’’امی جان، دیکھیں! شیری نے کیا کیا۔ میری لکھی کہانی کا صفحہ پھاڑ دیا۔‘‘ شاہرین ہاتھ میں کاغذ کے کچھ ٹکڑے پکڑے ہوئے اپنی امی کے پاس آئی جو اس وقت لان میں پودوں کو پانی دے رہی تھیں۔
’’شیری،شیری!‘‘ماما نے لان سے ہی اس کو آواز دی۔اگلے دومنٹ میں شیری دانت نکالتا ہوا لان میں موجود تھا۔
’’ماما، ایک تو اِس نے میری سٹوری خراب کر دی ،اُوپر سے ہنس بھی رہا ہے۔‘‘ شاہرین رونے ہی والی تھی کہ ماما نے پودوں کو پانی دینا بند کیا اور شہرام کا کان پکڑ کر مروڑا۔
’’ماما جی! بات تو سنیں...‘‘ شہرام اپنا کان چھڑواتے ہوئے بولا ۔
’’پوچھیں تو سہی کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟‘‘
’’ہاںبتائو کیوں کیا؟ ‘‘ ماما کان چھوڑے بغیر بولیں۔
’’یقین کیجیے ، بہت ہی فضول سٹوری تھی، اِسی لیے میں نے پھاڑ دی۔‘‘شیری پھر سے ہنسا۔
’’میرے اندر آنے سے پہلے مجھے یہ سب صفحے جڑے ہوئے چاہئیں ورنہ تمہاری خیر نہیں۔‘‘
شاہرین اور شہرام بہن بھائی تھے۔ شاہرین، شہرام سے بڑی تھی۔ دونوں طالب علم تھے۔ شاہرین کو شروع سے ہی کہانیاں لکھنا اور پڑھنا بہت پسند تھا اور کہانیاں لکھنے کا شوق اُس وقت اور بھی زیادہ ہوگیا جب سکول کے ماہانہ میگزین میں اُس کی ایک کہانی چھپی جو سب کو بہت پسند آئی۔ پھر وہ ہر مہینے اس میگزین کے لیے کہانی لکھنے لگی جو اُس کی سب سہیلیوں اور کلاس فیلوز کو بہت پسند آئیں۔ اُس کی سب ٹیچرز بھی اُس کی کہانیوں کو بہت پسند کرتی تھیں۔
’’اس نے میری کہانی پھاڑ دی۔‘‘ شاہرین نے کشن اُٹھا کر اُسے مارا۔
’’بچو، ایسے نہ کیا کرو۔‘‘ ماما انہیں پیار سے سمجھاتے ہوئے بولیں۔
سردی شدید ہورہی تھی۔ مامانے آتشدان میں آگ جلائی اور قالین پر تکیہ رکھ کر بیٹھ گئیں۔ ’’شہرام اندر سے کمبل لے آؤ اور کچن میں مونگ پھلی کا پیکٹ رکھا ہے وہ بھی لے آؤ۔‘‘ ماما نے شہرام سے کہا۔وہ سب آتشدان کے قریب کمبل میں گھس کر بیٹھ گئے۔
’’لگتا ہے آج ماما بہت مزیدار کہانی سنانے والی ہیں‘‘، شاہرین بولی۔
’’بالکل درست! مگر یہ کوئی کہانی نہیں ہےبلکہ سچا واقعہ ہے‘‘، ماما بولیں۔
’’تو سنائیں پھر...‘‘ شہرام بے چینی سے بولا۔
’’یہ واقعہ ہے سفرِ معراج کا۔ ’’کیا آپ کو معراج‘‘ کا مطلب پتا ہے؟‘‘ ماما نے ان دونوں سے پوچھا۔
’’نہیں‘‘ دونوں نے نفی میں سر ہلایا۔
’’معراج‘‘ کا مطلب ہے سیڑھی۔ معراج کا واقعہ نبی پاکؐ کی زندگی کے اُن واقعات میں سےایک ہے جن کو دنیا میں سب سے زیادہ شہرت ملی۔یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے 27 رجب کی رات کو پیش آیا۔ اِس واقعے کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے۔ اِس سفرِ مبارک کے دو حصّے ہیں۔ زمینی یعنی مسجد حرام سے لے کر مسجدِ اقصیٰ تک۔ سورۃ بنی اسرائیل میں اس زمینی سفر کا ذکر موجود ہے۔ دوسرا حصّہ آسمانی ہے یعنی مسجد اقصیٰ سے لے کر سدرۃ المنتہیٰ تک۔ اِس آسمانی حصّے کا ذکر سورۃ النجم میں کیا گیا ہے‘‘، ماما نے انہیں بتایا۔
