علامہ اقبال کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کے خطوط کو قائد اعظم نے اپنے پیش لفظ کے ساتھ کتابی شکل میں شائع کرایا ،ان خطوط نے قرار دادپاکستان میں نتیجہ خیز کردار اداکیا۔
اس کتاب کی رائلٹی کی رقم مسلم لیگ کے فنڈ میں بطور عطیہ جمع کرادی گئی۔
وطنِ عزیز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا کی تاریخ میں صرف اور صرف اسلام کے نام پر قائم ہونے والا پہلا ملک ہے ۔ یہ ملک کیوں اور کیسے بنا اس کی تفصیل میں جائیں تو تحریک پاکستان میں کئی سنگ میل طے کیے گئے ۔ تحریک پاکستان کس طرح آگے بڑھی، ہمارے آبائو اجداد اور پاکستان کے بانیوں نے اپنی توانائیوں، اپنے اثاثوں اوراپنی قربانیوں سے اس تحریک میں حصہ ڈالنے والی عظیم ہستیوں نے کس طرح یہ سفر طے کیا اور ہمیں آزادیٔ نعمت سے سرفراز کیا۔ ایک اہم سنگ میل جس نے جدوجہد آزادی کی منزل کو مزید واضح کردیاکہ برصغیر کے مسلمانوں کے مسائل کا واحد حل آزاد اسلامی ریاست کا قیام ہے۔ اگر ہم یہ راستہ اختیار نہیں کرتے تو پھر اس کا متبادل یا واحد راستہ جو بچتاوہ ہماری تباہی کا ہوتا، مسلمانوں کے لیے برِصغیر کے اندر اسلام کے مستقبل کی تاریکی مقدر بن جاتی۔ لیکن قدرت کا اپنا نظام ہے اس نے برصغیر کے مسلمانوں کو حضرت علامہ اقبال اور حضرت قائد اعظم جیسی عظیم شخصیات سے نوازا جنہوں نے برصغیر میں ہندوؤں اور انگریزوں کے مظالم اور زیادتیوں کے خاتمے کی آواز بلند کرنا شروع کی ۔
علامہ اقبال نے مسلم قوم کو جو خواب دکھایا اسے حقیقت کا روپ دینے اور عملی جامہ پہنانے میں بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت اور اعلیٰ حکمت اور فہم و فراست کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
حضرت علامہ اقبال کی سوچ دیکھیے ان کی طرف سے خطبہ الہ آباد میں پیش کیے جانے والے تصور کے 17 سال بعد اور قرارد اد لاہور کے صرف سات سال بعد ہی دنیا کی تاریخ میں اسلام کے نام پر پہلی مملکت معرض وجود میں آجاتی ہے ۔ اصل میں حضرت علامہ اقبال نے الہ آباد میں جس مسلم ریاست کا تصور پیش کیا تھا وہ انہوں نے 1901 سے 1930 تک کے حالات و واقعات کی روشنی میں مسلمانوں کو ہندوؤں اور انگریزوں کے تعصبانہ رویوں، ان کی عیاریوں ، مکاریوں اور چالبازیوں کو دیکھتے ہوئے کیا تھا ۔ یہ صرف ایک تصور ہی نہیں تھا بلکہ ایک الگ ریاست بنانے کی عملی جدوجہد کا آغاز تھا جو بلاشبہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔
الگ مسلم ریاست کے قیام کے لیے کسی ایسے لیڈر کی ضرورت تھی جو نہ تو بک سکے اور نہ ہی کسی کے آگے جھک سکے۔ علامہ اقبال کی سیاسی فہم و فراست ، دوراندیشی اور بصیرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی نظریں صرف حضرت قائد اعظم پر ہی جا پڑتی تھیں جن میں نہ صرف یہ دونوں خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں بلکہ ان کی شخصیت کے کئی ایک کرشماتی پہلو بھی ان کے پیش نظر تھے جن سے برصغیر کے خاص و عام اس انداز سے آگاہ نہیں تھے۔ تحریک پاکستان کو کامیاب بنانے کے لیے قائد اعظم کے سوا کوئی اور مسلمان لیڈر ان کے پائے کا نظر نہیں آتا تھا۔
اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے قائد اعظم سے مسلسل رابطے رکھنے ، انہیں اپنے خیالات و نظریات سے پوری طرح آگاہ کرنے، آل انڈیا مسلم لیگ کی سرگرمیوں سے باخبر رکھنے، ہندو لیڈر شپ اور انگریز حکمرانوں کی چالبازیوں کی روک تھام کے لیے حکمت عملیاں طے کرنے اور تحریک کو مستحکم و موثر بنانے کی تدبیریں تلاش کرنے کے لیے مشاورت کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ۔
جب ہم تحریک پاکستان کے دوران حاصل کردہ اہم کامیابیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو حضرت علامہ اقبال کے قائد اعظم کے نام لکھے ہوئے خطوط ایک انتہائی اہم سنگ میل کے طور پر سامنے آتے ہیں ۔ ہم عام طورپرعلامہ کی تصانیف کی بات کرتے ہیں اور علامہ اقبال کی خدمات پر بات کرتے ہیں۔ یہ خطوط بھی علامہ اقبال کی ایک ایسی تصنیف ہے جو بکھری ہوئی تھی لیکن ان خطوط کوکتابی شکل دے کر محفوظ کردیاگیا ہے۔
آپ کو یہ جان کرحیرانی ہوگی کہ اس تصنیف کی اشاعت میں حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا بہت اہم کردار ہے جنہوں نے خود خطوط کو اکٹھا کرکے اپنے پیش لفظ کے ساتھ شائع کروایا۔
علامہ اقبال کا بہت شروع سے یہ خیال تھا کہ ہندو اور مسلمان اکٹھے نہیں رہ سکتے ۔ ہندو اور انگریزوں کی چیرہ دستیوں اور سازشوں کی بنا پر قائد اعظم اپنے چودہ نکات میں ناکامی کے بعد بددل ہو کر انگلستان چلے گئے۔ برصغیر میں مسلمانوں پر مایوسی کے سائے چھائے ہوئے تھے مگر علامہ اقبال خاموش نہیں بیٹھے تھے۔وہ ایک اس ماحول کا مسلسل خاموشی سے جائزہ لے رہے تھے جس میں برصغیر میں مسلمانوں کے لیے جگہ تنگ ہورہی تھی۔یہ وہ پس منظر تھا جس کے تحت علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں فرمایا کہ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ یہاں ایک الگ ریاست بن کے رہے گی۔
علامہ اقبال بڑے یقین اور دلیل کے ساتھ اپنے وژن کے تحت سیاسی ، ثقافتی، مذہبی اور آئینی حوالے سے یہ بات کہہ رہے تھے کہ یہاں ایک الگ اسلامی ملک بننے جا رہا ہے او ر ایک نیا ملک بننا ہی یہاں کا مقدر ہے۔
تحریک پاکستان میں ایک انتہائی موڑ اس وقت آتا ہے جب حضرت علامہ اقبال خطبہ الہ آباد پیش کرتے ہیں۔وہ اپنے اس تصور کو آگے بڑھانے اور اس کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے مختلف حکمت عملیاں اپناتے ہیں۔ ان میں سب سے مؤثر حکمت عملی یا سنگ میل علامہ اقبال کے وہ خطوط ہیں جس نے قائد اعظم کے پورے تصور کو بدل کر رکھ دیا ۔ حضرت علامہ اقبال اور قائداعظم کے مابین خط کتابت کی وجہ سے دونوں کے درمیان قائم ہونے والی قربت اور ایک دوسرے کے نظریات و خیالات کو سمجھنے کی جو مکمل ہم آہنگی پیدا ہوئی اس نے ایک نئے جوش اور ولولے سے قوم کی رہنمائی کرنا شروع کی اور مایوسیوں کے تمام بادل چھٹ گئے۔ یہ معجزہ کیسے رونما ہوا اس کے پیچھے علامہ کے وہ خطوط ہیں جو انہوں نے قائد اعظم کو لکھے۔
علامہ ایک مفکر اور دوراندیش انسان تھے۔مستقبل پر نظر رکھنے والے تھے ۔ان کی وسعت نظری بھی بے مثال تھی جبکہ قائد اعظم ایک عملی سیاست دان تھے۔ قائد اعظم نے چیزوں کو زمینی حقائق کے مطابق دیکھنا تھا۔ علامہ اقبال موجود حقیقتوں کے پیچھے چھپے ہوئے رازوں کو دیکھ رہے تھے۔ قائد اعظم کو انہوں نے خطوط لکھنا شروع کیے ا ور مرحلہ وار انہیں قائل کرنے کی کوشش کی۔ یہی علامہ اقبال کی کامیابی تھی۔
