دسمبر1971 میں پاکستانی قوم کو سانحہ مشرقی پاکستان دیکھنا پڑا جس میں پاکستان کا ایک حصہ اس سے الگ ہوگیا۔ بہت سی وجوہات اور عوامل اس سانحہ کے پیچھے کارفرما رہے۔ بہر طور قوموں کو صدمات سے نکل کر پھر سے اپنے سفر کا آغاز کرنا ہوتا ہے۔ لیکن ایسے سانحات سیسبق بھی حاصل ہوتا ہے، اس کو ضرور مد نظر رکھنا ہوتاہے۔سقوطِ مشرقی پاکستان سے پہلا سبق یہ ملتا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں کو جمہوری خطوط پہ منظم ہونے والی سیاسی جماعتیں ہی متحد اور ایک دوسرے سے پیوست رکھ سکتی ہیں۔ قومی یک جہتی کے لیے لوگوں کی نفسیات اور ان کی خواہشات سے آگہی اور ان کی مسلسل تکمیل ازبس ضروری ہے۔ یہ راز بھی آشکار ہوا کہ زمینی حقیقتوں تک پہنچنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے اندر مختلف طبقات کی نمائندگی اور باقاعدہ انتخابات کا انعقاد لازم ہے۔ یہ بھید بھی کھلا کہ سیاسی سطح پہ مسائل کو قالین کے نیچے چھپانے کے بجائے ان پہ کھل کر تبادلہ خیال کرتے رہنے سے اصلاحی عمل جاری رہتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا، اس کے ذمہ دار زیادہ تر سیاسی، معاشی اور انتظامی اسباب ہیں جو دونوں منطقوں کے درمیان تاریخی، تہذیبی اور لسانی بغض سے پیدا ہوئے جن میں سیاست دانوں، اعلیٰ سرکاری افسروں کے رویوں نے غیرمعمولی حصہ لیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ جس کی بنیاد ڈھاکہ میں رکھی گئی، اس کا دوبارہ اجلاس اِس عظیم تاریخی شہر میں نہ ہوا۔ یو-پی کی اشرافیہ اِس جماعت پہ چھائی رہی اور اس کی مرکزی قیادت کو معلوم ہی نہ ہو سکا کہ بنگال کے مسلمان کن ذہنی تبدیلیوں سے گزر رہے ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں پہلی بار مشرقی منطقے کو مسلم ریاست کی سکیم میں شامل کیا گیا۔ اس کے بعد جائزہ لینے کی زحمت گوارا نہ کی گئی کہ اِس مشرقی منطقے کے سیاسی رجحانات کس انداز کے ہیں اور سیاسی شخصیتوں کے مابین رقابتیں کیا رخ اختیار کر رہی ہیں۔ اِس بے اعتنائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی تشکیل کے وقت اور اس کے فوراً بعد مشرقی بنگال میں ایک زبردست خلا پیدا ہوا جسے وہ لوگ احسن طریقے سے پر نہ کر سکے جن کے حصے میں قیادت اور حکمرانی غیرفطری انداز میں آئی تھی۔
دراصل بنگال کی مسلم لیگی قیادت ذہنی طور پہ دو حصوں میں تقسیم تھی۔ ایک وہ جسے بنگال کا مفاد بہت عزیز تھا۔ چند بلند قامت لوگ مسلم لیگ کی جدوجہد میں اِس مقصد سے شامل ہوئے تھے کہ اس کے ذریعے بنگالی مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ ہو سکے گا، وہ اپنے معاملات خود چلانے کی پوزیشن میں آ جائیں گے؛ اپنی زبان، اپنی تہذیب کو فروغ دیں گے اور ہندوئوں کی اقتصادی اور انتظامی غلامی سے نجات حاصل کر لیں گے۔ مولوی فضل الحق اور جناب سہروردی اِسی قبیل کے رہنما تھے۔ مولوی فضل الحق دیہاتی پس منظر میں بنگالی قومیت کے سفیر اور پیشوا بن گئے۔ انہوں نے کسانوں اور محنت کشوں میں بہت فلاحی اور سیاسی کام کیا تھا اور انہیں دیہی عوام کے مسائل کا گہرا شعور تھا۔ وہ اپنے علاقے اور مشرقی بنگال میں حیرت انگیز تعلیمی انقلاب لانے میں سدا کوشاں رہے۔ ان کے مقابلے میں سہروردی، شہری زندگی کے نمائندہ بن کر ابھرے جو ترقی پسند قومی نقطہ نگاہ رکھتے تھے۔ اِس کے ساتھ ساتھ انہیں بنگال کا مفاد بھی بے حد عزیز تھااور وہ خود کو مسلم بنگال کا لیڈر کہتے تھے۔ دوسرا گروہ اپنے آپ کو پہلے مسلمان اور پھر بنگالی خیال کرتا تھا۔ وہ قراردادِلاہور کی تعبیر ایک ریاست کے قیام کی شکل میں کرتا تھا۔ اِس کی قیادت خواجہ ناظم الدین، خواجہ خیرالدین اور خواجہ مہتاب الدین کے ہاتھ میں تھی جو ڈھاکہ کے نواب تھے اور انہیں اشرافیہ کی حمایت حاصل تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس قبیل کے دوسرے اہم قائدین مولانا اکرم خاں، نورالامین، صبور خاں اور منعم خان کو بنگالی مفادات کا نمائندہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ عوام کے اندر اِس قیادت کی جڑیں نہیں تھیں اور ان کا کلچر بھی عام بنگالیوں سے بہت مختلف تھا۔ ان کے ذریعے آل انڈیا مسلم لیگ میں اہلِ بنگال کے جذبات و اِحساسات کی صحیح نمائندگی ممکن ہی نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے فیصلہ ساز اداروں کی مرکزی قیادت کو علم ہی نہ ہو سکا کہ اہلِ بنگال اپنی زبان اور اپنے کلچر کے بارے میں کس قدر حساس ہیں۔ مسلم لیگ کے اجلاسوں میں بنگالی قیادت انگریزی یا اردو میں گفتگو کرتی اور کبھی یہ مسئلہ ابھر کر سامنے ہی نہ آیا کہ بنگلہ کو قومی ایجنڈے میں کیا مقام دیا جانا چاہیے۔
تقسیمِ ہند سے پہلے برِصغیر میں مسلمانوں کے دو بڑے مرکز بن گئے تھے: یو-پی اور بنگال۔ ایک مسلمانوں کا اقلیتی علاقہ تھا اور دوسرا اکثریتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا اور آخری مرحلے میں بڑی بڑی سیاسی شخصیتیں اس کے اندر شامل ہونے لگیں، مگر انہیں جماعت میں ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے کا مناسب وقت نہ ملا اور واقعات حیرت انگیز رفتار سے تقسیم کی طرف بڑھتے گئے۔ یوں ایک دوسرے کو سمجھنے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی بہت زیادہ تربیت ہی نہ ہو سکی اور سیاسی رفاقت اور سیاسی پختگی کا سازگار ماحول پیدا نہ ہوا۔ قائدِاعظم چومکھی لڑائی لڑ رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ سیاسی تنظیم کے بنیادی تقاضوں پہ بھی نظر رکھے ہوئے تھے، لیکن بعض کلیدی امور بڑی عجلت میں طے کرنا پڑے۔ ان دنوں مسلم لیگ ایک تنظیم سے زیادہ ایک تحریک کا نام تھی اور اعلیٰ و ارفع مقصد نے سب ہی کو متحرک کر رکھا تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ آنے والے مسائل پہ ہوم ورک سائنسی انداز میں نہ ہو سکا۔ بنگال اور پنجاب کی تقسیم کا مرحلہ یک لخت سامنے آ گیا اور مسلم لیگ اِس تقسیم سے پیدا ہونے والے تنازعات کا پورا اِدراک نہ کر سکی۔
