پڑوسی ملک بھار ت میں آئے روز ہندو بالا دستی، اکھنڈ بھارت اور ہندو راشٹریہ جیسے مطالبات زور پکڑتے جا رہے ہیں۔2014 ء میں نریندر مودی کے بر سر اقتدار آنے کے بعدایسے اقدامات میں شدت دیکھنے کو ملی ہے جن میں مذہب کو بنیاد بنا کر بھارت میں بسنے والی اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ اب تو وہاں کے حکومتی اور سیاسی حلقے بھی مذہبی جنونیت کی ایک بھیانک تصویر پیش کرنے لگے ہیں۔ ہندوؤں کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کا یہ عالم ہے کہ ان سے اقلیتی اقوام سکھ ، عیسائی ، پارسی اور بالخصوص بھارت میں بسنے والے 21 کروڑ مسلمانوں کی جانیں ، عزتیں اور املاک محفوظ نہیں ہیں۔ مسلمانوں ، ان کی مقدس ہستیوں ، مذہبی شخصیات اور عبادت گاہوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔بھارت میں اسلام مخالف پروپیگنڈاتو دہائیوں سے چل رہاتھا، اب مسلم مخالف پالیسیوں،اقدامات اور اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال بھی بڑے پیمانے پر کیاجانے لگاہے۔ہندو، مسلمانوں کو بھارتی شہری ماننے کے لیے تیار ہیں،نہ انہیں بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں ۔حکومت کی ایما پرہونے والے یہ سب اقدامات ہندو بالادستی کو تسلیم کروانے کے لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ مودی کے اکھنڈ بھارت کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔اس طرح کروڑوں بھارتی مسلمان نریندر مودی کے اکھنڈبھارت اور مذہبی جنونیت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔
بھارت میں مذہبی جنونیت خطرناک صورتحال اختیار کرتی جا رہی ہے جس کا اس وقت مسلمانوں کوسب سے زیادہ سامنا ہے۔ مذہب کو بنیاد بنا کر اسلام اور اس کے ماننے والوں پر ایسے کڑے وار کیے جا رہے ہیں جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملے۔ان واقعات میں بابری مسجد کی شہادت اور اجمیر شریف درگاہ کا حالیہ تنازع شامل ہیں۔ اسی طرح کے کئی اور واقعات بھی میڈیا کی سرخیوں کی زینت بن چکے ہیں جنہیں محض اتفاق نہیں کہا جا سکتا۔ مثال کے طور پر 28 مئی 2023 ء کو نئی دہلی میں ہونے والا بھارتی پارلیمنٹ کا افتتاح اس سلسلے کی سب سے بڑی کڑی ہے جس میں اکھنڈ بھارت اور ہندو مذہب کی بالادستی کا کھلم کھلا پرچار کیا گیا ہے۔یہ عمارت 7.9 ارب بھارتی روپوں کی لاگت سے تیار کی گئی ہے۔ عمارت کی اندرونی دیوار پرموریا سلطنت کے تیسرے اور آخری حکمران اشوک کی راجدھانی کا نقشہ بنوایاگیا۔مہاراجہ اشوک چندر گپت موریا کا پوتا تھا جس کا دارالسلطنت ٹیکسلہ268قبل مسیح تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اشوک نے حصولِ اقتدار کی خاطر اپنے کئی بھائیوں کو قتل کروایا ۔ اسی طرح اس نے اڑیسہ کو فتح کرنے کے لیے 3سال تک مسلسل جنگ کی۔ اس جنگ میں ہزاروں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔جنگ ختم ہوئی تو اشوک ہندو مذہب سے دست بردار ہو کر بدھ مت کا پیروکار ہو گیا۔ ہندو اسے اشوک اعظم کے نام سے پکارتے ہیں اور اس کی پیروی کرتے ہیں۔
بابری مسجد کی شہادت اور رام مندر کی تعمیر
