ایک مرتبہ میرے والد محترم میرے کالم کی شکایت لگانے مجید نظامی کے پاس چلے گئے
منفرد و ممتا ز ادبی شخصیت اور سابق سفیر عطا ء الحق قاسمی کی دلچسپ باتیں
عطا الحق قاسمی یکم فروری 1943ء کوامرتسر میں پیدا ہوئے۔ وہ نامور عالم دین اور تحریک پاکستان کے رہنما مولانا بہائوالحق قاسمی کے فرزند ہیں۔انھوں نے تدریس کے شعبے سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا، ساتھ ہی ساتھ صحافت سے بھی وابستہ رہے اور' روزن دیوار سے' کے عنوان سے کالم نگاری کا آغاز کیاجس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔آپ کی تصانیف میں روزنِ دیوار سے، عطایئے، خند مکرر، شوقِ آوارگی، گوروں کے دیس میں، حبس معمول، جرمِ ظر یفی، دھول دھپا، آپ بھی شرمسار ہو، دلّی دور است، کالم تمام، بازیچہ اعمال، بارہ سنگھے،ملاقاتیں ادھوری ہیں، دنیا خوب صورت ہے، مزید گنجے فرشتے، شرگوشیاں، ہنسنا رونا منع ہے، اپنے پرائے، علی بابا چالیس چور اور ایک غیر ملکی کا سفرنامہ لاہور کے نام سرفہرست ہیں۔
گزشتہ دنوں ہلال کے لیے آپ کے ساتھ ایک غیر رسمی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں ہونے والی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔
ہلال: ادبی سفر کا آغاز کب اور کیسے کیا؟
عطاء الحق قاسمی: ادب کی طرف رحجان تو شروع سے ہی تھا، پہلی کوشش سکول کے زمانے میں ہی کی تھی، پہلا شعر کب کہا یہ تو یاد نہیں لیکن ادبی زندگی کا آغاز ساتویں یا آٹھویں جماعت سے ہو گیا تھا میں نے ''ہلال پاکستان'' کے ایڈیٹر کے نام ایک شگفتہ سا مراسلہ بھیجاجو من و عن چھپ گیا۔ اس سے بہت حوصلہ ملا۔ پہلی باقاعدہ نثری تحریرغالباً 1959ء میں مولانا کوثر نیازی کے اخبار روزنامہ شہاب میں شائع ہوئی تھی اور پھر ہم کسی شہاب ثاقب کی طرح ان کے صفحات پر ٹوٹ پڑے۔ میں اس وقت سیکنڈ ایئر کا طالب علم تھا جب شہاب کے صفحات پر میرا کالم ''کچھ یوں ہی سہی'' کے عنوان سے چھپنا شروع ہو گیا تھا۔بعد میں نوائے وقت جوائن کر لیا، وہاں کالم نگاری کے ساتھ ساتھ سنڈے میگزین میں فیچر بھی لکھتا تھا، ہر مہینے باقاعدگی سے اس کام کے 323 روپے ملتے تھے۔
ہلال:آپ بیک وقت ایک استاد،ڈرامہ نویس،سفرنامہ نگار،شاعر اور کالم نگار ہیں آپ کے خیال میں آپ کی اصل پہچان کس حوالے سے ہے؟
عطاء الحق قاسمی:میرا خیال ہے کہ شاعری کے علاوہ میں باقی جتنی بھی اصناف میں لکھتا ہوں اس میں طنز و مزاح کا عنصر غالب ہوتا ہے۔میرے ٹی وی ڈرامے طنزو مزاح کی ذیل میں آتے ہیں۔میرے کالموں میں فکاہیہ عنصر نمایاں ہے۔اسی طرح میرے سفر ناموں میں بھی یہی فضا دکھائی دیتی ہے چنانچہ میرے خیال میں میری پہچان طنزو مزاح کے حوالے سے بنتی ہے۔
ہلال:کالم نگاری کی طرف آپ کا رجحان حادثاتی تھا یا باقاعدہ آپ کے ذوق و شوق کی علامت کے طور پر سامنے آیا؟
