اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 11:08
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد پُر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد بھارت میں اقلیتوں پر ظلم: ایک جمہوری ملک کا گرتا ہوا پردہ ریاستِ پاکستان اورجدوجہد ِکشمیر 2025 ۔پاکستان کو درپیش چیلنجز اور کائونٹر اسٹریٹجی  پیام صبح   دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار شہید ہرنائی سی پیک 2025۔امکانات وتوقعات ذہن سازی ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل کلائمیٹ چینج اور درپیش چیلنجز بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبے ففتھ جنریشن وار سوچ بدلو - مثبت سوچ کی طاقت بلوچستان میں سی پیک منصوبے پانی کی انسانی صحت اورماحولیاتی استحکام کے لیے اہمیت پاکستان میں نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ کیوں داستان شہادت مرے وطن کا اے جانثارو کوہ پیمائوں کا مسکن ۔ نانگا پربت کی آغوش ا یف سی بلوچستان (سائوتھ)کی خدمات کا سفر جاری شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ''کشور ناہید''۔۔ حقوقِ نسواں کی ایک توانا آواز نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا بسلسلہ بانگ درا کے سو سال  بانگ درا کا ظریفانہ سپہ گری میں سوا دو صدیوں کا سفر ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنے والے جشنِ افواج پاکستان- 1960 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا جمہوریہ عراق کا سرکاری دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اورماڑہ کے فارورڈ نیول آپریشنل بیس کا دورہ  چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر کی نارووال اور سیالکوٹ کے قریب فیلڈ ٹریننگ مشق میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کاوانا ، جنوبی وزیرستان کادورہ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء کا نیول ہیڈ کوارٹرز  کا دورہ نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے وفد کا دورہ نیول ہیڈ کوارٹرز جمہوریہ آذربائیجان کے نائب وزیر دفاع کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات  گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طالبات اور اساتذہ کا ہیڈکوارٹرز ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا دورہ کمانڈر کراچی کور کا صالح پٹ میں تربیتی مشقوں اور پنوں عاقل چھائونی کا دورہ کمانڈر پشاور کورکی کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی کی فیکلٹی  اور کیڈٹس کے ساتھ نشست مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کا پاک فوج کے ساتھ یادگار دن ملٹری کالج جہلم میں یوم ِ والدین کی تقریب کی روداد 52ویں نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2024 کا شاندار انعقاد    اوکاڑہ گیریژن میں البرق پنجاب ہاکی لیگ کا کامیاب انعقاد ملٹری کالج جہلم میں علامہ اقبال کے حوالے سے تقریب کا انعقاد
Advertisements

علی جاوید نقوی

مضمون نگاراخبارات اورٹی وی چینلزکے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔آج کل ایک قومی اخبارمیں کالم لکھ رہے ہیں۔قومی اورعالمی سیاست پر اُن کی متعدد کُتب شائع ہو چکی ہیں۔ [email protected]

