پیارے بچو!آج آپ کوپاکستان کی ایک ایسی نامورسماجی شخصیت کے بارے میں بتاتے ہیں جو شفقت، محبت اور رحم دلی کا پیکر تھی۔انسانی ہمدردی اورانسانی خدمت کے حوالے سے پوری دنیا میں وہ ایک مثال سمجھے جاتے ہیں۔ اس عظیم شخصیت کا نام عبدالستار ایدھی ہے جو 1928ء میں پیدا ہوئے۔
خدمت خلق کا جذبہ بچپن ہی سے ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اسی جذبے کے تحت انہوں نےکراچی میں ایک چھوٹی سی ڈسپنسری کا آغاز کیا۔ غریب عوام اور مفلوک الحال لوگ اس ڈسپنسری سے فائدہ اُٹھاتے اور اپناعلاج کرواتے تھے۔ ڈسپنسری کے اخراجات پورے کرنے کے لیے وہ بہت تگ و دوکرتے۔ مخیر حضرات سے بھی اس مقصد کے لیے اپیل کرتے۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور لوگوں کا ان کی خدمات پر اعتماد بڑھتا گیا۔کراچی کے لوگوں میں ان کی مقبولیت اور اعتماد میں بے پناہ اضافہ اس وقت ہوا جب 1950ء میں کراچی میں فلو کی وبا پھیلی اور لوگ بے یارو مدد گا راپنی جان گنوانے لگے ۔عبدالستار ایدھی نے دن دیکھا نہ رات اور لوگوں کی مدد کرنے میں لگے رہے۔میتوں کو اُٹھانے، ان کو خود نہلانے اور دفنانے میں مصروف رہے۔ان کی پُر خلوص نیت اور بے لوث خدمات کی وجہ سے مخیر حضرات نے اس کام میں حصہ ڈالا۔ لوگ خود آکر ڈسپنسری کے باہر صندوقچی میں رقم ڈا ل جاتے۔ وہیں سے عبدالستار ایدھی نے ایمبولینس سروس کی داغ بیل ڈالی ۔کہیں کوئی حادثہ ہوجاتا تووہ ہمیشہ وہاں موجود ہوتے ،زخمیوں کو ہسپتال پہنچاتے۔ان کی بے لوث خدمات کی وجہ سے ایمبولینسوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور یہ نیٹ ورک پورے پاکستا ن میں پھیل گیا۔ اس نیٹ ورک میں 18 سو سے زائد ایمبولینسز کام کر رہی ہیں ۔گنز بک آف ورلڈ ریکارڈنے اسے دنیا کی سب سے بڑی رضا کارانہ ایمبولینس سروس قرار دیا۔
عبدالستار ایدھی نے یتیم خانے اور بوڑھوں کے لیے اولڈ ایج ہومز بھی کھولے جہاں بے آسرا بوڑھےافراد کو گھر جیسا ماحول ملتا اور وہ اپنے تمام دُکھ بھول جاتےہیں ۔ پاکستان میں کہیں بھی سیلاب ہو یا زلزلہ ایدھی وہاں موجود ہوتے اور وہ ایسی خدمات سرانجام دیتے کہ دُنیا حیرت ذدہ رہ جاتی۔
عبدالستار ایدھی کی ساری زندگی سادگی سے گزری۔ وہ ایک ہی لباس زیب تن کیے رکھتے اور معمولی چپل میں رات دن کی پروا کیےبغیر خدمت ِخلق میں گزار دیتے۔ ان کی خدمات میں ان کی بیوی بلقیس ایدھی کا بھی بہت بڑا ہاتھ رہا۔ بلقیس ایدھی بیوہ لاچا ر ، ضعیف ، دُکھی ، دنیا کی ستائی ہوئی خواتین کی خدمت میں سب سے آگے ہوتی تھیں۔ طبیعت میں سادگی، نمودونمائش سے عاری، خدمت کےجذبےسے سرشارایدھی صاحب کو سماجی خدمات کے اعتراف میںبہت سے قومی اوربین الاقوامی اعزازت سے نوازا گیا۔ 1989ءمیں حکومتِ پاکستان کی طرف سے نشان امتیازعطا کیا گیا۔ اس کے علاوہ بھاری رقوم بھی بطور انعام ملیں جنہیں انہوں نے ایدھی فاؤنڈیشن میں جمع کرا دیا۔
عبدالستار ایدھی نے پاکستان کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک افغانستان ، عراق،چیچنیا،بوسنیا،سوڈان اور ایتھوپیا میں بھی خدمات انجا م دیں ۔ جس کا دنیا بھر میں اعتراف کیا گیا۔ ان کی عظیم پُر خلوص ، بے لوث خدمات پر انہیں محسن انسانیت کا خطاب دیا گیا۔ان کا انتقال 8جولائی 2016ءکو ہوا۔ان کی وفات پرہر آنکھ اشکبار تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلندکرے، آمین۔
پیارے بچو!ہم سب کو بھی چاہیے کہ اس عظیم شخصیت کے عمل کو مشعلِ راہ بناتے ہوئے انسانیت کی خدمت کریں۔
تبصرے