پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی تارکین وطن نے سالہاسال سے ڈیرے ڈال رکھے ہیں جو حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود اپنے ملکوں میں واپس جانے کے لیے تیار نہیں۔پاکستان میں تارکین وطن کی بہت بڑی تعداد کا تعلق تو افغانستان سے ہے بعض دیگر ممالک کے تارکین وطن بھی غیرقانونی طور پر پاکستان میں آباد ہیں لیکن یہ سب افراد اپنے ملکی سیاسی ، معاشی اور امن و امان کی صورت حال کے پیش نظر اپنے اپنے وطن واپس جانے کے لئے تیار نہیں۔ ان کے لئے پاکستان جنت سے کم نہیں لیکن ان غیر ملکی تارکین وطن کی پاکستان میں موجودگی سے جہاں ہماری معیشت اور معاشرت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں وہاں ان کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان میں امن و امان کا مسئلہ بھی پیدا ہو ا ہے ۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 50سے55لاکھ کے درمیان غیر قانونی طور تارکین وطن قیام پذیر ہیں جن میں سے 30لاکھ افراد کا تعلق افغانستان سے ہے ۔جو نہ صرف پاکستان کی معیشت پر بوجھ ہیں بلکہ انہوں نے پاکستان کی سکیورٹی کے لیے مسائل پیدا کر دئیے ہیں پاکستان میں1979ء میں افغانستان میں روسی یلغار کے بعد 40لاکھ سے زائد افغانیوں نے نقل مکانی کر کے پناہ لے لی۔ ان میں سے بیشتر خیبر پختونخوا اور بلوچستان مہاجر کیمپوں میں آباد ہو گئے۔ اب افغانیوں کی تیسری نسل پاکستان میں آبا د ہے جس نے پاکستان میں ہی جنم لیا ہے اس نے افغانستان کو دیکھا تک نہیں۔ ان کے لیے افغانستان ایک اجنبی ملک ہے وہ اپنی مادری زبان ''دری'' تو بولتے ہیں لیکن جس روانی سے اردو ،پنجابی اور بلوچی بولتے ہیں ان پر غیر ملکی تارکین ہونے کاشائبہ تک نہیں ہوتا ۔حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود افغان تارکین وطن جنہیں ''مہاجرین'' کا سٹیٹس حاصل ہے۔ اپنے ملک واپس جانے کے لیے تیار نہیں۔ وفاقی حکومت ان تارکین وطن کی واپسی کے لیے بار بار ڈیڈ لائن مقرر کرتی ہے لیکن اسے ان کو اپنے وطن واپس بھجوانے میں کما حقہ کامیابی نہیں ہوئی۔ حال ہی میں حکومت پاکستان نے افغانستان کے مخصوص حالات کے پیش نظر '' مہاجرین ''کی واپسی کے لیے ڈیڈ لائن میں ایک سال کی توسیع کی ہے ایک اندازے کے مطابق پچھلے دو اڑھائی سالوں میںچند لاکھ افغانی واپس جا چکے ہیں لیکن وہاں کے سیاسی حالات کے پیش نظر افغانی کسی نہ کسی طریقے سے پاکستان واپس آجاتے ہیں۔ تمام تر سختی کے باوجود ان کی واپسی کا سلسلہ نہیں رکا، ویزا پر آنے والے بیشتر افغانی غائب ہو جاتے ہیں جنہیں ان کے ہم زبانوں کے ہاں پناہ مل جاتی ہے ۔ کچھ قبائل ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف آباد ہیں افغانستان سے قبائل با آسانی پاکستان میں اپنے رشتہ داروں کے پاس رہائش پذیر ہو جاتے ہیں ۔
خیبر پختونخوا میں افغان مہاجرین کے لیے حکومت پاکستان کے قائم کردہ کمشنریٹ کے مطابق پاکستان میں اندازاً 38لاکھ افغانی تارکین وطن مقیم ہیں جن میں سے 10لاکھ 34ہزار پی اوآر کارڈہولڈرز ہیں جو قانونی طور پاکستان میں مقیم ہیں جب کہ 6لاکھ 90ہزار افغان سٹیزن کارڈ ہو لڈر ہیں۔ باقی افغانی تارکین وطن کے پاس کوئی باقاعدہ دستاویز ات نہیں۔ اگرچہ پاکستان نے پی او آر کارڈ ہولڈرز کو کام کرنے ، بینک اکائونٹس کھولنے ، گھر کرایہ پر لینے اور موبائل سم کارڈ حاصل کرنے کی اجازت دے رکھی ہے لیکن یہ سہولت عملی طور پر بہت کم پی او آر کارڈ ہولڈرز کو حاصل ہوئی ہے۔ حکومت پاکستان نے 2007ء میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (NADRA) کے ذریعے افغان مہاجرین کو پی او آر کارڈز جاری کیے ہیں۔ وزارت ریاستیں و سرحدی اُمور گاہے بگاہے ان کارڈز کی مدت میں توسیع کرتی رہتی ہے ۔حکومت کے سخت اقدام کی وجہ سے کچھ افغان اپنا بوریا بستر باندھ کر اپنے ملک واپس چلے گئے ہیں لیکن ویزا حاصل کر کے دوبارہ پاکستان واپس آنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں تارکین وطن کی آڑ میں '' فتنہ الخوارج'' بھی پاکستان پہنچ جاتے ہیں جو ہمارے لیے امن و امان کا مسئلہ پیدا کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے افغان مہاجرین کی واپسی کے منصوبہ پر سختی سے عملدر آمد شروع کر دیتی ہے لیکن حالات معمول پر آنے کے بعد حکومت سست روی کا شکار ہو جاتی ہے جس سے تارکین وطن ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی جلسوں اور احتجاجی مظاہروں میں بھی بڑی تعداد میں افغان پکڑے گئے ہیں لہٰذا جن افغانیوں کی پاکستان پچھلے45سال سے میزبانی کر رہا ہے اب وہ ہر لحاظ سے پاکستان پر بوجھ بنتے جارہے ہیں۔ ستمبر2023میں وفاقی وزارت داخلہ نے ''غیر ملکیوں کی وطن واپسی کا منصوبہ''کے عنوان سے ایک دستاویز جاری کی۔ وزارت داخلہ کے ترجمان قادر یار ٹوانہ کے مطابق گذشتہ سال ستمبر سے افغان مہاجرین کی واپسی کے پہلے مرحلہ میں اب تک 7لاکھ 20ہزار افغان مہاجرین کی ''رضاکارانہ '' اور ''جبری'' واپسی ہوئی ہے۔ دوسرے مرحلے میں افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کی واپسی شامل ہے۔ اے سی سی کارڈز 2017ء میں پاکستان میں بغیر کاغذات کے رہنے والے افغانیوں کو جاری کیے گئے تھے۔ تیسرے اور آخری مرحلے میں پی او آر کارڈ ہولڈرز کی جبری واپسی شامل ہے۔ جو اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اتفاق رائے اور اقوام متحدہ کے ادارے UNHCRکنونشن کی تعمیل سے مشروط ہے ۔ حکومت پاکستان کی حتمی رائے ہے کہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی ، تشدد ، چوری اور ڈکیتی کی بیشتر وارداتوں میں افغان شہری ملوث پائے گئے ہیں۔ حالیہ خودکش دھماکوں کے ملزمان بھی افغان شہری نکلے ہیں۔ شنید ہے کہ حکومت پاکستان افغان تارکین وطن کی ملک بدری کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد کرنے سے قبل اے سی سی کارڈ ہو لڈرز کی پنا گاہوں اور تعداد بارے سروے کر رہی ہے پاکستان میں پی او آر کارڈ ہولڈرز کو پناہ گزین کا درجہ حاصل ہے۔ اگر ان کو جبری طورپر ملک بدر کیا جائے تو بین الاقوامی سطح پر قوانین آڑے آجاتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے انسانی حقوق کی تنظیمیں افغان مہاجرین کی جبری واپسی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، انہوں نے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کر رکھا ہے۔ پاکستانی حکام کا مؤقف ہے کہ کوئی ملک بھی اپنی سرزمین پر غیر ملکیوں کی غیر قانونی آمد اور موجودگی قبول نہیں کرسکتا۔ پاکستان نے غیر قانونی طور پرمقیم تارکین وطن کی واپسی کا حتمی فیصلہ کر رکھا ہے۔ لیکن پاکستان میں بھی کچھ سیاسی عناصر اپنے سیاسی عزائم کے لیے ان کی واپسی کی مخالفت کررہے ہیں۔ ادھر افغانستان کی عبوری حکومت بھی اپنے شہریوں کی واپسی خوش دلی سے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ 45سال سے پاکستان میں رہائش پذیر افراد کی جبری واپسی کی مخالفت کر رہی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت میں بھی حکومت مخالف عناصر مسلسل پاکستان آرہے ہیں۔ نگران حکومت کے دور میں پاکستان میں دہشت گردی کے24 واقعات رونما ہوئے جن میں سے14واقعات میں افغان شہری ملوث پائے گئے۔
