حالیہ برسوں میں بھارت اور کینیڈا کے تعلقات شدید تنائو، اختلافات اور سردمہری کا شکار ہیں جنہوں نے عالمی دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے۔ خاص طور پر بھارت کی جانب سے کینیڈا میں سکھ برادری کے خلاف کارروائیاں، سائبر حملے اور جاسوسی کی سرگرمیوں نے ان تعلقات میں مزید مشکلات پیدا کردی ہیں۔ کینیڈا میں سکھ برادری، جو بھارت میں اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرتی رہی ہے، ان کو بھارتی حکومت کے دبائو کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنے بیانات میں سکھ کارکنان پر بھارتی دبائو کو "غیر مناسب" قرار دیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔
ٹروڈو کا کہنا ہے کہ، ''کینیڈا اپنے شہریوں کے حقوق کے لیے کھڑا رہے گا اور بیرونی مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔''انہوں نے سکھ کمیونٹی کے حوالے سے بھارت کی مداخلت کو کینیڈا کی خود مختاری کے خلاف قرار دیا۔
حال ہی میں کینیڈا کی نیشنل سائبر تھریٹ اسسمنٹ 2025-26کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت نے کینیڈا میں اپنے سیاسی مخالفین، خاص طور پر سکھ برادری کے ارکان کے خلاف سائبر حملے اور جاسوسی کی کارروائیاں انجام دی ہیں۔ بھارت کی سرپرستی میں کام کرنے والے ہیکنگ گروپوں نے نہ صرف کینیڈا کی سرکاری بلکہ اہم قومی و عسکری ویب سائٹس، جیسے کینیڈین مسلح افواج کی ویب سائٹس پر بھی متعدد سائبر حملے کیے ہیں۔اس رپورٹ میں بھارت پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو خاموش کرنے اور ان پر نظر رکھنے کے لیے سائبر ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہا ہے جس کا مقصد کینیڈا میں بھارت کے حوالے سے چلنے والی تمام مخالف آوازوں کو دبانا ہے۔
کینیڈا کی کمیونیکیشن سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی سربراہ، نے اس رپورٹ کے حوالے سے بیان دیا ہے کہ بھارت کو ایک نئے سائبر خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے،جو بیرون ملک مقیم بھارتی مخالف کارکنان کی نگرانی اور جاسوسی کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی یہ کارروائیاں نہ صرف کینیڈا بلکہ بین الاقوامی سطح پر خطرناک اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔
کینیڈا میں مقیم سکھ برادری کی بھارت کے ساتھ تاریخ بہت پیچیدہ رہی ہے۔ بھارت میں 1984 ء میں سکھوں کے خلاف ہونے والے فسادات کے بعد، جہاں ہزاروں سکھوں کو ہلاک کر دیا گیا، سکھوں نے بھارت کی مرکزی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کی۔ اس واقعے کے بعد سے سکھ برادری نے بھارت کے خلاف سیاسی اور سماجی طور پر احتجاج جاری رکھا ہے، جس کے نتیجے میں بھارت کی حکومت نے سکھوں کو "مخالف" اور "انتہا پسند" کے طور پر دیکھا۔
کینیڈا میں سکھ برادری کی تعداد تقریباً 700,000 کے قریب ہے، اور یہ برادری بھارتی حکومت کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہے۔ بھارت نے بار بار کینیڈا پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ کینیڈا بھارت مخالف سکھ تنظیموں کو پناہ دے رہا ہے جو بھارت میں علیحدگی پسند تحریکوں کے لیے کام کر رہی ہیں۔ اس تنازعے کا ایک نیا پہلو اس وقت سامنے آیا جب بھارتی حکومت نے سکھ رہنمائوں اور کارکنوں کو نشانہ بنانے کے لیے مختلف قسم کے دباؤ اور ہراسانی کی پالیسی اختیار کی۔
بھارت کی طرف سے اپنی مخالف آوازوں کے خلاف جاسوسی کی پالیسی پر عالمی سطح پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ بھارت نے کئی بار 'پیگاسس 'جیسے سپائیویئر کا استعمال کیا ہے، جو ایک طاقتور جاسوسی ٹول ہے اور اس کا مقصد نہ صرف بھارت بلکہ عالمی سطح پر اپنے مخالفین کی نگرانی کرنا ہے۔ کینیڈا کے سائبر سکیورٹی سینٹر کی رپورٹ کے مطابق، بھارت نے اس سپائیویئر کو کینیڈا کے سکھ رہنمائوں اور دیگر شہریوں کے خلاف استعمال کیا۔ بھارت کا یہ اقدام نہ صرف کینیڈا بلکہ عالمی سطح پر اس کی ساکھ کے لیے ایک دھچکا ثابت ہو رہا ہے۔
