اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 11:31
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد پُر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد بھارت میں اقلیتوں پر ظلم: ایک جمہوری ملک کا گرتا ہوا پردہ ریاستِ پاکستان اورجدوجہد ِکشمیر 2025 ۔پاکستان کو درپیش چیلنجز اور کائونٹر اسٹریٹجی  پیام صبح   دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار شہید ہرنائی سی پیک 2025۔امکانات وتوقعات ذہن سازی ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل کلائمیٹ چینج اور درپیش چیلنجز بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبے ففتھ جنریشن وار سوچ بدلو - مثبت سوچ کی طاقت بلوچستان میں سی پیک منصوبے پانی کی انسانی صحت اورماحولیاتی استحکام کے لیے اہمیت پاکستان میں نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ کیوں داستان شہادت مرے وطن کا اے جانثارو کوہ پیمائوں کا مسکن ۔ نانگا پربت کی آغوش ا یف سی بلوچستان (سائوتھ)کی خدمات کا سفر جاری شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ''کشور ناہید''۔۔ حقوقِ نسواں کی ایک توانا آواز نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا بسلسلہ بانگ درا کے سو سال  بانگ درا کا ظریفانہ سپہ گری میں سوا دو صدیوں کا سفر ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنے والے جشنِ افواج پاکستان- 1960 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا جمہوریہ عراق کا سرکاری دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اورماڑہ کے فارورڈ نیول آپریشنل بیس کا دورہ  چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر کی نارووال اور سیالکوٹ کے قریب فیلڈ ٹریننگ مشق میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کاوانا ، جنوبی وزیرستان کادورہ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء کا نیول ہیڈ کوارٹرز  کا دورہ نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے وفد کا دورہ نیول ہیڈ کوارٹرز جمہوریہ آذربائیجان کے نائب وزیر دفاع کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات  گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طالبات اور اساتذہ کا ہیڈکوارٹرز ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا دورہ کمانڈر کراچی کور کا صالح پٹ میں تربیتی مشقوں اور پنوں عاقل چھائونی کا دورہ کمانڈر پشاور کورکی کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی کی فیکلٹی  اور کیڈٹس کے ساتھ نشست مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کا پاک فوج کے ساتھ یادگار دن ملٹری کالج جہلم میں یوم ِ والدین کی تقریب کی روداد 52ویں نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2024 کا شاندار انعقاد    اوکاڑہ گیریژن میں البرق پنجاب ہاکی لیگ کا کامیاب انعقاد ملٹری کالج جہلم میں علامہ اقبال کے حوالے سے تقریب کا انعقاد
Advertisements

محمد علی اسد بھٹی

مضمون نگار عسکری موضوعات پر لکھتے ہیں۔

Advertisements

ہلال اردو

عزم و ہمت کا استعارہ

دسمبر 2024

میجر احمد خان ٹوانہ شہید     
  پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اور دو قومی نظریہ اس کی بنیادی اساس ہے لیکن بھارت قیام پاکستان سے ہی مختلف حیلوں بہانوں اور ریشہ دوانیوں سے پاکستان کی سالمیت کے خلاف سازشوں میں مصروف رہا اور متعدد بار اس نے پاکستان پر جارحیت کی کوشش کی۔ وطن عزیز پر جب بھی کڑا وقت آیا اور بزدل دشمن نے پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی خلاف ورزی کی تو پاکستانی افواج نے دشمن کی جارحیت کا بھرپور جواب دیا۔ اسی طرح کی ایک سازش کے ذریعے 1999ء میں بھارت نے کارگل کے محاذ پر پاکستان کی سلامتی پر ضرب لگانے کی کوشش کی لیکن پاکستانی فوج کے جوانوں نے جواں مردی سے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اس سازش کو  ناکام بنا دیا  اور انفرادی بہادری کے وہ جو ہر دکھائے جو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے ۔



