پاکستان دنیا کی واحد اسلامی ریاست ہے جو دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئی۔برصغیر کے مسلمانوں نے قائداعظم محمد علی جناح ،علامہ محمد اقبال، نوابزادہ لیاقت علی خان اور دیگر قائدین کی رہنمائی اور ولولہ انگیز قیادت میں اس عظیم مملکت خداداد کوحاصل کیا۔آزادی کے حصول کے لیے مسلمانوں نے ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کی۔ علیحدہ وطن کے لیے مسلمانوں کی اس جدوجہد کی کامیابی کا ہندو رہنمائوں کو بہت دکھ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مملکتِ پاکستان کو کبھی دل سے قبول نہ کیا۔وہ روزِاول سے ہی اس کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔ یہ انہی سازشوں اورریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھا کہ 1971ء میں پاکستان دو لخت ہو گیا ۔ اس سانحہ کی بہت سی وجوہات ہیں تاہم بھارت کی جانب سے تمام بین الاقوامی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک آزاد ریاست میں براہِ راست مداخلت اس کا سب سے بڑا محرک ہے۔ اس پسِ منظر میں ان تاریخی حقائق پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ جس کی بدولت بھارت آج تک پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بنتا چلا آرہا ہے ۔ قیامِ پاکستان سے ہی بھارت نے پاکستان کو توڑنے کی کوششیں شروع کر دی تھیں، کیونکہ اسے ایک آزاد اسلامی ریاست کا وجود ہرگز گوارا نہیں تھا۔
قیامِ پاکستان سے پہلے ہندو مسلم اختلافات محض مذہب ، سیاست اور معیشت تک ہی محدود نہ تھے بلکہ زندگی کے تمام شعبوں پران کی گہری چھاپ تھی۔ تہذیب و ثقافت میں دونوں قومیں ایک دوسرے سے الگ تھیں۔
مسلم ہندو اتحاد کی کوششیں
اپنی سیاست کے ابتدائی برسوں میں محمد علی جناح نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے بہت کوششیں کیں لیکن انہیں مایوسی ہوئی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں سے اپنی فطری مخاصمت کی وجہ سے ہندو کبھی بھی انہیں دل سے قبول نہیں کریں گے۔اِن وجوہات کی بنا پر قائداعظم محمد علی جناح نے دیگر مسلم قائدین کے ساتھ مل کر برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کے حصول کی جدوجہد شروع کر دی۔ اس جدوجہد میں بنگال کے مسلمان پیش پیش تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام 30 دسمبر 1906ء کو ڈھاکہ میں عمل میں آیا۔ تحریکِ پاکستان کی جدو جہد آزادی میں بنگال کے مسلمانوں کا اہم کردار رہا۔ 23 مارچ 1940ء کی قرارداد پاکستان پیش کرنے والے لیڈر اے کے فضل الحق کا تعلق بھی بنگال سے تھا۔بالآخر14اگست 1947ء کو قائداعظم محمد علی جناح کی انتھک محنت ، جدوجہد اور کوششوںسے پاکستان وجود میں آیا۔