عطاء الحق قاسمی:کالم نگاری کا آغاز میں نے فسٹ ائیر میں کیا جب میں ایم اے او کالج میں طالب علم تھا۔یہ 1960ء کی بات ہے اور یوں اگر دیکھا جائے تو آج میری کالم نگاری کی عمر تقریباََ 65سال ہوچکی ہے۔میں حادثاتی طور پر کالم نگار نہیں بنا بلکہ یہ تحفہ مجھے اپنے والد ماجد مولانا بہائو الحق قاسمی کی طرف سے وراثت میں ملا ہے۔والد محترم ایک جید عالم دین ہونے کے علاوہ ایک پندرہ روزہ کے ایڈیٹر بھی تھے جس میں وہ خود فکاہیہ کالم بھی لکھتے تھے ۔یوں یہ چیزیں میرے خون میں شامل ہیں۔
ہلال: آپ کے فکاہیہ کالموں پر آپ کے والد صاحب کیسا ردعمل دیتے تھے؟
عطا ء الحق قاسمی: ویسے تو میرے والد میرے کالم کو ''خرافات'' کہتے تھے لیکن پڑھتے بھی ضرور تھے۔ ایک دفعہ جب میں امریکا میں تھا تو میں نے ایک کالم لکھا جس میں مَیں نے لکھاکہ ''ہماری ہاں جنسی گھٹن بہت زیادہ ہو گئی ہے جس کا مظاہرہ پبلک ٹرانسپورٹ اور عوامی مقامات پر عام دیکھنے کو ملتا ہے ۔ میں نے اُسی کالم میں ایک جملہ جانوروں کی عصمت کے حوالے سے بھی کچھ لکھ دیا جب یہ کالم چھپا تو میرے والد میرے اس جملے کے حوالے سے ناراض ہو گئے، وہ فوراً مجید نظامی مرحوم کے پاس گئے کہ آپ نے یہ کالم شائع ہی کیوں کیا، انہوں نے سمجھایا کہ میں نے ایک نوجوان کے خیالات سمجھ کر اسے چھاپ دیا ہے، اس کے بعد انہوں نے مجھے خط لکھا کہ فوری طور پر اپنے ان خیالات سے توبہ کرو۔ آخر کو میں بھی انہی کا بیٹا تھا، میں نے انہیں 26صفحوں پر مشتمل خط لکھا جس میں ان کی لائبریری میں موجود کتابوں سے بے شمار حوالے دئیے اور اپنے مئوقف کا اعادہ کیا، جس پر وہ مان گئے۔ جہاں تک بات تائید کی ہے تو مجھ سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جب کالموں میں دس پندرہ دن کا ناغہ ہو جاتا تو مجھے بلا کر پوچھتے ''یار تیری وہ خرافات ان دنوں نہیں چھپ رہیں'' میں سمجھ جاتا کہ انہیں میرا کالم پسند ہے لیکن حوصلہ افزائی کا انداز دوسروں سے مختلف ہے۔
ہلال: کالم نگاری کے حوالے سے کوئی دلچسپ واقعہ جو آپ سنانا چاہیں؟
عطاء الحق قاسمی: ویسے تو بے شمار واقعات ہیں لیکن میں آپ کو اپنے ''لمبریٹا'' سکوٹر کا واقعہ سناتا ہوں جو میں نے قسطوں پر لیا تھا، مگر قسطیں پوری ہونے سے پہلے ہی یہ سکوٹر چوری ہو گیا۔ اس پر میں نے ''محترم چور صاحب'' کے عنوان سے ایک کالم لکھ دیا۔ یہ کالم اتنا مقبول ہوا کہ پاکستان کے ہر بڑے کالم نگار ابنِ انشاء ، احمد ندیم قاسمی ، انتظار حسین نے اس پر کالم لکھا۔ اس زمانے میں مساوات اخبار میں سہیل ظفر نے بھی اس پر کالم لکھا۔ چور گھبرا گیا کہ ''میں نے کس قوم کو للکارا ہے'' اور وہ میرا سکوٹر واپس کر گیا۔ جس پر میں نے بعد میں ایک اور کالم لکھا ''چور صاحب آپ کا شکریہ!''۔ اس کالم میں مَیں نے لکھا کہ آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے سکوٹر واپس کر دیا، میں نے تو ابھی اس کی قسطیں بھی پوری نہیں دی تھیں لیکن میں پریشان ہوں کہ آپ نے کس کا کالم پڑھ کر سکوٹر واپس کرنے کا فیصلہ کیا۔ میرا خیال یہ ہے کہ آپ نے ''مساوات'' میں سہیل ظفر کا کالم پڑھ کر اسے پارٹی کا حکم سمجھا اور سکوٹر واپس کر دیا۔ وہ زمانہ اتنا رواداری کا تھا کہ کسی نے بھی اسے مائنڈ نہیں کیا بلکہ جب سہیل ظفر مجھے ملے تو ہم ہنس ہنس کر دہرے ہو گئے۔
