ایک اچھے اور صحت مند معاشرے کو اگر پروان چڑھانا ہوتو اس کے لیے اینٹوں اور ریت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ایک ماں کا صحت مند ہونا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ہم تاریخ کے اوراق کو دیکھیں تو دنیا کے تما م مذاہب ماں کی عظمت کے تابع ہیں مگر ان سب میں بڑھ کر ہمارا مذہب اسلام ہے جس نے ماں کے قدموں تلے جنت کو رکھا اور اسے تمام رشتوں سے معتبر کردیا۔ لیکن اس مرکزی مقام کے باوجود یہ ایک ماں ہی ہوتی ہے جو اپنی زندگی کے اس انتہائی اہم دور جب وہ ایک ذی روح کو اس دنیا میں لانے کا ارادہ رکھتی ہے تو معلومات کی کمی اور بنیادی وسائل کی عدم دستیابی جیسے مسائل اس کی زچگی کا یہ دور نہ صرف تکلیف دہ بلکہ انتہائی پیچیدہ بنا دیتے ہیں جس سے نہ صر ف ماں بلکہ آنے والے بچے دونوں کی زندگی اور صحت کا مسئلہ بن جاتا ہے ۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی 60 فیصد سے زائد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور آبادی کے اس تناسب کے حساب سے شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے ماں بننے کے عمل سے لے کر زچگی تک اور اس کے بعد بھی جو مسائل ایک ماں کو پیش آتے ہیں وہ ان سے ناواقف ہوتی ہے جس سے وہ ان بیماریوں کا ساری زندگی مقابلہ کرتے کرتے دنیا سے ہی کوچ کر جاتی ہے۔
عام طور پر حاملہ خواتین کو جن مسائل سے دو چار ہونا پڑتا ہے ان میں سب سے اہم مسئلہ ان کے گھروں کا روایتی پن یا خاندانی بندش ہوتی ہے کیونکہ ان کے گھروں کے مردوں کو یہ بات ناگوار گزرتی ہے کہ انکی خواتین ڈاکٹر کے پاس جا کر اپنے مختلف ٹیسٹ کروائیں یا چیک اپ کروائیں جس کی وجہ سے وہ حمل کے دوران پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے لا علم ہوتی ہیں اور وہی پرانے گھریلو دیسی ٹوٹکے کر کے نہ صرف اپنی بلکہ اپنے آنے والے بچے کی زندگی سے بھی کھیلتی ہیں ۔نزدیکی مقامات پر زچہ و بچہ جیسے ہیلتھ سنڑ کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ دور دراز کے علاقوں میں نہ تو سفر کرتے ہیں اور نہ ان کی جیب اجازت دیتی ہے ۔اس کے علاوہ حاملہ خواتین کوجس مسئلے کا سامنا ہے وہ گھر میں پرسکون ماحول کا نہ ہوناہے ۔گھر میں ہر وقت کے لڑائی ،جھگڑے سے حاملہ عورت بہت سی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہے جس کا اثر اس کے بچے پر بھی پڑتا ہے ۔
ایک صحت مند معاشرے کا دارومدار ایک صحت مند ماں کی مرہون ِ منت ہوتاہے۔ ماں اور بچے کی صحت کا مسئلہ انتہائی اہم نوعیت کا حامل ہے لہٰذا اس کے لیے ہمیں نہ صرف حاملہ خواتین بلکہ معاشرے کو بھی آگاہ کرنا چاہیے ۔ہمیں ان حاملہ خواتین کو زیادہ سے زیادہ طبی رہنمائی فراہم کرنے کی ضرورت ہے کہ زچگی کے دوران حاملہ خواتین کو اپنا باقاعدگی سے طبی معائنہ کروانا چاہیے کیونکہ دوران حمل بہت سی تبدیلیاں ماں اور بچے میں پیدا ہوتی ہیں اور جن کے بارے میں ماں کا لاعلم ہونا خود اسے بلکہ اس کے بچے کو بھی موت کے منہ میں لے کے جا سکتا ہے ۔دوسرا سب سے اہم مسئلہ کہ ان حاملہ خواتین کو بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفے کا علم ہونا ضروری ہے کیونکہ بچوں کی تعداد کا زیادہ ہونا بھی ایک ماں کو بہت سی جان لیوا بیماریوں میں گھیر دیتا ہے۔ بچوں کی اس تعداد کے بڑھنے کو گرینڈ ملٹی پیرا بھی کہتے ہیں یعنی ایک سے زیادہ بار حمل کا ٹھہر جانا۔ شہری علاقوں میں یہ تعداد گاؤں کی نسبتاً کم ہوتی ہے کیونکہ دیہی علاقوں میں ناخواندگی کی وجہ سے خواتین دس سے بھی زیادہ دفعہ زچگی کے عمل سے گزرتی ہیں جو ایک ماں کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ ایسے حالات میں حکومتی سطح پر ایسے زچہ و بچہ سنٹر ان دیہی علاقوں میں ہونے چاہئیں جو نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کو بھی خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کریں ۔