قیامِ پاکستان کے بعدسیاسی اور معاشی بحرانوں کی بنا پر حالات دگرگوں ہوتے چلے گئے اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان دوریاں بڑھتی گئیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ مجیب الرحمن بھارت کی مکمل حمایت حاصل کرتے ہوئے منظر عام پر آئے۔انہوں نے عوامی لیگ کے پلیٹ فارم سے سقوطِ ڈھاکہ کی راہ ہموار کی اور 1971ء میں پاکستان دو لخت ہو گیا۔ سینئرتجزیہ کار کمال متین الدین سقوطِ ڈھاکہ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:یہ قسمت کی ستم ظریفی ہے کہ وہ لوگ جو تحریکِ پاکستان میں پیش پیش تھے، وہ جن کاعلاقہ غیر منقسم ہندوستان کا اکثریتی صوبہ تھا ، جن کے پاس مسلم لیگ کی نمائندگی تھی، برسوں بعد ایک ایسے ملک کو تباہ کرنے پر تل گئے جس کی تعمیر میں انہوں نے خود بھرپور مدد کی تھی۔
المیے کی وجوہات
پاکستان میں اندرونی خلفشار (مسلسل سیاسی محاذ آرائی )کی کیفیت نے بھارت کو اس کے دیرینہ خواب کی تعبیر کاموقع فراہم کر دیا۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف اپنی کارروائی تین مرحلوں کے ذریعے مکمل کی۔ یعنی تخریب کاری ، براہِ راست مداخلت اور فوجی تصادم اِن میں سے ہر کام کے لیے بھارت پوری طرح مستعد اور کمربستہ تھا۔ بھارت نے پاکستان کے معاشی بحرانوں سے پوری طرح فائدہ اٹھایا۔معروف سابق سفیر افراسیاب اپنی کتاب 1971ء سقوطِ ڈھاکہ میں لکھتے ہیں: حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے مطابق بھارت کی مشرقی پاکستان میں ریاست مخالف عناصر کے ساتھ ملی بھگت کی براہِ راست شہادت اس وقت سامنے آئی، جب 1967ء میں اگرتلہ سازش کیس افشا ہوا۔ مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے کے لیے ایک تنظیم بنائی گئی تھی اور شیخ مجیب الرحمن اس سے منسلک ہو گئے تھے۔ بھارت نے نہ صرف مشرقی پاکستان میں بغاوت منظم کرنے کے لیے اسلحہ اور مالی امداد دینے کا وعدہ کیا، بلکہ اس نے یہ ہامی بھی بھری کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کے فضائی اور سمندری راستے بھی بند کر دے گا۔ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مسلسل بھارتی مداخلت کا ذکر کئی مرتبہ کیا جاچکا ہے۔ 30 مارچ 1971 ء کو بھارتی پارلیمان میں ایک قرارداد منظور کی گئی ، جس میں کہا گیا کہ مشرقی پاکستان کی جنگِ آزادی میں بھارت کے عوام کی دلی ہمدردیاں شامل ہیں۔ 26 اپریل 2014ء کو پاکستان آبزور میں شائع ہونے والے ایک مضمون میںکرنل (ر)ایم حنیف لکھتے ہیں کہ 1971ء میں ابتدائی طور پر پاک فوج امن و امان قائم کرنے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ دوسری طرف وہ بھارت کی طرف سے کی جانے والی منظم گوریلا جنگ سے بھی نمٹ رہی تھی اور پھرپاکستان کومشرقی پاکستان میں براہِ راست بھارتی مداخلت کی بنا پر جنگ لڑنا پڑی۔
سقوطِ ڈھاکہ نہ صرف پاکستان اور بنگلہ دیش بلکہ جنوبی ایشیا کے تمام مسلمانوں کے لیے ایک سبق آموزاور المناک داستان ہے جس کو پروان چڑھانے میں اس وقت کے حکمرانوں سے سنگین غلطیاں سرزد ہوئیں۔ ان غلطیوں کے قصور واروں میں شامل شخصیات میں سے بعض کا تعلق مغربی پاکستان جبکہ کچھ کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ عام طور پرسقوطِ ڈھاکہ کا ذکر کرتے ہوئے مؤرخین تین اشخاص کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان میں جنرل یحٰ خان جو اس وقت کے صدر تھے۔