ہلال: شاعری میں کس کو اپنا استاد مانتے ہیں؟
عطاء الحق قاسمی: ہر گز نہیں کیونکہ میں مانتا ہوں کہ شاعر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ میں نے شاعری میں کبھی کسی کی شاگردی اختیار نہیں کی، کسی سے آج تک اصلاح نہیں لی۔ مجھے یہ بھی علم نہیں کہ شعری اوزان اور تقطیع وغیرہ کیا ہیں لیکن ان سب کے باوجود میں نے کبھی بے وزن شعر نہیں کہے ہیں۔
ہلال: خاندانی پس منظر اور اپنے بارے میں کچھ بتائیں؟
عطاء الحق قاسمی: میں یکم فروری 1943کو امرتسر کے ایک کشمیری علمی گھرانے میں پیدا ہوا۔ میرے سے پہلے کئی بیٹیاں تھیں اس وجہ سے میں بہت لاڈلا تھا، اتنا لاڈلا کہ میرا نک نیم ''شہزادہ''پڑ گیا تھا اور یہ حقیقت ہے کہ میں نے اپنی ابتدائی زندگی شہزادوں ہی کی طرح بسر کی۔ہمارے اجداد عرب سے آئے تھے اور ہم حضرت ابوبکر صدیق کی اولاد میں سے ہیں۔وہ لوگ عرب سے آکر ہندوستان آگرہ میں آباد ہوئے اور وہاں سے کشمیر چلے گئے یہ کوئی آٹھ سو سال قبل کی بات ہے۔
ہلال: پھرآپ کا خاندان کشمیر سے پنجاب کیسے آیا؟
عطاء الحق قاسمی:کشمیر میں آٹھ سو سال رہنے کے بعد میرے بزرگ امرتسر آگئے۔چنانچہ آپ یہ سمجھ لیں کہ پنجاب میں ہمارا خاندان گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے آباد ہے۔جب پاکستان قائم ہوا تو ہم لوگ ہجرت کرکے وزیر آباد آگئے جہاں میری نانی رہائش پذیر تھیں۔میں نے پرائمری تعلیم وزیر آباد سے حاصل کی اور میٹرک کرنے کے دوران ہم لوگ ماڈل ٹائون شفٹ ہوگئے۔وزیرآباد میں ابا جی ایک سکول میں مدرس تھے۔جامعہ اشرفیہ والے مفتی محمد حسن میرے والد کے مرشد تھے اور مفتی صاحب کے مرشد میرے دادا تھے اس طرح میرے والد اور مفتی محمد حسن کے درمیان دُہرا رشتہ قائم تھا۔مفتی محمد حسن صاحب نے میرے والد صاحب کو حکم دیا کہ وہ جامعہ مسجد ماڈل ٹائون کی خطابت کے فرائض سنبھال لیں۔والد صاحب اپنے استاد کے حکم پر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ماڈل ٹائون آگئے۔ چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد ہم بھی یہاں شفٹ ہوگئے۔جس کے بعد میں نے میٹرک ماڈل ہائی سکول ماڈل ٹائون سے کیا۔بی اے ایم اے او کالج لاہور اور ایم اے کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی کے اورینٹل کالج سے حاصل کی۔ماڈل ٹائون میں میرا حلقہ احباب طبقہ امرا کے آزاد خیال نوجوانوں پر مشتمل تھا جبکہ میرے گھر کا ماحول نہایت علمی اور دینی تھا۔مزید یہ کہ گھر میں امارات کی کوئی جھلک نہ تھی۔چنانچہ یہ دو متضاد حالات تھے جن سے مجھے گزرنا پڑا لیکن مجھے اس کا بہت فائدہ ہوا۔ وہ یوںکہ میں 'ملّا بنا نہ مسٹر، بلکہ میانہ روی اختیار کرتے ہوئے وہ بنا جو آج میں سب کے سامنے ہوں۔
