ڈاکٹر ہمامیرآرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں قوالی کا پروگرام ہو رہا تھا، قوّال حضرات صوفیانہ کلام پیش کر رہے تھے اور حاضرین سے دادو تحسین سمیٹ رہے تھے ،ایک وجد کا عالم تھا اور سبھی جھوم رہے تھے کہ ہم نے دیکھا ،سامعین میں سے ایک شخص اچانک اٹھا اور عالم بے خودی میں اسٹیج کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا ،پھر اس نے ایک قوال کا ہاتھ تھام لیا اور ایسی داد دی کہ سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لی۔ جیب سے نوٹ نکال نکال کر قوالوں کو پیش کرتا رہا اور پھر جا کر اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ ہم بھی اس کی طرف متوجہ تھے، لہٰذا فوراً پہچان لیا کہ ماضی کے مشہور ڈرامہ ایکٹر مظہر علی ہیں۔ ہمارے پاس ایک صحافی بھی وہاں موجود تھے، ہم نے ان سے کہا کہ یہ مظہر علی ہی ہیں نا! صحافی کو پہلے یقین نہ آیا ،پھر تھوڑی دیر بعد کہنے لگے ،ہاں بھائی یہ مظہر علی ہی ہیں مگر اسے کیا ہوا ہے؟ دراصل اس کا جواب ہے۔
ہم جس مظہر علی کو ٹی وی سکرین پر دیکھتے رہے ،یہ شخص اس سے بہت مختلف تھا وقت اور حالات انسان کو بدل دیتے ہیں۔
مظہر علی نے پاکستان ٹیلی ویژن کے سنہرے دور میں کام کیا اور اپنی اداکاری کی ایسی دھاک بٹھائی کہ، سبھی کو اپنا گرویدہ کر لیا۔ پھر اس پرفارمنس پر سونے پہ سہاگہ، ان کی معصوم شکل اور جاذب ِنظر سراپا تھا، انتہائی مہذب ،با اخلاق، شریف النفس، خوش گفتار اور شائستہ انسان، جس کا نام مظہر علی تھا۔ اندازِ گفتگو ایسا ،کہ آپ کویہ گمان ہوتا تھاکہ وہ کوئی لکھنؤ کے نواب خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ ایک مسکراہٹ ہمیشہ ان کے چہرے پر رہتی ۔
ہمیں یاد ہے کہ ایک مرتبہ ہم پی ٹی وی کا ڈرامہ سیریز 'زندگی' میں کام کر رہے تھے اس ڈرامے میں ہر ہفتے نئی کہانی پیش کی جاتی تھی، ہم نے جس ڈرامے میں کام کیا اس کا نام 'اَلائو' تھا۔ یہ ایک مظلوم لڑکی کی کہانی تھی جسے اس کے سسرال والے جلا کر مار دیتے ہیں ۔ڈرامے کے مصنف حمید کاشمیری تھے اور ان کی خواہش تھی کہ ظالم شوہر کا کردار مظہر علی سے کروایا جائے، تاہم وہ اس کے لیے راضی نہ ہوئے اور معذرت کر لی۔ بعد میں ہم نے ان سے پوچھا کہ آخر انکار کی وجہ کیا تھی؟
مظہر علی کا جواب تھا کہ شاید یہ رول ان کی شخصیت سے میل نہ کھاتا اور ناظرین انہیں منفی کردار میں قبول نہ کرتے۔ ہمیں مظہر علی کی بات میں وزن محسوس ہوا کیونکہ ان کا بھولا بھولا بھارا چہرہ کسی منفی کردار کے لیے ہرگز موزوں نہ تھا لیکن ڈرامے میں دکھایا ہی یہی گیا تھا کہ بظاہر معصوم اور شریف نظرآنے والے بھی حقیقی زندگی میں ظالم ہو سکتے ہیں۔ خیر مظہر علی کی مرضی، انہیں جو ٹھیک لگا انہوں نے کیا۔ ہم نے ان کے ساتھ بہت سے ڈراموں میں کام کیا جن میں سب سے قابل ذکر ڈرامہ سیریل'ہالہ' ہے۔' ہالہ' پاکستان ٹیلی ویژن پشاور مرکز کی پیشکش تھا جسے ڈاکٹر ڈینس آئزک نے تحریر کیاتھا اور طارق سعید اس کی ہدایت کار تھے۔ 'ہالہ' میں ہمارے اور مظہر علی کے علاوہ بشارت خان، عظیم سجاد اور دیگر فنکار شامل تھے'ہالہ' جس زمانے میں آن ایئر گیا تھا ہم خاص چلبلے شوخ اور نٹ کھٹ تھے۔ ہر وقت ہنسنے ہنسانے کے لیے تیار مظہر علی اس وقت پشاور میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ آئے تھے اور وہاں کے مقامی فنکار عظیم سجاد کے گھر قیام پذیر ہوئے۔ پشاور والے بہت مہمان نواز ہیں۔ ان سے زیادہ مہمانوں کی خاطر مدارت کرنے والے ہم نے کہیں اور نہیں دیکھے۔ کوئٹہ مرکز سے بھی ہم نے ڈرامے کیے ہیں، وہاں کے لوگ بھی بہت پیار کرنے والے ہیں ۔مہمانوں کو بہت عزت و تکریم سے نوازتے ہیں۔ شاید ہم کراچی کی مصروف زندگی میں یہ خوبصورت روایات برقرار نہ رکھ سکے لیکن پشاور والے اور کوئٹہ والے زندہ باد لوگ ہیں نمکین گوشت، کڑاہی گوشت، بالٹی گوشت،آلو گوشت ،کابلی پلاؤ اور لوبیا یہ بہت کھایا ہم نے پشاور میں۔
مظہر علی نے 'ہالہ' ڈرامے میںہمارے والد کا کردار ادا کیا تھا۔ جس دن ہماری ریکارڈنگ مکمل ہو گئی اور ہم کراچی جانے کے لیے ایئرپورٹ پہنچے تو مظہر علی نے دیکھتے ہی کہا :'ارے آپ آگئیں اور آپ کا تو ایک سین ابھی باقی ہے۔ یہ سن کر ہم گھبرا گئے۔ موبائل کا زمانہ تو تھا نہیں، پبلک فون بوتھ سے طارق سعید کو فون کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس دوران ہم نے محسوس کیا کہ مظہر علی بہت اطمینان سے ہمیں دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔ ہم سمجھ گئے کہ یہ ایک شگفتہ مذاق تھا۔ مظہر علی کی نرم خو شخصیت نے ایسا عمدہ ہمیں بوکھلایا کہ ہم خود حیران رہ گئے۔ بعد میں ہوائی جہاز میں ہم نے اُن سے شکوہ کیا کہ آپ کی شکل اتنی معصوم ہے کہ آپ جو کہتے ہیں دل سے یقین ہو جاتا ہے، وہ بہت ہنسے۔
ایسے ہی خوش مزاج مظہر علی کو ہم جانتے تھے ۔ہم نے ایک نجی چینل پر ان کے ساتھ ایک میوزک کنسرٹ کی بھی کمپیرنگ کی تھی۔ پاکستانی ڈراموں میں مظہر علی نے اپنی بے مثال اداکاری کے نقوش ثبت کیے۔ قاسم جلالی کی ہدایات میں 'ایڈز' کے موضوع پر بننے والا ڈرامہ 'کالی دیمک'، اقبال انصاری کا ڈرامہ 'کارواں' میں صحافی کا کردار لانگ پلے'انارکلی' میں ایک ادبی رسالے کا مدیر،' اب میرا انتظار کر،عروسہ اور دیگر بے شمار ڈراموں میں اپنی فطری اداکاری سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے والا مظہر علی، شاید اسے اور اس کے کیریئر کو کسی کی نظر کھا گئی۔ مظہر علی کے فنی سفر کا عروج تھا جب کسی نے ان کی گاڑی کو ٹکر ماری جس کے نتیجے میں ان کا کمسن بیٹا جاں بحق ہو گیا۔ اس حادثے نے انہیں توڑ کے رکھ دیا۔ پھر وہ امریکہ چلے گئے اور وہاں سکونت اختیار کر لی۔ بہرحال ڈراموں کا یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔سکرین سے رشتہ ٹوٹ گیا اور مظہر علی وہ مظہر علی نہ رہا جسے ہم' ہالہ' کے زمانے سے جانتے تھے ۔بہرحال معلوم نہیں انسان کی زندگی کے نجی دکھ اس کو وقت سے پہلے کیوں ختم کر دیتے ہیں۔ نہ جانے کیا حالات و واقعات پیش آتے ہیں کہ انسان مرجھا جاتا ہے۔ مظہر علی دنیا سے رخصت ہو گئے، ایسے گئے کہ پہلے تو کئی گھنٹے گزرنے کے بعد تک ہمیں اس خبر پر یقین نہیںآیا، پھر جب معتبر ذرائع سے تصدیق ہوئی تو دل غم سے بھر گیا ۔مظہر علی کی اتنی عمر نہیں تھی کہ اتنی جلدی دنیا سے چلے جاتے، بہرحال انہوں نے ٹیلی ویژن پر جتنا کام کیا وہ ہمیشہ اس حوالے سے یاد رکھے جائیں گے۔
مضمون نگار ایک قومی اخبار میں کالم لکھتی ہیں اور متعدد کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔
[email protected]
تبصرے