Advertisements

ہلال اردو

ایس آئی ایف سی کی کاوشوں سے برآمدات میں اضافہ 

دسمبر 2024

پاکستانی چاول نے دنیابھرمیں دھوم مچادی،2024ء  میں صرف چاول برآمد کرنے سے چارارب ڈالرکی آمدنی ہوئی
•    وہ دن دورنہیں جب پاکستان آئی ٹی برآمدات میں دنیا کے ٹاپ فائیو ممالک میں شامل ہوگا۔
•    ایس آئی ایف سی کے باعث مالی سال 2024 ء میں آئی ٹی برآمدات میں 42 فیصد کانمایاں اضافہ ہوا۔
•    امریکہ اوربرطانیہ کی آئی ٹی کمپنیاں بھی پاکستانی ماہرین پراعتماد کرتی ہیں۔
•    انفارمیشن ٹیکنالوجی ان پانچ شعبوں میں سے ایک ہے جس پرایس آئی ایف سی نے خصوصی توجہ دی ہے۔
ایس آئی ایف سی یعنی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے مثبت اقدامات اورکوششوں کے باعث پاکستان نہ صرف معاشی بحران سے نکل آیاہے بلکہ اس کاترقی کی جانب سفردوبارہ شروع ہوگیاہے۔ دوررس فیصلوں کے اثرات تمام شعبوں میں نظرآرہے ہیں۔دنیا پاکستان کی اس زبردست کارکردگی پرحیران ہے،چند ماہ پہلے تک بعض افراد کی جانب سے دعویٰ کیاجارہاتھا کہ پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا،معیشت کے بہترہونے کاکوئی امکان نہیں۔اسی دوران ملک وقوم کا درد رکھنے والوں نے ایک نئے عزم اورحوصلے کے ساتھ ملک کومعاشی بحران سے نکالنے اوراپنے پاؤں پرکھڑاکرنے کافیصلہ کیا۔ مشاورت کے بعد ایس آئی ایف سی کوقائم کیاگیا۔معیشت کوبہتربنانے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے گئے۔ان کوششوں کے باعث پاکستان کوآئی ایم ایف اوردوست ممالک سے قرضے لینے میں آسانی ہوئی،زرمبادلہ کے ذخائربھی بڑھ گئے۔ایس آئی ایف سی کی کاوشوں سے پاکستان کی برآمدات میں بھی قابلِ ذکر اضافہ ہوا ہے اورامید ہے کہ یہ اضافہ مسلسل ہوتارہے گا۔برآمدات میں اضافے سے پاکستان قرضوں کے بوجھ سے نجات حاصل کرسکتاہے۔اگرہم برآمدات بڑھانے میں کامیاب ہوگئے توہمیں قرضوں کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔ 
ایس آئی ایف سی کی کوشش ہے کہ غیرملکی قرضوں پرانحصارکرنے کے بجائے خودانحصاری کی پالیسی اختیارکی جائے۔درآمدات کوکم سے کم کیاجائے ،پاکستانی مصنوعات کامعیاربہتربنایاجائے،برآمدات کوبڑھایاجائے تاکہ ہماری آمدن اور اخراجات میں توازن قائم رہے۔ غیرملکی سرمایہ کاروں کوشکایت تھی کہ ان کے منصوبے سرخ فیتے کاشکارہوجاتے ہیں۔سرکاری دفاترمیں بیٹھے بعض بابو انھیں کچھ ایساگھماتے ہیں کہ وہ واپس جانے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ان حالات میں ایس آئی ایف سی جیسے فورم کاقیام ضروری ہوگیاتھا،تاکہ ملکی و غیرملکی سرمایہ کاروں کے خدشات کودورکیاجائے اورڈوبتی معیشت کوپھرسے پاؤں پرکھڑاکیاجائے،پالیسیوں میں تسلسل اوراستحکام لایاجاسکے۔
     ترقی یافتہ اورترقی پذیر ممالک میں ایک بنیادی فرق برآمدات کاہے۔ دنیامیں امیرممالک وہی ہیں جن کی برآمدات یاآمدنی زیادہ ہے ۔ایس آئی ایف سی نے جہاں بہت سے شعبوں پرتوجہ دی وہاں زراعت کی ترقی کے لیے بھی دن رات کام کیا۔ایک طرف کاشتکاروں کودنیامیں ہونیوالی جدیدزرعی ترقی سے آگاہ کیا اورفی کس پیداوار بڑھانے کے طریقے بتائے۔ایس آئی ایف سی کے ترجیحی شعبوں میں شامل زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے برآمدات میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔
مالی سال 2024ء کے دوران پاکستان نے 6 ملین ٹن سے زائد چاول کی مختلف اقسام برآمد کیں اور4 بلین ڈالرآمدنی حاصل کی جو کہ قابل ستائش ہے۔اس کامیابی کودیکھتے ہوئے آئندہ مالی سال میں چاول کی برآمدات کا ہدف 5 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔یہ سنگِ میل پاکستان کے زرعی شعبے کی ایک نمایاں کامیابی ہے جس سے بین الاقوامی منڈیوں میں پاکستان کے لیے مزید مواقع پیدا ہونے اور ملکی زرعی پیداوار میں مزید پیش رفت کی توقع ہے۔پاکستانی چاول دنیا بھرمیں بے حد پسند کیے جاتے ہیں،ہمارے چاول کی بہت مانگ ہے۔اس کی خوشبواورلذت کا کوئی دوسرا ملک مقابلہ نہیں کرسکتا،پاکستانی چاول نے دنیابھرمیں دھوم مچارکھی ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ چاربلین ڈالرکی ایکسپورٹ کے ساتھ پاکستان چاول ایکسپورٹ کرنیوالے ممالک میں نمایاں ہے۔چاول کے شعبے میں کامیابی کے ساتھ اطالوی فوڈ ٹریڈ کمپنی نے پاکستانی کمپنی فاطمہ ایوریکوم رائس ملز میں 50 فیصد شراکت داری قائم کی۔چاول کی پیداوار بڑھانے کے لیے بھی کاشتکاروں کوجدیدطریقوں سے آگاہ کیاجارہاہے۔پیکنگ کے معیار کوبھی بہتراورعالمی معیارکے مطابق کیاگیاہے۔پاکستانی چاول جن ممالک میں ایکسپورٹ کیاجارہاہے ان میں چین،متحدہ عرب امارات، کینیا، ملائیشیا، سعودی عرب، اٹلی، برطانیہ اورجنوبی کوریانمایاں ہیں۔چاول کی ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے وزارت تجارت نے رائس ایکسپورٹرزکی درخواست پرچاول کی کم ازکم برآمدی قیمت بھی ختم کردی ہے جس کے بعد امید ہے کہ چاول کی برآمدات سے پاکستان 5 ارب ڈالر تک کا ریونیو حاصل کرلے گا۔ پاکستانی چاول برآمد کنندگان عالمی منڈی میں بہتر مسابقت حاصل کرسکیں گے۔
 زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایس آئی ایف سی  زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے گرین پاکستان انیشیٹو پروگرام پر کام کررہی ہے۔ 70 لاکھ ہیکٹرز سے زائد غیر کاشت شدہ اراضی کو استعمال کرتے ہوئے جدید زرعی فارمنگ کو فروغ دیا جا رہا ہے۔جس سے ایک طرف ملکی ضروریات کوپورا کیاجائے گا دوسرے زرعی اجناس کی کوالٹی بہترہوگی اور فی ایکڑپیداواربھی بڑھے گی۔یوں  مزید زرعی اجناس بھی ایکسپورٹ کی جاسکیں گی۔ایک رپورٹ کے مطابق گرین پاکستان انیشیٹو پروگرام پر ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد نے اطمینان کا اظہارکیاہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے ایک لاکھ 40 ہزار ایکڑ جبکہ 85 ملکی سرمایہ کاروں اور کمپنیوں نے 4 لاکھ 60 ہزار ایکڑ زمین پر کاشت کے لیے معاہدے کیے ہیں۔لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم کے قیام سے زراعت کو دور حاضر کے زرعی اصولوں سے ہم آہنگ کر دیا گیا ہے۔ زراعت کے شعبے میں ترقی سے قومی برآمدات میں اضافہ، غذائی تحفظ اور عوام کے لیے روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوں گے۔ اب تک بڑے رقبے کو قابل کاشت بنایا جا چکا ہے۔ایس آئی ایف سی کے تعاون سے خوراک اور دودھ کی پیداوار میں اضافہ کرنے کے لیے زراعت اور لائیو اسٹاک کے شعبوں میں آسٹریلیا کی مہارت سے استفادہ کیاجارہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، معیاری بیج، اور اناج ذخیرہ کرنے کے نئے طریقوں اور تجربات کے لیے آسٹریلوی تکنیکی معاونت حاصل کی گئی ہے۔ حکومت نے فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار کو بڑھانے کے لیے چارسوارب روپے مختص کیے ہیں جن میں کسان کارڈ، گرین  ٹریکٹر، اور شمسی توانائی کے منصوبے شامل ہیں۔



