عصرِ حاضر میں اسلامی جمہوریہ پاکستان داخلی اور خارجی محاذ پر ہمہ گیر چیلنجز سے دوچار ہے جن میں فتنہ الخوارج، داعش، لسانی اور فرقہ وارانہ فسادات شامل ہیں، افواجِ پاکستان نے ہمت، شجاعت اور دلیری سے ہر محاز پر دشمن کا مقابلہ کیا اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے مقدس سرزمین کو اپنے لہو سے سیراب کیا۔ یہی نہیں بلکہ افواجِ پاکستان کا نصب العین، ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ اس کے مقاصد کو اجاگر کرتا ہے۔ ایمان سے مراد اللہ اور رسول ۖ کی اطاعت، تقوی سے مراد خوف اور خشیت صرف اللہ ربِ ذوالجلال کی اور جہاد سے مراد ظلم، دہشت، طغیان، فساد اور شر کو ختم کرکے امن، سلامتی اورعدل کا فروغ۔ یہی اسلام کے تصورِ جہاد اور عسکری نظریے کی عملی تفسیر ہے۔ فتنہ الخوارج کے خلاف افواجِ پاکستان آپۖ کے احکامات کی پیروی میں جہاد کر رہی ہیں ۔ فتنہ الخوارج کے بارے میں نبی مکرم ۖ کی واضح احادیث موجود ہیں۔ رحمتِ دو عالمۖنے ہر اس راستے کو مسدود اور ہر اس دروازے کو بند کردیا جس سے امن و سلامتی کا ماحول غارت ہونے کا امکان تھا۔ آپ ۖ نے ترحم و ملاطفت اور باہمی لطف و کرم کی ترغیب دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا :
اِن اللّٰہَ رفِیق ویحِب الرِفق ویعطِی علی الرِفقِ ما لا یعطِی علی العنفِ
اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر اتنا عطا فرماتا ہے کہ اتنا سختی پر عطا نہیں کرتا۔
رفق (نرمی)میں تعمیری پہلو ہے اور عنف (شدت)میں تخریبی۔ رفق محبت و خیر خواہی کی علامت ہے جبکہ عنف شدت پسندی اور نفرت کی دلیل۔ شدت کے ذریعے نہ دنیا سنورتی ہے نہ آخرت، اور دین میں شدت دنیاوی امور میں شدت سے زیادہ خطرناک ہے۔ کیوں کہ تشدد اور جارحیت پسندی، انتہا پسندی سے جنم لیتی ہے۔ اس لیے آپ ۖنے ارشاد فرمایا :
اِیَّاکم والغلو فِی الدِینِ، فِنہ ہلک من کان قبلکم الغلو فِی الدِینِ
دین میں انتہا پسندی سے بچو کہ پہلی قومیں اسی انتہا پسندی کی بنا پر تباہ و برباد ہوگئیں۔
پیغمبر اسلام حضور نبی کریمۖ جس طرح اپنی چشمِ نبوت سے قیامت تک کے احوال کا مشاہدہ فرما رہے تھے اسی طرح آنے والے وقتوں میں دین کے نام پر بپا ہونے والی دہشت گردی کو بھی ملاحظہ فرما رہے تھے۔ اس لیے آپ ۖ نے نہ صرف جہاد اور قتال کا فرق واضح فرما دیا بلکہ دین کے نام پر غلو کرنے اور تشدد و غارت گری کا بازار گرم کرنے والوں سے بھی اُمتِ مسلمہ کو خبردار کر دیا۔ ان نام نہاد مجاہدین کے رویوں اور نشانیوں کو بھی واضح طور پر بیان فرما دیا تاکہ کسی قسم کا اشتباہ نہ رہے اور اُمت ان کی ظاہری مومنانہ وضع قطع اور کثرتِ عبادت و تلاوت سے دھوکا نہ کھا جائے۔ آپ ۖ نے جہاں اپنی امت کو اس فتنے سے الگ رہنے کی تلقین فرمائی وہاں اس ناقابل علاج کینسر زدہ حصے کو جسد ملت سے کاٹ دینے کا حکم بھی دیا۔
فرامین رسولۖ کے مطابق دہشت گرد خارجی ''بظاہر، بڑے پختہ دین دار'' نظر آئیں گے۔ دوسروں کی نسبت شرعی احکامات پر بظاہر زیادہ عمل کرتے دکھائی دیں گے۔
بارگاہ رسالت مآب ۖ میں سب سے پہلی گستاخی کا ارتکاب کرنے والے خارجی اور انتہا پسندوں کے سردار ذو الخویصرہ تمیمی کے بارے میں احادیث میں بیان ہوا ہے کہ کثرت ریاضت و عبادت کے آثار اس کے چہرے سے نمایاں تھے اور اس کی بہت گھنی داڑھی تھی۔
امام مسلم زید بن وہب جہنی سے روایت کرتے ہیں :
اِنہ کان فِی الجیشِ الذِین کانوا مع علِی رضی اللہ عنہ الذِین ساروا ِلی الخوارِجِ، فقال علِی رضی اللہ عنہ :ا یھا الناس اِنِی سمِعت رسول اللہۖ یقول : یخرج قوم مِن متِی یقرء ون القرآن لیس قِراء تکم ِلی قِراء تِہِم بِشی ولا صلاتکم ِلی صلاتِہِم بِشی ولا صِیامکم ِلی صِیامِہِم بِشیء یقرئون القرآن یحسبون نہ لہم، وھو علیہِم لا تجاوِز صلاتہم تراقِیہم یمرقون مِن الِسلامِ کما یمرق السہم مِن الرمِی
