اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 11:30
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد پُر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد بھارت میں اقلیتوں پر ظلم: ایک جمہوری ملک کا گرتا ہوا پردہ ریاستِ پاکستان اورجدوجہد ِکشمیر 2025 ۔پاکستان کو درپیش چیلنجز اور کائونٹر اسٹریٹجی  پیام صبح   دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار شہید ہرنائی سی پیک 2025۔امکانات وتوقعات ذہن سازی ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل کلائمیٹ چینج اور درپیش چیلنجز بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبے ففتھ جنریشن وار سوچ بدلو - مثبت سوچ کی طاقت بلوچستان میں سی پیک منصوبے پانی کی انسانی صحت اورماحولیاتی استحکام کے لیے اہمیت پاکستان میں نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ کیوں داستان شہادت مرے وطن کا اے جانثارو کوہ پیمائوں کا مسکن ۔ نانگا پربت کی آغوش ا یف سی بلوچستان (سائوتھ)کی خدمات کا سفر جاری شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ''کشور ناہید''۔۔ حقوقِ نسواں کی ایک توانا آواز نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا بسلسلہ بانگ درا کے سو سال  بانگ درا کا ظریفانہ سپہ گری میں سوا دو صدیوں کا سفر ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنے والے جشنِ افواج پاکستان- 1960 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا جمہوریہ عراق کا سرکاری دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اورماڑہ کے فارورڈ نیول آپریشنل بیس کا دورہ  چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر کی نارووال اور سیالکوٹ کے قریب فیلڈ ٹریننگ مشق میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کاوانا ، جنوبی وزیرستان کادورہ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء کا نیول ہیڈ کوارٹرز  کا دورہ نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے وفد کا دورہ نیول ہیڈ کوارٹرز جمہوریہ آذربائیجان کے نائب وزیر دفاع کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات  گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طالبات اور اساتذہ کا ہیڈکوارٹرز ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا دورہ کمانڈر کراچی کور کا صالح پٹ میں تربیتی مشقوں اور پنوں عاقل چھائونی کا دورہ کمانڈر پشاور کورکی کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی کی فیکلٹی  اور کیڈٹس کے ساتھ نشست مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کا پاک فوج کے ساتھ یادگار دن ملٹری کالج جہلم میں یوم ِ والدین کی تقریب کی روداد 52ویں نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2024 کا شاندار انعقاد    اوکاڑہ گیریژن میں البرق پنجاب ہاکی لیگ کا کامیاب انعقاد ملٹری کالج جہلم میں علامہ اقبال کے حوالے سے تقریب کا انعقاد
Advertisements

ہلال اردو

بھارت کی منظم کردہ تنظیم مکتی باہنی کا کردار

دسمبر 2024