لائیو اسٹاک کے منصوبوں میں حکومت 20 ارب روپے کی سرمایہ کاری کر رہی ہے جس میں لائیو اسٹاک فارمر کارڈ متعارف کرانا اورمویشیوں کی بیماری سے نمٹنے کی حکمت عملی بھی شامل ہے۔مویشیوں کی بیماری کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی معیارکے گوشت کی برآمد کو یقینی بنانے کے لیے چارلاکھ بچھڑوں کی افز ائش نسل کا ہدف بھی مقرر کیا گیا ہے، یہ اقدامات پاکستان کے زرعی شعبے کو مضبوط کرنے، غذائی تحفظ کو بہتر بنانے اور معاشی استحکام کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کریں گے۔صرف یہ ہی نہیں جنگلات کی بحالی کے لیے ڈرون کے ذریعے نگرانی اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ آبی پیداوار کے شعبے میں 100 ایکڑ کے رقبے پر جھینگے کی افزائش کے لیے آسٹریلوی مہارت کی مدد سے ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں سالانہ 100 ٹن پیداوار کی توقع کی جارہی ہے۔مجھے یقین ہے ایس آئی ایف سی کی کاوشوں سے ہماری زراعت یقینی طورپربہت ترقی کرے گی۔
 ملک میں چینی کے وافراضافی اسٹاک کی دستیابی کے باعث کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 5 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت بھی دی ہے۔لیکن اس کے ساتھ یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ شوگر ملیں وقت پر کرشنگ شروع کردیں گی۔ صوبوں اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 30 ستمبر تک چینی کا اسٹاک 20 لاکھ 54 ہزار ٹن تھا جبکہ گذشتہ مالی سال 24ـ2023 کے آخری 10 ماہ کے دوران اس کی مجموعی کھپت 54 لاکھ 56 ہزار ٹن رہی، اگلے دو مہینوں میں مارکیٹ میں فروخت کا تخمینہ لگ بھگ 9 لاکھ ٹن لگایا گیا ہے۔چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے اس حلف نامے سے مشروط کی گئی کہ ان کی ملیں اگلے سال کے لیے بروقت  پیداوار شروع کر دیں گی اور شرائط پر پورا نہ اترنے والی ملوں کا برآمدی کوٹہ منسوخ کر دیا جائے گا۔یعنی چینی ایکسپورٹ کرتے وقت اس بات کویقینی بنایاگیاہے کہ ملک میں چینی کی قلت نہ ہو  اورکوئی مصنوعی بحران پیدا نہ کیاجائے۔
 انفارمیشن ٹیکنالوجی کاشعبہ ان پانچ شعبوں میں شامل ہے جس پرایس آئی ایف سی نے خصوصی توجہ دی ہے۔ایس آئی ایف سی کی مدداوربھرپور تعاون کے باعث مالی سال 2024 میں آئی ٹی برآمدات میں 42 فیصد کانمایاں اضافہ ہوا۔ ملک میں ڈیجیٹلائزیشن کیلئے اقدامات جاری ہیں،کسی بھی قوم کے لیے نوجوان اس کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں،ہماری خوش نصیبی ہے کہ پاکستان کی آبادی کا 63فیصد نوجوانوں پرمشتمل ہے۔یہ نوجوان باصلاحیت ہیں انہوں نے آئی ٹی سیکٹرمیں دنیابھرمیں اپنالوہامنوایاہے۔پاکستان میں ہر سال 75 ہزارآئی ٹی گریجویٹس فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔نوجوانوں کی آئی ٹی میں دلچسپی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب پاکستان آئی ٹی کی برآمدات میں دنیا کے ٹاپ فائیو ممالک میں شامل ہوگا۔ اس حوالے سے امریکہ میں پہلی پاک یو ایس ٹیک انویسٹمنٹ کانفرنس بھی منعقد ہوچکی ہے۔توقع ہے کہ پاک یو ایس ٹیک انویسٹمنٹ کانفرنس پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کے لیے اہم سنگِ میل ثابت ہو گی، کانفرنس پاکستان اور امریکہ کی کمپنیوں کے مابین تعاون کو فروغ دینے میں مدد گار ہو گی۔ پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر نے گزشتہ چند سالوں میں تیزی سے ترقی کی ہے۔حکومت نے آئی ٹی برآمدات کاہدف آئندہ پانچ سال میں  25 ارب ڈالرز مقررکیاہے۔ یہ کوئی بڑا ہدف نہیں ہمارے نوجوان یہ ہدف باآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔پاکستان نے اقوام متحدہ کے ای گورنمنٹ ڈویلپمنٹ انڈیکس میں بھی قابلِ ذکر پیش رفت کی ہے، پاکستان کی آئی ٹی و آئی ٹی انیبلڈ سروسز کی 60 فیصد سے زائد برآمدات امریکہ اور برطانیہ کو جاتی ہیں۔جوپاکستانی آئی ٹی کمپنیوں اورنوجوانوں پراعتماد کااظہارہے۔