’’ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ مسجدِ اقصیٰ سے آسمان پر گئے تھے؟‘‘ شاہرین کی آنکھیں حیرت سے کھلی ہوئی تھیں۔
’’جی ہاں!‘‘ ماما مسکرائیں۔
نبی پاکؐآرام فرما رہے تھے کہ حضرت جبرائیلؑ نے آپ ﷺکو بیدار کیا۔ آپؐکو ایک جانور پیش کیا جس کا رنگ سفید اور قد، قدرے چھوٹا تھا۔ وہ برق یعنی بجلی کی رفتار سے چلتا تھا ،اِسی لیے اُس کا نام ’’براق‘‘رکھا گیا تھا۔ حضرت جبرائیل ؑ اِس سفر میں آپ ﷺکےہمراہ تھے۔ براق سب سے پہلے آپؐ کو مدینہ لے کر گیا جہاں آپؐ نے نماز ادا کی۔ دوسری منزل طورِ سینا (کوہ طور یا سیناکا پہاڑ)تھی جہاں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ سے ہم کلام ہوئے تھے۔ تیسری منزل بیت الحم تھی جہاں حضرت عیسیٰ ؑ پیدا ہوئے تھے۔ چوتھی منزل بیت المقدس تھی جہاں براق کا سفر ختم ہوا۔بیت المقدس میں آپ ﷺنے نماز پڑھائی۔ پھر آپؐ کو ایک سیڑھی پیش کی گئی جس کے ذریعے حضرت جبرئیل ؑ آپ کو آسمان کی طرف لے گئے۔
’’آگے بتائیں پھر کیا ہوا؟‘‘ شاہرین سے صبر نہیں ہورہا تھا۔
’’پھر نبی پاک ؐ کو آسمان پر تفصیلی مشاہدہ کروایا گیا۔ ایک جگہ آپؐ نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھیتی( فصل) کاٹ رہے ہیں۔ وہ اسے جتنا کاٹتے ہیں ،وہ اتنی ہی بڑھتی چلی جاتی ہے۔آپؐ نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ بتایا گیا یہ خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں۔ پھر دیکھا کہ کچھ لوگوں کے سر پتھروں سے کچلے جارہے ہیں۔ پوچھا یہ کون ہیں؟بتایا گیا یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کے لیے نہیں اُٹھتے تھے۔ کچھ لوگوں کے کپڑوں کو آگے اور پیچھے پیوند لگے ہوئے تھے اور وہ جانوروں کی طرح گھاس چررہے تھے۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مال میں سے زکوٰۃ اور خیرات ادا نہ کرتے تھے۔ پھر دیکھا کہ کچھ لوگوں کی زبانیں اور ہونٹ کترے (کاٹے)جارہے ہیں۔پوچھا یہ کون ہیں۔بتایا گیا یہ غیر ذمہ دار مقرر(واعظ) ہیں جوبے تکلف زبان چلاتے تھے اور دنیا میں فتنہ و فساد برپا کرتے تھے۔
کچھ اور لوگ دیکھے جن کے ہونٹ اونٹوں سے مشابہ تھےاور وہ آگ کھا رہے تھے۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ بتایا گیا کہ یہ یتیموں کا مال کھاتے تھے۔