د سمبر 1971 ء کے ساتھ ہماری کچھ ایسی تلخ یادیں وابستہ ہیں جنہیں ہم چاہیں بھی تو کبھی بھلا نہیں سکتے۔ یہ وہ دن تھا جب ہمارا دایاں بازو مشرقی پاکستان کٹ کر ہم سے الگ ہو گیا۔ وہ دن، وہ گھڑیاں اور وہ لمحات جب بنگلہ دیش کی آزادی کی آڑ میں لاکھوں معصوم نہتے لوگوں کاقتل عام کیا گیا ، مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی ، املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور قتل وغارت کا ایسا بازار گرم کیا گیا کہ خدا کی پناہ ۔یہ واقعات آج بھی پاکستان میں بسنے والے ہر فرد کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ آخر کار وہ کون سے عوامل تھے جن کی بنیاد پر پاکستان دو لخت ہوا۔



سقوطِ ڈھاکہ میں بھارت کے ملوث ہونے کے بارے میں ظاہر ہے کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔مکتی باہنی بھارت کی ایک منظم کردہ تنظیم تھی اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ بھارت نے مکتی باہنی فورس کے ذریعے سازشوں کے جال بن کر مشرقی پاکستان میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔ سقوطِ مشرقی پاکستان آج بھی بھارتی دہشت گرد تنظیم مکتی باہنی کے چہرے پر ایک ایسا بد نما داغ ہے جو ظلم و ستم کی داستانوں میں ہمیشہ سرِ فہرست رہے گا۔ تاریخی حوالے شاہد ہیں کہ مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے کا بھارتی سازشوں کاسلسلہ بہت پہلے سے شروع ہو چکا تھا۔ بھارت قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھا کہ کب پاکستان پر کڑا وار کر کے اسے دو لخت کر دے ۔ یہ موقع اسے شیخ مجیب الرحمان نے مہیا کر دیا۔ 1960ء  کے اوائل سے ہی بھارتی محکمہ سراغ رسانی اور شیخ مجیب کے درمیان رابطے قائم ہوچکے تھے جو 1967ء  میں پہلی بار اس وقت منظر عام پر آئے جب مشہور زمانہ اگرتلہ سازش کا پردہ چاک ہوا۔اس سے قبل 1962ء  میں ڈھاکہ میں بھارت کے سفیر ایس بینر جی تعینات تھے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد انہوں نے لندن سے 
India, Mujibur Rahman, Bangladesh Liberation & Pakistan
کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان کے ایک اخبار کے ایڈیٹر تفضل حسین کی مدد سے  25دسمبر 1962 ء کو ایس بینرجی سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور ایک خفیہ خط بھارتی وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو کے نام بھجوایا جس میں شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے لیے بھارت سے مدد مانگی تھی۔ شیخ مجیب نے خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ خود لندن منتقل ہو کریکم مارچ 1963 تک مشرقی پاکستان کی آزادی کی تحریک کا اعلان کرنا چاہتے ہیں۔ اس خط کا جواب اگرچہ بہت دیر سے دیا گیا لیکن بھارتی وزیر اعظم نے جواب میں شیخ مجیب کو ہدایات دیں کہ اس وقت حالات سازگار نہیں ہیں لہٰذا شیخ مجیب ڈھاکہ میں رہ کر اپنی پارٹی کی تنظیم سازی کریں۔ اسے عطیات دینے والی پارٹی بنائیں۔ ممبر شپ بڑھائیں۔ہر علاقے میں جلسے جلوس اورریلیاں منعقد کریں اور جب لوگ ان کو گاندھی کی طر ح سراہنے لگیں تو مناسب وقت آنے پر حملہ کر کے مشرقی پاکستان کو آزاد کروا لیا جائے گا۔اس طرح ابتدا میں عوامی لیگ اور بھارتی محکمہ سراغ رسانی کو مشرقی پاکستان میں مداخلت کے لیے راہ ہموار کرنے کا کام سونپا گیا ۔ 21 ستمبر 1968ء کو بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کا قیام عمل میں آیا تو یہ فریضہ اس کے سپرد کر دیا گیا۔'