اگر مذہبی جنونیت کے واقعات پر نظر ڈالی جائے توان میںسے ایک بڑا واقعہ بابری مسجد کی شہادت اور وہاں رام مندر کی تعمیر ہے۔مسلمانوں اورہندوؤں کے درمیان یہ تنازعہ 1949ء میں شروع ہوا جس میں کئی اہم موڑ آئے مگر اس کا کوئی حتمی فیصلہ نہ ہو سکا۔ 5 اگست 2020 ء کو نریندر مودی نے بابری مسجد کے مقام پر رام مندرکا سنگ بنیاد رکھ دیا جس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی۔22 جنوری 2024 ء کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں منعقد ہونے والی ایک بڑی تقریب میں اس کا باقاعدہ افتتاح کر دیا۔ اس طرح تاریخی بابری مسجد جوظہیرالدین محمد بابر نے بنوائی تھی، بزور قوت ایک مندر میں تبدیل کر دی گئی ۔ اس طرح طاقت کے بل بوتے پر مسلمانوں کو یہ باور کرایا کہ بھارت میں مسلمانوں کی مذہبی روایات کی کوئی وقعت نہیں ہے۔
بلاشبہ یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش اور منصوبے کا حصہ ہے کیونکہ بھارت میں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی ہندو تنظیمیں مساجد کو مسمار کرنے اور مسلمان مخالف جذبات کو بھڑکانے کے لیے قائم کی گئی ہیں۔یہ تنظیمیں مسلمانوں کی کسی ایک عبادت گاہ یا مقدس عمارت کو نشانہ بناتی ہیں۔ اس کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کرتی ہیں اور پھر آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا کے ذریعے اس عمارت کا سروے کروانے کی درخواست دیتی ہیں جس میں یہ مؤقف اپنایا جاتا ہے کہ یہ عمارت کسی قدیم مندرکو مسمار کر کے تعمیر کی گئی تھی۔ سروے اور کھدائی کے دوران وہاں سے کچھ فرضی باقیات تلاش کر لی جاتی ہیں۔ پھر اسے میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا کر مسلم دشمنی کو ہوا دی جاتی ہے۔اس ساری کارروائی کا انجام عدالت کے کسی فیصلے پر منتج ہوتا ہے جس میں ہمیشہ مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی بابری مسجد کے ساتھ ہوا اور اب اسی ڈگر پر چل کر دیگر مساجد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اس طرح بھارتی شدت پسند تنظیمیں ایک جگہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے بعداگلے ہدف کے لیے تیار رہتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بابری مسجد کا واقعہ صرف ابتدا تھی، اس کے فوری بعد گیان واپی مسجد کے تنازع نے سر اٹھالیا۔
گیان واپی مسجد کا تنازعہ
یہ مسجد بھارت کے ایک مشہور شہر بنارس میں واقع ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسے سولہویں صدی میں تعمیر کیا گیاتھا۔ مسجد کے خدوخال اور بنیادی ڈھانچے پر نظر ڈالی جائے تودیکھا جا سکتا ہے کہ اس کی ایک دیوار وشوناتھ مندرسے ملتی ہے جو اس وقت ہندوؤں کی ایک عظیم عبادت گاہ تھی۔اسی نقطے کو بنیاد بنا کر بھارتیہ جنتا پارٹی نے حال ہی میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ گیان واپی مسجد دراصل وشو ناتھ مندر کی جگہ تعمیر کی گئی ہے۔ہندو رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس مندر کو 1669 ء میں چھٹے مغل بادشاہ اورنگزیب کے حکم پر جزوی طور پر منہدم کر کے مسجد کی تعمیر و توسیع کی گئی۔اس طرح گیان واپی مسجد دراصل وشو ناتھ مندر کا حصہ ہے جسے اب دوبارہ مندر میں تبدیل کر دیا جانا چاہیے۔ یہ تنازع کافی عرصہ موجود رہا اور شدت اختیار کرتا گیا تا حتیٰ کہ دسمبر 2023 ء میںبنارس کی ایک عدالت نے اس مسجد کے تہہ خانے میں ہندوؤں کو پوجا کرنے کی اجازت دے دی۔
متھرا کی شاہی عید گاہ مسجد
