شہیر صبح سے کچھ پریشان نظر آ رہا تھا۔ وہ بے چینی سے گھر میں اِدھر اُدھر چکرلگارہا تھا۔ ظہیر بھائی کافی دیر سے اسے دیکھ رہے تھے۔ انہیں کسی حد تک اس کی پریشانی کا اندازہ تھا مگر وہ چاہتے تھے کہ شہیر خود اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرے۔
شہیر دیر تک اسی طرح گھومتا رہا پھر اچانک بھائی کے پاس آ ٹھہرا۔
”بھیا! کیا آپ کچھ دیر کے لیےمجھے اپنا موبائل دے سکتے ہیں؟“
”ہاں کیوں نہیں! مگر میرے موبائل کی بیٹری تھوڑی رہ گئی ہے اور بجلی رات آٹھ بجے آئے گی۔ لگتا ہے تمہارا موبائل بند ہوگیا ہے؟“ انھوں نے جیب سے موبائل نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئےپوچھا۔
شہیر نے سر ہلایا پھر موبائل لے کر ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ اب تیزی سے بھائی کے موبائل پر اپنا فیس بک اکاؤنٹ لاگ اِن کر رہا تھا۔تھوڑی دیر بعد وہ اپنے اکاؤنٹ پر تھا اور پھر وہ اپنی وال سے چن چن کر بہت ساری پوسٹیں ہٹانے لگا۔ اس کے ہاتھ نہ جانے کیوں کانپ رہے تھے اور آنکھوں میں بھی نمی تھی۔
اس کا بھائی چپ چاپ اس کے تاثرات کا جائزہ لے رہا تھا ۔ بیس پچیس منٹ بعد شہیر پوسٹیں ڈیلیٹ کرنے کے بعد فرینڈ لسٹ میں آیا اور سرچنگ آپشن سے ایک فیس بک فرینڈ شاہان کا اکاؤنٹ تلاش کیا۔ اس اکاؤنٹ کو دیکھتے ہی اس کے ذہن میں چند ماہ پہلے کی یادیں تازہ ہوگئیں اور وہ ماضی میں ڈوب گیا۔
ایک سال پہلے شاہان اور شہیر کی فیس بک پر آن لائن دوستی کا آغاز ہوا تھا۔ شہیر کو اس کی مزاحیہ پوسٹیں بہت پسند آتی تھیں۔ دھیرے دھیرے ان میں بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر وہ ڈھیروں موضوعات پر گھنٹوںگفتگو کرنے لگے۔ شاہان کا پسندیدہ مشغلہ نت نئے واقعات کی میمز بنا کر پوسٹ کرنا تھا۔ وہ ہر قسم کی خبر کو اس طرح لگاتا کہ لوگ قہقہے لگانے پر مجبور ہو جاتے۔ شہیر بھی فوراً اس کی بنائی ہوئی پوسٹیں اپنے اکاؤنٹ پر شیئر کر دیتا تھا۔
شاہان لاابالی اور کسی حد تک متشدد ذہن کا لڑکا تھا۔ بعض اوقات وہ مزاح کے جملوں میں چھپا کر غیر اخلاقی مواد بھی پوسٹ کر دیتا تھا۔
ظہیر بھیا شہیر کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھتے تھے۔انہوں نے جب اس کے اکاؤنٹ پر ایسی چیزیں دیکھیں تو پریشان ہوئے اور انہوں نے ایک دن شہیر کو سمجھایا کہ وہ ان سرگرمیوں کا حصہ نہ بنے اور شاہان سے دور رہے۔
لیکن وہ اپنے بڑے بھائی کی بات ٹھیک سے سمجھ نہیں سکا اور بدستور شاہان کی پیروی کرتا رہا۔
آہستہ آہستہ شہیر کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر فضول قسم کا مواد آنے لگا۔ بظاہر وہ مزاح کے ڈھیروں ایموجیز کے ساتھ ہوتا تھا مگر وہ اس قابل نہ تھا کہ کوئی شریف انسان اسے پڑھ سکے۔ اخلاق باختہ باتیں، ڈھکے چھپے انداز میں دوسرو ں پر تنقید، اپنے ہی شہریوں کا مذاق اڑانا، ملک کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کرنا، جعلی خبریں اور دیگر اسی قسم کا مواد جو شاہان لکھتا ،وہی سب ظہیر بھیا کو شہیر کے اکاؤنٹ پر بھی نظر آنے لگا۔ بہت بار انہوں نے شہیر کو ڈانٹ ڈپٹ بھی کی مگر وہ تو شاہان کے بچھائے جال میں پوری طرح الجھ چکا تھا۔اس کی صحبت نے شہیر کی برین واشنگ کر دی تھی اور وہ اب کھل کر خود بھی ایسی باتیں لکھنے لگا جو حقیقت کے قریب نہ تھیں۔