را'  کی ذمہ داریو ں میں بنگالیوں کی تربیت کرنے کا کام شامل تھا جسے اس نے احسن طریقے سے انجام دیتے ہوئے ایک ایسا جنگجوگروہ تیار کیا جس نے آگے چل کر مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت کی راہ ہموار کی۔ یہ گروہ مکتی باہنی نامی بھارتی دہشت گرد تنظیم کے تربیت یافتہ گوریلا جنگ کے ماہر کارکنوں پر مشتمل تھاجن کی تعداد لاکھوں میں تھی۔اس گروہ میں بھارتی ہندوئوں کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر بنگلہ دیش کے منحرف مسلمان بھی شامل تھے۔ یہ بے رحم مسلح افراد جتھوں کی صورت میں کسی علاقے میں داخل ہوتے اور اسے تاراج کر کے رکھ دیتے تھے۔ مکتی باہنی دراصل ایک چھاپہ مار گوریلا تنظیم تھی جس میں بے شمار بنگالی اور بھارتی فوج کے تربیت یافتہ لوگ شامل تھے۔ انہوں نے گوریلا جنگ کی خصوصی تربیت حاصل کر رکھی تھی جن سے نمٹنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ 
تاریخی شواہد یہ بھی بتاتے ہیں کہ بھارت نے 1971 کے آغاز سے ہی بنگلہ دیش میں منصوبہ بندی کے تحت حملے شروع کر دئیے تھے ۔ سب سے پہلے وہاں سے ہندوئوں کو جبراً  ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا  تا کہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچ سکے۔ جب راستہ صاف ہو گیا تو مکتی باہنی کے چھاپہ مار گروہوں نے منظم حملوں کا آغاز کر دیا۔ اسی دوران بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے بھارتی فوج کے سربراہ جنرل مانک شا سے ایک ملاقات کی جس میں پاکستان کو دو لخت کرنے کے منصوبے پر اظہار خیال کیا گیا ۔ اس ملاقات کا تذکرہ را کے ایک سابق افسرآر،کے یادیو(RK Yadav) نے اپنی کتاب مشن را (Mission RAW) میں کچھ اس طرح کیا ہے:مسز اندرا گاندھی نے جنرل مانک شا سے کہا کہ وہ پاکستان کے اس بازو (مشرقی پاکستان )کو آزاد کرانے کے لیے پاکستان کی فوج کے خلاف فوجی کارروائی کرنا چاہتی ہیں۔ جنرل مانک شا نے انہیں جواب دیا کہ اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے خصوصی دریائی آلات اور سازو سامان درکار ہیں اور عملے کو تربیت کی ضرورت ہے۔ جب اندرا گاندھی نے جنرل مانک شا سے پوچھا کہ بھارتی فوج کو مشرقی پاکستان کے اندر کارروائی کرنے کے لیے کتنا وقت درکار ہے تو جنرل مانک شا کا کہنا تھا کہ انہیں چھ ماہ درکار ہیں۔  یہ منصوبہ بندی بھی کی گئی کہ 'را' مشرقی پاکستان کے تارکینِ وطن(منحرف) بنگالیوں پر مشتمل چھاپہ مار کارروائی کے لیے اہم عسکری تنظیم قائم کرے ۔(مشن را،صفحہ 361)
اس ملاقات کے بعد مکتی باہنی کی تنظیم سازی کی گئی۔ انہیں مکمل عسکری تربیت فراہم کی گئی اور جب وہ تیار ہو گئے تو انہوں نے مشرقی پاکستان میں احتجاجی مظاہروں کے ذریعے دہشت گرد حملوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا۔ ان حملوں کو روکنے کے لیے مارچ 1971 میں افواجِ پاکستان حرکت میں آئیں۔ انہوں نے عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے اشتراک سے بنے دہشت گرد گروہوں سے نمٹنے کے لیے فوجی آپریشن سرچ لائٹ شروع کیا ۔ مکتی باہنی کا قلع قمع کرنے اور عوامی لیگ کی انتہا پسندانہ اقدامات کو روکنے کے لیے جب کارروائیاں کی گئیں تو مکتی باہنی کے دہشت گرد گروہوں نے قتل و غارت گری شروع کر دی جس سے مشرقی پاکستان میں افرا تفری پھیل گئی۔ انتشار اوربے چینی پھیلانے میں ملوث ہونے پرپکڑے جانے کے خوف سے عوامی لیگ کے سرکردہ رہنما فرار ہو کر کلکتہ پہنچ گئے ۔ ان میں شیخ مجیب الرحمان شامل نہ تھا۔ یہ دیکھتے ہوئے اندرا گاندھی نے عوامی لیگ کے نمائندوں کو حکم دیا کہ وہ بنگلہ دیش میں ایک عبوری جِلا وطن حکومت تشکیل دیں۔ اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے انہیں بھارت کی طرف سے تمام ممکنہ سہولتیں فراہم کی گئیں۔ اس طرح ایک عارضی بنگلہ دیشی حکومت قائم کر دی گئی اور اس علاقے کو  مجیب نگر کا نام دے دیا گیا۔ بعد ازاں اندرا گاندھی کی طرف سے شیخ مجیب اور عوامی لیگ پر زور دیا گیا کہ وہ حکومتِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کے خلاف ایک مہم شروع کریں جسے عوامی لیگ نے قبول کر لیا۔ بعد ازاں بھارت نے بنگالیوں کو مکتی باہنی کے ذریعے کھلم کھلا رقوم کی منتقلی، ہتھیاروں کی فراہمی اور ہر طرح سے مدد فراہم کرنا شروع کر دی جس نے بنگالیوں کو مضبوط کر کے انہیں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے مد مقابل لاکھڑا کیا ۔
مکتی باہنی نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ مکمل منصوبہ بندی کے تحت ایک ایسا پلان تشکیل دیا جس کا تدارک حکومتِ پاکستان کے لیے مختصر وقت میں کرنا بہت مشکل تھا۔ انہوں نے جنگجو چھاپہ مار گروہ تشکیل دئیے۔ محبِ وطن اصطلاحات اور آزاد مملکت، حق خود داری جیسے کئی الفاظ اس چالاکی کے ساتھ استعمال کیے کہ معصوم بنگالی ان کے پیچھے چھپے ہوئے اصل مقاصد کو جان نہ سکے۔ ان الفاظ اور نعروں نے بنگالی عوام میں الگ وطن کی ایسی آگ بھڑکائی جسے بجھانا مشکل ہو گیا۔ مکتی باہنی کا مقصد عوام میں دہشت پھیلانا تھا۔ ان کے منصوبوں میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں چاہے انہیں بنگلہ دیش میں قائم تمام کارخانوں اور بجلی گھروں کو تباہ کرنا پڑے، خوراک کے گوداموں کو آگ لگا نی پڑے یا خام مال اور تیار شدہ اشیا کی در آمد روکنی پڑے ۔پھر انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ کئی جگہوں پر مواصلاتی ذرائع کو تباہ کردیا گیا۔ پلوں ، سڑکوں، ریلوے لائنوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ چھاپہ مار دستوں کی تربیت اس طرز پر کی گئی کہ وہ عوام میں روپوش رہ کر ہر طرف سے پاکستانی فوج پر حملہ کریں۔ الغرض تخریبی کارروائیوں کے ذریعے مکتی باہنی نے ایسا ماحول پید اکر دیا جس کی بدولت مشرقی پاکستان کا الگ ہونا ناگزیر ہوگیا۔
مکتی باہنی اس زمانے کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم تھی جو بھارت نے مشرقی پاکستان میں قائم کی۔ڈاکٹر جنید احمد اپنی کتاب بنگلہ دیش کی تخلیق ، فسانے اور حقائق میں صفحہ 357پر لکھتے ہیں کہ مکتی باہنی کے قیام کی خاطر ابتدائی طور پر بھارت میں 6 تربیتی کیمپ قائم کیے گئے۔ ہر کیمپ ایک بھارتی بریگیڈیئر کے ماتحت کام کرتا تھا۔ ان تربیتی کیمپوں میں مکتی باہنی کے دہشتگردوں کو ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کر کے اسے چلانے اور گوریلا کارروائیوں کی تربیت دی جاتی تھی۔ پہلے مرحلے میں بھارتی فورسز نے کچھ ایسے جنگجوؤں کو تربیت دی کہ وہ مشرقی پاکستان میں افراتفری پیدا کریں اور پاکستان آرمی کو مشرقی پاکستان میں مصروف رکھیں۔ دوسرے مرحلے میں بھارتی مداخلت شامل تھی۔مکتی باہنی کو کئی گروہوں میں تقسیم کر کے منظم کیا گیا تھا جن میں نعمت باہنی،  سیکٹر فوج، دی گونا باہمی، گرام پریشاد، بحری دستہ، ایکشن گروہ اور سراغ رساں گروہ شامل تھے۔ پورے مشرقی پاکستان کے علاقوں اور بڑے شہروں کو کئی سیکٹروں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ان سیکٹروں میں عوام کی تعداد کے حساب سے مکتی باہنی کے دہشت گردوں کوتعینات کیا گیا۔انہیں خصوصی تربیت دینے کے لیے آپریشن جیک پوٹ (Jackpot)شروع کیا گیا۔ جگہ جگہ چوکیاں قائم کی گئیں اور نگران اسٹیشنز ترتیب دئیے گئے جس کا مقصد بھارت اور مشرقی پاکستان کے مابین رابطے کو مضبوط بنانا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق را کی مدد سے کل 59 تربیتی کیمپ قائم کیے گئے جن میں افواج پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرنے کی خصوصی تربیت دی جاتی تھی۔ بعد ازاں ان کیمپوں کی کمان بریگیڈئیر کے بجائے بھارتی فوج کے ایک حاضر سروس میجر جنرل کے سپرد کر دی گئی۔مجیب نگر کو مکتی باہنی کا صدر دفتر بنایا گیا ۔دہشت گردوں کی عمر اور تعلیمی پس منظر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کے لیے مختلف تربیتی کورس وضع کیے گئے جن کے تحت سائنس گریجویٹس کو تخریب کاری کے تکنیکی شعبوں میں دو ماہ کی تربیت دی جاتی تھی۔ انڈر گریجویٹس کو چھوٹے ہتھیاروں،راکٹ لانچروں، توپ چلانے اور نقشہ بینی کی تربیت دی جاتی تھی۔ میٹرک سے کم تعلیم رکھنے والے افراد کو مختلف بارودی سرنگوں کا استعمال ، دھماکہ خیز مواد اور دستی بموں کے استعمال کی تربیت دی جاتی تھی۔نئے بھرتی ہونے والے افراد کو تین ماہ کی ابتدائی تربیت دی جاتی تھی جسے مکمل کرنے کے بعد انہیں مشرقی پاکستان بھجوا دیا جاتا تھا جہاں وہ مختلف مرکزوں اور سیکٹروں کے تحت وحشیانہ جرائم کا ار تکاب کرتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق بھارتی فوج کے پاس مشرقی پاکستان سے منحرف بنگالیوں کی کل تعداد ستر ہزار تھی جبکہ لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی کے مطابق 25 مارچ 1971ء کے بعد بغاوت کرنے والے بنگالی فوجیوں کی تعدا د ایک لاکھ باسٹھ ہزار ہو گئی تھی۔ بھارتی شہریوں جنہیں مکتی باہنی کے پلیٹ فارم سے تربیت دی گئی تھی کی کل تعداد سوا لاکھ کے قریب تھی ۔ اس طرح مجموعی طور پر یہ تعداد دو لاکھ ستاسی ہزار پانچ سو تھی۔اگر ان میں مکتی باہنی کے ان پچاس ہزار افراد کو بھی شامل کر لیا جائے جو بھیس بدل کر ان گروہوں میں شامل ہو گئے تھے تو ان کی کل تعداد ساڑھے تین لاکھ کے قریب بنتی ہے۔ 
مکتی باہنی کی طرز پر عوامی لیگ کی جانب سے بھی کچھ گروہ تشکیل دئیے گئے جن میں مجیب باہنی اور قادر باہنی قابل ذکر ہیں۔ مجیب باہنی عوامی لیگ کے ان طلبہ رہنمائوں پر مشتمل گروہ تھا جو شیخ مجیب کے بہت زیادہ وفادار سمجھے جاتے تھے۔ اس گروہ میں شیخ مجیب کے چھوٹے بیٹے شیخ جمال سمیت شیخ فضل مانی ،طفیل احمد اور دیگر کئی سرکردہ ممتاز ارکان شامل تھے۔
مکتی باہنی کے جرائم اس قدر بھیانک تھے کہ ان کو بیان کرتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ وسیع پیمانے پر قتل عام اور خواتین کی آبرو ریزی کی گئی۔ ان کی درندگی کا یہ عالم تھا کہ وہ بیویوں کے سامنے ان کے شوہروں کو بے دردی کے ساتھ قتل کر دیتے تھے۔نو زائیدہ بچوں کو رحم مادر میں مار دیتے تھے۔ معصوم لوگوں کو قتل کر کے ان کے سر نیزوں پر اچھالتے تھے اور نوجوان بچیوں کی آبرو ریزی کرنے کے بعد ان کی برہنہ لاشوں کو سڑکوں اور گلیوں میں پھینک دیتے تھے۔بڑے پیمانے پر لوٹ مار اور آتش زنی بھی کی گئی۔ مسجدوں کوذبح خانوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ قرآن مقدس کے نسخوں کو جلا دیا گیا اور ان کی بے حرمتی کی گئی۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ایک منظم مہم چلائی گئی جس میں قتل و غارت گری اور آبرو ریزی سمیت دیگر جنگی جرائم کو افواج پاکستان کے ساتھ منسوب کر دیا گیا۔ اگر تمام شواہد کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور حقائق کو عقل کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ بھلا افواج ِپاکستان جو اس وقت تعداد میں بھی بہت کم تھیں، ان گھنائونے  جرائم کا ارتکاب کیسے کر سکتی ہیں۔بلا شبہ یہ سب مکتی باہنی کے اندر چھپے نام نہاد مسلمانوںاور ہندوئوں نے کیا تھا۔ مکتی باہنی کے گوریلا سپاہیوں کو مشرقی پاکستان میں جنگی جرائم اور قتل و غارت گری میں ملوث ہونے کو آکسفورڈ سے تعلق رکھنے والی بھارتی نژاد مشہور مصنفہ سر میلا بوس نے اپنی کتاب"Dead Reckoning" میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر مشرقی پاکستان  کے سانحے کا بغیر کسی وابستگی کے تفصیلی جائزہ لیا جائے تو کئی ایسے حقائق سامنے آئیں گے جن سے مکتی باہنی کا مکروہ چہرہ سب کے سامنے نمایاں ہو کر آ جائے گا۔ایک جگہ وہ لکھتی ہیں کہ 25مارچ کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں مارے گئے افراد کی تعداد ہزاروں میں نہیں تھی جس کا اندازہ پاکستان آرمی کے بریگیڈ یئر اور کیپٹن کی وائرلیس بات چیت سے ہوتا ہے کہ اس جگہ 300 کے قریب اموات ہوئیں۔ سرمیلا بوس سوال اٹھاتی ہیں کہ اگر یونیورسٹی میموریل میں 70سے 80 لوگ صرف یونیورسٹی کے تھے تو باقی لوگ کون تھے؟کیا وہ مکتی باہنی کے گوریلے تھے جنہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں پناہ لے رکھی تھی؟
مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارتی در اندازی اور مکتی باہنی کے کردار پر خود بھارت سے کئی شواہد ایسے مل چکے ہیں جن کو اگر دنیا کے سامنے رکھا جائے تو وہ یقینا اسے ماننے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ بھارتی اعلیٰ قیادت اقوام ِ عالم کے سامنے کئی بار اس کامیابی کا تذکرہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کر چکی ہے۔ 
سقوطِ مشرقی پاکستان کو آج پچاس برس سے زیادہ بیت چکے ہیں مگر ہماری نوجوان نسل کے سامنے شاید آج بھی وہ حقائق پوری طرح نہیں لائے جا سکے جن کی بدولت سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا۔ پاکستان کی نوجوان نسل کو اصل حقائق سے آگاہ کرنا نہایت ضروری ہے جن کی بدولت سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا۔ بھارت نے نفرت انگیز مفروضوں کی بنا پر پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے عوام کے درمیان دوریاں پیدا کیں۔ لیکن اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے کہ درحقیقت اس سارے خونی کھیل کے پیچھے بھارت کی مکروہ چالیں اور عزائم تھے جنہیں شاید ہماری سیاسی قیادت اس وقت صحیح طریقے سے سمجھ نہ سکی ۔
 مکتی باہنی کا قیام سقوطِ ڈھاکہ کے پوشیدہ رازوں میں سے ایک راز تھا جس کا پردہ اب مکمل طور پر چاک ہو چکا ہے۔ دنیا بھر کے سامنے بھارت کا مکروہ چہرہ واضح ہو چکا ہے جس میں لاکھوں بے گناہ معصوم لوگوں کا لہو بہایا گیا۔  


مضمون نگار قومی و عالمی اُمورپر لکھتے ہیں
[email protected]