یہ تنازعہ بھی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کافی عرصے سے کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے۔ متھرا، شمالی ہند کی مشہور ریاست اتر پردیش کا ایک اہم شہر ہے۔ اسے متھورا بھی کہا جاتا ہے۔یہ شہرآگرہ سے تقریباً 50 کلومیٹرکی دوری پر شمالی حصے میں واقع ہے۔ہندو عقائد اور روایات کے مطابق ان کے مقدس مذہبی رہنما شری کرشنا اسی شہر میں پیدا ہوئے۔ مسلمانوں کی شاہی عید گاہ بھی یہیں موجود ہے جس کی زمین پر اب ہندو دعویٰ کر رہے ہیں۔یہ تنازع 37.13ایکڑ اراضی پر ملکیتی حقوق سے متعلق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 12 اکتوبر 1968 ء کو شری کرشنا جنم استھان سیوا سنستھان نے شاہی عیدگاہ مسجد ٹرسٹ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس میں اس زمین پر مندر اور مسجد ،دونوں بنانے کی بات کی گئی تھی۔ بعد ازاں وہاں دونوں عبادت گاہیں تعمیرکی گئیں۔موجودہ صورت حال میں شری کرشنا جنم استھان کے پاس 9.10ایکڑ اراضی کے مالکانہ حقوق جبکہ شاہی عیدگاہ مسجد کے پاس5.2 ایکڑ اراضی کے مالکانہ حقوق ہیں۔یہ شاہی عیدگاہ شری کرشن جنم بھومی کے قریب واقع ہے۔ اسی بنیاد پر ہندومذہبی رہنماؤں کی طرف سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ شاہی عیدگاہ مسجد، مندر کی زمین پر واقع ہے، لہٰذااسے منہدم کر کے زمین مندر کے حوالے کی جائے۔بظاہر اس تنازعے میں کوئی حقیقت نظر نہیں آتی ،لیکن چونکہ یہ سب ایک بڑے منصوبے کی کڑی ہے لہٰذاہندو اسے ہوا دے کر مسلمانوں کو زِک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس طرح بابری مسجد کے بعد وہ پے در پے وار کر کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کر رہے ہیں۔ اس تنازعہ پر کم و بیش 15 مقدمات ابھی بھی زیر التوا ہیں تاہم گزشتہ ماہ بھارتی ہائی کورٹ مسلمانوں کے مؤقف کے خلاف اپنا فیصلہ دے چکی ہے جو اب سپریم کورٹ میں زیر التواہے۔
مسجد کمال مولا
مسجد کمال مولا مدھیا پردیش کے وسط میں واقع ہے اور اس کے برابر میں بھوج شالا(سرسوتی کا مندر)موجود ہے۔ ہندو اس مسجد پر بھی دعوی کر رہے ہیں کہ یہ بھوج شالا کی زمین پر تعمیرکی گئی ہے ۔ اس حوالے سے فریقین کے درمیان کافی عرصے سے تنازع چل رہا تھا۔ بھوج شالا کا نام راجہ بھوج کے نام پر رکھا گیا تھا۔یہ عمارت ہندوؤں کے لیے ایک یادگار کی حیثیت رکھتی ہے جسے آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا نے اب تک باقی رہنے والی دیگر عمارتوں میں محفوظ عمارت قرار دیا ہے۔اب ہندو چاہتے ہیں کہ مسجد کمال مولا کو منہدم کر کے پوری عمارت ان کے حوالے کر دی جائے۔
مسجد اکھونجی کا انہدام
فروری 2024 ء میں ہونے والا یہ ایک انتہائی دلسوز اور افسوسناک واقعہ تھا جس میں متعصب اور شدت پسند ہندوؤں نے تاریخی اکھونجی مسجد کو شہید کر دیااور اس سے ملحقہ قبروں کی بے حرمتی بھی کی۔ اکھونجی مسجد کی تاریخی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ نئی دہلی میں واقع ہے اور لگ بھگ 600 سال پرانی ہے۔
اجمیر شریف درگاہ کا تنازع
