اسموگ دھوئیں اور دھند کا امتزاج ہے جس سے عموماً گنجان آباد صنعتی علاقوں میں واسطہ پڑتا ہے ۔لفظ اسموگ انگریزی لفظ اسموک اور فوگ سے مل کر بنتا ہے ۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ماہرین ماحولیات اور عام لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ معلوم ہوا کہ یہ دھند اور دھوئیں کی آمیزش ہے جو موسم سرما کی اُجلی دھند یا کہر سے بہت مختلف اور نہایت کثیف ہے جو انسانوں کے لیے تکلیف دہ ثابت ہو رہی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ لندن وہ پہلا شہر تھا جہاں اس قسم کی فضائی آلودگی کا لوگوں نے سامنا کیا اور اس کے لیے لفظ اسموگ استعمال ہوا ۔ دسمبر 1952ء میں لندن میں فضائی آلودگی کی لہر کو گریٹ اسموگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، لندن میں آلودہ دھند کی وجہ سے بارہ ہزار سے زائد افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔
اسموگ کیا ہے اور کیسے بنتی ہے ؟
اسموگ بنیادی طور پر فضائی آلودگی کی قسم ہے جو نائٹروجن آکسائیڈ ، سلفر آکسائیڈ ، اوزون ، دھواں یا کم دکھائی دینے والی آلودگی مثلاً کاربن مونو آکسائیڈ اور کلو رو فلورو کاربن وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے ۔ یہ فضائی آلودگی اور آبی بخارات کے سورج کی روشنی میں دھند سے ملنے کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے۔ پہلے موسم سرما کے آغاز پر ہمیں ایک خوشگوار تبدیلی کا احساس ہوتا تھا لیکن ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کے باعث اب یہ تبدیلی تکلیف دہ اسموگ کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔ نومبر کے اختتام یا دسمبر کی ابتدا تک یہ فضا میں موجود رہتی ہے اس دوران اگر بارشیں ہو جائیں تو یہ ختم ہو جاتی ہے ۔
اسموگ اور دنیا کے دیگر ممالک
عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہر سال دنیا بھر میں کم ازکم ستر لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور اسموگ بھی ماحولیاتی آلودگی کا ہی شاخسانہ ہے ۔ جنوبی ایشیائی ممالک بالخصوص پاکستان ، بھارت اور چین اسموگ سے زیادہ متاثر ہیں ، چین میں سترہ فیصد اموات اسموگ کی وجہ سے ہوتی ہیں ۔
اسموگ کی اقسام اور اسباب
اسموگ کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں ، فوٹو کیمیکل اسموگ جو زیادہ عام ہوتی ہے جبکہ انڈسٹریل اسموگ جس کے پھیلائو میں اب کمی ہو چکی ہے ۔ آلودگی اسموگ کا سب سے بڑا سبب ہے۔ جوں ہی درجہ حرارت میں کمی ہوتی ہے تو گرم ہوا اوپر جانے کی بجائے فضا میں معلق ہو جاتی ہے اور اس میں دھواں ، بھوسے اور کوڑا کرکٹ جلنے سے پیدا ہونے والی گیس اور ذرات فضا میں معلق ہو جاتے ہیں ۔ آسان الفاظ میں پٹرول یا ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں ، صنعتی پلانٹس کا دھواں اور فصلوں کی باقیات جلانا اسموگ کی بنیادی وجوہات ہیں ۔
کراچی جیسے شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ان میں پلاسٹک سے بنی اشیاء اور تھیلیاں وغیرہ بڑی مقدار میں جمع ہوتی ہیں ، صفائی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے کچرے کے ڈھیر کو آگ لگا دی جاتی ہے جس سے اسموگ پیدا ہوتی ہے ۔ ہمارے ملک میں فصلیں اُگانے کے لیے آج بھی قدیم طریقے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ موسم گرما میں پنجاب کے زیادہ تر اضلاع میں چاول کی فصل کی کاشت کی جاتی ہے جو کہ اکتوبر کے مہینے میں پک جاتی ہے۔ جب تک ان کی باقیات کو تلف نہ کیا جائے اگلی فصل کاشت نہیں ہو سکتی ۔
ترقی یافتہ ممالک میں ان باقیات کو ختم کرنے کے لیے مشینری استعمال کی جاتی ہے جو کہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث نہیں بنتی۔ اس کے برعکس پاکستان میں ان باقیات کو ختم کرنے کے لیے آگ لگا دی جاتی ہے جس سے دھواں پھیلتا ہے اور فضا آلودہ ہو جاتی ہے۔
برصغیر میں اس وبا کا منبع بھارتی مشرقی پنجاب بھی ہے جہاں کسان فصلوں کی باقیات جلا رہے ہیں اور ہوا کا رخ مشرق سے مغرب کی جانب ہونے کے باعث سب سے زیادہ لاہور متاثر ہوا ہے۔ بھارت میں دہلی سمیت دیگر علاقے بھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔ بہر طور پاکستان میں تیزی سے جنگلات کاٹے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے زمین کا کٹائو بھی بڑھ رہا ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس سے بھی اسموگ میں اضافہ ہوا ہے ۔
اسموگ سے پھیلنے والی بیماریاں
اسموگ انسانوں ، جانوروں اور درختوں سمیت فطرت کے لیے بہت نقصان دہ ہے اس سے جان لیوا امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے خصوصاً پھیپھڑے یا گلے کے امراض سے موت کا خطرہ ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسموگ سورج کی شعاعوں کی سطح کو نمایاں حد تک کم کر دیتی ہے جس سے وٹامن ڈی کی کمی ہونے لگتی ہے ، اسموگ آنکھوں میں خارش ، کھانسی یا گلے کے امراض ، سینے میں خراش اور جلد کے مسائل سے لے کر نزلہ زکام اور نمونیا تک کا باعث بن جاتی ہے ۔
اسموگ سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر
• اسموگ کے دنوں میں گھر سے غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلیں اور ٹریفک میں پھنسنے سے گریز کریں ۔
• اگر باہر نکلنا بہت ضروری ہو تو فیس ماسک اور کالے چشمے کا استعمال کریں ۔
• دمہ کے مریض انہیلر ساتھ رکھیں ، گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں ۔
• اگر گاڑی میں سفر کر رہے ہیں تو گاڑی کے شیشے بند رکھیں ۔
• پانی اور گرم چائے کا استعمال کریں ۔ سگریٹ نوشی سے مکمل پرہیز کریں ۔ باہر سے گھر آنے کے بعد اپنے ہاتھ چہرے اور جسم کے کھلے حصوں کو صابن سے دھوئیں ۔
• جنریٹر اور زیادہ دھواں خارج کرنے والی گاڑیوں کو ٹھیک کروائیں ۔ کوڑا کرکٹ یا فصلوں کی باقیات کو آگ نہ لگائیں اور اگر کہیں آگ لگی ہو تو ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو اطلاع دیں ۔
• تعمیراتی جگہوں پر خصوصی توجہ دیں تاکہ وہاں گرد اور مٹی وغیرہ نہ اڑے ۔
اسموگ کے خاتمے کے لیے حکومتی اقدامات