ذوالفقار علی بھٹو جو پیپلز پارٹی کے چیئرمین تھے اور شیخ مجیب الرحمن جو عوامی لیگ کے رہنما تھے تاہم وہ ان حالات، سازشوں اور بحرانوں کا ذکر نہیں کرتے جو اس وقت کی قیادت کو درپیش تھے۔ اس سلسلے میں بھارت کے کردار سے قطع نظر،تاریخ شاہد ہے کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے ذمہ دار کیفرِ کردار کو پہنچے تاہم ان تمام سیاسی اور معاشی بحرانوں کا تذکرہ ازحد ضروری ہے جو اس المیے کی وجہ بنے۔
1947ء سے 1971ء تک بنگلہ دیش پاکستان کاایک صوبہ تھا۔ اس کاکل رقبہ صوبہ سندھ کے برابرتھا ۔ اس وقت یہ مشرقی بنگال کہلاتا تھا جسے بعد ازاں مشرقی پاکستان کا نام دے دیا گیا۔ مشرقی بنگال برٹش انڈیا کے سب سے پسماندہ علاقوں میں سے ایک تھا۔ گنجان آباد علاقہ ہونے کے باوجود1947 تک وہاں کوئی قابلِ ذکر ادارہ نہ تھا،اور نہ ہی وہاں صنعت و حرفت کے مشہور مراکز تھے۔ البتہ مشرقی پاکستان کے باسیوںکو پاکستانی شہری ہونے پرفخر تھا۔انہیں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح سے اتنی ہی محبت تھی جتنی کہ شیرِ بنگال اے کے فضل الحق سے۔علامہ اقبال ان کے قومی شاعر اور اسلام آباد ان کا بھی وفاقی دارالحکومت تھا۔ ان کا قومی ترانہ بھی وہی تھا جو پاکستان کا تھا، مگر جغرافیائی لحاظ سے مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے بالکل الگ تھا۔ دونوں بازوئوں کے درمیان ازلی دشمن بھارت کا 1200 میل کاعلاقہ حائل تھا۔ مشرقی پاکستان کی سطحِ زمین زیادہ تر سیلابی میدانوں پر مشتمل تھی جس کے جنوب مشرقی حصے چٹیل پہاڑوں پر مشتمل تھے، آب و ہوا گرم اور مرطوب تھی۔ بنگلہ دیش میں سردیاں اور گرمیاں مختصر اور برسات طویل تر ہوتی ہے۔ بارشیں عموماً اپریل میں شروع ہو کر اکتوبر تک جاری رہتی ہیں۔ مشرقی پاکستان شدید طوفانوں اور سیلابوں جیسی قدرتی آفات کی زد میں رہتا تھاجس کے بعد زمینی علاقہ فوجی نقل و حرکت کے لیے ناقابلِ استعمال ہو جاتا تھا۔ عموماً زمین کی دریا دامنی اور برسات کی فراوانی اس بات کی نشاندہی کرتی تھی کہ بھارتی حملے کے مہینے دسمبر اور مارچ ہی ہوںگے۔ بھارت نے اسی سے فائدہ اٹھایا۔ افواج پاکستان کو ایک طرف مشرقی پاکستان میں موسمیاتی مسائل درپیش تھے تو دوسری طرف بھارت نے پاک فوج کو ذہنی اور جسمانی طور پرتھکا دینے کے لیے مکتی باہنی کا استعمال کیا ۔
مکتی باہنی اور گوریلا فورس
صدیق سالک اپنی کتاب' میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا'میںرقمطراز ہیں کہ بھارت جب اپنے جنگی جنون مین مبتلا تھا اور بنگلہ دیش کو ہڑپ کرنا چاہتا تھا،اس نے مکتی باہنی کو تین مقاصد کے حصول کے لیے تیار کیا تھا۔پہلا مقصد یہ تھا کہ وہ مشرقی پاکستان میں پھیل کر پاک فوج کے ساتھ جھڑپوں کا آغاز کرے تاکہ پاک فوج اس میں الجھ کرحفاظتی اقدامات کے لیے متعلقہ علاقوں میں قید ہوکر رہ جائے ۔دوسرا مقصد گوریلا کارروائیوں کو رفتہ رفتہ تیز کرکے پاکستانی افواج کے مورال کو کمزور کرنا تھا ۔ تیسرا مقصد تھا کہ اگرپاکستان اس چھیڑ چھاڑ سے تنگ آکر کھلی جنگ پر مجبور ہو جائے تومکتی باہنی بھارت کی باقاعدہ فوج کے لیے مشرقی فیلڈ فورس کا کام دے سکے۔ ان مقاصد کو سا منے رکھ کر ایک بھارتی جرنیل کی نگرانی میں مکتی باہنی کو تربیت دی گئی ۔ابتدا میں یہ تربیت چار ہفتوں تک محدود تھی جس میں تخریبی کارروائیاں کرنے ،کمین گاہوں پر گولیاں برسانے،دستی بم پھینکنے اور رائفل چلانے کی مشق کروائی گئی۔اس طرح تیس ہزار افراد کو تربیت دے کر ایک منظم اور مسلح فوج تیار کی گئی ۔ان کے علاوہ ستر ہزارمزید افراد کو گوریلا جنگ کی تربیت دے کر مشرقی پاکستان میں بھیجا گیا۔وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف مکتی با ہنی کی تخریبی کارروائیوں میں اضافہ ہوابلکہ اس کا دائرہ کاربھی وسیع تر ہوتا گیا۔شروع میں جوتعداد تیس ہزار تک تھی، اگست تک وہ چالیس ہزار تک ہو چکی تھی جو کہ بڑھ کر ستمبر تک چوراسی ہزار تک پہنچ گئی۔ ان شرپسندوں اور باغیوں کے لیے ہتھیار اورجنگی سازو سامان حا صل کرنے میں بھارت کو مشکلات پیش آئیں مگر روس کے ساتھ معاہدہ دوستی کے بعد یہ مشکل حل ہوگئی ۔ فنِ حرب سے متعلق ایک مطالعاتی اور تجزیاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق روسی حکومت نے بھارت کو یقین دلایا تھا کہ مکتی باہنی فورس کے لیے مزید ہتھیار دیے جائیں گے جس سے بھارت کی طرف سے باغیوں کو اسلحے کی سپلائی میں اضافہ کردیا جائے گا۔
بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے وسا ئل کیا تھے؟ پاکستان کے پاس11000 سپورٹنگ عملہ اور 34000 سپاہی تھے۔جن کے ذمے 55126 مربع میل پر مشتمل ایک ایسے علاقے کا دفاع کرنا تھا جو زیادہ تر گھنے جنگلات پر مشتمل تھا۔ ان نا مساعد اور صبر آزما حالات میں پاک افواج نے باغیوں ،مکتی باہنی ،گوریلا فورس کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیابلکہ اہم ضلعی ہیڈ کوارٹرز اور سب ڈوثرنل ہیڈکوارٹرز سمیت تمام بڑے بڑے شہروں اور قصبوں کو مکتی باہنی سے بھی محفوظ رکھا۔ 370 سرحدی چوکیوں میں سے 260 چوکیوں پر اپنا قبضہ بھی جمائے رکھا۔پاک افواج کو دھوکہ دینے کے لیے با غیوں کے ذریعے سبزی کے تھیلوں میں بارودی مواد ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا تھا جو پاک فوج کی بر وقت کارروائی سے پکڑ لیا جاتا تھا۔پاک فوج کو نہ صرف ایسی تخربیی کارروائیوں کا سامنا تھا بلکہ ان کا مقابلہ وہاں کے سخت ترین موسم سے بھی تھا۔
پاکستانی عسکری قوت بمقابلہ بھارتی عسکری قوت
صدیق سالک اس حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ پاکستانی عسکری قوت بمقابلہ بھارتی عسکری قوت کافی کم تھی، باوجود اسکے پاک فوج کے حوصلے اس وقت بھی بہت بلند تھے۔اس کی تفصیل یہ تھی۔ بھارت کی آٹھ ڈویژنز فوج مشرقی پاکستان کی سرحدوں پر صف آراء تھی جن میں دوڈ ویژن چین کی طرف متعین کیے گئے تھے جنہیں بوقتِ ضرورت مشرقی پاکستان میں استعمال کیا جا سکتا تھا ۔ اِن آٹھ ڈویژنوں میں سے دو مغربی بنگال میں تھے تا کہ وہ حکم ملنے پر جیسور کی طرف پیش قدمی کرسکیں۔ یہ 2 کور کے ماتحت تھے۔ شمال مغربی علاقے پرحملے کے لیے تین ڈویژنوں پرمشتمل 33 کو رکو تعینات کیا گیا تھا ۔ وہیں پر 101 کمیونیکیشن زون تھا جو ایک لڑاکا ڈویژن کے طور پرلڑنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس کی کمان ایک میجر جنرل کے سپرد تھی۔ مشرقی سرحدوں پر بھارت کے تین ڈویژن تعینات کیے گئے تھے جن کی کمان4 کور کے حوالے تھی۔ ہرڈویژن کے ساتھ ٹینک اور تو پ خانہ بھی موجودتھا۔پاکستانی ٹینک رات کو استعمال نہیں ہو سکتے تھے مگر بھارت کے اکثر ٹینکوں میں انفراریڈ شیشے نصب تھے جن کی مدد سے انھیں تاریکی میں بھی استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اِسی طرح اس کے بعض ٹینک پانی میں تیر کر رکاوٹ عبور کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں بھارت کے پاس معقول تعداد میں بکتر بند گاڑیاں تھیں جن کی مدد سے بیک وقت پلٹنوں کی نفری گولیوں کی بوچھاڑ سے محفوظ رہ کر میدانِ جنگ میں نقل و حرکت کر سکتی تھی۔
بھارت کی فضائی قوت دس سکوارڈرنوں(ایک سکوارڈرن میں عموما 18 طیارے ہوتے ہیں)پر مشتمل تھی جس میں مِگ 21، کینبرا(بمبار)،ایس یو7 (لڑاکا بمبار) اورنیٹ (زمینی کمک دینے والے) طیارے شامل تھے۔ ان طیاروں سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کے لیے بھارت نے مشرقی پاکستان کے ارد گرد ہوائی اڈوں کا جال بچھا دیا تھا۔ دریاوں کی رکاوٹ عبور کرنے کے لیے بار بردار طیارے اور ہیلی کا پٹر مہیا کیے گئے تھے۔
بھارت کی بحری قوت میں سب سے قابل ذکر اس کا (Aircraft Carrier) یعنی طیارہ بردار بحری بیڑہ تھا جسے وکرانت (Vikrant) کہتے تھے۔ اس میں دیکھ بھال کرنے والے چھ طیارے، 14 سمندری عقاب (لڑاکا بمبار) ا ور آبدوزوں کے خلاف استعمال ہونے والے تین سی ہاک طیارے شامل تھے۔ اس بیڑے کی حفاظت کے لیے معقول تعداد میں ڈسٹرائر (Destroyers) اور فریگیٹ (Frigates) تھے۔ اس کے علاوہ بھارتی بحریہ کے پاس چار بڑے جنگی جہاز (بیاس، برہم پترا،کا مورتا اور کرامارتی)، آبدوزیں(نندھاری اور کالواری)، ایک سرنگیں صاف کرنے والا جہاز اور پانچ مسلح کشتیاں (گن بوٹ )تھیں۔اس بری، بحری اور فضائی قوت کے علاوہ بھارت کے پاس ایک چھاتہ بردار بریگیڈ ، تین بریگیڈ گروپ، بارڈر سکیورٹی فورس کی 42 پلٹنیں اور ایک لاکھ مکتی باہنی فورس تھی۔
یہاں بھارت کی صرف اس عسکری قوت کا ذکر کیا گیا ہے جو خالصتاً مشرقی پاکستان کے محاذ پر متعین تھی۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کے پاس (مشرقی پاکستان میں) صرف تین انفینٹری ڈویژن تھے جو ضروری سازوسامان سے بھی پوری طرح لیس نہ تھے۔ پاکستان ایئر فورس کا صرف ایک سکواڈرن ڈھا کہ میں تھا جس میں 16سیبر طیارے تھے۔ ہوائی اڈہ بھی ایک ہی تھا جس کے خراب یا تباہ ہونے کی صورت میں سارے جہاز بیکار ہو سکتے تھے۔ ڈھاکہ چھاؤنی کے شمالی جانب زیر ِتعمیراڈہ بھی قابل استعمال نہ تھا۔ اگر اس وقت مزید طیارے وہاں بھیج بھی دیے جاتے تو ہوائی اڈوں کی کمی کے پیشِ نظر ان کی افادیت مشکوک ہو کر رہ جاتی۔ ہمارا کل بحری اثاثہ ایک ریئر ایڈمرل اور چارمسلح کشتیوں (گن بوٹ) پر مشتمل تھا۔