اس دور کا ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ جب میں نے میٹرک کیا تو والد محترم نے کہا کہ وہ مجھے دینی تعلیم کے لیے جامعہ اشرفیہ میں داخل کرانا چاہتے ہیں۔میں ایسا نہیں چاہتا تھا چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ آپ کا خیال بہت اچھا ہے میں خود بھی دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں لیکن میٹرک کے بعد اس کا وہ مقصد حاصل نہیں ہوسکے گا جو آپ چاہتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ میں پہلے بی اے کرلوں ورنہ تو ملائوں میں ایک اور مُلاّ کا اضافہ ہوجائے گا۔اس طرح میں نے بڑی مشکل سے اپنے والد صاحب کو راضی کیا تو انہوں نے کہا کہ چلو جامعہ اشرفیہ۔میں نے جامعہ اشرفیہ کا ماحول دیکھا ہوا تھا وہاں لڑکوں نے ٹنڈیں کرائی ہوئیں اور ٹخنوں سے اونچے پاجامے پہنے ہوئے پھرتے تھے۔میرے ذہن میں اس طرح کا نقش ثبت ہوا تھا کہ میں وہاں جانے سے خوفزدہ تھا۔اب کی باروالد صاحب کو منانا مشکل تھا اس لیے میں نے والدہ ماجدہ کی امداد بطور کمک حاصل کی۔انہوں نے کہا کہ چلو تم ایم اے کرلو لیکن ایم اے کے بعد میں نے ضرور تمہیں وہاں داخل کرانا ہے۔جب میں نے ایم اے کرلیا تو والد صاحب نے کہا کہ ایم اے کرنے کے بعد اب تمہارا جامعہ اشرفیہ جانا مناسب نہیں اس لیے میں تمہیں مدینہ یونیورسٹی میں داخل کرادیتا ہوں۔اب چونکہ میں کسی حد تک خود مختار ہوگیا تھا اس لیے وہاں بھی نہ گیا۔
بہر طور جہاں تک اباجی کی بات ہے توتعلیم و تربیت کے معاملے میں وہ بہت سخت تھے اور اُوپر سے اُن کا ہاتھ بھی کافی بھاری تھا (مسکراتے ہوئے) وہ چونکہ استاد تھے اس لیے ڈنڈا بھی ساتھ رکھتے تھے لیکن میں بہت لاڈلا تھا، اس لیے میری تمام تر نالائقیوں کے باوجود انہیں مجھ سے بہت محبت تھی۔ ذرا سی بیماری کی صورت میں وہ مجھے اپنے کندھوں پر بٹھا کر ہسپتالوں کے چکر لگاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میرے پاؤں پر پھوڑا نکل آیا تو انہوں نے مجھے زمین پر پاؤں نہیں رکھنے دیا ۔ ان کی ڈانٹ میں بھی پیار تھا اور حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی ڈانٹ نے ہی مجھے صحیح راستہ دکھایا، ان کی محبت کے منظر آج بھی میری آنکھوں سے نہیں ہٹتے۔
ہلال: قاسمی صاحب اگر آپ کی پیدائش سے آج تک آپ کی زندگی کو تین ادوار بچپن، جوانی اور موجودہ دور میں تقسیم کیا جائے تو آپ کو اپنی زندگی کا سب سے خوبصورت دور کونسا لگتا ہے؟
عطاء الحق قاسمی:الحمدللہ میں اس حوالے سے بہت پازٹیو ہوں۔ میرا بچپن اس قسم کے حالات میں گزرا ہے جس میں بمشکل روٹی پوری ہوتی تھی۔ مثلاََ گرمیوں میں مجھے یاد ہے کہ ہم میٹھے خربوزے یا چٹنی کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھاتے تھے۔صبح کا ناشتہ چائے اور رس ہوتے تھے۔ اسی طرح رات کو بھی جو روکھی سوکھی میسر آتی تھی اسے ہنسی خوشی کھا لیتے تھے۔اور عجیب و غریب بات جس سے اللہ تعالیٰ نے مجھے سرفراز کیا ہے وہ یہ ہے کہ مجھے اپنی زندگی کے کسی دور میں غربت یا محرومی کا احساس نہیں ہوا۔حالانکہ اس زمانے میں آپ کو پتا ہے کہ وزیر آباد دریائے جہلم کے قریب ہے تو سردیوں میں وہاں غیر معمولی سردی ہوتی تھی میرے پاس سردی سے بچائو کے لیے کوئی ڈھنگ کے گرم کپڑے نہیں ہوتے تھے اورسکول جاتے ہوئے مجھ پر باقاعدہ کپکپی طاری ہوتی تھی۔ ابا جی سکول میں ٹیچر تھے۔ غالباًاُن کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ پچاس روپے ہوتی تھی لیکن مجھے اتنا یاد ہے کہ جیسے تیسے بھی ہمیں تین وقت کا کھانا میسر تھا۔ مگر اس کے باوجود ہم سب بہن بھائی اپنی زندگی میں خوش اور مطمئن تھے۔ ہمارے اندراحساس محرومی نام کی کوئی چیزنہیں تھی۔ اس کی شاید ایک اور وجہ بھی تھی کہ اس وقت سبھی ہم جیسے تھے۔ہجرت کے بعد سبھی اپنا گھر بار چھوڑ کر خالی ہاتھ آئے تھے۔سچی بات یہ ہے کہ مقامی لوگوں نے بڑی مدد کی تھی۔ ہمیں بھی مقامی لوگوں نے چارپائیاں اور رضائیاں دیں،انصار مدینہ والا معاملہ تھا۔پورے شہر میں امارت نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ پورے شہر میں صرف تین کاریں تھیں۔وہ بھی شہر کی بجائے سرکلر روڈ سے ہوکر گزرتی تھیں۔اس زمانے میں ہم بچے گلی ڈنڈا،بنٹے اور پتنگ بازی جیسے کھیل کھیلا کرتے تھے۔پتنگ بازی کے لیے میرے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے تو میں کڑکتی دوپہر میں چھت پر چلا جاتا اور آسمان پر اُڑتی پتنگیں دیکھا کرتا۔ خاص طور پر اُن پتنگوں کو جن میں پیچا پڑ رہا ہوتا۔اور پھر میں اُن میں سے کسی پتنگ کے کٹنے کا منتظر رہتا تاکہ اس کے بعد میں اس کی ڈور لوٹ سکوں۔
ہلال: امریکا کیوں کر جانا ہوا تھا؟
عطاء الحق قاسمی: اگر صحیح پوچھیں تو آوارہ گردی کرنے گیا تھا۔ اس زمانے کے میرے سارے دوست امریکا چلے گئے تھے ۔میں اکیلا ہی تھا جو اس ''جوگا'' نہیں تھا کہ ٹکٹ بھی خرید سکتا۔ نوائے وقت کی سب ایڈیٹری کے دوران میں نے ایک ففٹی سی سی موٹرسائیکل خرید لی تھی۔ اس سواری کو موٹرسائیکل میں نے خود قرار دیا ہے ورنہ اسے ''پھٹپھٹی'' کہا جاتا تھا۔ میں نے پندرہ سو روپے میں یہ بائیک فروخت کی۔ کچھ پیسے والد محترم سے اور کچھ بھائی جان ضیاء الحق قاسمی سے لیے اورپیدل ہی یورپ کے لیے روانہ ہو گیا۔ پیدل ان معنوں میں کہ جہاز کی بجائے بسوں، ٹرینوں، ٹرکوں اور لفٹ وغیرہ لے کر لکسمبرگ تک پہنچا اور وہاں سے ایک جہاز کی سستی ترین ٹکٹ لی اور امریکا جا اترا۔ لاہور سے نیویارک پہنچنے پر میرے چھ ہزار روپے یعنی چھ سو ڈالر خرچ ہوئے۔ اس زمانے میں ایک ڈالر دس روپے کا تھا۔
پردیس میں جاتے ہی روٹی، کپڑا اور مکان کی ضرورت پڑتی ہے۔ قریب ہی ایک ہسپتال میں بلڈ ٹیکنیشن کی سیٹ خالی تھی، میں وہاں انٹرویو کے لیے چلا گیا۔ ڈاکٹر نے پوچھا نام کیا ہے، میں نے نام بتایا، پھر اس نے پوچھا کتنے پڑھے لکھے ہو۔ میں نے کہا، ایم اے اردو لٹریچر۔ اس نے کہا کل سے نوکری جوائن کر لو۔ (زوردار قہقہہ) مجھے امریکی نظام صحت پر آج بھی ہنسی آتی ہے۔ایمبولینسیں، حادثات یا فائرنگ سے زخمی ہونے والے افراد کو ایمرجنسی میں وہاں لایا کرتی تھیں اور میں انہیں خون لگاتا تھا۔ انتہائی نازک کام تھا لیکن اللہ نے مجھےُ سرخرو کیا۔ شاید ابا جی کی دعائیں تھیں جنہوں نے مجھے محفوظ رکھا۔ کچھ عرصہ بعد ایک ہوٹل جوائن کر لیا۔ پھر امریکہ میں بڑے ہوٹل میں فوڈ اینڈ بیوریجز منیجر کی نوکری مل گئی۔
مگر امریکہ میں یہی سوچتا رہتا تھا کہ میری عدم موجودگی میں میرے والد (والدہ تو پہلے ہی فوت ہوچکی تھیں)کو کچھ ہوگیا تو میں کیسے خود کو معاف کروں گا۔ پھر یہ سوچ بھی بے چین کرتی تھی کہ اگر مجھے خود کو کچھ ہو گیا تو یہاں گوروں کے قبرستان میں دفن ہونا پڑے گا جبکہ میں تو اپنے ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں دفن ہونا چاہتا تھا جہاں درود و سلام کی صدائیں سنائی دیتی ہیں۔ پھر ایک سوچ یہ بھی تھی کہ میں امریکا میں شادی کرتا ہوں تو ممکن ہے کل کو میری نسل میں سے کسی کا نام ''پیرزادہ پیٹر قاسمی'' ہو اور ہمارے خاندان کی ایک ہزار سالہ دینی پس منظر کی تاریخ کو یہ دن بھی دیکھنا پڑے۔ چنانچہ دو سال امریکا میں رہنے کے بعد میں نے واپسی کا فیصلہ کر لیا۔ حالانکہ وہاں میں نے جو کمایا تھا وہ وہیں سیر و سیاحت پر خرچ کر دیا تھا۔ واپسی کے لیے بھی میں نے مشکل راستہ چنا اور امریکا سے بائی ایئر یورپ اور یورپ سے بائی روڈ پاکستان کے لیے روانہ ہو ا۔ ملکوں ملکوں گھومتے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتے میں یورپین ملکوں سے ہوتا ہوا ترکی اور ترکی سے ایران پہنچا جس کے سرحدی قصبے سے ٹرین کے ذریعے میں کوئٹہ اور پھر کوئٹہ سے لاہور پہنچا۔ میں نے گھر والوں کو سرپرائز دینے کا سوچا تھا۔ اس وقت شام کا وقت تھا جب میں نے اپنے گھر کی بیل پر انگلی رکھی اور تھوڑی دیر بعد میرے اباجی نے دروازہ کھولا۔ انہوں نے مجھے اچانک اپنے سامنے پایا تو خوشی سے ان کا چہرہ دمک اٹھا۔اس وقت ابا جی کے چہرے پر جو خوشی اور مسکراہٹ تھی وہ مجھے آج بھی نہیں بھولی۔
ہلال: سکول کے زمانے میں ذہین طالب علم تھے یا بس نارمل تھے؟
عطاء الحق قاسمی: سچ یہ ہے کہ میں انتہائی نالائق طالب علم تھا، میٹرک کا امتحان بڑی مشکل سے سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا، ایف اے میں تھرڈ ڈویژن تھی، بی اے میں سپلی آ گئی تھی، جب ایم اے میں تھا تو اردو کے ایک پرچے میں فیل ہو گیا تھا مگر پھر دوبارہ امتحان دے کر کلیئر کیا۔
سنا ہے کہ سعادت حسن منٹو بھی اردو میں فیل ہو گئے تھے۔ اپنے شعبے کا ماسٹر اپنے ہی شعبے کے امتحانات میں ناکام ضرور ہوتا ہے۔ سجاد باقر رضوی ہمارے استاد تھے۔ ایک روز انہیں پتہ نہیں کیا سوجھی، انہوں نے ایم اے اردو کے لیے فیس جمع کرا دی۔ پھر وہ اُسی پرچے میں فیل ہو گئے جو وہ ہمیں پڑھاتے تھے۔
ہلال:ہمارے ہاں جس قسم کا ادب تخلیق ہورہا ہے کیا آپ اس کی افادیت کے حوالے سے مطمئن ہیں؟
عطاء الحق قاسمی: میرے خیال میں یہ ایک مشکل سوال ہے اور فی الحال اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ البتہ میں یہ مانتا ہوں کہ کچھ ادب وقتی بھی ہوتا ہے جسے فی زمانہ تو بہت پذیرائی ملتی ہے مگر وہ جب وقت کے دھارے میں آتا ہے تو اپنی افادیت کھو دیتا ہے۔ اس کی ایک مثال مرزا ادیب کے خطوط کی ہے جسے اُس زمانے میں تو بہت شہرت ملی مگر آج ان کا اتنا ذکر نہیں ہوتا۔ اسی طرح کچھ لوگ اپنے دور میں بہت نظر انداز ہوتے ہیں جیسے نظیر اکبر آبادی مگر بعد میں نقادوں نے ان کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جیسے ان سے بڑا کوئی شاعر ہی پیدا نہ ہوا ہو لیکن آج پھر ان کی شاعری پس منظر میں چلی گئی ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ یہ گلہ کرتے بھی پائے جاتے ہیں کہ ہمیں نظرانداز کیا جاتا ہے حالانکہ یہ فیصلہ عوام کرتے ہیں اور اچھا ادب کبھی بھی نظر انداز نہیں ہو سکتا۔
ہلال: آپ کے پسندیدہ شاعر اور ادیب کون ہیں؟
عطاء الحق قاسمی: میرے سب سے زیادہ پسندیدہ شاعر تو علامہ اقبال ہیں جن سے مجھے عشق ہے۔ پھر مجھے سنجیدہ شاعری میں منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی، فیض احمد فیض اور جون ایلیا جبکہ مزاحیہ شاعری میں دلاور فگار، ضمیر جعفری، انور مسعود اور اکبر الٰہ آبادی پسند ہیں۔ مزاح نگاروں میں سب سے زیادہ مشتاق احمد یوسفی اور محمد خالد اختر پسند ہیں۔
ہلال: عالمی ادیبوں میں کون پسند ہے، کسے پڑھتے ہیں؟
عطاء الحق قاسمی: میں زیادہ تر مزاح ہی پڑھتا ہوں۔ عالمی ادیبوں میں ٹی ایس ایلیٹ اور مارک ٹوئن پسند ہیں۔بالخصوص مارک ٹوئن کا وہ جملہ بے حد پسند ہے کہ ''بچپن میں ہم اتنے غریب تھے کہ ایک کتا بھی نہیں خرید سکتے تھے، رات کو جب کوئی آہٹ ہوتی تھی تو ہم سب گھر والوں کو باری باری بھونکنا پڑتا تھا''۔
ہلال: بطور لیکچرار ایم اے او کالج کیسے جوائن کیا؟
عطاء الحق قاسمی: مجھے دلی طور پر تو شروع سے درس و تدریس سے لگاؤ تھا کیونکہ نوجوان ذہنوں کو پروان چڑھانے میں جو سکون اور مسرت ہے وہ میں نے کسی اور کام میں نہیں محسوس کی۔ بچوں کی ذہنی تربیت کرنا بنیادی فرائض کا حصہ سمجھتا ہوں۔ جب مجھے ٹیچنگ کی پیشکش ہوئی تو میں نے اپنے ایک دوست سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ لیکچرر شپ اور کالم نگاری کے اوقات الگ الگ ہیں، دونوں میں توازن قائم کیا جا سکتا ہے۔ یوں میں بیک وقت کالم نگار اور لیکچرر بن گیا۔ میں تو خود بھی یہی چاہتا تھا چنانچہ ہم آہنگی اور یکسانیت کے باعث دونوں ملازمتیں ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔
ہلال: پہلی کتاب کب منظر عام پر آئی۔
عطاء الحق قاسمی: روزنِ دیوار کے نام سے میرے کالموں کا پہلا مجموعہ غالباً 1972- 73میں منظر عام پر آیا تھا۔ میں نے کبھی اپنے کالموں کی کتاب میں وقتی نوعیت کے کالم شامل نہیں کئے۔ میں نے ہمیشہ اپنے کالموں کی کتاب میں تخلیقی نوعیت کے کالم شامل کیے ہیں۔ اب تک میری کوئی دو درجن کے قریب کتابیں آ چکی ہیں، جن میں شاعری کے ساتھ طنز و مزاح کی کتابیں بھی ہیں اور سفرنامے بھی۔
ہلال: سفارت کاری کا تجربہ کیسا رہا؟
عطاء الحق قاسمی: میری ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ جہاں بھی جاؤں، جو بھی کروں کچھ ایسا کروں کہ پتا لگے کچھ تبدیلی آئی ہے، ناروے میں میرے ہوتے ہوئے سفارت خانے کے دروازے ہر پاکستانی کے لیے کھلے تھے اور لوگ بلا جھجک میرے پاس آیا کرتے تھے۔ پوری پاکستانی کمیونٹی ہر کام کے لیے میرے ساتھ کھڑی تھی، آج جب مڑ کر دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ ہمارے پاکستانی ناروے میں کتنے منظم اور کتنے متحد ہیں۔ وہ اپنے ملک سے کس قدر محبت کرتے ہیں اس کا انداز یہاں بیٹھ کر نہیں لگایا جا سکتا۔
ہلال: موجودہ حالات میں آپ پاکستان کو کہاں دیکھتے ہیں؟
عطاء الحق قاسمی: میں تو بے پناہ پُر امید شخص ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ زندگی میں مجھے جو کچھ ملا ہے، صرف اس لیے ملا ہے کہ نہ تو میں کبھی اداس ہوا ہوں اور نہ کبھی مایوس ہوا ہوں۔ اور اب تو میں اپنی آنکھوں سے پاکستان کو ترقی کرتا دیکھ رہا ہوں۔ آپ دیکھیے کہ آزادی کے وقت ہمارے پاس کیا تھا اور آج ہم کہاں ہیں، غریب سے غریب شخص کے حالات میں بھی کچھ نہ کچھ بہتری ضرور آئی ہے۔ ایک وقت تھا ہم لوگوں کے پاس جوتے نہیں ہوتے تھے، سڑکیں نہیں تھیں، ہسپتال نہیں تھے، آج آپ عالمی سروے رپورٹیں اٹھا کر دیکھ لیں۔ وہ یہ کہتی ہیں کہ اگر یہ تسلسل جاری رہا تو بہت جلد پاکستانی معیشت یورپی ممالک کے مدمقابل کھڑی ہو گی۔ اگر جمہوری تسلسل برقرار رہا اور تمام ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرتے رہے تو یہ ملک بہت ترقی کرے گا۔
ہلال: آپ کا پسندیدہ لیڈر کون سا ہے؟
عطاء الحق قاسمی: یقیناًمیرے پسندیدہ لیڈر قائداعظم محمد علی جناح ہی ہیں جن کے پاس ایک ویژن تھا، ایک لگن تھی، لیکن اگر موجودہ سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو آپ کے پاس بہت محدود آپشن ہے۔
ہلال: اپنے تجربے کی روشنی میں نوجوانوں کو کیا پیغام دیں گے؟
عطاء الحق قاسمی: میں ہمیشہ ایک ہی پیغام دیا کرتا ہوں کہ اپنے وسائل میں خوش رہیں، اگرچہ دولت ایک بڑا وسیلہ ہے مگر اس کی غیر موجودگی میں بھی خوش رہنے کی ہزار ہا چیزیں ہیں، آپ کے پاس آنکھیں ہیں، ہاتھ، پیر ہیں، عقل ہے، سوچ ہے، فکر ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ اس پر اکتفا کر کے بیٹھ جائیں بلکہ زیادہ کے لیے کوشش کرتے رہیں لیکن کسی خواہش کے غلام نہ بنیں جب آپ خواہشوں کی غلامی پر اتر آئے تو پھر آپ گھٹیا سے گھٹیا کام بھی کریں گے۔
ہلال: فوجی بھائیوں اور ہلال کے قارئین کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
عطاء الحق قاسمی: ہمارے فوجی بھائی جس طرح ملک دشمنوں کے خلاف دن رات ملکی سرحدوں کی حفاظت اور ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں مجھ سمیت پوری قوم کو ان پر فخر ہے۔
تبصرے