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق راولپنڈی ، لاہور ، کراچی اور پشاور دنیا کے تیس آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں ۔ باغات کے شہر لاہور میں سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے صرف نوے دن ائیر کوالٹی انڈیکس بہتر ہوتا ہے ۔ ائیر کوالٹی انڈیکس فضا میں آلودگی کے تناسب کو ماپنے کا ایک آلہ ہے جو کہ کسی علاقے میں نصب ہوتا ہے ۔ صفر سے پچاس تک اے کیو آئی انڈیکس کو صاف ستھری فضا مانا جاتا ہے اور اکاون سے سو تک کا اے کیو آئی لیول بھی قابل قبول ہے لیکن دو سو اور تین سو انتہائی غیر صحت مند تصور کیا جاتا ہے جبکہ تین سو سے تجاوز کرنے پر فضا انتہائی خطرناک ہو جاتی ہے اور ایمرجنسی کی صورتحال کی وارننگ دی جاتی ہے ۔
9 نومبر2024ء تک ملتان میں ائیر کوالٹی انڈیکس 1487 تک پہنچ گیا اور اس طرح ملتان لاہور سے بھی زیادہ آلودہ شہر بن گیا ۔11نومبر کو پنجاب کے سات شہروں میں ریکارڈ کیا جانے والا ائیر کوالٹی انڈیکس 400سے زائد تھا ۔ رحیم یار خان میں 561 ، سیالکوٹ میں774 ،پنڈی بھٹیاں میں 584 ریکارڈ کیا گیا۔
یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ پنجاب میں حالیہ اسموگ سے پانچ سال سے کم عمر ایک کروڑ بچوں کو سنگین خطرات لاحق ہیں اور حکومت کو اس سلسلے میں ہنگامی اقدامات اٹھانے چاہئیں ۔ اب اگر حکومت کی جانب سے اقدامات کا جائزہ لیں تو حالیہ دنوں میں کئی اہم اقدامات کیے گئے ہیں ۔ ملتان میں محکمہ ماحولیات کی ٹیموں نے سات بھٹوں کو مسمار اور دھواں اگلنے والی تین فیکٹریوں کو سیل کیا ہے ۔ دھواں چھوڑنے والی دو سو ستر گاڑیاں بند کر دی گئی ہیں جبکہ سیکڑوں گاڑیوں پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے ۔
ساہیوال میں ضلعی انتظامیہ نے آلودگی پھیلانے والی رائس مل پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا ۔ پنجاب پولیس نے 382افراد کو سات لاکھ پچین ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا ۔ جبکہ اٹھائیس افراد کو وارننگ جاری کی گئی ۔ گرین لاک ڈائون کے زیر اثر مقامات میں ہر قسم کی تعمیرات ،کمرشل جنریٹر اور موٹر سائیکل رکشہ چلانے پر پابندی لگادی گئی ہے۔
لاہور ،فیصل آباد ، گوجرانوالہ اور ملتان میں ہائر سکینڈری سکولز 17نومبر تک بند کر دئیے گئے ہیں ، جبکہ سرکاری اور نجی دفاتر کے پچاس فیصدعملے کے لیے 'ورک فرام ہوم' کا فیصلہ کیا گیا اور سرکاری میٹنگز آن لائن کرنے کے بارے میں بات ہوئی ۔حکومت نے ادارہ تحفظ ماحولیات کے دفتر میں وار روم بھی قائم کر دیا ہے جہاں فضائی آلودگی کو مانیٹر کیا جا رہا ہے ۔
لاہور ، گوجرانوالہ ، فیصل آباد اور ملتان میں فیس ماسک پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے جو 31 جنوری تک جاری رہے گا ۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ اور گردو نواح میں شدید اسموگ کے باعث سپورٹس گالا بھی ملتوی کر دیا گیا ہے ، مساجد سے اسموگ کے بارے میں احتیاطی تدابیر اور گھروں سے بلاضرورت نہ نکلنے کے اعلانات کیے جا رہے ہیں ۔
صوبائی حکومت نے پنجاب نیشنل کلائیمٹ ایکٹ 1958 ء کے سکیشن تین کے تحت اسموگ کو آفت قرار دیتے ہوئے صوبے بھر کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو ریلیف کمشنرز کے اختیارات سونپ دئیے گئے ہیں ۔
پروویژنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے اعلامیے کے مطابق انسداد اسموگ کے لیے فصلوں کی باقیات جلانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ سالڈ ویسٹ ، کوڑا کرکٹ ،ٹائر اور شاپنگ بیگز جلانے پر بھی پابندی ہو گی ۔ صوبائی حکومت نے غیر معیاری ایندھن کی فروخت اور استعمال پر بھی پابندی عائد کر دی ہے ۔ ٹریفک رکاوٹ کا باعث بننے والی پارکنگز کا خاتمہ کیا جائے گا ، پانی کے بغیر اسٹون کرشز کے استعمال پر پابندی عائد ہو گی۔
ای پی اے کے اسکورڈز رات بھر دریائے راوی کے بیڈ پر ریت کی ٹرالیوں کی مناسب فلنگ کی مانیٹرنگ کرتے ہیں ، ای پی اے کے اسکورڈز نے کٹار نیو روڈ اور دریائے راوی پر ٹھوکر نیا زبیگ زون اور دیگر ریت نکاسی اور چیک پوسٹس کی سرویلنس بھی کی ۔
سرکاری اداروں خاص طور پر واسا اور دیگر اداروں کی دھواں دیتی گاڑیوں کو مرمت کروایا گیا ہے ۔
'' لنگز آف لاہور' (Lugs Of Lahore)منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ
لاہور میں اسموگ کی صورتحال پرقابو پانے کے لیے پارکس اور باغبانی اتھارٹی ( پی ایچ اے ) نے' لنگزآف لاہور' کے نام سے ایک نئے منصوبے کا آغاز کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق' لنگز آف لاہور' کے تحت راوی کے اطراف میں 800 ایکڑ پر شجر کاری کی جائے گی اور ابتدائی طور پر بیس ایکٹر پر پودے لگائے جائیں گے۔ وہ علاقے جہاں فضائی آلودگی زیادہ ہے پروجیکٹ میں انھیں ٹارگٹ کیا جائے گا اور بتدریج دوسرے علاقوں کو بھی شامل کیا جائے گا ۔
حاصل بحث
اگرچہ حکومت نے اپنے تئیں اسموگ کے انسداد کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہیں ، ہمیں ایک الارمنگ صورتحال کا سامنا ہے ، دنیا بھر کے ممالک بجلی پیدا کرنے کے متبادل ذرائع ڈھونڈ رہے ہیں لیکن ہمارا انحصار کافی حد تک اب بھی کوئلہ پر ہے جس سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ پاکستان چین کی طرح ترقی یافتہ نہیں ہے۔ یہاں مصنوعی بارش برسانے کا تجربہ بھی کیا گیا لیکن وہ بھی اتنا کارآمد ثابت نہیں ہوا ، آج کل کے موسمی حالات کے مطابق مصنوعی بارش کا ہونا بھی دشوار ہے کیونکہ بادلوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان پر کیمیکل کا تجربہ نہیں کیا جا سکتا ۔
ترقی یافتہ ممالک اپنا طرز زندگی تبدیل کر رہے ہیں تاکہ مستقبل سے ہم قدم ہوا جا سکے ۔چین میں لوگ سائیکلنگ کرتے ہیں اور کم گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں جبکہ ہم نے لاہور شہر کو ترقی کے نام پر' کنکریٹ جائنٹ 'بنا دیا ہے۔ گرین ایریاز کے مسلسل خاتمے نے سطح زمین کے درجۂ حرارت میں اضافہ کیا ہے جو لاہور کو 'ہیٹ آئی لینڈ 'بنا رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ابلاغ عامہ کے ذریعے عوام الناس میں اسموگ کے بارے میں ایک آگاہی مہم چلائے۔ اسی طرح اسموگ کمیشن 2017ء کی سفارشات پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے ، انٹیوں کے بھٹوں کو دو ماہ کے لیے بند کیا جائے جبکہ انسداد اسموگ مہم میں تیزی لائی جائے ۔
ماحولیاتی آلودگی کے پھیلائو میں ہم سب کا ہاتھ ہے یہ ہماری کوتاہیاں ہی ہیں جن کی بنا پر ہمیں آج ایسے موسمی حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہم سب کو حکومتی اداروں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کا ساتھ دینا ہے ۔
تبصرے