پہلا خط 23مئی 1936ء اور آخری خط 7 مارچ 1938ء کو قائد اعظم کو لکھے جو انگریزی میں ہیں ۔ ان میں تین خط ایسے ہیں جو علامہ قبال نے خود نہیں لکھے بلکہ کسی دوست سے کہہ کر لکھوائے ۔ چونکہ ان کی نظر آخری دنوں میں خاصی کمزور تھی اور شاید خود خط لکھنے میں کچھ دقت محسوس کر رہے تھے۔ آپ دیکھیں انتقال سے ایک مہینہ پہلے انہوں قائد اعظم کو آخری خط لکھا۔ ان خطوط کے اندرجس طرح انہوں نے صورت حال کا تجزیہ کیا، جس طرح قائد اعظم کے سامنے حقائق رکھے اور دلائل سے قائل کیا کہ پاکستان کا قیام انتہائی ناگزیر ہے اس کے لیے جدوجہد تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ جس وقت 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو قائد اعظم نے بڑا تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا کہ'' اقبال ہم میں نہیں اگر آج اقبال ہم میں موجود ہوتے تو وہ بہت خوش ہوتے ۔ ہم نے اسی راستے کا انتخاب کر لیا جس راستے پر وہ زندگی بھرہمیں بلاتے رہے تھے'' آپ غور کریں پہلے اور آخری خط کے درمیان تقریباً دو سال کا عرصہ ہے اور صرف قائد اعظم ہی نہیں پوری آل انڈیا مسلم لیگ قیام پاکستان بلکہ مطالبہ اقبال پر جا پہنچی۔
یہ تمام خطوط قائد اعظم کی لائبریری کا حصہ تھے۔ 1942-43میں ا سکالر محمد شریف طوسی نے ایک کتاب بعنوان پاکستان موومنٹ 1900 سے 1942 لکھنے کا فیصلہ کیا ۔ اس کتاب کے مواد کے لیے وہ قائد اعظم سے رابطے میں تھے۔ اُن کی اجازت سے یہ کتاب لکھ رہے تھے۔ کتاب کے لیے مواد اکٹھا کر نے کے لیے انہیں قائد اعظم کی لائبریری تک رسائی حاصل تھی۔ جب انہوں نے قائد اعظم کے ذاتی کاغذات کو کھنگالا دیکھا تو ان میں مشاہیر کے خطوط بھی تھے۔ چونکہ قائد اعظم بہت منظم شخصیت کے مالک تھے اور ان کی ہر چیز ایک نظم اور ترتیب کے ساتھ رکھی ہوتی تھی۔ ان میں علامہ اقبال کے خطوط بھی سامنے آگئے۔ تو انہوں نے خطوط کو الگ کر کے ان کو ٹائپ کروالیا اور قائد اعظم سے درخواست کی کہ آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم ان خطوط کو چھاپ دیں ۔ قائد اعظم نے کہا کہ ان کو چھاپنے کی کیا ضرورت ہے ؟ یہ تو ہماری آپس میں ذاتی خط و کتابت تھی لیکن شریف طوسی نے قائد اعظم سے کہا کہ آپ ان خطوں کو ضرور چھاپیں۔ علامہ اقبال نے لکھا مسٹر جناح ، آپ بہت مصروف آدمی ہیں مگر مجھے توقع ہے کہ میرے بار بار خط لکھنے کو آپ بار خاطر نہ خیال کریں گے۔ اس وقت جو طوفان شمال مغربی ہندوستان اور شایدپورے ہندوستان میں برپا ہونے والا ہے ۔ اس میں صرف آپ ہی کی ذات گرامی سے ملت اسلامیہ اور ہندوستان کے مسلمان محفوظ رہنمائی کی امید رکھتے ہیں۔ جب شریف طوسی نے کہا کہ ان مسٹر جناح اگر آپ یہ خط چھاپتے ہیں تو تحریک پاکستان میں آپ کی کوششوں اور کاوشوں کو بڑی تقویت حاصل ہو سکے گی جس پر قائد اعظم نے فرمایا: یہ تو بڑی اچھی بات ہے پھر تو ہمیں یہ خط ضرور چھاپنے چاہئیں ۔
27 مارچ 1943ء کو شائع ہونے والی کتاب'' لیٹرز آف اقبال ٹو جناح '' میں لکھے گئے پیش لفظ میں قائد اعظم نے کیا فرمایا؟ا س کو ملاحظہ کر لیں تو حضرت علامہ اقبال کے تصور پاکستان سے لے کر قرار داد لاہور یا قرار داد پاکستان تک کے سفر میں ان کا انتہائی نمایاں کردار نظر آئے گا اور علامہ اقبال کے حوالے سے عام لوگوں تک صرف تصور پاکستان پیش کرنے کی حد تک جو معلومات ہیں ان میں یکسر بہتری آئے گی۔