یہ تھی ہماری کل دفاعی پوزیشن۔ اِس میں اضافہ کرنے کے لیے رضا کاروں، مجاہدوں، سکاؤٹس اور ایسٹ پاکستان سول آرمڈسورسز (ای پی سی اے ایف)کی نیم عسکری نفری اکٹھی کی گئی جس کی کل تعداد 73 ہزارتھی۔بلاشبہ بھارت کے حربی وسائل پاکستان سے زیادہ تھے مگر افواج پاکستان کے جوانوں کے حوصلے بلند تھے ۔یہی وجہ تھی کہ ہمارے بہادرسپاہیوں نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی بھارت کو آٹھ ماہ تک اس جنگ میں الجھائے رکھا اور اسے اس کے عزائم میں کامیاب نہ ہونے دیا ۔ بھارت مشرقی پاکستان کو ہڑپ کرنا چاہتا تھا ۔ سرحدی علاقوںپر قبضہ کر نا اس منصوبے کی پہلی کڑی تھی۔
تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی بھارت کی ایک سوچی سمجھی سازش تھی جسے عملی جامہ پہنانے کے لیے بھارت نے 1971 میں گنگا جہاز کے اغوا کی جھوٹی کہانی بنا کر پاکستان کے لیے مشرقی پاکستان جانے کا راستہ بند کر دیا۔ اس طرح پاکستان کا مشرقی پاکستان کے ساتھ رابطہ منقطع کر کے اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کی طرف یہ پہلا قدم تھا۔جبکہ پاکستان کے پاس صرف45 ہزار کے لگ بھگ فوج تھی جسے چاروں اطراف سے دشمن نے گھیر رکھا تھا اوروہ گوریلا جنگ بھی لڑ رہی تھی۔ ایسے میں وہ بھلا کیسے ہزاروں لوگوں کا قتل عام کر سکتیتھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ تمام الزامات جوبھارت کی جانب سے افواج پاکستان پر لگے،غلط ثابت ہوگئے۔خود بھارتی مصنفین اور لکھاریوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت کا کردار ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ سرمیلا بوس اپنی کتاب DEAD RECKONING میں لکھتی ہیں کہ مرنے والوں کی تعداد میں مبالغہ آرائی سے کام لینے کے علاوہ حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش بھی کی گئی ۔ بعض اوقات اصل واقعات کو مسخ کر کے پیش کیاگیا تو بعض مثالوں میں من گھڑت کہانیاں ہمارے سامنے آئی ہیں جبکہ کئی مرتبہ آزادی کے حامیوں کی جانب سے ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کا مدعا بھی دوسری جانب ڈال دیا گیا۔ اس طرح 19 مارچ کو جوئے دیو پور میں پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بنگلہ دیشی لٹریچر میں کہا گیا کہ آرمی نے بلا اشتعال اور بلا امتیاز غیر مسلموں کو نشانہ بنایا حالانکہ یہ واقعہ مسلح افراد کی جانب سے آرمی کو اشتعال دلائے جانے کے بعد رونما ہوا تھا۔ 25-24 مارچ کو ڈھاکہ یونیورسٹی آپریشن کے دوران آرمی کی جانب سے طالبات کے ہاسٹل پر حملہ آور ہونے کی جھوٹی کہانیاں لوگوں تک پہنچائی گئیں۔ یکم اپریل کو جیسور میں آزادی کے حامی بنگالیوں کی جانب سے مغربی پاکستانی سویلین افراد کو قتل کیے جانے کے واقعے کو بین الاقوامی میڈیا میں اس طرح ظاہر کیا گیا کہ آرمی نے بنگالی سویلین کا قتل عام کیا تھا۔
دی ٹائمز کی 13دسمبر کی رپورٹ کے مطابق غیر ملکیوں کے ایک گروپ کو کئی ناکامیوں کے بعد بالآخر ڈھاکہ سے کلکتہ کے لیے بذریعہ ہوائی جہاز روانہ کیا گیا کیونکہ اس دوران ڈھاکہ بھارتی طیاروں کے حملوں کی زد میں تھا۔انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ چند دن پہلے 500 سے 1000 پونڈ کے پانچ بم یتیم خانے پر جاگرے جن کا اصل ہدف 150 گز کے فاصلے پر واقع ریلوے یارڈ تھا۔ اس واقعے میں پاکستانی حکام کے مطابق 300 بچے مارے گئے تھے۔ ایک جرمن ٹیلی ویژن کے کیمرہ مین کے مطابق اس نے 20 لاشیں دیکھی تھیں اور اسے یقین تھا کہ کئی لاشیں ملبے کے نیچے دبی ہوئی تھیں۔
اس کے علاوہ بھی کئی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ بھارتی طیارے نے اپنے اصل اہداف کے بجائے سویلین آبادی کو نشانہ بنایا ۔ دی آبزرور کی ڈھاکہ ڈائری نارائن گنج کے بارے میں رپورٹ پیش کرتی ہے:
رات کے وقت بمباری کرتے ہوئے بھارتی ہوا بازوں نے آدھا میل دور واقع پاور اسٹیشن کے بجائے ایک غریب رہائشی بستی کو نشانہ بنا ڈالا۔ چار سے پانچ سو سویلین ہلاک ہو گئے جبکہ 150 سویلین ہسپتال پہنچا دیے گئے تھے۔ جہاں آرا امام کے جرنل میں بھی ہمیں 14 دسمبر کو شدید بمباری کاذکر ملتا ہے، اس دن ان کے شوہر کی تدفین ہوئی تھی اور پڑوس میں چاروں طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں۔یہ وہ مظالم ہیں جن کا ذکر سر میلا بوس اپنی کتاب میں کرتی ہیں جو بھارت کی طرف سے عوام پر ڈھائے گئے ۔وہ ان تمام الزامات کو رد کرتے ہوئے ان کی نفی کرتی ہیں جو سانحہ مشرقی پاکستان کے دوران ا فواج پاکستان پر لگائے گئے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہماری قومی تاریخ کا ایک ایسا زخم ہے جس کا نشان شاید صدیوں تک مندمل نہ ہو سکے۔ بلاشبہ سقوطِ ڈھاکہ میں ہماری سول و عسکری قیادت سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئیں مگر اس کا یہ ہرگز مقصد نہیں ہے کہ اس کا سارا ملبہ افواج پاکستان اورحکومت وقت پر ڈال دیا جائے۔ سقوطِ ڈھاکہ سے سبق سیکھتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ ایسی غلطیاں دوبارہ نہ دہرائیں۔
1971ء کی جنگ میںپاک فوج نے جس جواںمردی سے دشمن کا مقابلہ کیا اور اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر وطنِِ عزیز کا دفاع کیا ،وہ قابلِ فخر ہے۔ پاک فوج کی اعلیٰ کارکردگی کا دشمن اور بین الاقوامی میڈیا نے بھی اعتراف کیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بلاشبہ بھارتی اور بین الاقوامی سازشیں شامل تھیں،مگر ہمیں اپنی غلطیوںکا ازالہ کرتے ہوئے ایسا لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے جو وطن عزیز کو آنے والے دنوں میں مضبوط، خوشحال اور مستحکم بنائے۔
مضمون نگار قومی وسماجی موضوعات پر لکھتی ہیں۔
[email protected]
حوالہ جات:
1۔ 1971 ء سقوطِ ڈھاکہ،حقیقت کتنی ، افسانہ کتنا،(افراسیاب)،سابق سفیر پاکستان برائے بنگلہ دیش)
2۔ 'میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا'(صدیق سالک)
3۔ المیہ مشرقی پاکستان۔وفاقِ پاکستان سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے عوامل کی داستان)حسن ظہیر)
4۔Dead Reckoning ، (سرمیلا بوس)
تبصرے