پیگاسس سپائیویئر کو 2019 ء میں بھارت نے 1500 سے زیادہ سیاستدانوں، صحافیوں اور سماجی کارکنوں کی جاسوسی کے لیے استعمال کیا تھا۔ کینیڈین سینٹر فار سائبر سکیورٹی کی رپورٹ میں بھی پیگاسس کا حوالہ دیا گیا ہے، اور اس نے بھارت کو ایک بڑے سائبر خطرے کے طور پر دیکھا ہے۔ کیرولین زیویئر، کینیڈا کی کمیونیکیشن سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی سربراہ نے کہا کہ "بھارت بیرون ملک اپنے مخالفین پر قابو پانے کے لیے جدید سائبر ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہا ہے۔"
امریکہ کے سابق قومی سلامتی مشیر جان بولٹن نے بھی بھارت کے سائبر حملوں کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ بھارت نے سائبر حملوں کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر اپنے مخالفین کو نشانہ بنانے کی ایک نئی سطح کو عبور کیا ہے۔ اس حوالے سے ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارت نے پیگاسس سپائیویئر کا استعمال کر کے عالمی سطح پر اپنے شراکت داروں کے ساتھ سکیورٹی خطرات پیدا کیے ہیں، جو مستقبل میں بھارت کے تعلقات پر منفی اثرات ڈال سکتے ہیں۔
بھارت کی اندرونی پالیسیوں پر عالمی سطح پر تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر اقلیتی گروپوں، جیسے سکھوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف حکومت کی پالیسیوں کے حوالے سے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹس میں بھارت میں اقلیتی گروپوں کے حقوق کی پامالیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔بھارت کے اندر اقلیتی حقوق کی پامالی کے حوالے سے یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے بار بار بھارت کی پالیسیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ظلم و ستم:
بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار مودی حکومت کی شدت پسندی کو ثابت کرتے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (NCRB) کی رپورٹ کے مطابق 2014 ء سے2023ء تک1200 سے زیادہ ایسے واقعات پیش آئے جن میں مسلمانوں اور سکھوں کو نشانہ بنایا گیا۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار مودی حکومت کی اقلیتوں کے خلاف شدت پسندی کو عیاں کرتے ہیں۔
بھارتی پارلیمنٹ کے متعدد اپوزیشن ارکان نے بھی مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کر رہے ہیں۔ راہول گاندھی نے ایک حالیہ بیان میں کہا، "مودی سرکار کی پالیسیاں بھارت کو ایک ایسی ریاست میں تبدیل کر رہی ہیں جہاں اقلیتوں کے لیے محفوظ جگہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ پالیسیاں ہمارے ملک کے لیے نقصان دہ ہیں۔"
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھارت کے خلاف سخت مؤقف اپنایا ہے۔ ٹروڈو نے بھارتی حکومت کو خبردار کیا کہ کینیڈا اپنی خودمختاری اور شہریوں کی حفاظت کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ ٹروڈو نے کہا، "ہم بھارت کی جانب سے کینیڈا کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو برداشت نہیں کریں گے، اور بھارت کو جوابدہ ٹھہرائیں گے۔" کینیڈا میں اپوزیشن رہنما، خاص طور پر جگمیت سنگھ، نے بھارت کی حکومت پر شدید تنقید کی اور اسے "انتہاپسند" حکومت قرار دیا اور کہا کہ "مودی سرکار بھارت کو ایک ایسے راستے پر لے جا رہی ہے جہاں جمہوریت کے اصولوں کا مذاق بنایا جا رہا ہے اور اقلیتوں کے حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔'' ان بیانات نے بھارت اور کینیڈا کے درمیان اختلافات کو مزید شدت دی۔
بھارت کی حکومت سکھ برادری اور کینیڈا کے دیگر شہریوں کے خلاف اپنے اقدامات کو درست قرار دیتی ہے، لیکن کینیڈا کی حکومت ان اقدامات کو "غیر جمہوری" اور "نظریاتی جبر" کے طور پر دیکھتی ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں یہ سردمہری اور تنا ئو صرف دونوں کے سفارتی تعلقات کو متاثر کررہا ہے ۔
بھارت اور کینیڈا کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کے باعث کینیڈا میں بھارت کے سفارت خانے کی کارروائیاں بھی متاثر ہوئی ہیں، جس سے کینیڈا میں امیگریشن کے معاملات میں تاخیر ہوئی ہے۔ بھارت میں کینیڈین امیگریشن اسٹاف کی تعداد کم ہو کر چار رہ گئی ہے، جس سے ویزہ پروسیسنگ میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
امیگریشن کے وزیر مارک ملر نے بیان دیا کہ اس صورت حال سے کینیڈا کی سائٹ پر ویزا پراسیس کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے اور کینیڈا آنے والے عارضی غیر ملکی کارکنوں اور بین الاقوامی طلباء کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں۔
جبکہ کینیڈا نے اکتوبر کے اوائل میں سکھ علیحدگی پسندتحریکوں کو دبانے کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ردِعمل میں چھ انڈین سفارت کاروں کو بھی ملک بدر کیا تھا۔ کینیڈا کی حکومت کا کہنا تھا کہ بھارت کے سفارتکاروں کی سرگرمیاں کینیڈا کی خودمختاری اور اس کے شہریوں کے حقوق کے خلاف تھیں اورکینیڈا کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن رہی تھیں۔
کینیڈا کے نائب وزیر خارجہ ڈیوڈ موریسن نے کہا تھا کہ بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ کے سکھوں کے خلاف تشدد کی منصوبہ بندی کرنے کے حوالے سے شواہد سامنے آئے ہیں، جس سے بھارت کی حکومت کے سکیورٹی معاملات پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ کینیڈا کی حکومت نے اس پر بھی اعتراض کیا کہ بھارت اپنی مداخلت کو بڑھا رہا ہے اور دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کر رہا ہے۔
یہی نہیں بلکہ بھارت کی جارحانہ پالیسیاں نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا بھر میں اس کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ بھارت کے خلاف یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی پالیسیاں تبدیل کرے اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔ اسی طرح، امریکا اور برطانیہ نے بھی بھارت کے اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کینیڈا اور بھارت کے تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی عالمی سطح پر ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی سفارتی کشمکش، سائبر حملوں اور سکھ برادری کے خلاف کارروائیوں نے ان تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کا سخت مؤقف اور عالمی سطح پر بھارت کی پالیسیوں پر ہونے والی تنقید اس بات کی غماز ہے کہ بھارت کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ عالمی برادری کا مطالبہ ہے کہ بھارت دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کو روکے اور اقلیتی حقوق کی حفاظت کرے تاکہ عالمی تعلقات میں کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔
مستقبل میں بھارت کے تعلقات کینیڈا کے ساتھ بہتر ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے بھارت کو اپنے داخلی مسائل اور عالمی سطح پر اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنا ہوگی۔
مضمون نگار معروف صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔
[email protected]
تبصرے