     ماہرین اس بات کوتسلیم کرتے ہیں کہ ایس آئی ایف سی کی وجہ سے نہ صرف پالیسی میں تسلسل آیا ہے بلکہ فیصلہ سازی کا عمل بھی بہتر ہوا ہے کیونکہ فیصلوں میں تمام فریقین کی مشاورت اورتجاویز شامل ہوتی ہیں۔فوری فیصلے کیے جاتے ہیں اورمعاملات کولٹکایانہیں جاتا۔ مثلا آئی ٹی کمپنیاں یافری لانسر پہلے فارن کرنسی اکاؤنٹ میں صرف اپنی آمدن کا 35 فیصد رکھ سکتے تھے۔لیکن اکتوبر 2023 میں اس حد کو بڑھا کر 50 فیصد کردیاگیا جس سے برآمدات میں اضافہ ہوا،نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اورجونوجوان اسٹارٹ اپ شروع کررہے ہیں انھیں مکمل رہنمائی فراہم کی جارہی ہے۔آئی ٹی برآمدات میں حالیہ اضافے میں ایس آئی ایف سی کا ایک بہت بڑا کردار ہے اور ایس آئی ایف سی کے ذریعے جن حکومتی محکموں اور افراد نے اس میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے ان سب کواس کاسہرا جاتا ہے۔اس وقت پاکستان میں فری لانسرکی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہے اوراس میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ایک آئی ٹی ماہرکے مطابق فری لانسنگ کے شعبے میں آنے والے واپس نہیں جاتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی آمدنی پاکستانی اداروں میں نوکری کرنیوالوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔کرونا وبا کے دوران بھی پاکستان میں دنیابھرکی طرح فری لانسرکام کرنیوالوں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا۔ آئی ٹی میں اپنامقام حاصل کرنے کے لیے ہمیں آرٹیفیشل انٹیلی جنس پربھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس وقت جتنی ترقی اے آئی اوراس کے استعمال میں ہورہی ہے کسی اورشعبے میں نہیں ہورہی۔نوجوانوں کو آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ساتھ ساتھ کلاؤڈ کمپیوٹنگ، بلاک چین جیسی ہائی ٹیک سکلز پربھی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ بہت ہی اچھا ہو اگرہم اپنے بچوں کوپرائمری سطح پر ہی آئی ٹی کی جانب راغب کریں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز کی برآمدات جولائی 2024ء یعنی نئے مالی سال کے پہلے ہی ماہ میں 286.395 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں، جو گزشتہ سال کے اسی مہینے میں 213.980 ملین ڈالر کے مقابلے میں 33.84 فیصد کا نمایاں اضافہ ہے۔حکومت ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے کی ترقی و ترویج کے لیے کوشاں ہے اور دور دراز علاقوں میں بھی تیز تر موبائل انٹرنیٹ کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ وہاں رہنے والے نوجوانوں کوبھی دنیاکے ساتھ قدم سے قدم ملاکرچلنے کاموقع ملے۔ پاکستان میں تیز تر اور قابل اعتماد انٹر نیٹ سروسز کے لیے 5 جی انٹرنیٹ کی سروسز متعارف کرانے کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، 5 جی سروسز کی بدولت ڈیجیٹل پاکستان کے ویژن کا حصول ممکن ہو سکے گا۔پاکستان میں کیش لیس اور ڈیجیٹل معیشت کے فروغ کے حوالے سے ٹیلی کام سیکٹر کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے، پاکستان نے اپنے دروازے اس شعبے میں کام کرنیوالے عالمی اداروں اورسرمایہ کاروں کے لیے کھول دیے ہیں۔ایس آئی ایف سی ان تمام معاملات میں متعلقہ اداروں کی بھرپورمدد کررہی ہے،ہم نے بہت وقت ضائع کرلیا وطن عزیز کوترقی دینے کے لیے اب ایک واضح سمت میں کام کیاجارہاہے جوخوش آئندہے۔


مضمون نگاراخبارات اورٹی وی چینلزکے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔آج کل ایک قومی اخبارمیں کالم لکھ رہے ہیں۔قومی اورعالمی سیاست پر اُن کی متعدد کُتب شائع ہو چکی ہیں۔
[email protected]

علی جاوید نقوی

مضمون نگاراخبارات اورٹی وی چینلزکے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔آج کل ایک قومی اخبارمیں کالم لکھ رہے ہیں۔قومی اورعالمی سیاست پر اُن کی متعدد کُتب شائع ہو چکی ہیں۔ [email protected]

Advertisements