ہر دور میں حق کا راستہ پُرخار رہا ہے۔ جان ہتھیلی پر رکھ کے راہِ خدا میں لشکر باطل سے ٹکرانا ایسے جان بازوں کا کام ہے جنھوں نے راہِ وفا میں کچھ کر دکھانے کی ٹھان لی ہو۔اُمت مسلمہ کا دامن ایسے شیروں سے کبھی خالی نہیں رہا۔ تاریخ کے اوراق گواہی دیتے ہیں کہ معرکہ بدر و حنین ہو ، برصغیر میں قیامِ پاکستان سے قبل 1857ء کی جنگ آزادی ہو، قیام پاکستان کی جدوجہد ہویا65 کا معرکہ ہو ،مسلمان بیٹوں نے ہمیشہ قوم و ملت کی حفاظت جان پر کھیل کر کی ہے ۔حال ہی میں حماس کے قائد یحییٰ سنوار نے اسرائیل کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے مقابلے میں عام سی لکڑی کے ہتھیار کے ساتھ جان کی بازی لگا کے شہادت حاصل کی اور دنیا کو بتادیا کہ' مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی، اقوام عالم کے درمیان ،فلسطین کا معاملہ اس لیے ممتاز حیثیت رکھتا ہے کہ یہ جنگ دو قوموں کے درمیان محض زمین کی لڑائی نہیں ہے بلکہ ایمان اور عقیدے کا ٹکرا ئو،زندگی و موت کی کشمکش اور شہادت کا نصب العین ہے ، بیت المقدس خانہ خدا کی حرمت کا مسئلہ ہے ،اسلام دشمن ممالک نے مل کر اُمتِ مسلمہ کی غیرت کو چیلنج کیا ہے۔اس جدید دور میں بھاری اسلحہ بارود اور کیمیائی ہتھیاروں کے ساتھ لاکھوں انسانوں ( جن میں زیادہ تعداد معصوم بچوں کی ہے )کو موت کی نیند سلایا جارہا ہے اور عالمی برادری اس قتل عام کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے۔یہ انسانیت کی موت ہے۔ قیامت سے قبل قیامت کا سماں ہے۔اسرائیل نے نہ صرف فلسطینی مسلمانوں کی زمین جائیدادیں اور مسجد اقصیٰ کو چھینا ہے بلکہ وہ گولہ بارود کا سر عام استعمال کرکے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔جتنا بارود(تقریبا ً 78 ہزار ٹن)ایک سال کے دوران ارض مقدس پر گرایا گیا ہے وہ بحیثیت مجموعی دو عالمی جنگوں کے دوران گرائے جانے والے بارود سے بھی زیادہ ہے جس نے زیتون ،کھجوروں اور شہد کی سرزمین فلسطین کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے۔ ہزاروں شہری زخمی ہیں یا ملبے تلے دبے ہوئے ہیں،لاکھوں لوگ شہید ہوچکے ہیں۔ہزاروں خیموں اور کپڑے سے بنے جھونپڑوں میں مقیم ہیں ۔اس پر مستزاد سردی کی شدت ہے۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بمباری کے بعد آبادی کو رفح بارڈر کی طرف نقلِ مکانی پر مجبور کیا گیا ۔ایک رپورٹ کے مطابق بیس لاکھ سے زائد آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ،بے سروسامانی کی حالت میں میلوں کا سفر طے کرکے رفح بارڈر پر پہنچے ۔ یہاں مصر کی جانب سے بلند و بالا آہنی دیواریں تعمیر کی گئی ہیں تاکہ کوئی فلسطینی شہری اپنی جان بچانے کے لیے ملک میں داخل نہ ہوسکے۔ مسلمان ممالک کے عوام جو غذا ،طبی امداد اور اشیائے ضروریہ کے ٹرک بھیجتے ہیں وہ کئی کئی ہفتے یہاں بارڈر پر قطاروں کی صورت میں کھڑے رہتے ہیں اور بہت مشکل سے کسی امدادی ٹرک کو رفح میں داخل ہونے کی اجازت ملتی ہے۔لاکھوں کی آبادی کے پاس موسم کی شدت سے بچائو کے لیے مناسب لباس موجود نہیں ، کپڑے کے خیمے ہوا،بارش اور سردی سے بچائو نہیں کرسکتے۔ بچے بیمار ہورہے ہیں ،زخمیوں کے زخم خراب ہورہے ہیں۔ہسپتالوں پر بمباری کرکے تباہ کردیا گیا ہے۔'وائس آف القدس' کے مطابق اس وقت زخمیوں کی تعداد 102,765 سے زائد ہوچکی ہے۔ کھانا پکانے کے لیے ایندھن میسر نہیں ہے۔ کاغذات ،لکڑیوں اور ٹوٹے ہوئے گھروں کا سامان جلا کے وہ بمشکل آگ کا بندوبست کرتے ہیں۔قابض افواج کی اندھا دھند شیلنگ نے درختوں اور فصلوں تک کو جلا ڈالا ہے ۔ خوراک اور اناج کی قلت نے قحط کی صورت حال پیدا کردی ہے۔کئی شیر خوار بچے مائو ں کی گود میں جان کی بازی ہار گئے ہیں۔اسرائیل،فلسطینی شہری آبادی پر 'قحط ' کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔اقوامِ متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن ( FAO ) کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بیتھ بچڈول نے متنبہ کیا ہے کہ ہمیں شدید بھوک اور غذائیت کی کمی کو پورا کرنے کے لیے فوری طور پر کام کرنا چاہیے۔ اقوامِ متحدہ کے ایک سروے کے مطابق غزہ کے 345,000 شہریوں کو اس موسم سرما میں تباہ کن قحط کا سامنا ہے۔( بحوالہ urdu.alarabia. net)۔
مزید برآں ،اقوام متحدہ کے ادارے UNRWA نے بھی سردی کی شدت میں غزہ کی آبادی کو درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالی ہے ۔ قحط اور بھوک کے پھیلا ئوکے پیش نظر، انروا نے مطالبہ کیا کہ پناہ گزین کیمپوں پر اسرائیلی حملوں کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ نیز انسانی بنیادوں پر سامان کی فراہمی کی اجازت کے ساتھ سرحدی گزرگاہوں کو بھی کھولا جائے !
( بحوالہ urdu.palinfo.com)
ایک فلسطینی خاتون 'ام منال ' نے میڈیا کو بتایا کہ ان کے شوہر یومیہ اُجرت پر کام کرتے تھے مگر اسرائیلی بمباری میں وہ اور ان کے پانچ بچے شہید ہوچکے ہیں.اب کوئی نہیں ہے جو ان کے لیے خوراک کا بندوبست کرے۔ وہ پناہ کی تلاش میں 'الزویدہ' قصبے کی طرف گئیں اور وہاں موسم گرما ،کھلے آسمان تلے گزارا ۔ وہ نہیں جانتیں کہ اب موسم سرما کی راتوں اور بارش میں ایک چھوٹا سا خیمہ بھی کیسے بنائیں ؟۔
( بحوالہ urdu.palinfo.com.)
غزہ کے سرکاری میڈیا کے مطابق ایک سال پہلے ملنے والے خیمے اب بہت خستہ حالت میں ہیں اور ناقابلِ استعمال ہوچکے ہیں۔
فلسطین کے ایک مجاہد نے دارالافتا سے عجیب سوال کیا !
السلام علیکم! میری ٹانگیں سخت تھکاوٹ اور مشقت کی وجہ سے سوجی ہوئی ہیں اور بہت زیادہ کھڑے رہنے سے میرے پائوں کے جوڑوں میں درد ہوتا ہے، اس لیے میں درد کی وجہ سے اپنے جوتے نہیں اتار سکتا اور اگر اتاروں تو میں ان کو پہن نہیں سکتا، کیونکہ ان سے خون بہتا ہے... اور بعض اوقات درد کی شدت کی وجہ سے آنسو نکل آتے ہیں اور رات کو سردی سے میرے ہاتھ پھٹ جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مجھے نماز کے دوران خاص طور پر فجرکی نمازمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیا میں وضو کے بجائے تیمم کر سکتا ہوں؟ واضح رہے کہ پانی زخموں کو خراب کر دیتا ہے، اور اگر پانی ہمیں دستیاب ہوتا تو ہم اسے پیتے!!
مفتی صاحب نے جواب دیا:
میری جان آپ کے قدموں پر قربان،
میرے بھائی! ہمارے لیے کیا ہی افسوس ہے، ہم ساری رات نرم بستر پر، نرم، گرم پائوں کے ساتھ سوتے ہیں، اور صبح کی نماز ادا کرنے کے لیے سکون سے اٹھتے ہیں جب کہ ہم کسی آزمائش میں مبتلا بھی نہیں ہیں ۔
اگر آپ جیسا کوئی مجاہد محصور ہو، تھکا ہوا ہو اور لڑتے لڑتے تھک گیا ہو اور اکثر بھوک، پیاس اور سردی سے دوچار ہو اور درج بالا سوال پوچھے تو ہم کیا کہیں گے؟!!
للہ المشتکی ولاحول ولاقو الاباللہ.. تیمم کرلیجیے.. اے امت کی آنکھ کے تارے اور علما اورآئمہ کے سروں کے تاج! تیمم کرلیجے میرے محبوب! (عربی سے ترجمہ)
غزہ میں انسانیت کو لاحق المیہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ اس وقت سسکتی جانوں کو سردی اور قحط سے بچانے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگرچہ انسانی حقوق کی چند تنظیمیں ،ترکی کی حیرات فائونڈیشن ،حکومت پاکستان کی امداد، ،پاکستان آرمی ،جماعت اسلامی کی الخدمت فائونڈیشن ،اسلامک ریلیف پاکستان ،ہلال احمر کے علاوہ یورپی ممالک کے چند فلاحی ادارے بھی فلسطینیوں کی دادرسی کے لیے کوشاں ہیں مگر یہ کوششیں ناکافی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آسمان سے جہازوں کے ذریعے خوراک اور جان بچانے کاسامان پیراشوٹ کے ذریعے نیچے آبادی تک پہنچایا جائے۔سمندری راستوں سے فلوٹیلا بھیج کر خیمے ،ترپال ،گرم کپڑے،بستر ،کمبل ،طبی امداد وغیرہ بھیجی جائے۔ ( اگر اسرائیل نے سب اخلاقی و عالمی جنگی قوانین توڑ دئیے ہیں تو مسلمان کن قوانین کو لے کر خاموش بیٹھے ہیں ؟)عالمی برادری انسانیت کے ناتے بمباری روکنے کے لیے اسرائیل پر دبا ڈالے کیوں کہ جب تک یہ وحشیانہ بمباری روکی نہیں جاتی ،بربادی کا لامتناہی سلسلہ بھی نہیں رک سکتا ۔مسلمان ممالک کے سفیر حکومت مصر سے مذاکرات کریں ،زخمیوں اور حاملہ خواتین کو رفح بارڈر سے باہر نکال کر مصر کے ہسپتالوں تک پہنچایا جائے۔جس نے ایک انسان کی جان بچائی ،اس نے گویا ساری انسانیت کو بچایا !
آگ ہے ،اولاد ابراہیم ہے ،نمرود ہے
کیا پھر کسی کو کسی کا امتحاں مقصود ہے!
مضمون نگار قومی، عالمی اور اُمور سے متعلق موضوعات پر لکھتی ہیں۔
تبصرے