مسز میجر شعیب کے شہیدخاوند اور مرحومہ بیٹی کی یادوں پر مبنی مضمون
زندگی محور ہے مرکز تو نہیں
اے بساطِ زندگی موت پہ نازاں ہوں میں
ہرانسان کی زندگی لمحہ بہ لمحہ نئی نئی واردات اور تجربات سے گزرتی ہے۔ ہر ذی روح پہ زندگی کے مختلف رنگ ڈھنگ اپنے اپنے انداز میں آشکارہوتے ہیں۔ زندگی اورموت کے درمیان پلک جھپکنے کا سافاصلہ ہے۔ یہ فاصلہ کس نے کب اورکہاں طے کرلیناہے، صرف کاتبِ تقدیرہی جانتاہے۔ موت تو برحق ہے، اسی موت میں ایک اہم موت شہادت کی ہے جو زندگی کا وہ دوسرا نام ہے، جو ہمیں دکھائی نہیں دیتی مگرہم شہید ہونے والوں کو رزق ملنے پہ یقین رکھتے ہیں۔
4 دسمبر2009ء بروز جمعة المبارک پریڈلین پشاور روڈ راولپنڈی،دہشت گردی،جانکاہ حادثہ،شہادتیں،آہ فناں،سجدہ بے نیاز جبین، کربناک مناظر،جابجا خون کے چھینٹے،ویرانی،بربادی اورماتم،سجدے میں جھکا بوڑھا بدن،اس کے باوجود وہاں بسنے والوں کو اپنی اپنی منزلوں پہ پہنچنے کایقین تھا۔انہی میں میجر شعیب،مسز فوزیہ شعیب اور بیٹی لوزینہ شعیب شامل تھیں۔ جب یہ سانحہ گزرا تومیری پہلی ملاقات18فروری2010ء میں مسز شعیب اور ان کی بیٹی لوزینہ شعیب سے ہوئی۔
ڈرائنگ روم میں آتے ہی میں نے دیکھاکہ ان کے گھر میں اب صرف اداسی اور دکھ مہمان بن کے بیٹھاتھا۔ دیواروں پہ لگی میجر شعیب شہیدکی تمغۂ بسالت لیتے ہوئی تصاویر،پورے تمکنت کے ساتھ اپنا آپ بیان کررہی تھیں۔
اتنے میں آواز آئی۔
کون آیا ہے چاچا؟
کوئی باجی ہیں۔
مگرمجھے توکسی سکیورٹی گارڈ والے نے فون نہیں کیا۔
کیوں ماما اندرکیوں آیاہے کوئی؟ ان کا شناختی کارڈ دیکھیں۔ان کے بارے میں پوچھیں وہ اونچا اونچا بول رہی تھیں ان کے لہجے میں خوف تھا ،گہرا دکھ تھا، جیسے گیلی لکڑی سلگ رہی ہو اور اس کے کچے دھوئیں میں سانس گھٹ رہاہو۔
مسز شعیب نے کہا۔
میری بیٹی لوزینہ، بہت خوفزدہ ہے!
