سال کے اختتام پر سردیوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے سبھی بچے پرُجوش تھے۔ سردیوں کی تعطیلات کا اعلان ہوتے ہی انہوں نے سوسائٹی کے بچوں کے ساتھ مل کر ایک ٹورنامنٹ کے انعقاد کا سوچا تھا۔جیتنے والی خوش نصیب ٹیم کو سوسائٹی کی انتظامیہ کی جانب سے ٹرافی ملنی تھی۔یہ ٹورنامنٹ چھ دن پر مشتمل تھا جس میں سب بچوں نے خوشی خوشی حصہ لیا اور وہ سب ہفتے کے دن سوسائٹی کے پارک میں بیٹھے اپنی جیت کی خوشی منا رہے تھے۔
”ویسے ہم اس نئے سال کے آغاز پر کیا کریں گے؟“ فراز جو مخالف ٹیم کا حصہ تھا، ٹورنامنٹ کی گفتگو سے بے زار ہوا تواس نے ایک نیا سوال کردیا۔
”جو ہمیشہ کرتے ہیں۔نئے سال کے موقع پر آتش بازی سے زیادہ اچھا کچھ نہیں ہوسکتا،یہ سب کرنے میں مجھے بہت مزا آتا ہے۔“حنان جس کو شور شرابہ پسند تھا، چہک کر بولا۔اس کی بات پر وہاں موجود چند لوگوں نے برا منہ بنایا۔
”وہ ہمارے ماحول کے لیے بالکل بھی اچھی نہیں ہوتی۔“حمنہ نے اعتراض کیا تو باقی سب بھی اس سے متفق ہوگئے۔
”پھر ہم کیوں نہ کچھ الگ کرتے ہوئے کوئی تھیم پارٹی رکھ لیتے ہیں۔“ علی نے مشورہ دیتےہوئے سب کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”ہاں !یہ اچھا ہے ۔ کیوں نا ہم کرداروں کی پارٹی رکھیں؟ ہم سب اپنے پسندیدہ کرداروں کا بھیس اپنا کر پارٹی میں شریک ہوں تو کیسا رہے گا؟“سعد جو کارٹون اورفلمیں دیکھنے کا شوقین تھا، فٹ سے تجویز پیش کرتے ہوئےاپنے پسندیدہ کردار کے بارے میں سوچنے لگا۔
”یہ بھی اچھا آئیڈیا ہےلیکن کچھ ایسا ہونا چاہیے جو یاد گاررہے۔ یہ سب تو ہم ویسے بھی کرتے رہتے ہیں۔نئے سال کا مطلب ہے خود کو بدلنے کا ایک نیا موقع “، فراز نے ان سب کے مشورے رد کرتے ہوئے کہا۔
”ہماری اردو کی ٹیچر نے ایک زبردست کہانی سنائی تھی۔ کہانی میں بچوں نے نئے سال کے موقع پر اپنے علاقے کے پارک میں اپنے اپنے نام کے درخت لگائے تھے۔ وہ پورا سال ان کا خیال رکھتے، پانی دیتے اور دیکھتے کہ وہ کیسے بڑے ہو رہے ہیں۔ کیا ہم ایسا کچھ کر سکتے ہیں؟“ اسی دوران صائم، جو عام طور پر کم بولتا تھا، جوش و خروش سے کھڑا ہو کر کہنے لگا۔
”یہ زبردست آئیڈیا ہے۔ درخت لگانے سے ماحول بہتر ہوتا ہے اور یہ ہمارے علاقے کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا لیکن ہم یہ سب کیسے کریں گے؟“بچے ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گئے۔ فاطمہ نے اپنی عینک ٹھیک کرتے ہوئے اس آئیڈیا سے اتفاق کیا لیکن سوال وہی تھا کہ اس کو عملی جامہ کیسے پہنایا جائے۔
”ہم نے سکول میں بھی پڑھا تھا کہ درخت آکسیجن پیدا کرتے ، آلودگی کم کرتے اور زمین کو خوبصورت بناتے ہیں۔ سوچو، جب ہم ان درختوں کو بڑا ہوتے دیکھیں گے، تو کتنا مزا آئے گا۔یہ واقعی ہمارے لیے ایک یادگار کام ہوگا۔“ زارا نے باقی سب کو خاموش دیکھ کر پرجوش لہجے میں کہا۔
”ہاں! اور اس طرح ہم اپنے محلے کے پارک کو خوبصورت بنا سکتے ہیں۔یہ آتش بازی اور غیر ضروری کاموں سے کہیں بہتر ہے۔“ اب تک خاموش بیٹھا حماد فوراً کہنے لگا۔
”بس پھر فائنل ہوگیا ۔ یہی منفرد کام کرتے ہوئے ہم سب نئے سال کو یادگار بنائیں گے۔“ حمنہ نے سب کو متفق دیکھ کر اعلان کرنے والے انداز میں کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
اب صائم کی تجویز پراس مہم کا آغاز کیسے کیا جائے؟وہ سب اس بارے میں سوچنے لگے۔مشاورت کے بعد طے پایا کہ وہ اس سلسلے میں اپنی سوسائٹی کے مالی بابا سے مدد لیں گے۔