وہ اس لشکر میں تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج سے جنگ کے لیے گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے لوگو! میں نے رسول اللہ ۖ سے سنا کہ آپ ۖ نے فرمایا : میری امت میں سے ایک قوم ظاہر ہوگی، وہ قرآن اس قدر پڑھیں گے کہ ان کے پڑھنے کے سامنے تمہارے قرآن پڑھنے کی کوئی حیثیت نہ ہو گی، نہ ان کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کچھ حیثیت ہوگی اور نہ ہی ان کے روزوں کے سامنے تمہارے روزوں کی کوئی حیثیت ہوگی۔ وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ وہ ان کے حق میں ہے لیکن درحقیقت وہ ان کے خلاف ہوگا، نماز ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گی اور وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔
علامہ شبیر احمد عثمانی مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
قولہ صلی اللہ علیہ وسلم : یحسبون انہ لہم الخ :ا ی : ہم یحسبون ن القرآن حج لہم فی ثبات دعاویہم الباطل، ولیس کذلک، بل ہو حج علیہم عند اللہ تعالی. وفیہ شار لی ن من المسلمین من یخرج من الدین من غیر ن یقصد الخروج منہ، ومن غیر ن یختار دینا علی دین السلام
آپ ۖ کا فرمان ہے : وہ یہ گمان کریں گے کہ یہ قرآن ان کے حق میں دلیل ہے۔ یعنی وہ یہ گمان کریں گے کہ قرآن ان کے باطل دعووں کے اثبات میں ان کے حق میں حجت ہے حالانکہ اس طرح نہیں ہے، بلکہ قرآن اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے خلاف دلیل اور حجت ہو گا۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو دین سے خارج ہو جائیں گے اگرچہ ان کا دین سے خروج کا کوئی ارادہ نہ ہوگا۔
خوارج کا نعرہ عام الناس کو حق محسوس ہوگایعنی خوارج عام الناس کو گمراہ کرنے اور ورغلانے کے لیے بظاہر اسلام کا نعرہ بلند کریں گے لیکن ان کی نیت بری ہوگی۔ احادیث مبارکہ کی روشنی میں ان کی بظاہر اسلام پر مبنی باتوں اور ظاہری وضع قطع اور دین داری کو دیکھ کر دھوکا نہ کھایا جائے کیونکہ ان کا یہ مذہبی نعرہ اور عبادت گزاری در حقیقت امت مسلمہ میں مغالطہ، اِبہام اور افتراق و انتشار پیدا کرنے کے لیے ہوگا۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ۖنے ارشاد فرمایا :
یقولون مِن خیرِ قولِ البرِیِ.
وہ لوگوں کے سامنے (دھوکہ دہی کے لیے)اسلامی منشور پیش کریں گے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی، حضور نبی اکرم ۖکے فرمان یقولون من قول خیر البری کی شرح میں لکھتے ہیں :
ای : من القرآن، وکان ول کلم خرجوا بہا قولہم : لا حکم لا للہ، وانتزعوہا من القرآن، وحملوہا علی غیر محملہا
(اِن کلمات کا مطلب ہے کہ)خوارج اپنے مؤقف کی تائید میں قرآن پیش کریں گے۔ اِسی لیے سب سے پہلا نعرہ جو ان کی زبانوں سے بلند ہوا اس کے الفاظ یہ تھے : اللہ کے علاوہ کسی کا حکم (قبول)نہیں، یعنی (انہوں نے اپنا منشور اسلامی لبادے میں پیش کیا تھا)۔ انہوں نے یہ جملہ قرآن حکیم سے اخذ کیا لیکن اس کا اطلاق اس سے ہٹ کر کیا۔
دہشت گرد خوارج کے بارے میں فرامین رسول ۖ
انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وجہ سے جہاں اسلامی تعلیمات کے بارے میں طرح طرح کے سوالات اور شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں وہیں بے شمار قیمتی جانیں تلف، املاک تباہ اور کاروبار برباد ہو جاتے ہیں۔ امن و سلامتی کا ماحول خوش حالی، تعمیر و ترقی اور سکون و راحت کا ضامن ہوتا ہے جب کہ فتنہ انگیزی ہمہ جہتی تباہی لاتی ہے۔ اِسی لیے رحمتِ دو عالمۖنے ہر اُس راستے کو مسدود اور ہر اُس دروازے کو بند کردیا جس سے امن و سلامتی کا ماحول غارت ہونے کا امکان تھا۔
فرامین رسول ۖ کے مطابق دہشت گرد خارجی بظاہر بڑے پختہ دین دار نظر آئیں گے اور وہ دوسرے لوگوں سے زیادہ نماز روزے کے پابند ہوں گے۔ دوسروں کی نسبت شرعی احکامات پر بظاہر زیادہ عمل کرنے والے ہوں گے۔