اتنے میں لوزینہ ڈرائنگ روم میں آگئی۔
میں نے دیکھا اس کی خوبصورت آنکھیں ہراساں تھیں، ایسے جس طرح ہرن اپنی ڈار سے بچھڑجانے پہ خوفزدہ سا۔مگرجیسے ہی میری لوزینہ کے سراپے پہ نگاہ پڑی تومیرا جسم لرز اٹھا۔
وہ اپنے ننھے سے جسم پہ کوئی کمتری کالبادہ اوڑھے ہوئے نہیں تھی۔
وہ تو قد میں مجھے اپنی عمر سے بھی بڑی محسوس ہوئی، اتنے میں وہیل چیئرکے پہیے گھومے اور وہ میرے نزدیک ہوگئی، میں نے بڑھ کے اس کا ہاتھ تھاما ایسے لگا کہ جیسے آج مجھے لوزینہ کے سہارے کی ضرورت تھی، نجانے محبت سے میں نے اس کا ہاتھ کیوں دیر تک تھامے رکھا۔اس کے ہاتھوں کی گرمی سے اس کی محبت میرے بدن میں اتر گئی، میری آنکھوں کے کنارے بھیگے تومیں نے مسل ڈالے کہ کہیں بادل نہ برسنے لگے،میں نے اپنا تعارف کرایا۔
آپ کو پتہ ہے رابعہ آنٹی وہ میرے بھائی تھے ! دوست تھے! معالج تھے!باپ تھے! اس کی گہری آنکھوں میں آنسوئوں کے کنول لہرا رہے تھے۔
4دسمبر2009ء کے اس سانحے میں بہت قیمتی جانوں کانقصان ہوا، میری تقریباً 35متاثرہ خاندانوں سے ملاقات ہوئی۔ مجھے آج بھی ان کے چہرے ان کی شام غریباں کا دکھ تڑپاتاہے، تین سال پہلے ایک خبر میری نظر سے گزری کہ لوزینہ شعیب، میجر شعیب شہیدکی بیٹی اس دارفانی سے کوچ کرگئیں اور میجر شعیب شہید تمغہ بسالت کی بیگم فوزیہ شعیب کینسر جیسے موذی مرض سے بہت دلیری سے لڑ رہی ہیں۔قارئین! آپ کومیں اپنے اندر ٹھاٹھیں مارتے ہوئے درد کے طوفان کی رفتار بیان نہیں کرسکتی۔
دکھ کاٹے نہ کٹے
توکاہے نیر بہائے
نیناںتیرے، ساگرہیں توکیا
تیرا درد نہ بہنے پائے
میں نے مسز فوزیہ شعیب سے فون پہ بات کی تو وہ کہنے لگیں کہ رابعہ شعیب شہیدکی شہادت کا فخر اور اعزاز اپنی جگہ اور دکھ وکرب کی انتہا اپنی جگہ، میری لوزینہ کے پاپانے وطن کی خاطرجان دی ہے۔
شہیدکی جوموت ہے
وہ قوم کی حیات ہے
پھر انہوں نے میرے پوچھنے پہ لوزینہ کے بارے میں بتانا شروع کیا۔6نومبر 1979ء کو پیدا ہوئیں۔ ڈھائی پونڈ کیPrematureبچی تھی اور Crippeld Child تھی مگرمیں نے اور اس کے پاپا نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا، اس کی آواز تک نہیں نکلتی تھی مگر اس کی آنکھیں ستاروں کی مانند چمکتی تو ہمیں نوید حیات دیتیں۔ اس کے A to Zسب کام میں اور اس کے پاپا کرتے۔ وہ آہستہ آہستہ وزن پکڑرہی تھی مگر سب ہمیں یہی کہتے کہ آپ کی بیٹی اپاہج ہے، آپ اس کے لیے کوئی عورت رکھ لیں لیکن میں نے فیصلہ کیاکہ اس کی ساری ذمہ داری سونے سے جاگنے تک، سکول سے یونیورسٹی تک، امتحان سے کامیابی تک کی میں لوںگی کیونکہ لوزینہ کے پاپا تو بہت مصروف رہتے تھے مگر ان کی ایک خوبی یہ تھی کہ جب بھی گھر آتے سارا وقت لوزینہ کو دیتے۔ وہ زندگی کے تیس سال تک اپنے پاپا کے بازوکا تکیہ بناکر سوتی رہی، اس کا جھولا پاپا کے بازو اور ہماراکھلونا صرف لوزینہ تھی۔ شعیب نے جب دیکھاکہ لوزینہ کی عمر اتنی ہوگئی ہے کہ وہ سکول میں دوسرے بچوں کی طرح تعلیم حاصل کرنے جائے،تو سب کے منع کرنے کے باوجود وہ راولپنڈی کے سکول (سٹیشن2) میں لے گئے، فوزیہ شعیب نے یہ تہیہ کرلیاتھاکہ وہ ہر صورت میں اپنی بیٹی کی ذہانت کو ضائع اور زندگی کو رائیگاں نہیں جانے دیںگی۔ سب کہتے کہ آپ کی بچی عام لوگوں کی طرح نہیں ہے، اس کے اوپر اپنے اصولوں اور تعلیم کے قاعدوں کا بوجھ ڈال کر آپ ظلم کررہے ہیں تومیں نے اور شعیب نے وہاں پہ ایک عہدکیاکہ ہم اپنی ساری توجہ لوزینہ پہ مرکوز رکھنیکے لیے ہیں، اس اکلوتی اولاد کو ہی اشرف مخلوق بنائیں گے۔ ہمارے اس فیصلہ پہ بہت غصے اور رنج کا سامنا بھی ہمیں کرناپڑا مگر ہم دونوں کے سامنے صرف لوزینہ تھی جس کا حق ہم کسی اور کو دینا نہیں چاہتے تھے۔ ورنہ رابعہ آج وہ اتنی مقبول ومعروف نہ ہوتی۔ اس کے ساتھ ہر قدم پہ میں نے پڑھائی کی اس کو یاد کرایا اسے زیادہ آرام نہیں کرنے دیا کیونکہ میں اور اس کے پاپا ہی چاہتے تھے کہ اسے کوئی ایسا لمحہ خالی نہ ملے کہ وہ اپنے آپ کو نارمل بچوں کی طرح سے محسوس نہ کرے۔ لوزینہ شروع سے ہی ہمدرد اورمحبت کرنے والا دل رکھتی تھی۔ اسے تقسیم کرنا بہت پسند تھا وہ اپنی مسکراہٹ اور چمکتی آنکھوں اور سریلی آواز کے ساتھ ان سب کے دل جیتنے میں کامیاب رہی جو اس کا کبھی کبھی تمسخر اڑایاکرتے۔ لوزینہ کے آپریشن پڑھائی کے ساتھ ساتھ چلتے اور ہرآپریشن پر میں سوچتی کہ اب لوزینہ اور بہترہوجائے مگر وہ نہیں ہوتی تھی۔ میجر شعیب شہید کہاکرتے کہ میری بیٹی میں پاکستان کی پوری فوج کی سی طاقت سماچکی ہے اس لیے وہ کسی آپریشن، کسی درد، کسی انجکشن سے نہیں ڈرتی ، یہ سچ تھا۔
اس کے ننھے سے جسم پہ جو بڑھ ہی نہیں سکتا تھا، جتنے ماں نے ٹانکے لگے دیکھے ہیں وہ اسی ماںکا حوصلہ ہے جس نے ساری زندگی صرف لوزینہ کی سانس کے ساتھ سانس لی، اس کے سوجانے کے بعد چاہے سسکیوں اورہچکیوں میں ڈوب گئیں، اس کے سامنے ایک مسکراہٹ اور اللہ کا شکر اور صبرکا پھول چہرے پہ کھلائے رکھتیں۔
والد کی شہادت کے بعد لوزینہ نے اپنے والد کی کوئی چیز اپنی جگہ سے نہیں ہٹائی، نہ کسی کو ہٹانے دی، جوتے جہاں پڑے تھے وہیں پڑے رہے ،جو سوٹ ہینگر پہ لٹک رہے تھے ان کو کسی کو بھی نہیں دینے دیا۔
میں نے اسے بتایاکہ جب آپ کے پاپا اورمیں حج پہ گئے، کعبة اللہ پہ نظر پڑتے ہی انہوں نے اپنی شہادت کی دعامانگی تھی تو وہ کیسے پوری نہ ہوتی، میرے یہ بتانے پہ لوزینہ کو جیسے صبر سا آگیا، ایک سکون اور طمانیت اس کے جسم وجاں میں پھیل گئی۔
مگر اکثر کہتی اماں پاپا بہت یاد آتے ہیں۔ پھر اس کی ستارہ آنکھوں سے آنسو چمکارے مارتے تومیں اسے کہتی لوزینہ ہم دونوں ہیں ناں ایک دوسرے کے لیے پاپا تو اب ہمیشہ ہمارے ساتھ ہی رہیںگے کیونکہ وہ تو زندہ ہیں۔ لوزینہ کو پتہ تھاکہ ماں بہلارہی ہے اور وہ بہل جاتی تھی، مجھے ہنسانے کے لیے!
میجر شعیب شہید اور فوزیہ شعیب کی خوش قسمتی دیکھیے کہ ان کے ہاتھوں ان کیSpecial childبیٹی نے اپنی پہلی تنخواہ رکھی اور کہا اماں اور پاپا آپ لوگوں نے مجھ جیسی بیٹی کو بھی ضائع نہیں ہونے دیا۔یہ واقعی بہت اعزاز کی بات تھی کہ سب کے کھلے محاذوں کے سامنے فوزیہ شعیب نے خود کو لوزینہ کی ڈھال بنالیا۔ ہر امتحان میں کامیاب ،ہر رشتے سے محبت نبھانے میں مخلص، اس ننھی سی چڑیا نے کمال کردکھایا۔
لوزینہ کے محبت بھرے معصول دل ناداں کو دیکھیے کہ جب اس نے Multi Media میںA+لیا تو اس کے دوست ساتھی کہنے لگے کہ تمہیں سر نے ترس کھاکر اتنے نمبر دیئے ہیں۔ تم نے ہمارا حق مارا ہے، لوزینہ اپنے سر کے پاس پہنچ گئی اور کہنے لگی کہ سرمیرے جو دوست فیل ہوگئے ہیں ان کو میرے نمبروں میں سے نمبر دے کر پاس کردیں،میرے نمبر بے شک کم ہوجائیں ! ہے کوئی ایسی مثال آج کے دور میں کسی طالبعلم کی۔ آفرین ہے آفرین!(ظاہرہے لوزینہ بیٹی نے نمبر میرٹ پر حاصل کیے تھے، ٹیچر نے اُس کے نمبر کیون کر کم کرنے تھے)
اتنی پروقار، مدبر،معتبر،محنت ومشقت کرنے والی، اپنی زندگی کا ہرلمحہ دنیا سے بے خبرہوکر صرف اور صرف اپنی بیٹی لوزینہ کے لیے وقف کرنے دینے والی، ایک شہید کی بیگم2015ء میں کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوگئی۔ درد کی لہر اٹھی سینے میں تو چیخ نکل گئی لوزینہ نے فوراً اماں کے لیے اپوائنٹمنٹ لی اور شوکت خانم میں دکھایا۔ سب کچھ ہاتھ سے جاتا نظرآرہاتھا۔مگر اللہ توکل رہیں۔ یہ سب اللہ کے راز ہیں، ہم توکچھ بھی دعویٰ نہیں کرسکتے، بے شک بے اختیار لوگ یقین واثق پہ زندہ ہیں۔ فوزیہ شعیب نے اس بیماری کے ساتھ لوزینہ کے کام نہ چھوڑے تھے۔ اب باری لوزینہ کی آگئی۔ اس پہ اپنی اماں کی ذمہ داری پڑگئی۔ پہلے جہاں لوزینہ ہوتی وہاں اماں ہوتی، اب ہوایہ کہ جہاں اماں ہوتیں وہاں لوزینہ ہوتی۔ ہسپتال کے کوری ڈور میں وہیل چیئر پہ بیٹھی اس طرح سارا سارا دن گزار دیتی جیسے کالجز یونیورسٹی میں اماں رہتی یا آپریشنز روم کے باہر اماں لوزینہ کے لیے دوپائوں پہ کھڑی رہتی۔
فوزیہ کے تشویشناک کینسر نے سب کوپریشان کیامگر لوزینہ نے اماں سے کہاکہ اماں پاپا تو آپ کے پیچھے کندھے پہ ہاتھ رکھے کھڑے ہیں۔ اپنی ساریEnergyآپ میں منتقل کررہے ہیں،لوزینہ کی باتیں پیاری ادائیں،مسکراہٹیں ا اور میٹھا نرم لہجہ فوزیہ کے لیے اس دکھ اور تکلیف کی گھڑی میں جہاں وہ ٹوٹ کے بکھر بھی سکتی تھیں بھرپور زندگی بن گئی۔ انہیں لوزینہ کی محبت نے چٹان کی طرح کھڑا رکھا۔لوزینہ کی باتوں میں ایک حوصلہ ہوتا تھا۔ ایک صبر ہوتا تھا جو ہمیشہ رہا۔
اپریل 2021ء کولوزینہ کاDefenseتھامگر وہ بیمار ہوگئی تھی، اتنی کہ اس نے خود ہنستے ہنستے اپنےdeath paperسائن کیے اورکہا اگرمیں نے زندہ رہنا ہوا تو اللہ کے حکم سے رہ لوںگی ورنہ اپنے اﷲکے پاس تومجھے جانا ہی ہے۔
پھر اماں کوکہنے لگی کہ اماں آپ نے رونا نہیں ہے، میں نے آپ کے موبائل پہ ڈاکٹرز کی اپوائنٹمنٹ کی تاریخوں کے الرٹ لگادیئے ہیں، آپ نے ڈاکٹرکا کوئی Visitنہیں چھوڑنا،میں آپ کے ساتھ رہوں یا نہ رہوں، آپ نے پریشان نہیں ہونا اور آپ نے اپنے گھر میں رہنا ہے ۔7اپریل رات ڈھل رہی تھی اور سحری کا وقت ہونے کو تھاجیسے ہی اذانِ سحر ہوئی اسی وقت لوزینہ کی روح پرواز کرگئی۔
میجر شعیب شہید اور لوزینہ کے چلے جانے کے بعد اب فوزیہ جو ایک چٹان تھیں انہیں یاد کرکے ہر بات پہ روتی ہیں،جب الارم بجتاہے تو ان کا دل لوزینہ کے لیے تڑپتاہے،جب وہ اکیلی بستر پہ لیٹتی ہیں تو لوزینہ کے تکیے پہ آنسوئوں کی شبنم گرتی ہے مگر پھر بھی وہ کہتی ہیں کہ جو تکلیف آئی ہے سوکیا ہواکٹ جائے گی،دہلیزکے باہر مرد کے جوتے رکھ کر سکون سے سونے والی شہید کی اس بیگم نے جوتے توکیا اپنا گھر اور دل وجگر سب لٹادیا۔
بے شک ازلی سکون تو بس موت میں ہے مگر ایک بہادر خاتون کاکہنا ہے کہ تنہاعورت اور شہداء کی بیگمات کو ایک مرتبہ نہیں ہزارمرتبہ ،بہت مضبوط رہنا پڑتاہے، اپنے گرد قلعہ کی مضبوط دیواریں اپنی ''حیا'' سے بنالیں مگر ایسی دیواریں جوایک ٹھوکر سے ریت کی طرح نہ گریں۔
ہمارا معاشرہ بہت اچھامعاشرہ ہے۔ شہداء کی بیگمات اور غازیوں کی بیگمات خود کو مضبوط رکھیں اور خودکو آگہی کے اس مقام پہ لے جائیں کہ ہمارے گھر کے مردکسی وقت بھی اپنے وطن پہ جان لٹاسکتے ہیں تو ہمیں ان کی قربانی کسی طور بھی رائیگاں نہیں جانے دینی۔ وقت مشکل ضرورہوتا ہے مگر جس مشکل میں اعزاز ہواور فخرہو تو ایمان تازہ رہتاہے،مشکل مشکل نہیں لگتی، بس کمی محسوس ہوتی ہے تو گلے لگاکر پیارکرنے والوں کی!
مضمون نگار ایک قومی اخبار میں کالم لکھتی ہیں اور متعدد کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔
[email protected]
تبصرے