سانحہ مشرقی پاکستان سے دوسرا سبق یہ حاصل ہوا کہ زبان اور ثقافت کو انسانی معاملات میں غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے اور ان کا احترام اور تحفظ اہلِ سیاست پہ لازم آتا ہے۔ برِصغیر کے مسلمان جب ایک جداگانہ وطن کی جدوجہدکر رہے تھے، تو ان کے مدِمقابل ہندو قوم اور ہندی زبان تھی۔ سیاسی جنگ میں اردو، مسلمانوں کے تشخص کی علامت بن کر ابھری، جبکہ ان کی دوسری علاقائی زبانیں پس منظر میں چلی گئیں۔ بلاشبہ اردو پورے ہندوستان میں رابطے کی زبان تھی اور ہر جگہ سمجھی جاتی تھی، مگر مختلف مسلم علاقوں میں تعلیم و تدریس اور اِنتظام و انصرام کی زبانیں اور بھی تھیں اور تہذیبی رنگ بھی مختلف تھے۔ پاکستان وجود میں آیا، تو ہندی-اردو قضیہ ختم ہو گیا اور بہ تدریج مختلف علاقوں میں اپنی اپنی علاقائی زبانوں کے وجود اور حقوق کا احساس ابھرنے لگا۔ پاکستان کی قیادت سے غلطی یہ ہوئی کہ اس نے مشرقی اور مغربی حصوں کو دو تہذیبی منطقے قرار دینے کے بجائے انہیں ایک وحدت سمجھ لیا اور اِس نکتے پہ ضرورت سے زیادہ زور دیا کہ ایک قوم کی ایک زبان، ایک تہذیب اور ایک تشخص ہوتا ہے۔ مسلم لیگ کا جو مرکز یو-پی میں قائم ہوا تھا، اس کی زبان اور ثقافت کو پاکستان کی قومی زبان اور قومی تہذیب قرار دیا جا رہا تھا، جبکہ دوسرا مرکز-- جس کی سیاسی طاقت سے پاکستان کی منزل قریب آئی تھی اور جہاں کے عوام نے ہندو بالادستی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اور خوں ریز فسادات کے گہرے زخم کھائے تھے-- قومی سطح پہ اس کی زبان اور تہذیب کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ صورتِ حال زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی تھی، چنانچہ شروع ہی میں بنگلہ کو قومی زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ اٹھ کھڑا ہوا۔
شیخ مجیب الرحمن نے بنگلہ زبان کے تنازع کو اپنی سیاست کا بنیادی نکتہ بنا لیا اور بنگالیوں میں مقبول ہوتے گئے۔ اِسی بنیادی مسئلے پہ جگتو فرنٹ وجود میں آیا جس نے صوبائی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔ اِس کے بعد طرح طرح کے فتنے سر اٹھاتے رہے۔ بنگالیوں اور غیربنگالیوں کے درمیان آدم جی جوٹ مِل میں خوںریز تصادم ہوا جس میں پانچ سو سے زائد لوگ مارے گئے۔ اِن فسادات اور کچھ دوسرے واقعات کی بنا پہ مشرقی بنگال اور مغربی پاکستان کے مابین کشیدگی اور بے اعتمادی بڑھتی گئی۔ آخرِکار بہت سا خون بہہ جانے کے بعد بنائے گئے دستور میں بنگلہ کو دوسری قومی زبان تسلیم کر لیا گیا۔ آٹھ سالہ خوں آشام کشمکش نے دونوں بازوئوں کے درمیان گہری رفاقت کے بجائے علیحدگی کے رجحانات کو غیرمعمولی تقویت پہنچائی تھی اور مشرقی پاکستان کی سیاسی فضا بری طرح زہرآلود کر ڈالی تھی۔ ہمارے خیال میں فروری کے خونیں واقعے دونوں بازوئوں کے درمیان سیاسی علیحدگی کا پہلا قدم ثابت ہوئے۔ اِس کا ثبوت یہ ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت نے اپنی پہلی سالگرہ پہ جو ٹکٹ جاری کیے، وہ ان چار طلبہ کی یاد میں تھے جو زبان کے مسئلے پہ شہید ہوئے تھے۔ بالعموم جذباتی رشتے، سیاسی رشتوں سے کہیں زیادہ دیرپا ثابت ہوتے اور دلوں کے اندر اتر جاتے ہیں۔ اِس ہول ناک تباہی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ آئندہ زبان اور کلچر کے نازک معاملات میں غیرمعمولی تدبر سے کام لیا جائے اور تہذیب و ثقافت کے فطری گوناں گوں اختلافات کو طاقت کے ذریعے ختم کرنے کے بجائے ان کا حسن اور ان کی رعنائی میں نکھار پیدا کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