ایک دوسری روایت میں طارق بن زیاد بیان کرتے ہیں :
خرجنا مع علِی رضی اللہ عنہ ِلی الخوارِجِ فقتلہم، ثم قال : انظروا فِن نبِی اللہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال : ِنہ سیخرج قوم یتکلمون بِالحقِ لا یجاوِز حلقہم
ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج کی طرف (ان سے جنگ کے لیے) نکلے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا خاتمہ کیا پھر فرمایا : دیکھو بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب ایسے لوگ نکلیں گے کہ حق کی بات کریں گے لیکن وہ کلمِ حق ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔
ان احادیثِ مبارکہ سے پتہ چلا کہ خوارج اپنے انتہا پسندانہ منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے نعرہ حق لگاتے ہیں لیکن در حقیقت اس کے پیچھے ان کے مذموم مقاصد ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں بے نقاب کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ لوگ ان کے اچھے نعروں کی وجہ سے گمراہ نہ ہوں۔
خلاصہ کلام:
یہ تحقیق اسلامی معاشرتی اقدار میں ریاستی دفاعی پہلوئوں کی حقیقت پر مبنی ہے، اس لیے سب سے پہلے معاشرتی تشکیل کے نقاط کو سامنے لاتی ہے کہ داخلی اور خارجی دونوں جہات کو سامنے رکھتے ہوئے،اسلامی اصولوں کے مطابق معاشرے کی بنیاد کے لیے کن اُمور کا ہونا لازمی ہے ۔ جس بنیاد پر نبی کریم ۖ نے مدینہ کی اعلیٰ ریاست کا قیام تشکیل دیا۔ سب سے پہلے ابتدائی امور کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کن مراحل پر توجہ کی اہم ضرورت ہے، اور معاشرتی تشکیل میں داخلی امور کیا ہیں اور کن بنیادوں پر قوم کی تربیت احسن انداز میں ممکن ہے اسی زاویے میں ریاست مدینہ کی تشکیل کے منظر کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی دفاعی اقدار کو فکری طور پر سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے کہ نئے معاشرے کو ایسی کیا ضرورت تھی کہ خود کو دفاعی طور پر ثابت کرنے کی کوشش کی، انہیں اَدوار میں تمام سرایا اور مغازی کی صورت سامنے رکھی گی ہے۔اس کے بعد یہ تحقیق دور حاضر کی صور ت کا مقارن کرتے ہوئے ضروریات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
شہید کے لیے ایک نور ہو گا اور اس شخص کے لیے دس نور ہوں گے جو حروریہ (خوارج) کے ساتھ جنگ کرے گا یعنی خوارج کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے شہید ہوگا اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے : (دیگر شہداء کے نور کے مقابلے میں اس کا نور آٹھ گنا زیادہ ہو گا)۔ اور آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ جہنم کے کل سات دروازے ہیں جن میں سے تین صرف حروریہ کے لیے مختص ہیں۔
خوارج کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ کسی مخصوص علاقے کو گھیر کر اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے مرکز بنا لیں گے، جیسے کہ انہوں نے خلافت علی المرتضی رضی اللہ عنہ میں حرورا کو اپنا مرکز بنا لیا تھا یعنی وہ اپنے لیے محفوظ پناہ گاہیں بنائیں گے۔
خوارج کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ اہلِ حق کے ساتھ مذاکرات کو ناپسند کریں گے، جس طرح انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تحکیم کو مسترد کر دیا تھا۔
احادیث و آثار سے ماخوذ اِن علامات سے ثابت ہوتا ہے کہ جو مسلح گروہ یا فرقہ جمہور امت مسلمہ کو گمراہ، بدعتی اور کافر و مشرک کہے، عام الناس (مسلم ہوں یا غیر مسلم) کے خون و مال کو حلال سمجھے، حق بات کا انکار کرے، مصالحانہ اور پر امن ماحول کو تباہ و برباد کرے، وہ خارجی ہے۔ خواہ اس کا ظہور کسی بھی زمانے اور کسی بھی ملک میں ہو۔
مضمون نگار :مصنف، کالم نگاراور اینکرپرسن ہیں۔
[email protected]
تبصرے