اس کے علاوہ خواتین کو زچگی کے دوران ناقص صفائی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جو ماں اور بچے دونوں کی جان لے سکتا ہے۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ دیہاتوں میں عورتوں کی زچگی کا عمل ایک غیر تربیت یافتہ دائی سرانجام دیتی ہے اور یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب عورت کے اند ر بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر اس وقت عورت کو کسی قریبی ہسپتال لے جایا جائے جہاں اس کا بروقت علاج ہو سکے تو دوران ِ پیدائش اور بعد میں پیدا ہونے والے بہت سے مسائل سے بچا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ماں اور اس کے نومولود کو بھی موت کے منہ میں جانے سے یقینی طور پر روکا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ حاملہ خواتین کو دوران ِ حمل متوازن غذا کے بارے میں آگاہی ہونا ضروری ہے کیونکہ خوراک میں کمی کی وجہ سے ماں اور اس کے بچے کو مناسب غذائی اجزا نہیں ملتے جو کہ ماں اور بچے دونوں کی صحت کے لیے ضروری ہیں۔ اس پر حکومت کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ صحت کی بنیادی سہولتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہر گاؤں اور تحصیل کے مقام پر حاملہ خواتین کا مکمل ریگولر بنیادوں پر ڈیٹا اکٹھا کرے اور پھر ان کی رہنمائی کے لیے "باحفاظت زچگی " پلان بنائیں اور اس کے ساتھ ساتھ "غذائیت سے بھرپور چارٹ پلان" پرنٹ کرکے دیے جائیں جس سے ہر خاص و عام کو دوران ِ حمل غذائی ضروریات کی مکمل آگاہی یقینی ہو۔ اس کے علاوہ یہ بات بہت زیادہ دیکھنے میں آئی ہے کہ بہت سی حاملہ خواتین پیدائش کے وقت بچے کی نگہداشت سے لاعلم ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان کا بچہ دنیا میں یا تو آتا ہی نہیں اور اگر آتا بھی ہے تو وہ نارمل انسانوں کی طرح کا برتاؤ نہیں کرتا۔ یا د رہے کہ بچوں کی بیماری کا براہ راست تعلق ماں کی صحت سے ہوتا ہے جیسے بہت سے بچوں کی کئی بیماریاں دورانِ حمل ماں سے منتقل ہوتی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ دوران ِ حمل حاملہ خواتین ایک اچھے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر کسی بھی دوا کا استعمال نہ کریں کیونکہ ان کا یہ عمل ان کے آنے والے بچے کے لیے عمر بھر کی معذوری کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح آجکل کی ماؤں میں فارمولامِلک پلانے کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے جس کی ایک اہم وجہ دیہی عورتوں میں مناسب خوراک کی کمی جبکہ شہروں میں رہنے والی خواتین کی اپنے جسمانی خدوخال کے بگڑنے کے ڈر سے یا پھر جو خواتین ملازمت پیشہ ہیں ان کے پاس وقت کی کمی ہے جس کے باعث یہ نقصان نوزائیدہ کی زندگی کے لیے ایک اہم مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
ان تمام باتوں کے پیشِ نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ "ماں اور نوزائیدہ بچے کی صحت "کے حوالے سے شہری اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں معلوماتِ کو عام کرنے کی تحریک شروع کرنی چاہیے اور اس کے علاوہ حکومتی سطح پرتربیت یافتہ دائیوں کا انتظا م بھی ہونا چا ہیے ۔ ۔یہی وہ تمام باتیں ہیں جن سے ایک دیہی اور شہری علاقے کی حاملہ خواتین اور ان کے بچوں کے زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔کیونکہ ایک صحت مند ماں ہی ایک صحت مند بچے معاشرے کی بنیا د رکھتی ہے ۔
مضمون نگارایک اخبار کے ساتھ بطورایسوسی ایٹ ایڈیٹرمنسلک ہیں۔
[email protected]
تبصرے