ایک روز شاہان نے کوئی پوسٹ لکھی جسے شہیر نے بغیر پڑھے اور بغیر تصدیق کیے فوراً آگے شئیر کر دیا۔ شام تک سوشل میڈیا پر وہی پوسٹ گردش کرتی رہی۔ اگلے دن صبح جب شہیر نے فیس بک کھولی تو ایک حیرت ناک خبر اس کی منتظر تھی۔ کل والی پوسٹ جس نے لوگوں میں انتشار پیدا کیا تھا وہ جعلی نکلی۔اس خبر میں کوئی صداقت نہ تھی۔ خواہ مخواہ ایک عجیب ماحول پیدا کر دیا گیا جس نے کئی لوگوں کو نقصان پہنچایا۔ ابھی شہیر سنبھلا بھی نہیں تھا کہ اس نے کسی کے اکاؤنٹ پر ایک اور پوسٹ دیکھی کہ شاہان نام سے بنایا گیا اکاؤنٹ فیک ہے۔ اس کے پیچھے جو بھی ہے اس کا مقصد نوجوانوں میں ملکی حالات کے حوالے سے مایوسی پھیلانا اور ان کی ذہن سازی کرنا ہے۔
شہیر نے سوچا کہ واقعی اس نے آج تک شاہان کی کوئی تصویر دیکھی، نہ اسے یہ علم ہے کہ وہ کس شہر میں رہتا ہے۔اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ دیکھتا اس کا موبائل بند ہوگیا۔ سارا دن بجلی بھی بند تھی اور وہ موبائل کی چارجنگ بھی نہیں کر سکا تھا۔ گھنٹوں تک وہ عجیب کیفیت میں رہا۔ حیرت سے زیادہ اسے خود پر غصہ آ رہا تھا کہ وہ کیوں کسی انجان شخص کے ہاتھوں کھلونا بن گیا۔
اس نے ظہیر بھیا کے موبائل سے سب سے پہلے شاہان کو بلاک کیا اور پھر ایسی تمام پوسٹیں ہٹا دیں جواس نے بلاسوچے سمجھے شیئر کی تھیں۔جب اس نے موبائل بھیا کو واپس کیا تو وہ بولے: ”دیکھا شہیر! میں اسی وجہ سے تمہیں منع کرتا تھا کہ شاہان سے تعلق مت رکھو۔ سوشل میڈیا پر ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو اپنے مکروہ مقاصد کے لیے تم جیسے نوجوانوں کو استعمال کرتے ہیں۔اس طرح ہمارے ملک، معاشرے اور اخلاقی اقدار کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ بغیر کسی جانچ پڑتال کے ہم فوراً کوئی بھی چیز اپنے اکاؤنٹ پر شئیر کر دیتے ہیں جبکہ بغیر تحقیق کے کوئی بات آگے پھیلانا اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔ اس حوالے سے نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کر دے۔“(صحیح مسلم: 5)
یہ حدیث ہمیں یاد دلاتی ہے کہ بغیر تصدیق کیے کسی بات کو آگے نہ پھیلائیں کیونکہ ایسا کرنے سے معاشرے میں غلط فہمیاں اور مسائل جنم لیتے ہیں۔
شہیراپنے کیے پربہت شرمندہ تھا۔ اس کی منفی سوچ اب بدلنے لگی تھی۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اب دوبارہ کبھی ایسا کام نہیں کرے گا اور سوشل میڈیا پر اچھی اور معلوماتی چیزیں ہی لکھا کرے گا تاکہ لوگ انہیں پڑھ کر بہتر معاشرہ تشکیل دے سکیں۔
تبصرے