’’ابھی میں تم لوگوں کو تفصیل سے نہیں بتا رہی کہ وہاں اور کیا ہوا۔ اس سفر میں سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر پہنچ کرحضرت جبرائیل ؑرُک گئے اور اللہ کے حکم کے مطابق آپﷺتنہا آگے بڑھے۔ایک بلند ہموار سطح پر پہنچے تو بارگاہ الٰہی سامنے تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کوہم کلامی کا شرف بخشا۔کافی ساری باتیں ہوئیں۔ آپؐ کو انعامات سے نوازا گیا۔ اُن میں سے ایک نمازتھی۔ ہر روز پچاس نمازیں فرض کی گئیںجو بعد میں نبی پاکؐ کی درخواست پر پانچ ہوئیں۔ سورۃالبقرہ کی آخری دو آیات عطا کی گئیں ۔ شرک کے علاوہ دوسرے سب گناہوں کی بخشش کا امکان ظاہر کیا گیا۔ ارشاد ہوا کہ جوشخص نیکی کا ارادہ کرتا ہے اُس کے حق میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے ۔جب وہ اس پر عمل کرتا ہے تو دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ جو شخص برائی کا ارادہ کرتا ہے، اُس کے خلاف کچھ نہیں لکھا جاتا اور وہ جب برائی کرلیتا ہے تو اس کی صرف ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے۔
واپسی کے سفر میں آپﷺ اسی سیڑھی سے اُتر کر بیت المقدس آئے۔ وہاںایک بار پھر تمام پیغمبر موجود تھے۔ آپؐ نے نماز پڑھائی اور پھر براق پر سوار ہوکر مکّہ پہنچے۔
’’ سبحان اللہ‘‘، دونوں بچے بولے۔
’’بیٹا! اللہ پاک جو چاہے وہ کرسکتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی ﷺاللہ پاک سے ہم کلام ہوئے۔ یہ کتنی خوبصورت بات اور کتنا بڑا اعزاز ہے؟‘‘
’’ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے فیض یاب ہوں۔ کبھی ایسی بات نہ کہیں جس کے بارے میں آپ کو ذرا سا بھی شبہ ہوکہ وہ سچ نہیں ہے۔ غیبت، چغلی سے دور رہیں۔ نماز کی پابندی کریں۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دل کھول کرمال و دولت خرچ کریں۔‘‘
’’ماما جان، میںپرندوں کو دانہ ڈالتا ہوں‘‘، شہرام بولا۔
’’ شاباش! ماما خوش ہوئیں!‘‘
’’ماما جی! میں ’’سفرِ معراج‘‘ پر کہانی لکھوں گی تاکہ میری سب کلاس فیلوز اور سہیلیوں کو بھی اِس سفر کا پتا چلے‘‘، شاہرین بولی۔
’’صرف سفرِ معراج کا ہی پتا نہ چلے بلکہ اُن سب تعلیمات کا بھی پتا چلے جن پر ہم سب کو عمل کرنا چاہیے، جیسے نماز کی پابندی، حسنِ اخلاق، غیر ذمہ دارانہ اور فتنہ پرور باتوں سے اجتناب اور صلہ رحمی‘‘، ماما نے اسے سمجھایا۔
’’اب اِس کی تحریر بہترین ہوگی‘‘، شہرام نے شاہرین کو چٹکی کاٹی اورسب کے چہروںپر مسکراہٹ پھیل گئی۔
پیارا نام نبیﷺ کا
"کتنا بہت ہی پیارا نام نبیﷺ کا
دل کا سہارا نام نبیﷺ کا
خالی دامن وہ کب رہا ہے
جس نے پکارا نام نبیﷺ کا
عرش معلی، خلد بریںمیں
لکھا سارا نام نبیﷺ کا
ذکر نبیﷺ سے منزل پائی
دل پہ اتارا نام نبیﷺ کا
قسمت ہوتی روشن دیکھی
جب بھی پکارا نام نبیﷺ کا
شمائلہ سحر
تبصرے