سقوطِ ڈھاکہ سے تیسرا سبق یہ ملا کہ انسان غربت و افلاس برداشت کر لیتا ہے، مگر عزتِ نفس کی پامالی پر شدید اور فوری احتجاج کرتا ہے۔ ہمارا مشرقی بازو-- جو فلاکت زدہ تھا اور جسے مغربی بنگال نے صنعت، کاروبار اور انتظامی امور میں غلام بنا کے رکھا ہوا تھا۔ وہ مغربی پاکستان کی طرف سے غیرمعمولی توجہ اور فیاضانہ رویوں کا مستحق تھا۔ بنگال میں اکثریت مسلمانوں کی تھی، مگر بیشتر وسائل ہندوئوں کے قبضے میں تھے جنہوں نے مسلم آبادی کو ہر میدان میں ذلیل و خوار کر رکھا تھا۔ مشرقی بنگال پٹ سن پیدا کرتا، مگر جوٹ تیار کرنے کے سارے کارخانے مغربی بنگال میں تھے۔ پاکستان بنا، تو بنگال کے مسلمانوں میں امید پیدا ہوئی کہ انہیں عزت کا مقام حاصل ہو گا اور مغربی خطے کے مسلمان ان کے زخموں پہ مرہم رکھیں گے اور ان کی ترقی و خوش حالی میں بھرپور حصہ لیں گے-- مگر ان کے ابتدائی تجربات نے انہیں احساس دلایا کہ وہ تو مغربی پاکستان کی ایک کالونی ہیں۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ مغربی پاکستان سے زیادہ تر سرکاری افسر ایسے گئے جن کے طور طریق انگریزوں جیسے تھے اور وہ بنگالیوں سے اہانت آمیز سلوک روا رکھتے تھے۔ سیاست دانوں کا طرزِ عمل بھی دل دکھا دینے والا تھا۔ اقتصادی منصوبہ بندی میں مشرقی بنگال کی ضرورتوں کو مناسب اہمیت نہیں دی جا رہی تھی۔ اربابِ حکومت کا رویہ فرعونوں جیسا تھا۔ افواجِ پاکستان میں بنگالیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی، اِس لیے وہاں بھی ایک بے تعلقی کا عنصر غالب تھا۔ ملک کے زیادہ تر وسائل اور اختیارات مغربی پاکستان کے قبضہ تصرف میں تھے۔ مرکزی حکومت، پارلیمنٹ کا صدر مقام اور مسلح افواج کے ہیڈکوارٹرز سب وہیں تھے۔ وہاں کے حکمران ہی یہ فیصلہ کرتے کہ مشرقی بازو کی طرف کتنا اقتدار منتقل کرنا ہے۔
کالونی ہونے کا احساس زیادہ تر سیاسی واقعات سے پیدا ہوتا تھا۔ ملک غلام محمد گورنر جنرل بنے، تو انہوں نے پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھ لیا اور بادشاہوں کی طرح جہاں بانی کرنے لگے، حالانکہ وہ فالج زدہ تھے اور ان کے منہ سے الفاظ کے ساتھ مسلسل جھاگ کا فوارہ بہہ نکلتا۔ مشرقی بنگال کے وزیرِاعلیٰ خواجہ ناظم الدین کو لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان کا وزیرِاعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ بنگالیوں میں اپنی مقبولیت کھو بیٹھے تھے، مگر پھر بھی مشرقی بازو کی ایک علامت سمجھے جاتے۔ گورنر جنرل غلام محمد نے انہیں اپریل کو وزارتِ عظمی سے برخاست کر دیا، وزیرِاعظم ہاوس کے تمام ٹیلی فون کاٹ ڈالے گئے اور انہیں بہت بے عزتی سے ایوانِ اقتدار سے باہر کیا گیا۔ انہوں نے چند ہی روز پہلے پارلیمنٹ سے قومی بجٹ منظور کروایا تھا۔ اِس غیرآئینی اقدام کے خلاف مسلم لیگ نے کوئی احتجاج نہ کیا، جس کے خواجہ صاحب صدر تھے۔ جماعتِ اسلامی کے سوا کسی بھی سیاسی جماعت نے صدائے احتجاج بلند نہ کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آگے چل کر غیرآئینی اقدامات پاکستان کے سیاسی کلچر کا ایک حصہ بن گئے۔