درگاہ اجمیر شریف برصغیر کے معروف صوفی بزرگ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی آخری آرام گاہ ہے جو اجمیر، راجستھان میں تراغ کے پہاڑی سلسلے کے قریب واقع ہے۔ اِسے درگاہ خواجہ غریب نواز بھی کہا جاتا ہے۔مزار کے قریب سفید سنگ مرمر سے دو عمارتیں بنائی گئی ہیں جن کے دو بھاری بھرکم دروازے نظام حیدرآباد دکن نے عطیہ کیے تھے ۔ مزار سے ملحق اکبری مسجد، مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے تعمیر کروائی تھی۔ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر اپنی اہلیہ کے ساتھ ہر سال درگاہ پر حاضری دیتے تھے ۔ ایک اندازے کے مطابق اس درگاہ پرروزانہ ایک لاکھ سے زائد عقیدت مند حاضری دیتے اور روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔ متعصب ہندوؤں نے اس تاریخی اور مذہبی مقام کو بھی نہیں چھوڑا۔ ہندوتوا تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ درگاہ اجمیر شریف کسی زمانے میں ہندوؤں کا ایک مقدس مندر ہوا کرتی تھی جو بعد میں مندر کو گراکر بنائی گئی تھی۔
اگر اس سارے منظرنامے پر غور کیا جائے تواس میں ایک بات مشترک نظر آتی ہے کہ ان عبادت گاہوں کو منہدم کرنے اور ہتھیانے کے لیے ایک ہی حکمت عملی اور بیانیہ اپنایا گیا۔ ہر تنازعے میں ہندوؤں کا مدعا ایک ہی ہے کہ وہاں کسی دور میں ان کی مذہبی عبادت گاہیں ہوا کرتی تھیں جنہیں بعد میں مسلم ادوار حکومت میں مسمار کر کے مساجد تعمیر کر لی گئیں حالانکہ ہندوستان کی تاریخ شاہد ہے کہ مسلم سلاطین نے دیگر مذاہب کے خلاف ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ انہوں نے تو ہندوستان میں تاریخی عمارات تعمیر کروائیں اور دیگر مذاہب پر کوئی پابندی روا نہیں رکھی۔ ان کے دور حکومت میں اقلیتوں خاص طور پر ہندوؤں کو تمام بنیادی حقوق حاصل تھے۔
بھارتی آئین میں پلیسز آف ورشپ ایکٹ یعنی عبادت گاہوںکے قانون کا تذکرہ ملتا ہے جو تقسیم ہند کے بعد1991 ء میں بھارتی آئین کا حصہ بنا ۔ آئین میں درج ہے کہ اس قانون کی قانونی حیثیت تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ قانون کی رو سے کسی عبادت گاہ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے ، نہ اسے منہدم کر کے اس پر کوئی اور عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے۔بابری مسجد کے بعد گیان واپی مسجد اورمسجد اکھونجی کے انہدام جیسے کئی واقعات ثابت کرتے ہیں کہ بھارت میں قانون صرف اقلیتوں کے لیے ہے۔
مذہبی جنونیت کا یہ کھیل انتہائی بھیانک اور خطرناک ہے جو بھارت کو طبقاتی تقسیم کی طرف لے جا رہا ہے۔ بعض ہندو رہنمااس امر کا برملا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ بھارت میں موجود 40 مقدس مقامات کو بہت جلدبدل کر مندربنا دیں گے۔ہندو تنظیموں کی فہرست میں جو مسلم عمارتیں اور عبادت گاہیں شامل ہیں، ان میں دلی کا لال قلعہ، قطب مینار، پرانا قلعہ، دہلی کی جامع مسجد اور آگرہ کا تاج محل بھی شامل ہیں۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے اس طرح کے عزائم اب مکمل طور پر آشکار ہو گئے ہیں ۔ اگر یہی روش رہی تو خطے میں امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ دنیا کا کوئی مذہب قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ دیگر مذاہب کی مقدس عمارتوں یا عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا جائے۔ بلاشبہ یہ ایک سنگین عمل ہے جس کا بھارت بار با رمرتکب ہو رہا ہے۔ مودی مخالف پالیسیوں پر قابو پانے کے لیے علاقائی قوتوں سمیت عالمی دنیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ یہی خطے میں پائیدار امن او ر سلامتی قائم کرنے کی کنجی ہے۔
مضمون نگار شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے