’’ احمد، میں اکثر ایک بات سوچتا ہوں۔‘‘ اسکول سے واپس آتے ہوئے زبیر نے اپنے دوست احمد سے کہا۔
’’ کیا؟‘‘ احمد نے اپنا اسکول بیگ دائیں کندھے سے بائیں پہ منتقل کرتے ہوئےپوچھا۔
’’ دیکھونا! ہمارے گاؤں میں اسکول شروع ہوئےکچھ سال ہی ہوئے ہیں ۔یہ پہلےپرائمری اسکول تھا، پھر مڈل ہوگیا۔شکر ہے کہ پچھلے سال سے یہ ہائی اسکول ہو گیا ہےاور ہم نے آٹھویں کے بعد نویں کلاس میں یہیں داخلہ لے لیا ہےورنہ پہلے بچوں کو اتنا زیادہ فاصلہ طے کر کے قریبی قصبے میں مزید تعلیم کے لیے جانا پڑتا تھا۔ اس میں ان کا بہت سا وقت ضائع ہو جاتا تھا‘‘،زبیر کی بات سن کر احمد پرجوش لہجے میں بولا۔
’’ ہاں! اللہ کا شکر ہےورنہ میں تو شاید آٹھویں کے بعدپڑھائی جاری نہ رکھ سکتا کیونکہ دُور جانے کے وسائل ہمارے پاس نہیںہیں۔‘‘
’’ تم ٹھیک کہتے ہو۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہاں سائنس کی کلاسز بھی شروع ہو گئی ہیںاور اسکول کی نئی بلڈنگ بھی بن گئی ہے۔لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں تو یہ سب سہولتیں مل چکی ہیں اور ہم آرام سے تعلیم حاصل کررہے ہیںمگر ہمارے والدین کے دور میں گاؤں میں کوئی پرائمری اسکول تک نہ تھا۔اس وقت صرف چند خوشحال گھروں کے بچے ہی شہر پڑھنے جا سکتے تھے۔ اس طرح متوسط گھروں کے بہت سے بچے پڑھنے لکھنے سے محروم رہ جاتے تھے۔مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا تھا جب میرے ابا اور امی خط پڑھوانے اور لکھوانے کےلیے کبھی ڈاکیے اور کبھی کسی پڑھے لکھے لڑکے کی منت سماجت کرتے تھے ۔اب تو شکر ہے کہ مجھ سمیت میرا بڑا بھائی اور بہن اتنا پڑھ لکھ گئے ہیں کہ خط لکھ اور پڑھ سکیں۔لیکن گاؤں میںایسے بہت سے لوگ ہیں جواب بھی خط ہاتھوں میں لیے انہیں پڑھوانے کے لیے پڑھے لکھے لوگ تلاش کرتے ہیں۔‘‘ زبیر نے قدرے متفکر لہجے میں کہا۔
’’ ہاں تم ٹھیک کہتے ہو۔میری امی ناظرہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے بڑی حسرت سے کہتی ہیں کہ کاش وہ پڑھی لکھی ہوتیں تو قرآن پاک کا ترجمہ پڑھ کر قرآن پاک کے احکامات کو اچھی طرح سمجھ سکتیں‘‘،احمد نے کہا۔
’’میرےذہن میں ایک آئیڈیا آیا ہے‘‘، زبیر اچانک بولا۔
’’وہ کیا ؟‘‘ احمد نے متجسس ہو کرپوچھا ۔
’’ ہم شام کا بہت سارا فارغ وقت کھیل کود اور گھومنے پھرنے میں ضائع کر دیتےہیں۔کیوںنہ اپناکچھ وقت اپنےگاؤںکےان پڑھ افرادکوپڑھانے میں لگائیں۔‘‘
’’ارے واہ! یہ تو بہت اچھی بات ہے۔میں تمھارے ساتھ ہوں۔ ہم اس سلسلے میں اپنے دوستوں کو بھی قائل کریں گے‘‘، احمد نے خوشی سے کہا۔
دوسرے دن سے زبیر اور احمد نے اپنے اس منصوبے پر عمل شروع کر دیا۔
ابتداء میں انہیں کچھ تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
کوئی کہتا ، ’’لو جی ! اب کل کے بچے اپنے بزرگوں کو پڑھائیں گے ۔‘‘
کسی نے کہا،’’اب یہ بوڑھے لوگ تعلیم حاصل کر کے کیا کریں گے۔‘‘
ان کے دوستوں نے بھی یہ کہہ کر ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا کہ سارا دن وہ اسکول میں پڑھائی میں سرکھپائی کرتے ہیں ۔ اپنے کھیل کود کے وقت کو اس طرح ضائع نہیں کرسکتے۔’’نہ بھئی! ہم تو کھیل کود کر خود کو تازہ دم کریں گے۔‘‘
زبیر نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی، مگر وہ نہ مانے۔
اس پر زبیر اور احمد نے اپنے بھائیوں، بہنوں اور کچھ کزنز کے ساتھ مل کر اپنے گھر کے بزرگوں کو پڑھانا شروع کردیا ۔گاؤں سے باہر ایک بڑا میدان تھاجس کے وسط میں پیپل کا ایک درخت سایہ کیے رہتا تھا۔انہوں نے اس درخت کے نیچے اپنے بزرگوں کو پڑھانا شروع کردیا ۔
ایک طرف لڑکیاں خواتین کو پڑھانے لگیںاور دوسری جانب لڑکے مرد وں کو۔ شروع میں گاؤں کےلوگ محض تماشا دیکھنے اور ان کا تمسخر اڑانے کےلیے میدان میں کھڑے ہو جاتے۔کچھ وقت کے بعد ان لوگوں نے اخبار کا مطالعہ شروع کر دیا۔ کچھ تو کتابیں لے کر سارا دن انہیں پڑھتےرہتے۔ کچھ ناولوں سے لطف اندوز ہونے لگے۔ انہیں پڑھائی میں لطف آنے لگا۔ انہیں دیکھ کر مذاق اُڑانے والوں کو شرمندگی محسوس ہوئی کیونکہ اب وہ بھی قاعدہ تھامے وہاںآنے لگے تھے۔
اس طرح زبیر اور احمد کی کوششوں سے پورا گائوں پڑھا لکھا ہوگیا۔ ان کے اس کام کی شہرت آس پاس کے دیہاتوں میں پہنچی تو وہاں کے پڑھے لکھے نوجوانوں نے بھی اپنے اپنے گاؤں میں اسی طرح کی کلاسوں کا انعقاد شروع کردیا اور اس طرح علم کی روشنی پھیلتی گئی ۔
تبصرے