مشرقی پاکستان کے المیے سے چوتھا سبق ابھر کر سامنے آیا کہ دستور کا انحراف اور اِس کا عدم احترام، قومی زندگی میں بہت فساد پیدا کرتا ہے اور ایسے خطرناک موڑ آ جاتے ہیں جہاں حالات قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔ 1956ء کا دستور بے پناہ سیاسی ریاضت اور غیرمعمولی بصیرت سے منظور ہوا تھا اور پوری قوم نے بے پایاں خوشی کا اظہار کیا تھا۔ صدر سکندر مرزا نے پہلے دستور کی تیاری میں سحرانگیز کردار ادا کرنے والی عظیم شخصیت کو اقتدار سے محروم کیا اور بعد میں وہ دستور بھی ختم کر دیا جس میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان ساتھ رہنے کا ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ اِس معاہدے پر خطِ تنسیخ پھیر دینے سے دونوں بازوئوں کے درمیان عمرانی اور آئینی رشتہ ختم ہو گیا۔ پھر ایوب خان نے قوم پر 1962ء کا دستور مسلط کیا، مگر اس پر بھی صحیح روح سے عمل نہ ہوا اور اِس امر کا اہتمام کیا گیا کہ اقتدار بنگالیوں کو منتقل نہ ہونے پائے۔ ایوب خان کے نافذ کردہ آئین میں اِس نوع کی دفعات شامل تھیں کہ فرائضِ منصبی کی عدم ادائیگی یا ملک سے باہر جانے کی صورت میں قومی اسمبلی کے سپیکر، صدرِ پاکستان کے فرائض سرانجام دیں گے۔ جنوری میں فیلڈ مارشل ایوب خان کو دل کا شدید دورہ پڑا اور وہ تین ہفتے تک اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے کے قابل نہ رہے، لیکن اقتدار سپیکر صاحب کو اِس لیے منتقل نہ کیا گیا کہ ان کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ اِسی طرح جب صدر ایوب خان نے اقتدار سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کیا، تو انہیں سپیکر کو اقتدار منتقل کر دینا چاہیے تھا، مگر ایسا نہ ہوا اور جنرل یحیی خان کے ہاتھ میں عنانِ حکومت دے دی گئی۔
آغا یحییٰ خان نے کا دستور چاک کر ڈالا اور قومی اسمبلی کے لیے انتخابات کروائے۔ انتخابات سے پہلے پیریٹی کا اصول بھی ختم کر دیا اور مشرقی پاکستان کو قومی اسمبلی میں عددی اکثریت حاصل ہو گئی۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں دو کے سوا تمام نشستیں حاصل کر لیں اوراِس پوزیشن میں آ گئے کہ اپنی مرضی کا دستور اپنی جماعت کے ارکان کی حمایت سے منظور کروا سکیں۔ ابھرتا ہوا سیاسی منظر نامہ بالکل واضح تھا۔ اب مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان آئینی رشتہ عوامی لیگ کی شرائط میں طے پا سکتا تھا۔ میجر جنرل رائو فرمان علی نے جنرل پیرزادہ سے واضح الفاظ میں کہا کہ اب محل نہیں مل سکتا، ہمیں جھونپڑی پر اکتفا کرنا ہو گا-- یعنی اب ایک انتہائی کمزور مرکز کی گنجائش رہ گئی تھی۔ صدر یحییٰ نے جی-ڈبلیو چودھری سے کہا تھا کہ دو مسلم ریاستیں قائم ہو سکتی ہیں۔ اندوہ ناک بات یہ ہے کہ انتخابات کے نتائج تسلیم اور سیاسی مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے ایک ایسے خطے میں فوجی طاقت استعمال کی گئی جو پہلے ہی جغرافیائی طور پہ علیحدہ تھا اور فضائی رابطہ بھی خطرات سے گھرا ہوا تھا۔ خوں ریز تباہی صاف نظر آ رہی تھی۔
تبصرے