پروگرام کے مطابق وہ سب اگلےدن صبح سویرے مالی بابا کے پاس موجود تھے۔ مالی بابا، جو ہمیشہ بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھتے تھے، ان کی بات پوری توجہ سے سنتے ہوئے خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوئے۔
”واہ بھئ بچو! یہ تو بہت اچھا آئیڈیا ہے۔ درخت لگانے سے آپ کا محلہ سرسبز ہوگا اور پہلے سے زیادہ خوب صورت بھی ہوجائے گا۔نئے سال کی خوشی منانے کا یہ انوکھا طریقہ ہوگا۔ لیکن یاد رکھو، درخت لگانے کے بعد ان کو بھولنا نہیں ہے بلکہ ان کی دیکھ بھال بھی کرنی ہے۔“مالی بابا نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کی اس سرگرمی میں مدد کرنے کی ہامی بھرلی۔
”جی مالی بابا، بالکل ہم ان کا خیال رکھیں گے لیکن آپ ہمیں ان درختوں کے بارے میں معلومات بھی دیجیے گا۔“ فاطمہ نے اپنے پڑھاکو ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کہا۔
مالی بابا نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور بچوں کوپھولدار ، پھل دار اور سایہ فراہم کرنے والے مختلف درختوں کے بارے میں بتایا۔
ہر بچےنے اپنی پسند کاپودا چنا۔حنان نے آم کا چنا، زارا نے گلاب کا اور صائم نے نیم کا ۔ اسی طرح حماد نے گل داؤدی کا انتخاب کیا۔ سب بچوں نے مل کر اپنے جیب خرچ سے پودے خریدے۔مالی بابا نے انہیں پودے لگانے کا درست طریقہ سکھایا۔ وہ سب دھیان سے ان کی باتیں سنتے ہوئے اپنے اپنے کام میں لگ گئے۔پودے لگانے کے لیےپارک میںسب نے باری باری مختلف جگہوں کا انتخاب کیا ۔ کچھ الگ اور انوکھا کرنے کا خیال ہی انہیں پرُجوش کیے ہوئے تھا۔ان کے چہرے خوشی اور جوش سے دمک رہے تھے۔
”یہ اتنا پُرلطف کام ہے کہ میں تو پارٹی کو بھول ہی گیا ہوں۔“ سعدنے، جس کے ہاتھ مٹی سے اٹے ہوئے تھے لیکن چہرے پہ چمک تھی، خوشی سےکہا۔
”ہاں اور سوچو، یہ درخت بڑے ہو کر کتنے خوبصورت لگیں گے ۔“ حنان نے بھی اس کی بات پہ سر ہلاتے ہوئے مستقبل کا نقشہ کھینچا۔ سوسائٹی کے باقی بچوں نے بھی اس مہم میں حصہ لیتے ہوئے اسے کامیاب بنانے میں کردار ادا کیا۔
نئے سال کی پہلی صبح، سب بچے اپنے پودوں کے ساتھ پارک میں موجود تھے۔ انہوں نے پودوں کے پاس اپنے نام کی چھوٹی چھوٹی تختیاں لگائی تھیں۔ ہر کسی کو اپنے کام پر فخر تھا۔
”یہ صرف شروعات ہے۔ ان درختوں کو پانی دینا، ان کی دیکھ بھال کرنا اور ان کے ساتھ جڑنا آپ سب کا فرض ہے۔ یہ درخت اب ہم سب کی ذمہ داری ہیں۔ جیسے آج ہم نے مل جل کر یہ کام کیا ہے، ایسے ہی آئندہ بھی کرنا ہے۔“ مالی بابا نے سب بچوں کو تاکید کی۔
بچے خوش تھے کہ انہوں نے ایک اچھا کام کیا ہے۔ ان کا پارک اب نہ صرف سرسبز تھا بلکہ دوسروں کے لیے ایک مثال بھی بن گیا تھا۔ لوگوں نے جب بچوں کی محنت دیکھی تو وہ بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے بچوں کی حوصلہ افزائی کی اور وعدہ کیا کہ وہ بھی درخت لگانے میں حصہ لیں گے۔
”یہ سال واقعی ایک نئے عزم کے ساتھ شروع ہوا ہے“، فاطمہ نے سب پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے کہا۔
”اور یہ درخت ہر سال ہمیں یاد دلائیں گے کہ ہم نے اپنے نئے سال کا آغاز کس طرح سے کیا تھا“، حمنہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”لیکن یہ بڑے کب ہوں گے؟“حنان کے چہرے پر پھیلی بے چینی دیکھ کر وہاں موجود سب لوگ مسکرا دیے۔
”بیٹا یہ بڑے تب ہوں گے جب آپ انہیں روزانہ وقت پر پانی دیں گے اور ان کا خیال رکھیں گے۔ آپ کا کام ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ اصل محنت اور صبر طلب کام تو اب شروع ہوا ہے۔اس لیے بنا کسی جلد بازی کے اپنی محنت جاری رکھیں“ ،حنان کے والد نے اسے سمجھایا تو وہ مسکرا دیا۔
تبصرے