  کار گل میں شہادتوں کے گل و گلزار کھلانے والوں میں ایک نام میجر احمد خان ٹوانہ کا بھی ہے۔میجر احمد خان ٹوانہ ضلع خوشاب کے تاریخی شہر ہڈالی کے ایک متمول خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا ملک رب نواز وڈھل ٹوانہ علاقے کی معروف اور قد آور شخصیت تھے۔ وہ پولیس میں ایس ایس پی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور بعد میں علاقے کی سماجی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ۔ میجر احمد خان ٹوانہ کے والد مرحوم ملک محمد خان وڈھل ٹوانہ بلدیہ ہڈالی کے چیئرمین رہے اوران کے چچا خدا بخش وڈھل ٹوانہ (سابق ایم پی اے) علاقے کے معروف سیاستدان رہے ۔وہ طویل عرصہ تک بلدیہ ہڈالی کے چیئرمین بھی رہے ۔میجر احمد خان ٹوانہ کے پردادا نواب ملک غلام محمد خان وڈھل ٹوانہ نے پہلی جنگ عظیم میں بھر پور کردار ادا کیا۔ وہ ہندوستان کی فوج کے قابل ترین افسروں میں سے تھے ۔میجر احمد خان ٹوانہ کے خاندان نے دوسری جنگ عظیم میں بھی جرأت اور بہادری کے گہرے نقوش چھوڑے ۔میجر احمد خان ٹوانہ کا تعلق بااثر جاگیردار ، سیاسی اور فوجی خاندان سے تھا ، ان کے خاندان کے بہت سے لوگ اب بھی فوج کے علاوہ دوسرے محکموں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ انہوں نے بچپن کے چند سال اپنے آبائی شہر ہڈالی میں گزارے۔ بعد ازاں ملک کی ممتاز ترین تعلیمی درسگاہ ایچی سن کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ کلاس اول سے لے کر ایف ایس سی تک ایچی سن کالج میں زیرتعلیم رہے ۔ وہ ایچی سن کالج کے ہونہار طالب علم اور کالج کی کرکٹ ٹیم کے بہترین کھلاڑی تھے ۔ انہیں گھڑ سواری میں بھی کمال مہارت حاصل تھی ۔
وہ کالج گھڑ سوار ٹیم کے کپتان بھی رہے اور ایچی سن کالج کی نمائندگی کرتے ہوئے گھڑسواری کے اعلٰی ترین اعزازات حاصل کیے ۔وہ ماہر نیزہ باز بھی تھے اور نیشنل ہارس اینڈ کیٹل شو لاہور میں حصہ لیتے رہے۔ انہوں نے ان مقابلوں میں بھی اپنی مہارت کے جوہردکھائے ۔1986ء میں ایف ایس سی کرنے کے بعد پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا اور ترقی کرتے ہوئے میجر کے عہدے پر پہنچے۔میجر احمد خان ٹوانہ ہر دلعزیز اور نہایت ہی ہنس مکھ طبیعت کے مالک تھے۔ وہ لوگوں کے دلوں میں آسانی سے اپنا مقام بنا لیتے تھے۔ عام زندگی کے علاوہ فوجی حلقے میں بھی ان کا مخصوص اور دل پسند انداز تھا ۔میجر احمد خان ٹوانہ بچپن ہی سے خاموش طبع اور نیک سیرت نوجوان تھے۔ وہ دنیا کی رنگینیوں اور ہنگاموں سے عموماً دُور رہتے لیکن دوست احباب میں بیٹھتے تو شمعِ محفل بن جاتے ۔میجر احمد خان چاہتے تو اپنے لیے آسان زندگی کا انتخاب کر سکتے تھے۔ وہ اعلیٰ خاندان کے چشم و چراغ  اور نازونعم میں پلے بڑھے تھے ۔وہ والد محترم کی وفات کے بعد خاندان کے سربراہ بھی بن سکتے تھے لیکن ان کی رگوں میں سپاہیانہ خون شامل تھا اس لیے انہوں نے اپنے لیے سپاہیانہ زندگی پسند کی ۔