قائد اعظم پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ ''یہ کتابچہ ان خطوط پر مشتمل ہے جو قومی شاعر ، عارف اورفلسفی ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم نے میرے نام مئی 1936ء سے نومبر 1937ء کے درمیانی عرصے میں اپنی وفات سے کچھ ماہ پہلے تحریر کیے۔ یہ دور آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے قیام اور اکتوبر 1937ء میں لکھنؤ میں مسلم ہندوستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر مرکزی پارلیمانی بورڈ نے اپنی صوبائی شاخوں کے ہمراہ مسلم لیگ کی طرف سے یہ عظیم کوشش کی کہ مسلم رائے عامہ قانون ہند 1935 کے تحت صوبائی مجلس قانون ساز کے لیے لیگ ٹکٹ پر آئندہ انتخاب میں حصہ لیا جائے تو لکھنؤ اجلاس اس امر کی نشاندہی کا باعث بنا کہ پہلے مرحلے پر مسلم لیگ کی عوامی سطح پر تنظیم ہونی چاہیے۔ یہ کہ مسلم لیگ ہی ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ اور بااختیار جماعت ہے۔ ان دونوں مقاصد کا حصول جن دوستوں کے انمول تعاون ، حب الوطنی اور بے غرض مساعی کی بدولت کامیاب ہو سکا ان میں ڈاکٹر سر محمداقبال بھی شامل ہیں۔''
کانگریس نے مسلمانوں میں انتشار پید کرنے اور مسلم لیگ کو مرعوب کرنے کے لیے جو نام نہاد مسلم رابطہ تحریک چلائی تھی ، مسلم لیگ نے ان پر کاری ضرب لگائی ۔ مسلم لیگ متعدد ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوئی اور ان لوگوں کی فتنہ پردازیوں اور سازشوں کو ختم کردیا۔ جو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے تھے کہ مسلم لیگ کو مسلمان عوام کی حمایت حاصل نہیں ۔ لکھنؤ اجلاس سے اٹھارہ ماہ پہلے، مسلم لیگ ایک اعلیٰ اور ترقی پذیر پروگرام کی حامل جماعت کی حیثیت سے مسلمانوں کو منظم کرنے میں کامیاب ہوئی اور وہ صوبے بھی اس کے زیر اثر آگئے جن تک وقت کی قلت مسلم لیگ پارلیمانی بورڈوں کی ناکافی سرگرمیوں کے باعث بہتر طور پر رسائی نہ ہو سکی۔لکھنئو اجلاس نے اس مقبولیت کی صریح شہادت فراہم کردی ہے جو مسلم لیگ کو مسلمانوں کی تمام جماعتوں اور گروہوں میں حاصل تھی۔ یہ مسلم لیگ کی شاندارکامیابی تھی کہ اس کی قیادت کو مسلم اکثریتی اور اقلیتی صوبوں نے قبول کر لیا اور اسے کامیابی تک پہنچانے میںڈاکٹر سر محمد اقبال نے بہت بڑا کردار ادا کیا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شیخ محمد اشرف کے پبلشنگ ہاؤس سے علامہ اقبال کے خطوط پر شائع کی جانے والے کتاب قائد اعظم اور پبلشر کے درمیان باقاعدہ ایک معاہدے کے تحت بازار میں آئی اور قیام پاکستان سے پہلے ہی اس کے چار ایڈیشن فروخت ہو چکے تھے ۔اس کی قیمت آٹھ سے بارہ آنے فی نسخہ مقرر ہوئی ۔ قائد اعظم کی ہدایت پر اس کی رائلٹی مبلغ 300 روپے یعنی فی کتاب 10 پیسہ طے ہوئی۔ یہ بھی طے ہوا کہ یہ رائلٹی یکمشت ادا کر کے فوری طورپر مسلم لیگ کے فنڈ میں جمع کرادی جائے گی۔
علامہ اقبال کے یہ خطوط تاریخی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان میں اقبال کا ملت کے لیے پُرخلوص درد اور جذبہ دکھائی دیتا ہے۔
درحقیقت علامہ اقبال کی بصیرت اور دور رس نگاہوںنے قائدِاعظم کو آزادی کی منزل کی جانب رواں دواں رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
بلاشبہ دو اہم تاریخی شخصیات میں خط کتابت قیامِ پاکستان کے راستے میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے جس سے نئی نسل کو استفادہ کرتا ہے۔
مضمون نگار ایک معروف صحافتی گروپ کے ساتھ وابستہ ہیں اور مختلف موضوعات پر قلم کشائی کرتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے