے جب چاچا کے اسٹال پر چھاپہ مارا تو وہاں سے بڑی مقدار میں نشہ آور اشیا برآمد ہوئیں۔ تفتیش کرنے پر عامر نے بتایا کہ وہ کچھ عرصہ پہلے چاچا کے اسٹال پر چاٹ کھانے جایا کرتا تھا۔ چاچا اسے اکثر یہی کینڈی دیا کرتا تھا۔ وہ بھی باقی بچوں کی طرح اس کینڈی کا عادی ہوگیا لیکن چند روز بعد چاچا نے اسے کینڈی دینے سے منع کردیا۔عامر نے بتایا کہ کینڈی نہ کھانے کے سبب اسے عجیب بے چینی اور الجھن ہونے لگی۔وہ پریشان ہوکر ایک بار پھر اسی چاچا کے پاس پہنچ گیا۔ کینڈی نہ ملنے سے اسے ٹھیک سے نیند آتی تھی اور نہ کسی کام میں دل لگتا تھا۔ بالآخر چاچا نے اسے اس شرط پر کینڈی دی کہ وہ مزید بچوں کو بھی ا س کی طرف راغب کرے گا۔
مزید تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا کہ اس چاچا کے پیچھے پورا ایک گروہ ہے جو معصوم بچوں کو بہلا پھسلا کر یہ کینڈی کھلاتا ہے۔اس طرح کئی بچے انجانے میں منشیات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جب تک ان کے والدین کو اس بات کا علم ہوتا ہے تب تک وہ اس بری عادت میں مبتلا ہوچکے ہوتے ہیں۔ عامر نے بتایا کہ اس کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سارے بچے اس بری عادت میں مبتلااور زیر علاج ہیں۔ والدین یہ تمام انکشافات سن کر حیرت زدہ رہ گئے۔ انہیں افسوس ہوا کہ انہوں نے اپنے بچوں کی گرتی ہوئی صحت اورتبدیل ہوتی ہوئی عادات کا نوٹس کیوںنہیں لیا۔والدین نے عہد کیا کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھیں گے۔
اس واقعے کے بعد، اسکول نے بچوں کو نشے کے نقصانات کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے خصوصی پروگرام شروع کر دیے۔وہاں بچوں کو سکھایا گیا کہ اجنبیوں سے کسی بھی قسم کی چیز نہ لیںخاص طور پر اگر وہ کھانےپینے سے متعلق ہو۔ انہیں تربیت دی گئی کہ وہ کسی صورت باہر کسی بھی اسٹال سے کوئی غیر ضروری چیز لے کرنہ کھائیں۔ ہمیشہ گھر کا بنا ہوا صحت مند کھانا کھائیں۔کچھ دن بعد عامر کو ایک بحالی مرکز بھیج دیا گیا جہاں اس کا علاج ہوا اور اسے نئی زندگی ملی۔
 

Advertisements