  میجر احمد خان کے دل میں ملک و ملت کی خدمت کے علاوہ کوئی جذبہ نہیں تھا۔ اپنے خالق و مالک کے دربار میں سرخرد ہونے کے لیے مجاہدانہ زندگی کے سوااُ نہیں کوئی دوسرا راستہ دکھائی نہ دیا۔ وہ اس راستے میں کسی بلند مقام پر فائز ہونا چاہتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہش یوںپوری کی کہ انہیں شہادت کے بلند ترین مقام سے نوازا ۔میجر احمد خان ٹوانہ اکثر کہا کرتے تھے' انسان کی جو رات قبر میں لکھی گئی ہے وہ رات قبر سے باہر نہیں آسکتی' وہ کہتے 'موت کا ایک د ن معین ہے وہ تو آ ہی جائے گی لیکن ذلت کی ہزار سالہ زندگی سے عزت کا ایک لمحہ ہزار درجے بہتر ہے'۔ وہ اپنے اسلاف کے عظیم کارناموں کا عموماً مطالعہ کرتے ۔حضرت عمر  ، حضرت خالد بن ولید اور ٹیپو سلطان، ٹوانہ شہید کی آئیڈیل شخصیات تھیں ۔ ان کی شادی، برادری میں ہی ہوئی لیکن وہ اولاد جیسی نعمت سے محروم تھے۔1989ء کی ضربِ مومن مشق کے دوران میجر احمد خان ٹوانہ نے ہڈالی شہر سے گزرتے ہوئے اپنی پوری یونٹ کے علاوہ بریگیڈکو ہڈالی ریلوے سٹیشن پریادگار کھانا دیا۔1993ء میں اقوام متحدہ کی امن فوج کے ساتھ صومالیہ میں خدمات سرانجام دیں وہاں  میجر ٹوانہ کے محلہ دار حوالدار رانا حبیب اللہ( شہید) سے ملا قات ہوئی تو میجر ٹوانہ نے حوالدار حبیب اللہ شہید سے کہا ''گرائیں ویکھیں،پنڈ دی پگ دی لاج رکھیں '' تو حبیب اللہ شہید نے کہا سر میں آپ کا مان رکھوں گا اور حبیب اللہ شہید نے میجر ٹوانہ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے صومالیہ میں ہی شہید ہو کر پردیس میں '' اپنے پنڈ کی پگ کی لاج رکھ لی''۔
 جنوری 1998ء میں ان کی پوسٹنگ ناردرن لائٹ انفنٹری (NLI)میں ہوئی اور  اپریل 1999ء میں دنیا کے بلند ترین محاذِ جنگ سیاچن پر تعینات ہوئے، ٹوانہ شہیدسیاچن جانے سے قبل گھر تشریف لائے اور اپنے تمام خاندان رشتے داروں اور دوستوں سے ملاقات کی۔ راقم کاتعلق بھی فوجی زندگی میں میجر احمد خان ٹوانہ سے رہا ہے۔ سیاچین جانے سے پہلے راقم سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ بھائی سیاچین جا رہا ہوںجہاں دشمن سامنے ہے ۔ مزہ تو اب آئے گا جب دشمن سے دو دو ہاتھ ہوں گے۔  بس آپ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ثابت قدم رکھے ۔ اگر زندگی نے وفا کی تو اللہ تعالیٰ غازی کا رتبہ دیں گے اور اگر شہید ہو گیا تو مجھ سے بڑا خوش قسمت کون ہوگا؟ اور واقعی ٹوانہ شہید نے اپنی بات کو سچ کر دکھایا ۔جہاں انتہائی ناموافق موسمی حالات کے باعث حالت جنگ میں پندرہ دن سے زیادہ تعیناتی ممکن نہیں،ٹوانہ شہید نے مسلسل پینتالیس دنوں تک موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دشمن کو نیست ونابود کرنے کا مشن جاری رکھا ۔اتنے طویل عرصے تک داد شجاعت دینے کا یہ دفاعِ وطن کی حفاظت کا عظیم جذبہ ہی تھاجو ٹوانہ شہید نے قوت ایمانی سے ممکن کر دکھایا ۔
  ٹوانہ شہید پوئین (PUIN (کے مقام پر14 جولائی 1999ء کو داد شجاعت دیتے ہوئے دشمن کی متواتر گولہ باری سے شدید زخمی ہو گئے اور پندرہ جولائی کو شہادت کا وہ جام نوش کیا جو قسمت والے کا مقدر ہوتا ہے ۔14 اگست 1999ء کو یوم آزادی کے موقع پر حکومت پاکستان کی جانب سے میجر ٹوانہ شہید کو بے مثل بہادری پر بعد از شہادت تمغہ بسالت سے نوازا گیا۔
ٹوانہ شہید کی شہادت پر ان کی بیوہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا ''کون کہتا ہے کہ میں بیوہ ہوگئی ہوں 'اللہ کی قسم میں بیوہ نہیں ' میں تو سد ا سہاگن ہوں، شہید تو زندہ ہوتے ہیں اور میں ایک شہید کی بیوی ہوں، میرا سہاگ تو قیامت تک سلامت رہے گا۔


مضمون نگار عسکری موضوعات پر لکھتے ہیں۔

محمد علی اسد بھٹی

مضمون نگار عسکری موضوعات پر لکھتے ہیں۔

Advertisements