ماضی میں طورخم اور چمن کی سرحد پر افغانی بغیرویزا پاکستان آتے رہے ہیں لیکن اب ویزے کی پابندی سے خاصی حد تک افغانیوں کی پاکستان آمد میں کمی آئی ہے۔ عام لوگوں کا تاثر ہے کہ افغانی پاکستانی معاشرت میں رچ بس گئے ہیں ان کی وجہ سے عام مزدور کے لیے روزگار کے مواقع کم ہو گئے ہیں ۔ افغانیوں کی وجہ سے غیرقانونی تجارت ، بلیک منی، کلاشنکوف کلچر اور اسمگلنگ کو فروغ حاصل ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق جنوری 2023ئکے بعد سے پاکستان اور ایران سے 15لاکھ کے لگ بھگ افغان مہاجرین اپنے وطن واپس بھجوائے گئے ہیں۔ افغانستان سے لوگوں کی پاکستان آمد کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ افغانستان میں لگ بھگ 48فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ حکومت پاکستان جس نے 45سال سے افغانیوں کی میزبانی کی ہے نے اب خود کش حملوں اور عسکریت پسندی میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کے ثبوت ملنے پر انہیں جبری طور پاکستان چھوڑنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز ، پولیس اور عوام دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ افغانستان پر روسی اور امریکی حملوں کے پاکستان کے امن و امان پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔کم و بیش ایک لاکھ پاکستانی شہری دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج اور سکیورٹی کے دیگر اداروں نے دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں پاک بھارت جنگوں سے زیادہ جانوں کی قربانیاں دیں۔ اس وقت بھی ہماری مسلح افواج دہشت گردوں سے نبرد آزما ہیں ۔ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان پر حملوں کے لیے افغان سرزمین اور ان کے شہریوں کو استعمال کر رہی ہے جسے روکنے کے لئے افغانیوں کی پاکستان میں بلا روک ٹوک آمد کو روکنا ضروری ہے۔ پاکستان صدیوں سے افغان مہاجرین کی میز بانی کر رہا ہے۔ یواین سی ایچ آر کی اقوام متحدہ مہاجرین ایجنسی کے مطابق پاکستان میں 21لاکھ دستاویزی افغان مہاجرین مقیم ہیں جس میں سے 13لاکھ وہ مہاجرین بھی شامل ہیں جن کے پاس 2006-07کی مردم شماری کے مطابق پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) موجود ہیں۔جب کہ 8لاکھ 80ہزار مہاجرین بھی شامل ہیں جنہیں 2017ء کی رجسٹریشن مہم کے تحت افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) جاری کیے گئے تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے اگست2021ء میں افغان حکومت پر طالبان کے قبضے کے بعد بڑی تعداد میں افغان شہریوں نے پاکستان کا رُخ کیا۔ ان کی تعداد6 سے8لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ پاکستان نے ملک بدری کے پہلے مرحلے کا آغاز گزشتہ سال نومبر میں کیا تھا جو اب بھی وقفے وقفے سے جاری ہے۔ بہر حال محفوظ پاکستان کے لیے قانونی و غیر قانونی تارکین وطن کی اپنے اپنے ممالک میں واپسی وقت کی ضرورت ہے ۔
مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔ ایک اخبار کے ساتھ بطورِ کالم نویس منسلک ہیں۔
[email protected]
تبصرے